(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍مارچ۲۰۱۵ء) پھر ایک واقعہ آپؓ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قیام کا پس منظر اور ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک وہ زمانہ تھا جب تعلیم الاسلام کالج کا آغاز ہوا۔ اس وقت یہ سوچ ہو رہی تھی کہ اتنے لاکھ روپیہ ہمیں فوری طور پر چاہئے اور اتنے لاکھ سالانہ آمد چاہئے تا کہ کالج جاری رکھا جائے اور بڑے بڑے منصوبے لاکھوں میں بن رہے تھے۔ تو اس وقت آپ فرماتے ہیں کہ ’’ایک وہ زمانہ تھا کہ ہمارے لئے ہائی کلاسز کو جاری کرنا بھی مشکل تھا۔ یہاں (قادیان میں ) آریوں کا مڈل سکول ہوا کرتا تھا‘‘۔ ’’شروع شروع میں اس میں ہمارے لڑکے جانے شروع ہوئے تو آریہ ماسٹروں نے ان کے سامنے لیکچر دینے شروع کئے کہ تم کو گوشت نہیں کھانا چاہئے۔‘‘ (ہندو گوشت نہیں کھاتے۔ ) ’’گوشت کھانا ظلم ہے۔ وہ اس قسم کے اعتراضات کرتے جو کہ اسلام پر حملے تھے۔ لڑکے سکول سے آتے اور یہ اعتراضات بتلاتے۔‘‘ (فرماتے ہیں کہ) ’’یہاں (قادیان میں) ایک پرائمری سکول تھا اس میں بھی اکثر آریہ مدرس’’ (ٹیچر) ‘‘آیا کرتے اور یہی باتیں سکھلایا کرتے تھے۔ پہلے دن جب مَیں سرکاری پرائمری سکول میں پڑھنے گیا‘‘ (یعنی حضرت مصلح موعودؓ اپنا بیان فرما رہے ہیں کہ جب میں اس سرکاری پرائمری سکول میں پڑھنے گیا) ’’اور دوپہر کو میرا کھانا آیا تو میں سکول سے باہر نکل کر ایک درخت کے نیچے جو پاس ہی تھا کھانا کھانے کے لئے جابیٹھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ اس روز کلیجی پکی تھی اور وہی میرے کھانے میں بھجوائی گئی۔ اس وقت میاں عمر دین صاحب مرحوم جو میاں عبداللہ صاحب کے والد تھے وہ بھی اسی سکول میں پڑھا کرتے تھے لیکن وہ بڑی جماعت میں تھے اور میں پہلی کلاس میں تھا۔ میں کھانا کھانے بیٹھا تو وہ بھی آ پہنچے اور دیکھ کر کہنے لگے۔ ’ہیں ماس کھاندے او ماس‘۔ حالانکہ وہ مسلمان تھے۔ اس کی یہی وجہ تھی کہ آریہ ماسٹر سکھلاتے تھے کہ گوشت خوری ظلم ہے اور بہت بری چیز ہے۔ ماس کا لفظ مَیں نے پہلی دفعہ ان سے سنا تھا۔ اس لئے میں سمجھ نہ سکا کہ ماس سے مراد گوشت ہے۔ چنانچہ میں نے کہا یہ ماس تو نہیں کلیجی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ماس گوشت کوہی کہتے ہیں۔ پس میں نے ماس کا لفظ پہلی دفعہ ان کی زبان سے سنا اور ایسی شکل میں سنا کہ گویا ماس خوری بری ہوتی ہے اور اس سے بچنا چاہئے۔ غرض آریہ مدرّس اس قسم کے اعتراضات کرتے رہتے اور لڑکے گھروں میں آ کر بتاتے کہ وہ یہ اعتراض کرتے ہیں۔ آخر یہ معاملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا جس طرح بھی ہو سکے جماعت کو قربانی کر کے ایک پرائمری سکول قائم کر دینا چاہئے۔ چنانچہ پرائمری سکول کھل گیا اور یہ سمجھا گیا کہ ہماری جماعت نے انتہائی مقصد حاصل کر لیا۔ اس عرصے میں ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب مرحوم مغفور ہجرت کر کے قادیان آ گئے۔ انہیں سکولوں کا بڑا شوق تھا۔ چنانچہ انہوں نے ملیر کوٹلے میں بھی ایک مڈل سکول قائم کیا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس سکول کو مڈل کر دیا جائے‘‘ (یعنی قادیان والے کو)۔ ’’میں وہاں سکول کو بند کر دوں گا اور وہ امداد یہاں دے دیا کروں گا۔ چنانچہ قادیان میں مڈل سکول ہو گیا۔ پھر بعد میں کچھ نواب محمد علی صاحب اور کچھ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شوق کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ یہاں ہائی سکول کھولا جائے۔ چنانچہ پھر یہاں ہائی سکول کھول دیا گیا۔ لیکن یہ ہائی سکول پہلے نام کا تھا کیونکہ اکثر پڑھانے والے انٹرنس پاس تھے اور بعض شاید انٹرنس فیل بھی لیکن بہرحال ہائی سکول کا نام ہو گیا۔ زیادہ خرچ کرنے کی جماعت میں طاقت نہ تھی اور نہ ہی خیال پیدا ہو سکتا تھا لیکن آخر یہ وقت بھی آ گیا کہ گورنمنٹ نے اس بات پر خاص زور دینا شروع کیا کہ سکول اور بورڈنگ بنائے جائیں نیز یہ کہ سکول اور بورڈنگ بنانے والوں کو امداد دی جائے گی۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے عہد خلافت میں یہ سکول بھی بنا اور بورڈنگ بھی۔ پھر آہستہ آہستہ عملے میں اصلاح شروع ہوئی اور طلباء بڑھنے لگے۔ پہلے ڈیڑھ سو تھے، پھر تین چار سو ہوئے، پھر سات آٹھ سو ہو گئے اور مدتوں تک یہ تعداد رہی۔ اب تین چار سالوں میں آٹھ سو سے ایک دم ترقی کر کے سکول کے لڑکوں کی تعداد سترہ سو ہو گئی ہے اور میں نے سنا ہے کہ ہزار سے اوپر لڑکیاں ہو گئی ہیں۔ گویا لڑکے اور لڑکیاں ملا کر تقریباً تین ہزار بن جاتی ہیں۔ پھر مدرسہ احمدیہ بھی قائم ہوا اور کالج بھی۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے مدرسہ احمدیہ میں بھی میری گزشتہ تحریک کے تحت طلباء بڑھنے شروع ہوئے ہیں اور پچیس تیس طلباء ہر سال آنے شروع ہو گئے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ بڑھتا رہا تو مدرسہ احمدیہ اور کالج کے طلباء کی تعداد بھی چھ سات سو تک یا اس سے بھی زیادہ تک پہنچ جائے گی اور اس طرح ہمیں سو مبلغ ہر سال مل جائے گا۔ جب تک ہم اتنے مبلغین ہر سال حاصل نہ کریں ہم دنیا میں صحیح طور پر کام نہیں کر سکتے۔‘‘ (یعنی یہ کم از کم تھا۔ اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں میں ہو رہے ہیں۔) ’’1944ء میں مَیں نے کالج کی بنیاد رکھی تھی کیونکہ اب وقت ہو گیا تھا کہ ہماری آئندہ نسل کی اعلیٰ تعلیم ہمارے ہاتھ میں ہو۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ ہماری جماعت میں بہت چھوٹے عہدوں اور بہت چھوٹی آمدنیوں والے لوگ شامل تھے۔‘‘ (بیشک اس سے جماعت کی تاریخ کا بھی پتا لگتا ہے کہ) ’’بیشک کچھ لوگ کالجوں میں سے احمدی ہوکر جماعت میں شامل ہوئے لیکن وہ حادثے کے طور پر سمجھے جاتے تھے ورنہ اعلیٰ مرتبوں والے اور اعلیٰ آمدنیوں والے لوگ ہماری جماعت میں نہیں تھے سوائے چند محدود لوگوں کے۔ ایک تاجر سیٹھ عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا صاحب مدراسی تھے لیکن ان کی تجارت ٹوٹ گئی۔ ان کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب ہوئے۔ ان کے سوا کوئی بھی بڑا تاجر ہماری جماعت میں نہیں تھا اور نہ کوئی بڑا عہدیدار ہماری جماعت میں شامل تھا یہاں تک کہ حضرت خلیفہ اول ایک دفعہ مجھے فرمانے لگے۔ دیکھو میاں قرآن کریم اور احادیث سے پتا لگتا ہے کہ انبیاء پر ابتداء میں بڑے لوگ ایمان نہیں لاتے۔ چنانچہ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ایک ثبوت ہے کہ ہماری جماعت میں کوئی بڑا آدمی شامل نہیں۔ چنانچہ کوئی ای اے سی ہماری جماعت میں داخل نہیں۔ گویا اس وقت کے لحاظ سے ای اے سی’’ (یہ گورنمنٹ سروس کے جو اسسٹنٹ کمشنر ہیں ان کو شاید کہتے ہیں۔ ) ‘‘بہت بڑا آدمی ہوتا تھا۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’مگر دیکھو اب کئی ای اےسی یہاں گلیوں میں پھرتے ہیں اور ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ لیکن ایک وقت میں اعلیٰ طبقے کے لوگوں کا ہماری جماعت میں اس قدر فقدان تھا کہ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ ہماری جماعت میں کوئی بڑا آدمی داخل نہیں۔ چنانچہ کوئی ای اے سی ہماری جماعت میں داخل نہیں۔ گویا اس وقت کے لحاظ سے ہماری جماعت ای اے سی کو بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔‘‘(خطبات محمود جلد 27 صفحہ 150تا 153) آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں سینکڑوں سکول اور کالج جماعت کے چل رہے ہیں اور آج دنیا کے مختلف ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے بڑے ماہرین اور افسران بھی جماعت میں شامل ہیں۔ ملکی پارلیمنٹوں کے ممبر احمدی ہیں اور اخلاص میں بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ یہ نہیں کہ صرف دنیا داری ان میں آئی ہوئی ہے بلکہ افریقہ میں تو بعض ملکوں میں بعض اہم وزارتوں پر بھی احمدی فائز ہیں تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ایک فضل ہے۔ کس طرح اللہ تعالیٰ ترقی دے رہا ہے۔ مزید پڑھیں: حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ چند واقعات