(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍مارچ۲۰۱۵ء) ابتدائی احمدیوں پر سختیوں اور پھر بہت ابتدائی زمانے میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’ایک زمانہ تھا جبکہ احمدی جماعت پر چاروں طرف سے سختی کی جاتی تھی‘‘۔ ’’مولویوں نے فتویٰ دیا کہ احمدیوں کو قتل کر دینا، ان کے گھروں کو لوٹ لینا، ان کی جائیدادوں کو چھین لینا، ان کی عورتوں کا بِلا طلاق دوسری جگہ پر نکاح کر دینا جائز ہی نہیں موجب ثواب ہے۔‘‘ (اور یہ چیز تو آج بھی ہے لیکن اس زمانے میں تو بہت غریب لوگ تھے اور بڑی سختی کی جاتی تھی تو یہ رویّہ تو مولویوں میں ہمیشہ سے رہا ہے اور آج تک قائم ہے لیکن بہر حال اس زمانے میں سختی کی شدت بھی بہت تھی کیونکہ جماعت بہت تھوڑی تھی۔ فرماتے ہیں کہ) ’’اور شریر اور بدمعاش لوگوں نے جو اپنی طمع اور حرص کے اظہار کے لئے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں اس فتوے پر عمل کرنا شروع کردیا‘‘ (کہ بغیر نکاح کے عورتوں کو جائز کر لیا۔ یعنی احمدیوں سے طلاق دلوا کر اپنے سے نکاح کروا لیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ) ’’احمدی گھروں سے نکالے اور ملازمتوں سے برطرف کئے جا رہے تھے۔‘‘ (احمدی گھروں سے نکالے جا رہے تھے اور ملازمتوں سے برطرف کئے جا رہے تھے۔) ’’ان کی جائدادوں پر جبراً قبضہ کیا جاتا تھا اور کئی لوگ ان مخمصوں سے خلاصی کی کوئی صورت نہ پا کر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اور چونکہ ہجرت کی جگہ ان کے لئے قادیان ہی تھی، ان کے قادیان آنے پر مہمان داری کے اخراجات اور بھی ترقی کرگئے تھے‘‘، (بڑھ گئے تھے۔) ’’اس وقت جماعت ایک دو ہزار آدمیوں تک ترقی کر چکی تھی مگر ان میں سے ہر ایک دشمن کے حملوں کا شکار ہو رہا تھا۔‘‘ (جماعت کی تعداد ایک دو ہزار تک پہنچ گئی تھی لیکن ہر ایک دشمن کے حملوں کا شکار تھا۔) ’’ایک دو ہزار آدمی جو ہر وقت اپنی جان اور اپنی عزت اور اپنی جائیداد اور اپنے مال کی حفاظت کی فکر میں لگے ہوئے ہوں اور رات دن لوگوں کے ساتھ مباحثوں اور جھگڑوں میں مشغول ہوں ان کا تمام دنیا میں اشاعت اسلام کے لئے روپیہ بہم پہنچانا اور دین سیکھنے کی غرض سے قادیان آنے والوں کی مہمان داری کا بوجھ اٹھانا اور پھر اپنے مظلوم مہاجر بھائیوں کے اخراجات برداشت کرنا ایک حیرت انگیز بات ہے۔‘‘ (یہ تاریخ بھی ہمیں پتا ہونی چاہئے۔ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔) ’’سینکڑوں آدمی دونوں وقت جماعت کے دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے اور بعض غرباء کی دوسری ضروریات کا بھی انتظام کرنا پڑتا تھا۔ ہجرت کے لئے آنے والوں کی کثرت اور مہمانوں کی زیادتی سے مہمان خانے کے علاوہ ہر ایک گھر (قادیان میں) مہمان خانہ بنا ہوا تھا‘‘۔ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی ہر ایک کوٹھڑی ایک مستقل مکان تھا۔‘‘ (یعنی ہر کمرہ جو تھا اس میں خاندان آباد تھے۔ یعنی ایک ایک کمرہ جو تھا ایک ایک خاندان کو ملا ہوا تھا اور مکان بن گیا تھا) ’’جس میں کوئی نہ کوئی مہمان یا مہاجر خاندان رہتا تھا۔ غرض بوجھ انسانی طاقتِ برداشت سے بہت بڑھا ہوا تھا۔ ہر صبح جو چڑھتی اپنے ساتھ تازہ تازہ ابتلاء اور تازہ ذمہ داریاں لاتی اور ہر شام جو پڑتی اپنے ساتھ ساتھ تازہ ابتلاء اور تازہ ذمہ داریاں لاتی مگر اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی نسیم سب فکروں کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کر پھینک دیتی اور وہ بادل جو ابتدائے سلسلہ کی عمارت کی بنیادوں کو اکھاڑ کر پھینک دینے کی دھمکی دیتے تھے تھوڑی ہی دیر میں رحمت اور فضل کے بادل ہو جاتے اور ان کی ایک ایک بوند کے گرتے وقت اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی ہمت افزا آواز پیدا ہوتی۔‘‘ (دعوۃ الامیر، انوار العلوم جلد7 صفحہ566،565) یعنی اتنی سختی تھی لیکن پھر بھی یہ یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہے اور ان شاء اللہ حالات بدلیں گے۔ آج بھی گو پاکستان میں خاص طور پر اور بعض دوسرے ممالک میں مسلمانوں میں کچھ شدت ہے۔ پاکستان میں تو زیادہ ہے، باقی ممالک میں کچھ حد تک احمدیوں کے حالات تنگ ہیں لیکن اس کے باوجود کسمپرسی کی وہ حالت نہیں ہے۔ مالی لحاظ سے بھی بہتر ہیں اور باقی انتظامات بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بہت بہتر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ دنیا کے کونے کونے میں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت پہنچ چکی ہے۔ ہجرت کر کے صرف ایک جگہ نہیں اکٹھے ہوتے بلکہ احمدی دنیا میں نکل چکے ہیں۔ اگر تنگی ہے تو باہر نکل گئے ہیں اور باہر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مزید کشائش پیدا ہو رہی ہے اور اگر بعض مشکلات ہوتی بھی ہیں تواَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی آواز آج بھی ہمارا سہارا بنتی ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر قائم ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے، اگر ہم اس کے ساتھ چمٹے رہیں تو، نہ کبھی ہمیں چھوڑا ہے، نہ کبھی چھوڑے گا۔ ان شاء اللہ۔ قربانیاں بیشک دینی پڑتی ہیں اور احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیتے ہیں لیکن ہر قربانی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو لئے ہوئے ایک نیا رستہ ہمیں دکھاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے دینے میں کبھی کمی نہیں کرتا۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ حفاظتِ الٰہی کے معجزہ کے بارے میں ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک مثال حفاظت الٰہی کی مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں سے پیش کرتا ہوں۔ کنور سین صاحب جو لاء کالج لاہور کے پرنسپل ہیں ان کے والد صاحب سے حضرت صاحب کو بڑا تعلق تھا حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی روپیہ کی ضرورت ہوتی تو بعض دفعہ ان سے قرض بھی لے لیا کرتے تھے۔ (یہ کنور سین صاحب ہندو تھے۔) ان کو بھی حضرت صاحب سے بڑا اخلاص تھا۔ جہلم کے مقدمے میں انہوں نے اپنے بیٹے کو تار دی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے وکالت کریں۔ اس اخلاص کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ایام جوانی میں جب وہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع چند اور دوستوں کے سیالکوٹ میں اکٹھے رہتے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی نشانات دیکھے تھے۔ چنانچہ ان نشانات میں سے ایک یہ ہے کہ ایک رات آپ دوستوں سمیت سو رہے تھے کہ آپ کی (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی) آنکھ کھلی۔ اور دل میں ڈالا گیا کہ مکان خطرے میں ہے۔ آپ نے ان سب دوستوں کو جگایا اور کہا کہ مکان خطرے میں ہے اس میں سے نکل چلنا چاہئے۔ سب دوستوں نے نیند کی وجہ سے پرواہ نہ کی اور یہ کہہ کر سو گئے کہ آپ کو وہم ہو گیا ہے۔ مگر آپ کا احساس برابر ترقی کرتا چلا گیا۔ آخر آپ نے پھر ان کو جگایا اور توجہ دلائی کہ چھت میں سے چڑچڑاہٹ کی آواز آتی ہے۔ مکان خالی کر دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا معمولی بات ہے ایسی آواز بعض جگہ لکڑی میں کیڑا لگنے سے آیا ہی کرتی ہےے۔ آپ ہماری نیند کیوں خراب کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر اصرار کیا کہ اچھا !آپ لوگ میری بات مان کر ہی نکل چلیں۔ آخر مجبور ہو کر لوگ نکلنے پر رضا مند ہوئے۔ حضرت صاحب کو چونکہ یقین تھا کہ خدا میری حفاظت کے لئے مکان (کے) گرنے کو روکے ہوئے ہے۔ میری حفاظت کی وجہ سے مکان کے گرنے کو روکے ہوئے ہے اس لئے آپ نے انہیں کہا کہ پہلے آپ نکلو پیچھے میں نکلوں گا۔ جب وہ نکل گئے اور بعد میں حضرت صاحب نکلے تو آپ نے ابھی ایک ہی قدم سیڑھی پر رکھا تھا کہ چھت گر گئی۔ دیکھو !آپ انجینئر نہ تھے کہ چھت کی حالت کو دیکھ کر سمجھ لیا ہو کہ گرنے کو تیار ہے۔ علاوہ ازیں جب تک آپ اصرار کر کے لوگوں کو اٹھاتے رہے اس وقت تک چھت اپنی جگہ پر قائم رہی اور جب تک آپ نہ نکل گئے تب تک بھی نہ گری۔ مگر جونہی کہ آپ نے پاؤں اٹھایا چھت زمین پر آ گری۔ یہ امر ثابت کرتا ہے کہ یہ بات کوئی اتفاقی بات نہ تھی بلکہ اس مکان کو حفیظ ہستی اس وقت تک روکے رہی جب تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی حفاظت اس حفیظ کے مدِّنظر تھی اس مکان سے نہ نکل آئے۔ پس صفت حفیظ کا وجود ایک بالارادہ ہستی پر شاہد ہے اور اس کا ایک زندہ گواہ ہے۔‘‘ (ماخوذ از ہستی باری تعالیٰ، انوارالعلوم جلد6 صفحہ325،324) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ چند واقعات