’’اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو مخاطب کرکے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ۔ (القلم:۵) یعنی تو اے نبی ایک خلق عظیم پر مخلوق و مفطور ہے یعنے اپنی ذات میں تمام مکارم اخلاق کا ایسا متمم و مکمل ہے کہ اس پر زیادت متصور نہیں کیونکہ لفظ عظیم محاورۂ عرب میں اس چیز کی صفت میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو… اور بعضوں نے کہا ہے کہ عظیم وہ چیز ہے جس کی عظمت اس حد تک پہنچ جائے کہ حیطۂ ادراک سے باہر ہو‘‘ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَلَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ۔ (آل عمران:۱۶۰) اور تُو اس عظیم الشان رحمت کی وجہ سے (ہی) جو اللہ کی طرف سے (تجھے دی گئی) ہے ان کے لیے نرم واقع ہوا ہے اور اگر تو بداخلاق اور سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے گرد سے تتر بتر ہوجاتے۔ نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال وہ سب جمع ہیں آپؐ میں لا محال صفات جمال اور صفات جلال ہر اک رنگ ہے بس عدیم المثال آنحضرت ﷺ نے فرمایا:بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ(السنن الكبرى، بَيَانُ مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَمَعَالِيهَا…، روایت نمبر ۲۰۷۸۲)یعنی میں بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ آپؐ نے ہر خُلق کو اس کی معراج تک پہنچایا۔ سورۃالقلم کی ابتدائی آیات میں پیشگوئی ہے کہ قلم اور دوات سے لکھے جانے والے علوم گواہی دیں گے کہ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ۔(القلم:۵) یقیناًاے نبی!تُو عظیم الشان اخلاق پر قائم ہے۔ یہ پیشگوئی بھی ہے اور ایک دعویٰ بھی۔ آئیے !اس دعوے کا ثبوت آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ سے دیکھتے ہیں۔ قبل اس سے کہ میں آنحضرت ﷺ کی سیرت سے اُن واقعات کو پیش کروں، آنحضرتﷺ کے اخلاق عالیہ کے متعلق آپ کے ظل کامل حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا یہ بصیرت افروز اقتباس پیش کرتا ہوں:’’ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو مخاطب کرکے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ۔ (القلم:۵) یعنی تُو اے نبی ایک خلق عظیم پر مخلوق و مفطور ہے یعنے اپنی ذات میں تمام مکارم اخلاق کا ایسا متمم و مکمل ہے کہ اس پر زیادت متصور نہیں کیونکہ لفظ عظیم محاورۂ عرب میں اس چیز کی صفت میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو… اور بعضوں نے کہا ہے کہ عظیم وہ چیز ہے جس کی عظمت اس حد تک پہنچ جائے کہ حیطۂ ادراک سے باہر ہو‘‘ نیز فرمایا: ’’خُلق کے لفظ سے جو کسی مذمت کی قید کے بغیر بولا جائے ہمیشہ اخلاق فاضلہ مراد ہوتے ہیں۔ اور وہ اخلاق فاضلہ …جیسے عقلِؔ ذکا۔ سرعتِؔ فہم۔ صفائیؔ ذہن۔ حسنِؔ تحفظ۔ حسنِؔ تذکر۔ عفتؔ۔ حیاؔ۔ صبرؔ۔ قناعتؔ۔ زہدؔ۔ تورعؔ۔ جوانمرؔ دی۔ استقلاؔل۔ عدلؔ۔ امانتؔ۔ صدقؔ لہجہ۔ سخاوتؔ فی محلہ۔ ایثارؔ فی محلہ۔ کرمؔ فی محلہ۔ مروت ؔ فی محلہ۔ شجاعتؔ فی محلہ۔ علوہمتؔ فی محلہ۔ حلم ؔ فی محلہ۔ تحمل ؔ فی محلہ۔ حمیت ؔ فی محلہ۔ تواضع ؔ فی محلہ۔ ادبؔ فی محلہ۔ شفقت ؔ فی محلہ۔ رافت ؔ فی محلہ۔ رحمت ؔ فی محلہ۔ خوفؔ الٰہی۔ محبت ؔ الٰہیہ۔ انس ؔ باللہ۔ انقطاؔ ع الی اللہ وغیرہ وغیرہ… جمیع اخلاق فاضلہ اس نبی معصوم کے ایسے کمال موزونیت و لطافت و نورانیت پر واقعہ کہ الہام سے پہلے ہی خودبخود روشن ہونے پر مستعد تھے… سو ان نوروں پر ایک اور نورِ آسمانی جو وحی الٰہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود، خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد۱، بقیہ حاشیہ نمبر ۱۱، صفحہ ۱۹۴، ۱۹۵) آپؐ کی والدہ حضرت آمنہؓ نے آپؐ کی ولادت سے قبل رؤیا میں دیکھا کہ ان کے بطن سے ایک نور نکلا ہے جس سے مشرق اور مغرب کے درمیان جو کچھ ہے روشن ہو گیا اور شام کے محلات روشن ہو گئے۔ (سیرۃ الحلبیہ، باب ذكر مولده صلى الله عليه وسلم، جلد ۱، صفحہ ۸۳) یہ نورِ مصطفوی جوں جوں پھیلتا گیا عالم کے درو دیوار روشن کرتا گیا۔ ایام رضاعت میں حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے گھر اس نور مجسم کی آمد سے ان کے گھر میں برکات کا نزول شروع ہو گیا۔ حضرت حلیمہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپؐ کے آنے سے پہلے ہم پر بہت تنگی کا وقت تھا مگر آپ کے آنے کے ساتھ یہ تنگی فراخی میں بدل گئی اور ہماری ہر چیز میں برکت نظر آنے لگی۔(سیرۃ ابن ہشام،وِلَادَةُ رَسُولِ اللّٰهِ،وَرَضَاعَتُهُ حَدِيثُ حَلِيمَةَ عَمَّا رَأَتْهُ…، جلد ۱، صفحہ ۱۶۳) آپؐ کی عمر چار سال تھی جب شق صدر کا واقعہ ہوا۔ یعنی فرشتوں نے آپ کا سینہ چاک کیا۔ اور اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور ساتھ ہی کہا کہ یہ کمزوریوں کی آلائش تھی جو اب تم سے جدا کر دی گئی ہے۔ (صحیح مسلم،كِتَابُ الْإِيمَانَ بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللّٰهِ إِلَى السَّمَاوَاتِ…، روایت نمبر ۱۶۲۔۲۶۱) آپؐ کی فطرت میں بُت پرستی سے نفرت تھی۔ زمانۂ نبوت میں آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا:میں نے بتوں کے چڑھاوے کا کھانا کبھی نہیں کھایا۔(سیرت الحلبیہ) حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ما هممت بقبيح مما همّ به أهل الجاهلية إلا مرتين من الدهر، كلتاهما عصمني اللّٰه عز وجل منهما۔