https://youtu.be/n3bm1pSDs44 ان [خدام ]کوسمجھاؤ کہ اسلام مرد کے لیےکیا کہتا ہےاور اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ یہ سجاوٹیں توعورتوں کے لیےہیں۔اس لیےتم مرد بنو اور تمہارے جو کام ہیں تم وہ کرو۔وہ کیا کام ہیں؟ کہ خدا سے تعلق پیدا کرو اور اسلام کاپیغام دنیا میں پہنچاؤ۔ ان ملکوں میں خدام کی تربیت ایسے نہج پر ہونی چاہیے مورخہ ۱۶؍ نومبر ۲۰۲۵ء، بروزاتوار، امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ ہالینڈ کی نیشنل مجلسِ عاملہ اور قائدین مجالس پر مشتمل تیس(۳۰) رکنی ایک وفد کو شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےہالینڈسے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ سب سے پہلے صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ نے وفد کا مختصر تعارف پیش کیا، جس کے بعدتمام شاملین مجلسِ کو حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں فرداً فرداً اپنا تعارف کرانےاور اپنی مفوّضہ ذمہ داریوں کی بابت تفصیل پیش کرنے کا موقع بھی ملا۔ دورانِ تعارف حضورِ انور نے مہتممین کو بیش قیمت نصائح سے بھی نوازا۔ حضورِ انور نے ارشاد فرمایا کہ تمام عاملہ ممبران کو دستورِ اساسی کی نقول فراہم کی جائیں اور اُن کے لیے اِس کا بغور مطالعہ ضروری ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو بخوبی سمجھ سکیں اور اُن پر بھرپور عمل کر سکیں۔ مہتمم عمومی سے گفتگو کے دوران حضورِ انور نےشعبہ عمومی کے بنیادی فرائض کی جانب توجہ دلائی کہ شعبہ عمومی کا کام جماعتی پراپرٹی کی سیکیورٹی کا خیال رکھنا، آج کل کے حالات میں نمازوں کے وقت سیکیورٹی کا خیال رکھنا، جلسوں اور اجتماعوں پر سکیورٹی کا خیال رکھنا اور عمومی طور پر ارد گرد نظر رکھنا ہے ۔ یہ ساری چیزیں آپ لوگوں کاکام ہے۔ مہتمم تبلیغ سے بات کرتے ہوئےحضورِ انور نے نشاندہی فرمائی کہ یہ شعبہ خاطر خواہ فعّال نہیں رہا ہے اور یہ بات پچھلے دو سالوں میں بیعتوں کی کم تعداد سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ موصوف کی جانب سے درخواستِ دعا پر حضورِانور نے فرمایا کہ مَیں تو دعا کرتا ہوں، لیکن میری دعائیں بھی اُس وقت اثر دکھائیں گی جب آپ محنت کر رہے ہوں گے اور خود بھی دعا کر رہے ہوں گے۔ مہتمم وقارِ عمل سے گفتگو کرتے ہوئے حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ جماعت کی مساجد، املاک اور گیسٹ ہاؤسز کو سال بھر صاف ستھرا اور خوشنما رکھا جائے، چاہے مَیں وہاں جا رہا ہوں یا نہ۔ خدام گیسٹ ہاؤسز، جیسا کہ Nunspeet والا گیسٹ ہاؤس، میں وقارِ عمل کے لیے اپنی خدمات پیش کریں تاکہ وہ اور اِس کے گردونواح کے lawn ہمیشہ صاف ستھرے اور خوبصورت نظر آئیں۔ مہتمم اطفال نے حضورِ انور کے دریافت فرمانے پر عرض کیا کہ آخری updateکے مطابق اطفال کی کُل تعداد ۱۹۸؍ہے۔ اس پر حضورِ انور نے استفسار فرمایا کہ کوئی نئے نہیں شامل ہوئے؟ جس پر موصوف نے عرض کیا کہ اس پر کام ہو رہا ہے۔ یہ سماعت فرما کر حضورِ انور نے مسکراتے ہوئے استفہامیہ انداز میں تبصرہ فرمایا کہ کیا کام ہو رہا ہے، لوگوں کو تحریک کر رہے ہیں کہ بچے زیادہ پیدا کریں؟ حدیث میں آیا ہے کہ مسلمان وہ ہیں جو اپنی تعداد زیادہ بڑھاتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ اولاد کو پسند فرمایا ہے۔آج کل تو یہاں فیملی پلاننگ میں اولاد ہی نہیں پیدا ہوتی۔ مہتمم تربیت نے حضورِ انور کے دریافت فرمانے پر عرض کیا کہ تمام اراکینِ عاملہ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں۔اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ پانچ نمازیں تو پڑھنی ہیں، اگر نہیں پڑھیں گے تو عاملہ سے باہر ہو جائیں گے۔ اسی ضمن میں جب باجماعت نماز ادا کرنے والے اراکینِ عاملہ کے بارے میں استفسار کیا گیا، تو عرض کیا کہ ان کا معیّن شمار موجود نہیں ہے، جس پر حضورِ انور نے ہدایت فرمائی کہ لوگوں سے پوچھنے کے بجائے پہلے عاملہ سے پوچھو، نیشنل عاملہ پھر مقامی عاملہ، اگر یہ لوگ نمازی ہو جائیں تو باقی سب آپ ہی ہو جائیں گے۔ مزیدبرآں دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو حضورانور کی خدمت میں مختلف سوالات پیش کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ایک خادم نے سوال کیاکہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم بنایا جائے جہاں مختلف ممالک کے شعبہ جات اپنے بہترین تجربات شیئر کریں اور ایک دوسرے سے سیکھ سکیں؟ اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ مجلس خدام الاحمدیہ تو پہلے ہی سال بھر مختلف ممالک میں سیمینارز کا انعقاد کرتی ہے، جن میں شرکت کی جا سکتی ہے۔حضور انور نےتوجہ دلائی کہ مرکزی خدام سیکشن سے رابطہ کیا جائے تاکہ کسی مرکزی سیمینار یا اجلاس کا انتظام کیا جا سکےجہاں مختلف ممالک کے مہتممین اپنے تجربات ایک دوسرے سے شیئر کر سکیں۔ حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ مَیں بذات خود خدام کو اپنی تقریروں، خطابوں اور میٹنگز میں متعدد ہدایات دے چکا ہوں، ان ہدایات کو نوٹ کر کے ان پر عمل کرنا فائدہ مند ہوگا اور آپ کی عملی کوششوں میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ نیز فرمایا کہ پہلے اپنے محدود ماحول پر توجہ مرکوز کی جائے۔ آخر میں حضورِ انور نے فرمایا کہ جب آپ اس مقصد کو حاصل کر لیں توتب آپ دوسرے بین الاقوامی سیمینار کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ صرف تجاویز مت دیں، بلکہ کچھ کریں، کچھ انجام دیں، کچھ نتائج دکھائیں، تب ہم دیکھیں گے کہ آپ واقعی مزید علم حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ ایک خادم نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ حالیہ برسوں میں پاکستان سے ہالینڈ آنے والے خدام کی وجہ سے زیادہ تر خدام اُردو بولنے والے ہیں، اگر پروگرام ڈچ میں ہوں تو یہ نہ سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی شریک ہوتے ہیں، اور اگر اُردو میں ہوںتو ڈچ بولنے والے مکمل استفادہ نہیں کر پاتے۔ نیز اس حوالے سے راہنمائی کی درخواست کی کہ اس صورتحال کو کیسے سنبھالا جائے؟ اس پر حضورِ انور نے یاد دلایا کہ وہ اس معاملے پر پہلے بھی کئی بار مختلف میٹنگز اور کلاسز میں بات کر چکے ہیں۔نیز فرمایا کہ اس مسئلے کاحل یہ ہے کہ پہلے اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کتنے خدام مقامی زبان بولتے ہیں، لیکن اُردو نہیں سمجھتے، اور کتنے اُردو سمجھتے ہیں، لیکن مقامی زبان نہیں جانتے۔ پھرپروگرامز کو اسی حساب سے ترتیب دینا چاہیے۔ اگر اُردو بولنے والے اکثریت میں ہوں تو پروگرام کا تقریباً ستّر فیصد حصّہ اُردو اور تیس فیصد ڈچ میں ہو سکتا ہے، یا اس کے برعکس ہوسکتا ہے کہ اگر ڈچ بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہو۔ حضورِ انور نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ اجلاسات میں تمام تقاریر صرف عہدیداران کی نہ ہوں، بلکہ دونوں گروپوں کے اراکین کو بھی یہ موقع دیا جائے کہ وہ بات کریں، ایک اُردو بولنے والا اُردو میں اور ایک ڈچ بولنے والا ڈچ میں خطاب کر سکتا ہے۔ اس طرح دونوں گروپوں کی دلچسپی اور شمولیت بڑھے گی۔ علاوہ ازیں حضورِ انور نے اس بات کی جانب بھی توجہ دلائی کہ ترجمے کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔ یہ نظام مہنگا نہیں ہے اور بڑے اجتماعات کے لیے مرکزی طور پر خرید کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں جب حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا گیا کہ ہالینڈ میں تقریباً نوّے فیصد خدام اُردو سمجھتے ہیں، تو اس پر حضورِ انور نے ارشاد فرمایا کہ تو پھر فکر کس بات کی ہے، پہلے اسی نوّے فیصد کو درست کریں۔ مہتمم اطفال نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ خدام necklace، bracelet اور chainsوغیرہ پہننےلگے ہیں اور دنیا کو دیکھ کر یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر نوجوان اس قسم کے فیشن اپنا رہے ہیں تو پھر بہتر ہوگا کہ وہ اپنی داڑھی منڈوائیں اور بال لمبے کر لیں تاکہ وہ مکمل طور پر خواتین کی مانند نظر آئیں۔ زیورات پہننا اوریہ چیزیں تو بلا وجہ کےفیشن ہیں۔ حضور انور نے اس بات پر زور دیا کہ اگر مہتمم تربیت صحیح ہے اور آپ کا جماعت کا سیکرٹری تربیت صحیح ہے اور لجنہ میں تربیت والے صحیح ہیں اور انصار میں تربیت والے صحیح ہیں تو اس قسم کی فیشن والی عادتیں نہیں پڑیں گی۔ مزید برآں حضورِ انور نےنوجوانوں میں فیشن اور بُری عادات کو اختیار کرنے سے اجتناب برتنے کے حوالے سے اخلاقی تربیت کی اہمیت کو اُجاگر فرمایا کہ پہلے یہ دیکھیں کہ ایسے کتنے لوگ ہیں ۔ان کو، بچوں کو بتائیں کہ جو اس طرح کی سجاوٹیں ہیں،ان کو اللہ تعالیٰ نے غلط کہا ہے۔ اَلَیۡسَ اللّٰہُ کی انگوٹھی پہن لیتے ہیں توٹھیک ہے۔ اگر تو یہ سونے کی ہوتو مردوں کے لیے حرام ہے، البتہ چاندی یا کسی اور دھات کی صورت میں گناہ نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اَلَیۡسَ اللّٰہُ کاbraceletبنایا ہوا ہے، لیکن اسےnecklaceیا bracelet کی شکل میں پہننا مناسب نہیں، بہتر یہی ہے کہ سجاوٹوں کی بجائے مرد کو مرد بن کے رہنا چاہیے۔ اور اسی سے پھر آہستہ آہستہ دوسری عادتیں پڑتی ہیں۔ وہاں ہالینڈ میںtattoos وغیرہ کا بھی رواج بہت زیادہ ہے ۔ اسی طرح پھر عادتیں پڑتی ہیں، پھر tattooing شروع ہو جاتی ہے، پھر وہ اپنے بازو چھلانے لگ جاتے ہیں اورکبھی مختلف جسم کے حصّوں میں کھدوانے لگ جاتے ہیں اورtattooکروانے لگ جاتے ہیں، تو اُن کو تربیت کی ضرورت ہے۔ آخر میں حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ اُن کوسمجھاؤ کہ اسلام مرد کے لیےکیا کہتا ہےاور اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ یہ سجاوٹیں توعورتوں کے لیےہیں۔اس لیےتم مرد بنو اور تمہارے جو کام ہیں تم وہ کرو۔ وہ کیا کام ہیں؟کہ خدا سے تعلق پیدا کرو اور اسلام کاپیغام دنیا میں پہنچاؤ۔ اِن ملکوں میں خدام کی تربیت ایسے نہج پر ہونی چاہیے۔آپ تو مہتمم اطفال ہیں، آپ اس نہج سے اطفال کی تربیت کریں تاکہ جب وہ خدام میں جائیں تو اُن کو اِن باتوں کا پتا ہو۔ ایک شریکِ مجلس نے تارکینِ وطن کے حوالے سےحضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ پاکستان اور دیگر ممالک سے حالیہ آنے والے کئی افرادقرضہ جات یا اپنے پیچھےچھوڑے ہوئے خاندانوں کی کفالت کی ضرورت کے پیشِ نظر مالی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، اس وجہ سے وہ اکثر ہالینڈ پہنچتے ہی کم مہارت والے کام شروع کر دیتے ہیں اور ان پر منحصر ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اعلیٰ تعلیم یا ہنر کی تربیت کے لیے حکومت کی جانب سے دستیاب امداد سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس پر حضورِ انور نے مجلس عاملہ کو ہدایت فرمائی کہ ایسے خدام کو سمجھائیں کہ اگر انہیں سرکاری مدد مل رہی ہے تو وہ اسے تعلیم حاصل کرنے یا کوئی بہتر ملازمت تلاش کرنے کے لیے استعمال کریں۔جہاں تک خاندان کی مالی مدد کا تعلق ہے تواگر تو وہ قانونی طور پر کمائی کر کے رقم گھر بھیج رہے ہیں، تو یہ جائز ہے۔ لیکن اگر غیر قانونی آمدنی حاصل کی جائے یا ٹیکس سے بچا جائے، تو یہ غلط ہے، یہ بھی تربیت کا حصّہ ہے۔ حضورِ انور نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگر ان کی اخلاقی تربیت درست ہو تو یہ مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے، اور عاملہ کو اس سلسلے میں بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ ملاقات کے اختتام پر تمام شاملینِ مجلس کو ازراہِ شفقت اپنے محبوب آقا کے ساتھ گروپ تصویر بنوانے اور آپ کے دستِ مبارک سے قلم بطورِ تبرک حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ سویڈن کےایک وفد کی ملاقات