مکرم میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ والد صاحب سے احمدیت سے پہلے بھی الہامات کا سلسلہ جاری تھا اور قبولِ احمدیت کے بعد یہ سلسلہ بہت ترقی کر گیا۔ احمدیت کی بدولت آپ کو رؤیت باری تعالیٰ بھی ہوئی۔ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کافی دفعہ ہوئی۔ حضرت عمرؓ اور دوسرے بزرگوں کی زیارت وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی تھی۔ پھر یہ اپنے والد صاحب کے بارے میں ہی لکھتے ہیں کہ ایک دن مسجد محلہ دارالرحمت میں کسی بات میں چند دوستوں کو رؤیا سنائی جن میں سے ایک دوست تو جناب ماسٹر اللہ دتہ صاحب مرحوم گجراتی تھے۔ بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود کا ایک صحابی تھا، اُس کو روزانہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری ہوتی تھی۔ وہ صبح کو وہ کشف حضرت کے حضور پیش کرتے، (یعنی روزانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ کشف یا رؤیا جو تھے وہ پیش کرتے تھے) اور حضور اُس پر اپنی قلم سے درست ہے یا ٹھیک ہے، لکھ دیتے تھے۔ والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے دل میں شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ یہ غلط باتیں ہیں۔ (یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ روز روز حضوری ہو رہی ہے اور روز ہی دیدار ہو رہا ہے۔ تو کہتے ہیں) قریب تھا کہ یہ وسوسہ زیادہ شدید ہو جائے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے میرا دامن پکڑ لیا اور مجھ کو غرق ہونے سے بچا لیا۔ (وہ کس طرح بچایا؟) کہتے ہیں رات کو مَیں بھی خواب میں اپنے آپ کو حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پاتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی وہاں پر تشریف فرما ہیں۔ حاضرینِ مجلس میں سے کسی نے سوال کیا کہ حضور! مکہ کی نسبت تو یہ آیا ہے کہ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا۔ کہ اس میں جو داخل ہو گیا امن میں ہو گیا۔ پھر یہ مکّہ جناب کے لئے تو جائے امن نہ بنا۔ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو امن کی جگہ نہیں بنا۔) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں جا کر پناہ لینی پڑی۔ (یہ خواب اپنی بیان کر رہے ہیں) کہتے ہیں اس کے جواب میں حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی تو ہے کہ مکّہ کو کوئی فتح نہیں کر سکتا۔ مَیں نے اس کو فتح بھی تو کر لیا۔ کیونکہ یہ میرے نکالے جانے کی وجہ سے میرے لئے حل ہو گیا کہ مَیں اس کو فتح کروں۔ اور بھی کچھ خواب کا حصہ بیان کیا۔ لیکن کہتے ہیں کہ مَیں کم علمی کی وجہ سے پورے طور پر اُس کو یادنہیں رکھ سکا، بھول گیا ہوں۔ پھر کہتے ہیں اُس کے بعد والد صاحب نے کہا کہ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس خواب کے بعد تہجد کا وقت تھا۔ تہجد ادا کی اور مسجد میں چلا گیا۔ صبح کو وہی دوست پھر تشریف لائے اور انہوں نے رات کی سرگذشت کاپی پر لکھی ہوئی حضور کے سامنے رکھ دی۔ حضور نے پھر اس پر اپنی قلم سے تصدیق فرما دی۔ مَیں نے وہ پڑھا تو وہی خواب جو کہ مَیں عرض کر چکا ہوں یعنی وہی سوال اور وہی جواب ہے جو مَیں نے عرض کیا ہے۔ (یعنی ان کو بھی جو خواب آئی تھی، وہی اُس دوست نے بھی سنائی۔ ) اس طرح کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے اُس وقت میری دستگیری فرمائی اور مجھے ہلاکت سے بچا لیا کہ یہ خوابیں جو بیان کرتے ہیں وہ سچی خوابیں ہیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 272 تا 274۔ ازروایات حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ) (خطبہ جمعہ ۱۱؍جنوری ۲۰۱۳ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم فروری ۲۰۱۳ء) مزید پڑھیں: اللہ تعالیٰ کی صفت النور کا بیان