(سیرت الحلبیہ)میں نے زمانہ ٔجاہلیت میں کبھی بھی کسی برے کام کا ارادہ نہیں کیا۔ جیسا کہ اہلِ جاہلیت کیا کرتے تھے سوائے دو مواقع کے۔ مگر ان میں بھی اللہ نے مجھے (برائی سے) بچالیا۔(یہ اُس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب عربوں کی رات کی مجالس میں شرکت کا ارادہ کیا مگر راستے میں ہی نیند آگئی اور آپ اس مجلس میں شامل نہ ہوئے) حضرت اُم ایمنؓ بیان کرتی ہیں کہ قریش بوانہ بت کی بہت تعظیم کرتے تھے اور اس کے پاس قربانیاں کرتے تھے۔ آپ کے چچا حضرت ابو طالب اور پھوپھیاں آپ کو بوانہ بت کے پاس لے جانے کے لئے بہت اصرار کرتے مگر آپ ان کے ساتھ نہ جاتے۔ ایک دفعہ زبردستی وہ لے گئے۔ ابھی کچھ فاصلہ پر ہی تھے کہ آپ وہاں سے دوڑ آئے۔ ان کے پوچھنے پر بتایا کہ مجھے ایک لمبے قد کے سفید آدمی نے روک لیا اور کہا : محمد! آگے نہ جاؤ۔ اس کے بعد آپ کےرشتہ داروں نے بھی اصرار نہ کیا۔ (سیرۃ الحلبیہ،باب ما حفظه الله تعالىٰ به في صغرهﷺ من أمر الجاهلية، جلد ۱، صفحہ ۱۷۸ تا ۱۸۰) آپؐ اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ ملک شام جانے والے تجارتی قافلے میں شامل ہوئے، راستے میں ایک عیسائی راہب کی خانقاہ تھی۔ جب خانقاہ کے قریب پہنچے تو راہب نے دیکھا کہ تمام پتھر اور درخت یک لخت سجدہ میں گرگئے۔ (سنن الترمذی، أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ، بَابُ مَا جَاءَ فِي بَدْءِ نُبُوَّةِ، روایت نمبر ۳۶۲۰) غالبًا یہ کشفی نظارہ تھا جو اس راہب کو دکھایا گیا جس میں یہ پیشگوئی معلوم ہوتی ہے کہ بڑے بڑے پتھر دل اور دراز قامت لوگ آپ کی غلامی میں آئیں گے۔ یہ اسی نورِ مصطفویؐ کی ایک چمک تھی جو اللہ تعالیٰ نے اس راہب کو دکھائی۔ آپؐ نے نوجوانی میں ہی قومی کاموں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ چنانچہ حربِ فجار میں آپ اپنے چچوں کے مددگار کے طور پر شامل ہوئے۔(سیرۃ ابن ہشام، حَرْبُ الْفِجَارِ، جلد۱، صفحہ ۱۸۶) حربِ فجار کے بعد حِلف الفضول نامی معاہدے میں شامل ہوئے۔ جس کا مقصد مظلوم کی مدد کرنا تھا۔ آپ کو اس عہد کا اتنا پاس تھا کہ نبوت کے زمانے میں فرمایا: اگر آج بھی مجھے کوئی اس عہد کی طرف بلائے تو میں لبیک کہوں گا۔(سیرۃ ابن ہشام، حِلْفُ الْفُضُولِ، جلد۱، صفحہ ۱۳۴) آپؐ اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ رہتے تھے چونکہ حضرت ابو طالب کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اس لیے آپؐ اُن کے امورِ تجارت میں ان کی مدد کرتے۔ اس زمانہ میں عرب تاجر یمن شام اور بحرین وغیرہ ملکوں میں جاتے تھے۔ آنحضرتﷺ نے بھی تجارت کے لیے ان ملکوں کا سفر اختیار کیا۔ اور ہر دفعہ نہایت دیانت امانت اور خوش اسلوبی سے اپنا فرض ادا کیا۔ جن لوگوں کے ساتھ آپ کا معاملہ پڑا وہ سب آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔(سیرت خاتم النبیینﷺ، صفحہ ۱۰۶) آپؐ کے خُلقِ عظیم کا ایک اظہار نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر طیارؓ نے یوں کیا: ہم جاہل تھے بت پرستی کرتے تھے مردار کھاتے تھے بدکاریوں میں مبتلا تھے قطع رحمی کرتے تھے ہمسایوں سے بد سلوکی کرتے تھے۔ ہم میں سے مضبوط کمزور کا حق دبا لیتا تھا۔ یہانتک کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول بھیجا۔ ہم اس پر ایمان لے آئے اور اس کی اتباع کی۔ اس نے ہمیں توحید سکھائی بت پرستی سے روکا۔ راست گفتاری اور امانت و صلہ رحمی کا حکم دیا اور ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تعلیم دی۔ اور بدکاری اور جھوٹ اور یتیموں کا مال کھانے سے منع کیا اور خون ریزی سے روکا۔ (مسند احمد بن حنبل، حديث جعفر بن أبي طالب،حدیث نمبر ۱۷۴۰) کہا جاتا ہے الفضل ما شھدت بہ الاعداء فضیلت وہ ہے جس کی گواہی دشمن بھی دیں۔آنحضرت ﷺ قریش میں امین کے لقب سے مشہور تھے۔ آپؐ کی راست گفتاری کا یہ حال تھا کہ ابو جہل جیسے معاند نے کہا اِنَّا لَا نُکَذِّبُکَ وَلَکِنْ نُکَذِّبُ بِمَا جِئْتَ بِہِ (سنن ترمذی، أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ، بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَنْعَامِ، روایت نمبر ۳۰۶۴) اے محمد ! ہم تجھے جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس بات کو جھٹلاتے ہیں جو تو لایا ہے۔ ابو سفیان نے ہرقل شاہ روم کے سامنے کہا اس دعویٰ سے پہلے ہم نے کبھی اس شخص کا کوئی جھوٹ نہیں دیکھا۔ (المعجم الكبير للطبرانی، باب الصاد، مَا أَسْنَدَ أَبُو سُفْيَانَ صَخْرُ بْنُ حَرْبٍ، روایت نمبر ۷۲۶۹ ) اُمیہ بن خَلَف آنحضرتﷺ کا جانی دشمن تھا، حضرت سعد بن معاذؓ نے اسے جب بتایا کہ آنحضرت ﷺ نے تیری موت کی پیشگوئی کی ہے تو اس کے اوسان خطا ہو گئے اس نے گھر جا کر بیوی سے یہ ذکر کیا اور کہا وَاللّٰهِ مَا يَكْذِبُ مُحَمَّدٌ إِذَا حَدَّثَ (بخاری، كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ، روایت نمبر ۳۶۳۲) خدا کی قسم! محمد جب کوئی بات کہتا ہے تو جھوٹ نہیں بولتا۔ نضر بن حارث جو اشد ترین معاندینِ اسلام میں سے تھا اس نے جب کسی شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ محمدؐ (نعوذ باللہ) جھوٹا ہے۔ تو بے اختیار ہو کر بولا۔ محمدؐ تم میں ہی ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور وہ تم سب میں سے زیادہ پسندیدہ اخلاق والا تھا اور سب سے زیادہ راست گو تھا اور سب سے زیادہ امین تھا اور اس کے متعلق تمہاری یہی رائے رہی حتیٰ کہ جب تم نے اس کی زلفوں میں سفیدی دیکھی اور وہ بڑھاپے کو پہنچا اور وہ تمہارے پاس وہ کچھ لایا جو کہ وہ لایا تو تم یہ کہنے لگے کہ وہ ساحر اور جھوٹا ہے۔ خدا کی قسم وہ جھوٹا اور ساحر تو ہرگز نہیں۔(الشفا لقاضی عیاض بحوالہ سیرت خاتم النبیین، صفحہ ۱۱۵) آنحضرت ﷺ نے دعوتِ اسلام شروع کی اور قریش سے کہا کہ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا لشکر جمع ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟بظاہر یہ بات بالکل بعید از امکان تھی مگر سب نے کہا نَعَمْ، مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا۔ (صحیح بخاری، كِتَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ، بَابُ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ…، روایت نمبر ۴۷۷۰) ہاں ہم مانیں گے کیونکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ صادق پایا ہے۔ یہ سب شہادتیں اشد ترین دشمنوں کی ہیں۔ جوں جوں آپؐ کا سنِ مبارک بڑھ رہا تھا آپ کے اندر خدا کی محبت کا لازوال چشمہ جسے قرآنِ کریم وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی (الضحى:۸) (اور ہم نے تجھے اپنی محبت میں سرشار پایا تو صحیح راستہ تجھے بتا دیا)کے الفاظ میں بیان کرتا ہے، بڑھتا جا رہا تھا۔ اور بخاری کی روایت کے الفاظ میں حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلاَءُ خلوت نشینی آپ کو مرغوبِ خاطر ہونے لگی۔ غارِ حرا میں آپؐ کا فطری نور اس قدر افروختہ ہو گیا کہ نورِ وحی کو کھینچ لایا اور یوں نورٌ علیٰ نور کا مظہر یہ نورِ مجسم خدائی پیغام لے کر سُوئے قوم آیا۔ مگر جب عواقب پر نظر ڈالی تو بشری تقاضا سے بدن کانپ گیا اور زبان سے خَشِیْتُ عَلَی نَفْسِْیکا عاجزانہ جملہ نکلا۔ یعنی مجھے اپنی جان کی فکر ہے کہ یہ ذمہ داری کیسے ادا ہوگی۔ جس پر لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا کی مصداق آپ کی زوجہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا كَلَّا وَاللّٰهِ مَا يُخْزِيْكَ اللّٰهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ (بخاری، كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ، كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ، روایت نمبر ۳) ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ یقیناً آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور بے سہارا کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مٹے ہوئے اخلاق کو دوبارہ قائم کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حقیقی مصیبت والوں کی مدد کرتے ہیں۔ حضرت خدیجہؓ کے یہ الفاظ محض لفظی تسلی نہیں تھے بلکہ یہ الفاظ آپؐ کے ان اخلاقِ عالیہ کے مظہر تھے جن کی تعلیم اب آپ کے ذمہ تھی اب آپؐ نے اس قوم کو یہ اخلاق سکھانے تھے جن کا اول و آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کا آئینہ دارتھا۔ صَادَفْتَھُمْ قَوْمًا کَرَوْثٍ ذِلَّۃً فَجَعَلْتَھُمْ کَسَبِیْکَۃِ الْعِقْیَانِ (آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد ۵، صفحہ ۵۹۱) کہ آپ نے انہیں گو بر کی طرح ذلت میں پایا۔ اور سونے کی ڈلیاں بنا دیا۔ نیز فرمایا: ’’آپ نے ایک قوم، وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو انسانی عادات سکھلائے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخدا انسان بنایا اور روحانیت کی کیفیت اُن میں پھونک دی اور سچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا۔… تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قوتیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بےبارو بر نہ رہی۔‘‘ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن، جلد ۲۰، صفحہ ۲۰۷) اب وہ بارِ امانت آپ کے سپرد ہوا جس کے متحمل نہ آسمان ہوئے نہ زمین۔ فَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ (الاحزاب: ۷۳)بلکہ اسے انسان ِ کامل نے اٹھایا یعنی ہمارے سیدو مولیٰ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے۔ آیئے اب ان واقعات کا کچھ تذکرہ کرتے ہیں جو آپ کو بطور معلمِ اخلاق درپیش آئے۔ ۲۳؍سالہ دورِ نبوت میں ان اخلاق کی تعلیم آپؐ پر قرآنِ کریم کی صورت میں نازل ہوتی گئی اور آپ وَیُزَکِّیۡہِمۡ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ (الجمعة:۳)کے مصداق اپنے قول و عمل سے ان کی تکمیل کرتے گئے۔ آپؐ کے اخلاق کا پہلا جلوہ تو وہ ہے جو آپ کے اقرباء پر پڑا اور وہ آپ کے رنگ میں رنگین ہوئے عورتوں میں اس کی پہلی مظہر حضرت خدیجہؓ اور مردوں میں حضرت ابو بکرؓ ہیں جو بغیر کسی علمی دلیل کے آپ کے عمل سے آپ کے ہم نوا بن گئے مشہور مستشرق سپرنگر نے بھی اس دلیل کو قبول کیا ہے اور ولیم میور نے بھی۔ وہ لکھتا ہے۔ ’’ابو بکرؓ کا آغازِ اسلام میں محمدؐ پر ایمان لانا اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ محمدؐ خواہ دھوکہ کھانے والے ہوں مگر دھوکہ دینے والے ہرگز نہیں تھے۔ بلکہ صدقِ دل سے اپنے آپ کو خدا کا رسول یقین کرتے تھے۔‘‘ (لائف آف محمد مصنفہ میور، صفحہ ۵۶، بحوالہ سیرت خاتم النبیینﷺ، صفحہ ۱۳۹) آپؐ کے اقرباء میں خادمانہ حیثیت کے حامل حضرت زید بن حارثہؓ کا تیسرا نمبر ہے جو ایک حادثاتی صورت میں بطور غلام بکتے بکاتے حضرت خدیجہؓ اور پھر آپ کے پاس آگئے۔ زیدؓ آپ کے اخلاق فاضلہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کے والد اور چچا جب ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان تک پہنچے اور انہیں واپس جانے کا اصرار کیا تو زید نے کہا اب میرے ماں باپ محمد رسول اللہؐ ہی ہیں ان کا دامن چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔(الطبقات الکبریٰ،الطَّبَقَةُ الْأُولَى،ذِكْرُ زَيْدٍ الْحَبِّ زَيْدٌ الْحِبُّ بْنُ حَارِثَةَ،جلد۳، صفحہ ۴۵) یہ تو چند سعید فطرت لوگوں کا ذکر تھا جو بلا تردّد ایمان لے آئے مگر اب وہ کٹھن مرحلہ شروع ہوتا ہے جب آنحضرتﷺ کو خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے دشمنی کی آگ سے ہر روز گزرنا پڑتا آپؐ کےاسمِ محمد کو بگاڑا جاتا اور مذمم کہا جاتا آپ کو دیوانہ اورجادو گر کہا جاتا۔غرض: نام کیا کیا غمِ ملت میں رکھایا ہم نے ہر روز آپ کو وحشی انسانوں کی بدسلوکی درپیش ہوتی۔ آپؐ خانہ کعبہ میں خدا کی عبادت کے لیے جاتے تو کبھی آپ پر گندی اوجھڑی پھینکی جاتی تو کبھی گلے میں کپڑا ڈال کر گلا گھونٹا جاتا۔ ظالم ہمسائیوں کی طرف سے آپ کے گھر گند اور پتھر پھینکے جاتے آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے جاتے جب باہر سے لوگ آتے تو اوبا ش لڑکے آپ کے پیچھے لگا دیے جاتے جو لوگوں کو آپ سے متنفر کرتے اور یوں سارے عرب میں آپ کے خلاف نفرت اور دشمنی کی آگ لگا دی گئی مگر آنحضرتﷺ نے کبھی کسی شر کا مقابلہ شر سے نہیں کیا بلکہ صبر، استقامت اور نہایت بہادری سے یہ سب دکھ برداشت کیے۔ ایک دفعہ جب ایک مظلوم آپ کے پاس داد رسی کے لیے آیا تو آپ بلاخوف ابوجہل کے گھر گئے اور اس مظلوم کو اس کا حق دلوایا۔ کفارِ مکہ کے یہ مظالم آپ کی ذات سے شروع ہوئے اور ان کا دائرہ ایمان لانے والوں تک پھیلتا گیا۔ ایک دفعہ آپؐ نے حضرت یاسرؓ ان کی اہلیہ اور بیٹے عمارؓ کو ان تکالیف میں دیکھ کر فرمایا: صَبْرًا يَا آلَ يَاسِرٍ، فَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْجَنَّةُ۔آلِ یاسر! صبر کرو تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔(المستدرك على الصحيحين، كِتَابُ مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، روایت ۵۶۴۶، جلد ۳، صفحہ ۴۳۲) ایک دفعہ حضرت خباب بن الارتؓ نے کفار مکہ کی تکالیف کا ذکر کر کے ان کے خلاف بد دعا کی درخواست کی تو آپ نے پہلی قوموں کی قربانیوں کا ذکر کر کے خباب کو صبر کی تلقین کی۔ ایک دفعہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے آپ سے کفار مکہ کے مظالم کا مقابلہ کرنے کی اجازت مانگی تو فرمایا إِنِّي أُمِرْتُ بِالْعَفْوِ، فَلَا تُقَاتِلُوا۔ ( السنن الصغرى للنسائي، كِتَابُ الْجِهَادِ،بَابُ وُجُوبِ الْجِهَادِ، روایت نمبر ۳۰۸۶) مجھے عفو کا حکم ہے پس میں تمہیں لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ جب آپ نے دیکھا کہ اہلِ مکہ نہ خود ایمان لانے پر آمادہ ہیں نہ باہر کے لوگوں کودولتِ ایمان نصیب ہونے دیتے ہیں تو آپ نے طائف کا سفر اختیار کیا، طائف کے چھوٹے سرداروں کو پیغام دینے کے بعد آپ ان کے بڑے سردار عبد یالیل کے پاس گئے مگر اس نے بھی آپ کی بات نہ سنی بلکہ اس اندیشہ سے کہ عوام الناس میں آپ کا نفوذ نہ ہونے پائے آپ کے پیچھے اوباش لڑکے لگا دیے جو مسلسل آپ پر آوازے کستے اور سنگ باری کرتے چلے گئے مگر آپ نے کمال ہمت صبر اور استقامت سے یہ سب دکھ جھیلے۔ اور باوجودیکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی ہلاکت کا پیغام آپ کو دیا گیا اور انتقام کا اختیار دیا گیا۔ مگر آپؐ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ انہی میں سے اللہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے۔ (سیرۃ ابن ہشام، نُزُولُ الرَّسُولِ بِثَلَاثَةِ مِنْ أَشْرَافِهِمْ، وَتَحْرِيضُهُمْ عَلَيْهِ، جلد۱، صفحہ ۴۲۰) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’آنحضرت اعلیٰ درجہ کے یک رنگ اور صاف باطن اور خدا کے لئے جان باز اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیرنے والے اور محض خدا پر توکل کرنے والے تھے۔ کہ جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہوکر اس بات کی کچھ بھی پروا نہ کی کہ توحید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دکھ اور درد اٹھانا ہوگا۔ بلکہ تمام شدتوں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارا کرکے اپنے مولیٰ کا حکم بجا لائے۔ اور جو جو شرط مجاہدہ اور وعظ اور نصیحت کی ہوتی ہے وہ سب پوری کی اور کسی ڈرانے والے کو کچھ حقیقت نہ سمجھا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد اول، صفحہ ۱۱۱، ۱۱۲) آنحضرت ﷺ کے اخلاقِ فاضلہ کی چمکار ہر موقع پر نئے جلوے دکھاتی ہے سفرِ ہجرت میں جب دشمن غارِ ثور کے منہ تک پہنچ گئے تو اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ۔(يونس: ۶۳)(سنو کہ ىقىناً اللہ کے دوست ہى ہىں جن پر کوئى خوف نہىں اور نہ وہ غمگىن ہوں گے ) کے مظہر آپ نے اپنے ساتھی کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ (صحیح البخاری، كِتَابُ الْمَنَاقِبِ، بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الْإِسْلاَمِ، روایت نمبر ۳۶۱۵) کہ کوئی غم اور فکر نہ کریں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ آپؐ کی جان کا پیاسا دشمن سراقہ بن مالک جب آپؐ کا تعاقب کرتا ہوا آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے ایک دفعہ بھی مڑ کر اسے نہیں دیکھا بلکہ کمال وقار سے چلتے گئے اور جس خدائی حفاظت اور تائید پر آپ کو کامل یقین تھا وہ ظاہر ہوئی اور وہ دشمن جو آپ کی جان لینے آیا تھا آپ سے اپنی جان کی امان مانگنے لگا۔ بخاری میں اس کے لیے یہ الفاظ آئے ہیں فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَكْتُبَ لِي كِتَابَ أَمْنٍ سراقہ نے کہا میں نے آپؐ سے امن کی تحریر کی درخواست کی تو آپؐ نے جان کی امان لکھ دی۔ (بخاری، كِتَابُ مناقب الأنصار، بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّ وَأَصْحَابِهِ، روایت نمبر ۳۹۰۶) مدنی دور آنحضرتﷺ کے خُلقِ عظیم کی نئی کہکشائیں لے کر آیا۔ آپؐ نے مدینہ پہنچتے ہی ایک زیرک اور مدبّر حاکم کے طور پر اہلِ مدینہ کے مشرکین اور یہود سے معاہدات کیے۔ جس کے نتیجے میں جہاں اسلامی حکومت مضبوط ہوئی وہاں دشمنوں کے عزائم خاک میں ملنے لگے ان کے شر پسند ہلاک ہوئے اور عہد شکنی کرنے والے یہود کچھ موت کے گھاٹ اتارے گئے تو کچھ جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔ مقامِ حدیبیہ میں آپ نے اہلِ مکہ سے صلح کا معاہدہ کر کے جہاں اشاعتِ اسلام کا مضبوط انتظام کیا وہاں دشمنِ اسلام اس عہد کو توڑنے کے نتیجے میں آپ کے تحتِ اقدام آ گیا اور آپ کے اخلاقِ فاضلہ کا وہ ظہور ہوا جو غلبہ اور طاقت کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ فتح مکہ کی عظیم فتح پر فخر و مباہات کی بجائے عجز و نیاز سے آپ کا سر جھکتےجھکتے اونٹ کی کوہان کو لگنے لگا۔ آج مکی دور کے مظالم کے بدلے اور انتقام کا دن تھا۔ آج خانہ کعبہ کی عظمت کا دن تھا خدا کا وہ گھر جس مقصد کے لیے بنا تھا آج وہ مقصد پورا ہوا۔ آپؐ نے کعبہ کو بتوں سے پاک کیا۔ حضرت بلالؓ کے جھنڈے کو سلامتی کا نشان قرار دیا اور ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اسے جان کی امان دی اور پھر امن اور سلامتی کا اعلان کرتے ہوئے یہ عام ندا کروا دی: اذْهَبُوا أَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ(السنن الكبرى للبیھقی،كِتَابُ السِّيَرِ، بَابُ فَتْحِ مَكَّةَ، روایت نمبر ۱۸۲۷۶) کہ جاؤ تم سب آزاد ہو تم سے تمہارے کسی ظلم کی باز پرس نہیں کی جائے گی۔ لیا ظلم کا عفو سے انتقام علیک الصلوٰۃ علیک السلام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ﷺ کے ان اخلاقِ فاضلہ کا ذکر کرتے ہوئے جن کا تعلق غلبہ سے ہے۔ فرماتے ہیں: ’’جب مدت مدید کے بعد غلبہ اسلام کا ہوا تو اِن دولت اور اقبال کے دنوں میں کوئی خزانہ اکٹھا نہ کیا۔ کوئی عمارت نہ بنائی۔ کوئی بارگاہ طیار نہ ہوئی۔ کوئی سامان شاہانہ عیش وعشرت کا تجویز نہ کیا گیا۔ کوئی اور ذاتی نفع نہ اٹھایا۔ بلکہ جو کچھ آیا وہ سب یتیموں اور مسکینوں اور بیوہ عورتوں اور مقروضوں کی خبر گیری میں خرچ ہوتا رہا اور کبھی ایک وقت بھی سیر ہوکر نہ کھایا۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد اول، صفحہ ۱۰۹) انسانی اخلاق کا ایک بہت اہم حصہ عائلی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت ﷺ نے بطور معلم اخلاق عائلی زندگی کے متعلق فرمایا: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جس کا سلوک اپنی بیویوں سے اچھا ہے وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي اور میں اپنی بیویوں سے حسن سلوک میں سب سے اچھا ہوں۔ (ترمذی، أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ، بَابٌ فِي فَضْلِ أَزْوَاجِ،روایت نمبر ۳۸۹۵) آئیے! آپؐ کے اُن اخلاق فاضلہ کا مشاہدہ کرتے ہیں جو آپ کی عائلی زندگی میں ظاہر ہوئے۔ ایک وقت میں آپؐ کے عقد میں نو بیویاں تھیں جو مختلف قبائل اور قوموں سے تعلق رکھتی تھیں وہ اپنی تمام عادات اور مزاج کے ساتھ آپ کے گھر آئیں۔ ان کی ان عادات اور باہمی معاملات کے واقعات آئے دن آپؐ کو درپیش آتے۔ کبھی وہ ایک دوسری سے بڑھ کر آپ کی محبت حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی خدمات بجا لاتیں، کبھی کوئی کسی قوم یا مذہب یا قد وقامت کا حوالہ دے کر اپنی فضیلت ثابت کرتی غرض نسوانی امور اور سوتنوں کے مسائل بھی کبھی کبھار ظہور پذیر ہوتے ۔مگر چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھا کہ ایسے امور آنحضرت ﷺ کے اخلاقِ فاضلہ پر غالب آ سکے ہوں۔ آپؐ نے کبھی کسی عورت بچے یا غلام پر ہاتھ نہیں اٹھایا، کبھی درشت روی سے پیش نہیں آئے، کبھی غضبناک ہو کر تحمل، حلم اور وقار کا دامن آپؐ کے ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ ایک دفعہ ایک بیوی نےاس گھر کھانا بھیجا جہاں آپ قیام پذیر تھے تو اس گھر والی نے ہاتھ مار کر کھانا گرا دیا اور برتن ٹوٹ گیا آنحضرت ﷺ نے اس بیوی کوتو کچھ نہیں کہا بلکہ خود آگے بڑھے کھانا اکٹھا کرنے لگے۔ اور ٹوٹا ہوا برتن اس گھر میں رکھ لیا اور اس سے بہتر برتن دوسری زوجہ کے ہاں بھجوا دیا۔ (بخاری، كِتَابُ النِّكَاحِ، بَابُ الغَيْرَةِ، روایت نمبر ۵۲۲۵) ایک زمانہ میں جب ازواج کے مطالبات بڑھنے لگے تو آپؐ نے فیصلہ فرمایا کہ ان مسائل کو اب ختم ہو جانا چاہیے اور حرم نبویؐ کے شایانِ شان جو اس ہوا و حرص سے بچے وہی اس مقدس گھر کی زینت بنے۔ مگر آپؐ نے کسی زوجہ کو نہ ڈانٹا نہ مجبور کیا نہ قائل کرنے کے لیے خشک منطق بیان کی بلکہ کمال حکمت سے آپؐ نے ایک ماہ کے لیے تمام ازواج سے علیحدگی اختیار کر لی اور ایک بالا خانے میں رہائش اختیار کر لی۔ اتفاق سے اُن دنوں آپؐ کے پاؤں پر چوٹ آئی ہوئی تھی اور اس تکلیف میں آپؐ کو خدمت اور معاونت کی عام دنوں سے بہت بڑھ کر ضرورت تھی مگر آپؐ نے ایثار کا عدیم المثال نمونہ پیش کیا اور ایک ماہ کے بعد کلام الٰہی کے الفاظ میں ہر زوجہ کے سامنے یہ پیش کش رکھی یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَزِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعۡکُنَّ وَاُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا۔(الاحزاب :۲۹) اے نبى! اپنى بىوىوں سے کہہ دے کہ اگر تم دنىا کى زندگى اور اس کى زىنت چاہتى ہو تو آؤ مىں تمہىں مالى فائدہ پہنچاؤں اور عمدگى کے ساتھ تمہىں رخصت کروں۔ اور ہر زوجہ سے فرمایا اپنے والدین سے مشورہ کر کے بتاؤ اور اپنے فیصلے سے مجھے آگاہ کرو۔ اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو حرم نبوی کے تمام تقاضے پورے کرنے ہوں گے ہر نوع کی قربانی دینی ہو گی ہاں اگر دنیااور اس کی زیب و زینت اور اموال چاہئیں تو جو مانگو گی دے کر علیحدہ کر دوں گا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں فَاخْتَرْنَا اللّٰهَ وَرَسُولَهُ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کا انتخاب کیا۔ اس اعلان پر بلا استثناء تمام ازواج نے کہا یا رسول اللہ ﷺ !ہمیں صرف آپ اور آپ کا ساتھ چاہیے اس کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔ (بخاری،كِتَابُ الطَّلاَقِ، بَابُ مَنْ خَيَّرَ نِسَاءَهُ، روایت نمبر ۵۲۶۲) ازواج کی محبت اور فدائیت کا یہ اظہار عارضی اور وقتی نہیں تھا بلکہ ازواجِ مطہرات کی ساری زندگی اسی وفا اور محبت میں گذری۔ اس محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک موقع پر جب آپؐ نے فرمایا وفات کے بعد سب سے پہلے مجھے وہ بیوی ملے گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے۔ تو وفورِ محبت میں ازواج نے اپنے ہاتھ ناپنے شروع کر دیے۔ ہر ایک کی یہ دلی تمنا تھی کہ کاش !میں ہی وہ خوش نصیب بنوں جو آپ سے سب سے پہلے ملے گی۔ (مسلم، كتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ، بَابُ مِنْ فَضَائِلِ زَيْنَبَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، روایت نمبر ۲۴۵۲) عائلی زندگی میں آنحضرتﷺ کے خُلقِ عظیم کے اس ذکر کو ختم کرنے سے پہلے یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کے خُلق عظیم اور پاک صحبت نے ازواج کے اندر تزکیہ اور خدا کی محبت کا کیا رنگ پیدا کیا۔ آئیے آپؐ کے گھر کے مقدس ماحول کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔ آپؐ کے گھر فرشتوں کا نزول ہوتا تھا یہ بات تو سب جانتے ہیں نزولِ ملائکہ کا ازواجِ مطہرات کے تعلق سے کیا منظر نظر آتا ہے۔ روایات میں ذکر ہے کہ ایک دفعہ حضرت خدیجہؓ آنحضرت ﷺ کے لیے کھانے کی کوئی چیز تیار کررہی تھیں کہ جبرئیل کا نزول ہوا۔ جبر ئیلؑ نے حضرت خدیجؓہ کو خدمتِ نبویؐ میں مصروف پایا تو آنحضرت ﷺ کو اطلاع دی کہ ابھی خدیجہؓ آپؐ کے کھانے کی کوئی چیز لائیں گی میرا اُن کو سلام دینا اور جنت میں ایک ایسے گھر کی بشارت دینا جو موتیوں سے بنا ہو گا۔(بخاری، كِتَابُ مناقب الأنصار، بَابُ تَزْوِيجِ النَّبِيِّ خَدِيجَةَ ، روایت نمبر ۳۸۲۰) ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا مجھے عائشہؓ کے بستر پر بھی وحی ہوتی ہے۔ (بخاری،كتاب أصحاب النبيؐ، بَابُ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، روایت نمبر ۳۷۷۵) اس میں جہاں حضرت عائشہؓ کے تقدس اور پاکدامنی پر روشنی پڑتی ہے وہاں اس مقدس جوڑے کے پاکیزہ تعلقات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ایک دفعہ آپ حضرت عائشہؓ کے گھر تھے جبرئیل آئے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا عائشہؓ !جبرئیل آئے ہیں اور تمہیں سلام دے رہے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے کہا وعلیہ السلام و رحمۃ اللہ۔ پھر عرض کیا: یا رسول اللّٰہ انک تریٰ ما لا نریٰ۔ یا رسول اللہ!نزول ملائکہ کا جو نظارہ آپؐ کرتے ہیں ہماری نظر وہاں تک نہیں پہنچتی۔ (بخاری،كِتَابُ بَدْءِ الْخَلْقِ، بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ، روایت نمبر ۳۲۱۷) یہ تو ظاہر ہے کہ نبی اور وہ بھی خاتم النبیینؐ کی روحانی آنکھ جو دیکھتی تھی وہ صدیقیت کی آنکھ کہاں دیکھ سکتی تھی مگر بعض اوقات ان نظاروں کی کوئی نہ کوئی جھلک ازواج مطہرات بھی دیکھ لیتی تھیں۔ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ حضرت اُم سلمہؓ کے گھر تھے جبرئیل آئے وہ آپؐ سے باتیں کرنے لگے اس وقت جبرئیل آنحضرت ﷺ کے صحابی دحیہ کلبی کے روپ میں تھے۔ حضرت اُم سلمہؓ نے یہ نظارہ دیکھا اور وہ باتیں بھی سنیں جو جبرئیل نے آنحضرت ﷺ سے کیں ۔مگر وہ سمجھیں کہ یہ دحیہ کلبی ہیں کچھ دیربعد جب آنحضرت ﷺ نے مسجد میں اس نظارے کا ذکر کیا اور وہ باتیں بیان فرمائیں جو جبرئیل نے آپؐ سے کی تھیں تب حضرت اُم سلمہؓ کو معلوم ہوا کہ وہ دحیہ کلبی نہیں تھے بلکہ جبرئیل تھے۔ (بخاری،كِتَابُ الْمَنَاقِبِ، بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الْإِسْلاَمِ، روایت نمبر ۳۶۳۴) اب میں آپ کے سامنے آنحضرت ﷺ کے خُلق عظیم کی کہکشاں سے کچھ متفرق واقعات پیش کرتا ہوں۔ ایک عورت نے آپؐ کی ضرورت محسوس کر کے آپ کے لیےایک چادر تیار کی اور آپؐ کی خدمت میں پیش کی ۔ آپؐ وہ چادر اوڑھ کر مجلس میں تشریف لائے تو ایک صحابی نے آپؐ سے وہ چادر مانگ لی دیگر صحابہ نے اس کے اس مطالبے کو بہت معیوب سمجھا اور کہا تمہیں معلوم ہے کہ آنحضرت ﷺ کسی مانگنے والے کو انکار نہیں کرتے۔ اس صحابی نے کہا میں نے یہ چادر اپنے کفن کے لیے مانگی ہےاور وہ چادر بطور کفن ان کے کام آئی۔(بخاری،كِتَابُ الْجَنَائِزِ، بَابُ مَنِ اسْتَعَدَّ الْكَفَنَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ ، روایت نمبر ۱۲۷۷) زید بن سعنہ یہودی عالم نے آپؐ کو قرض دیا اور وقت سے پہلے ہی مانگنے آ گیا سختی اور درشتی سے بات کرتے کرتے اس نے گلے کو پکڑ لیا۔ حضرت عمرؓنے اسے ڈانٹا۔ آنحضرت ﷺ نےفرمایا عمرؓ !تمہیں چاہیے تھا کہ مجھے حسنِ ادا اور اسے حسن تقاضا کا کہتے۔ پھر فرمایا اس کے قرض سے زیادہ اسے دو۔ اس پر وہ شخص آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کے غلاموں میں داخل ہو گیا۔(المستدرک للحاکم، كِتَابُ مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ، ذِكْرُ إِسْلَامِ زَيْدِ بْنِ سَعْنَةَ، روایت نمبر ۶۵۴۷) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: مَا اِنْتَقَمَ لِنَفْسِہِ کہ آپؐ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ آنحضرت ﷺ کی ساری زندگی اس کی آئینہ دار ہے۔ عبد اللہ بن ابی بن سلول نے کون سی تکلیف تھی جو آپؐ کو نہ پہنچائی؟ غزوہ اُحد کے موقع پر عین ضرورت کے وقت تین سو آدمی لے کر الگ ہو گیا۔ اس نے آپؐ کی زوجہ مطہرہ پر ناپاک الزام لگایا۔ یہ عبد اللہ بن ابی بن سلول ہی تھا جس نے نعوذ باللہ آپؐ کو مدینہ کاذلیل شخص قرار دیا۔ غرض اس کے کس کس ظلم کا ذکر کیا جائے مگر آپؐ نے کبھی اس سے انتقام نہیں لیا بلکہ اس کی وفات پر اپنی قمیض بطور کفن عطا فرمائی اس کا جنازہ پڑھایا اور اس کی مغفرت کی دعا کی۔ زہر دینے والی یہودی عورت کو معاف فرمادیا۔ ایک بدوی آپؐ کی مجلس میں آیا اور کہا محمدؐ میں سخت زبان سے سوال کروں گا میرے سوالوں کا جواب دو۔ فرمایا کہو جو کہنا ہے۔ آپؐ نے نہایت توجہ سے اس کے درشت لہجے میں سوال سنے اور نہایت محبت سے ان کا جواب دیا۔ (بخاری،كِتَابُ الْعِلْمِ، بَابُ مَا جَاءَ فِي الْعِلْمِ، روایت نمبر ۶۳) مہمان نوازی کا خُلق آپؐ میں بدرجۂ اتم موجود تھا مہمان کی خود خدمت کرنا آپؐ اپنا فرض سمجھتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ایک صوفی لکھتا ہے کہ آپ کے پاس ایک نصرانی ملاقات کو آیا۔ آپ نے اس کو اپنا مہمان کیا۔ رات کو کھانا اوربسترہ دیا مگر وہ کمبخت بہت کھا گیا۔ رات کو بد ہضمی ہوئی تو لحاف میں اس کا دست نکل گیا۔ اس لیے شرمندہ ہو کر صبح کو چوری چوری چل دیا۔ جب وہ دُور نکل گیا تو آنحضرت کو معلوم ہوا کہ مہما ن چلا گیا ہے بستر دیکھا تو پا خانہ سے بھرا ہوا۔ آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے دھونا شروع کیا۔ صحابہؓ نے ہرچند اصرار کیا کہ ہم دھوئیں مگر آپ نے فرمایا کہ وہ میرامہما ن تھا مجھے دھونے دو۔ ادھر راستہ میں نصرانی کو یاد آیا کہ وہ اپنے سونے کی صلیب بستر پر بھول آیا ہے۔ اسے لینے کے واسطے وہ واپس آیا۔ دیکھا تو آپ وہی نجاست بھرا لحاف اپنے ہاتھ سے دھو رہے ہیں۔ اس نظارہ کو دیکھ کر صلیبی ایمان پراس نے لعنت کی اور مسلمان ہوگیا۔‘‘(ملفوظات، جلد پنجم، صفحہ ۱۸، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) دورانِ سفر ایک اجڈ بدوی نے آپ کے کپڑے کو پیچھے سے زور سے کھینچا جس سے آپؐ کا جسم چِھل گیا۔ آپؐ نے مسکراتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا اور نہایت تحمل اور پیار سے فرمایا کہو کیا کہتے ہو؟ اس نے اسی اکھڑ انداز میں کہا محمد(ﷺ) اللہ کے مال میں سےمجھے بھی دو۔ آپؐ نے اس کو مال عطا فرمایا اور اس کی بدسلوکی پر کسی قسم کی سرزنش نہ فرمائی۔ (بخاری،كِتَابُ اللِّبَاسِ، بَابُ الْبُرُودِ وَالْحِبَرَةِ وَالشَّمْلَةِ، روایت نمبر ۵۸۰۹) جنگوں میں آپؐ نے بطور معلم اخلاق یہ تعلیم دی کہ لاشوں کا مثلہ نہ کرنا ،کسی عورت یا بچے کو قتل نہ کرنا، درخت نہ کاٹنا، انسانی لاش کی حرمت کا اس قدر خیال تھا کہ غزوۂ خندق کے موقع پر کفار کا ایک سردار خندق پھلانگتے ہوئے مارا گیا کفار نے آپؐ سے اس کی لاش لینے کے لیے بھاری رقم کی پیشکش کی آپ نے فرمایا ہم لاشوں کی قیمت نہیں لیتے اور بغیر قیمت کے وہ لاش انہیں دے دی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، مَنْ كَرِهَ الْفِدَاءَ بِالدَّرَاهِمِ، كِتَابُ الْسير، روایت نمبر ۳۳۲۵۶ ) ایک سفر میں ایک نامعلوم لاش بے گور و کفن دیکھی، صحابہؓ سے فرمایا اس لاش کو دفن کر دو۔ جنگوں میں بھی امانت کی حفاظت کی تعلیم دی۔ غزوہ خیبر میں ایک یہودی چرواہا اپنے مالک کی بکریاں لے کر آیا اور کہا میں اسلام قبول کرتا ہوں فرمایا تمہارا اسلام قبول ہےمگر یہ بکریاں تمہارے پاس تمہارے مالک کی امانت ہیں یہ اسے واپس کر دو۔ (الخصائص الكبرى، قصَّة إِسْلَام خَالِد بن الْوَلِيدؓ، جلد اول، صفحہ ۴۱۹) قومی اموال کو ایک امانت سمجھتے ہوئے ان کی حفاظت کی بہت تاکید فرمائی اور خیانت کرنے والے کے لیے سخت انذار فرمایا۔ ایک غزوہ میں ایک غلام جس کا نام مدعم تھا آپ کی سواری کا کجاوہ کس رہا تھا کہ اچانک اسے ایک تیر لگا جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا لوگوں نے کہا اسے شہادت مبارک ہو فرمایا نہیں یہ شہید نہیں ہے بلکہ اس پر جہنم کی آگ بھڑک رہی ہے اس چادر کی وجہ سے جو اس نے اموال غنیمت کی تقسیم سے پہلے چُرا لی تھی۔ (صحیح البخاری،كِتَابُ المَغَازِي، بَابُ غَزْوَةِ خَيْبَر، روایت نمبر ۴۲۳۴) آپؐ نے معاشرے کے تمام طبقات کے حقوق کے متعلق اخلاقی تعلیم دی۔ فرمایا: لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُوَقِّرْكَبِيرَنَا۔ (سنن الترمذی،أَبْوَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَةِ،بَابُ مَا جَاءَ فِي رَحْمَةِ الصِّبْيَانِ، روایت نمبر ۱۹۲۱)کہ جو چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک دفعہ دو لڑکے آپ کے پاس آئے ان میں سے چھوٹا آپ سے بات کرنے لگا آپ نے فرمایا كَبِّرِ الكُبْرَ بڑے کو بات کرنے دو۔(بخاری،كِتَابُ الْأَدَبِ، بَابُ إِكْرَامِ الْكَبِيرِ، روایت نمبر ۶۱۴۲) مجالس کے متعلق آپؐ نے یہ اخلاقی تعلیم دی کہ جب کوئی مجلس میں آئے تو کوئی بدبو دار چیز کھا کر نہ آئے تاکہ مجلس میں تعفن نہ پھیلے۔ (بخاری،بَابُ مَا جَاءَ فِي الثُّومِ النِّيِّ، بَابُ مَا جَاءَ فِي الثُّومِ النِّيِّ، روایت نمبر ۸۵۵) ماتحتوں اور ملازموں کے متعلق فرمایا کہ اُن کی طاقت سے زیادہ اُن پر بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسا ہو تو ان کی مدد کرو۔(مسلم، كِتَابُ الْأَيْمَانِ، بَابُ إِطْعَامِ الْمَمْلُوكِ مِمَّا يَأْكُلُو، روایت نمبر ۱۶۶۱) آپؐ کے خادم حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال آپؐ کی خدمت کی آپ نے کبھی مجھ پر سختی نہیں کی۔مجھے پیار سے ذو الاذونین یعنی دو کانوں والا کہہ کر توجہ دلاتے۔ (سنن الترمذی، أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ، بَابُ مَا جَاءَ فِي المِزَاحِ، روایت نمبر ۱۹۹۲) اس سے آپؐ کا مقصد توجہ دلانا ہو گا جیسا کہ صاحبِ شرح السنہ نے بھی لکھا ہے۔ (شرح السنة، كتاب البر والصلة، بَاب المزاح،روایت نمبر ۳۶۰۶) مجرموں کو سزا دینا شریعت کا تقاضا تھا۔ مگر اس میں بھی آپؐ کی رحمت کا غلبہ نظر آتا ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص کو زنا کی سزا پر سنگسار کرنے کا حکم دیا لوگ جب اس پر پتھر برسانے لگے تو وہ بھاگ نکلا۔ لوگ اس کے پیچھے بھاگے اور اسے مار دیا۔ آپؐ نے فرمایا جب وہ بھاگ گیا تھا تو تمہیں اسے چھوڑ دینا چاہیے تھا۔(صحیح مسلم، كِتَابُ الْحُدُودِ،بَابُ مَنِ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَى، روایت نمبر ۱۶۹۱) ایک دفعہ ایک شراب پینے والے کو سزا دی تو ایک آدمی نے کہا أَخْزَاهُ اللّٰهُ کہ اللہ اسے ذلیل کرے۔ آپؐ نے فرمایا اپنے ساتھی کے مقابل شیطان کے مددگار نہ بنو۔ (صحیح البخاری،كِتَابُ الْحُدُودِ، بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ لَعْنِ شَارِبِ الْخَمْرِ، روایت نمبر ۶۷۸۱) آپؐ کا ہر خُلق اپنے محل پر ظاہر ہوتا۔ قانون کے نفاذ میں کوئی نرمی اور سفارش قبول نہ فرماتے۔ چوری کرنے والی عورت کے لیے سفارش کی گئی تو سختی سے ردّ کر دی۔ ایک غزوہ میں شامل ہونے کے واضح حکم پر عمل نہ کرنے والے صحابہ کو مقاطعہ کی سزا دی۔ مگر جہاں عفو سے اصلاح ممکن ہوتی وہاں عفو فرماتے۔ ثمامہ بن اثال جو دشمن اسلام تھا۔ ایک جنگ میں پکڑا گیا۔ آنحضرت ﷺ نے مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ اسے باندھنے کاحکم دیا ہر روز نماز کے بعد آپؐ اس کے پاس آتے اور پوچھتے ثمامہ تم سے کیا سلوک کیا جائے وہ کہتا اگر آپؐ مجھے قتل کروا دیں گے تو یہ ایک خونی اور قاتل کا قتل ہوگا کیونکہ میں نے بہت سے قتل کیے ہیں اور اگر مجھے معاف فرما دیں گے تو میں اُس کی قدر کروں گا۔ تیسرے دن آپؐ نے فرمایا ثمامہ کو آزاد کر دو۔ وہ سامنے باغ میں گیا ،غسل کیا اور واپس آ کر کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ حضرت ثمامہ ؓکہا کرتے تھے اس سے پہلے محمد رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کوئی وجود میرے لیے قابلِ نفرت نہ تھا آج آپؐ کے وجود سے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہیں۔ (صحیح البخاری،كِتَابُ الْمَغَازِي، بَابُ وَفْدِ بَنِي حَنِيفَةَ، روایت نمبر ۴۳۷۲) ہند جو سردارِ مکہ ابو سفیان کی بیوی تھی جس نے آنحضرتﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہو گئی اور عورتوں کے ساتھ بیعت میں شامل ہوئی۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا یارسول اللہؐ! ایک وقت تھا کہ مجھے آپؐ کے گھر سے زیادہ کوئی گھر قابلِ نفرت نہیں تھا مگر آج آپ کا گھر میرے لیے سب سے زیادہ قابل ِ محبت اور عزت ہے۔(صحیح البخاری،كتاب مناقب الأنصار، بَابُ ذِكْرِ هِنْدٍ، روایت نمبر ۳۸۲۵) فتح مکہ کے موقع پر امان کا اعلان کرتے ہوئے آپ خانہ کعبہ پہنچے۔ طواف کے دوران ایک شخص فضالہ بن عمیر آنحضرت ﷺ کو قتل کرنے کے ارادہ سے آپ کے قریب آیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے ناپاک ارادہ کی اطلاع کر دی۔ آپ نے اس کا نام لے کر اسے بلایا تو وہ گھبرا گیا۔ آپ نے پوچھا کس ارادے سے آئے ہو تو وہ جھوٹ بول گیا۔ آپ مسکرائے اور اسے اپنے قریب بلایا پیار سے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا۔ فضالہ بعد میں کہا کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا تو میری ساری نفرت دور ہو گئی اور مجھے ایسا لگا کہ دنیا میں سب سے پیارے محمد ﷺ ہیں اور یوں فضالہ اسلام قبول کر کے آپ کے جاںنثاروں میں شامل ہو گئے۔(سیرۃ الحلبیہ،الجزء الثالث، فتح مكة شرفها الله تعالى، جزء۳، صفحہ ۱۴۶) اللّٰھم صل علیٰ محمد و آل محمد محمد ہی نام اور محمد ہی کام علیک الصلوٰۃ علیک السلام (‘ایس اے ثاقب’) مزید پڑھیں: خاندانِ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی جماعت احمدیہ کی خاطر قربانیوں کی مختصر جھلک