(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍مارچ۲۰۱۵ء) حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے بعض متفرق قسم کی باتیں جو صحابہ کے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہیں وہ پیش کرتا ہوں۔ ایک جگہ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’جب شہدائے افغانستان پر پتھر پڑتے تھے تووہ گھبراتے نہیں تھے بلکہ استقامت اور دلیری کے ساتھ ان کو قبول کرتے تھے اور جب بہت زیادہ ان پر پتھر پڑے تو صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید، نعمت اللہ خان صاحب اور دوسرے شہداء نے یہی کہا کہ یا الٰہی! ان لوگوں پر رحم کر اور انہیں ہدایت دے۔ بات یہ ہے کہ جب عشق کا جذبہ انسان کے اندر ہو تو اس کا رنگ ہی بدل جاتا ہے۔ اس کی بات میں تاثیر پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے چہرے کی نورانی شعاعیں لوگوں کو کھینچ لیتی ہیں۔‘‘حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانے میں یہاں (یعنی قادیان میں ) ہزاروں لوگ آئے اور انہوں نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا تو یہی کہا کہ یہ منہ جھوٹوں کا نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے ایک لفظ بھی آپ کے منہ سے نہ سنا اور ایمان لے آئے۔‘‘ (اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف، انوار العلوم جلد 13 صفحہ 96) یہ مثالیں تو آجکل بھی ہمیں نظر آتی ہیں۔ مجھے کئی خطوط آتے ہیں جن میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی تو دیکھ کر ہی یہ کہا کہ یہ منہ جھوٹے کا نہیں ہو سکتا اور بیعت کر لی۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے تھے کہ تین قسم کے لوگ ہماری جماعت میں شامل ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بارہا سنا ہے آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو میرے دعوے کو سمجھ کر اور سوچ کر احمدی ہوئے ہیں۔‘‘ (اس زمانے میں اسلام کی حالت کافی خراب تھی اور مسلمانوں کا شیرازہ بالکل بکھرا ہوا تھا اس لئے مختلف قسم کی طبائع پیدا ہو چکی تھیں اور ان مختلف طبائع نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو سنا اور جماعت کو بنتا دیکھا تو قبول کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان لوگوں کی حالتوں کا ذکر فرما رہے ہیں کہ یہ تین قسم کے لوگ ہیں۔ یعنی پہلی قسم تو وہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ) … جو میرے دعوے کو سمجھ کر اور سوچ کر احمدی ہوئے ہیں۔ ’’وہ جانتے ہیں کہ میری بعثت کی کیا غرض ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جس رنگ میں پہلے انبیاء کی جماعتوں نے قربانیاں کی ہیں اسی رنگ میں ہمیں بھی قربانیاں کرنی چاہئیں۔ مگر ایک اور جماعت ایسی ہے جو صرف حضرت مولوی نورالدین صاحب کی وجہ سے ہمارے سلسلے میں داخل ہوئی ہے۔‘‘ (ان کو بعثت کی غرض نہیں پتا لیکن وہ صرف اس لئے داخل ہوئے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی۔ فرماتے ہیں کہ) ’’وہ ان کے استاد تھے۔ انہیں معزز اور عقلمند سمجھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب مولوی صاحب احمدی ہو گئے ہیں تو آؤ ہم بھی احمدی ہو جائیں۔ پس ان کا تعلق ہمارے سلسلے سے مولوی صاحب کی وجہ سے ہے۔ سلسلے کی غرض اور میری بعثت کی حکمت اور غایت کو انہوں نے نہیں سمجھا۔ اس کے علاوہ ایک تیسری جماعت بعض نوجوانوں کی ہے جن کے دلوں میں گو مسلمانوں کا درد تھا مگر قومی طور پر نہ کہ مذہبی طور پر وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا کوئی جتھا ہو‘‘۔ (یعنی مذہبی طور پر کوئی دردنہیں تھا لیکن مسلمانوں کی حالت دیکھ کر چاہتے تھے کہ کوئی جتھا ہو، ایک اکٹھ ہو۔ تو ایسے لوگ بھی جماعت میں شامل ہوئے اور پھر بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ مذہب پر زیادہ زور ہے تو ان میں سے بہت سارے پھر مختلف وقتوں میں علیحدہ بھی ہوگئے۔ خلافت ثانیہ میں ان میں سے بہت سے علیحدہ ہوئے۔ آجکل بھی جو مسلمانوں میں، نوجوانوں میں جوش ہے جو غلط طور پر جا کر بعض دہشتگرد تنظیموں میں شامل ہوجاتے ہیں وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ قومی طور پر ہمارا ایک جتھا ہونا چاہئے یا ایک ایسا گروہ ہونا چاہئے جس سے مسلمانوں کی قومیت کا احساس پیدا ہو اور مذہبی طور پر وہ کچھ بھی نہیں جانتے۔ اور بعض رپورٹس جو وہاں سے، عراق اور سیریا سے آتی ہیں ان میں یہی ہے کہ بہت سارے کام ان کے ایسے ہیں جب ان سے پوچھو کہ یہ قرآن اور حدیث کے مطابق نہیں ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ ہمیں اس کا نہیں پتا۔ ہمیں تو جو کچھ بتایا گیا ہے اور یہ جو ہماری ایک انفرادیت قائم ہو رہی ہے اس کو ہم نے اسلام کے نام پر قائم کرنا ہے تو اس طرح کے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قومی طور پر وہ چاہتے ہیں کہ ہم اکٹھے ہوں۔ ) ’’ان میں کچھ تنظیم ہو۔ ان میں انجمنیں قائم ہوں اور مدرسے جاری ہوں۔‘‘ (بعض قومی طور پریہ نیک کام کرنا چاہتے ہیں۔) ’’مگر چونکہ عام مسلمانوں کا کوئی جتھا بنانا ان کے لئے ناممکن تھا اس لئے جب انہوں نے ہماری طرف ایک جتھا دیکھا تو وہ ہم میں آئے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ مدرسے قائم کریں اور لوگ ڈگریاں حاصل کریں۔ اسی وجہ سے وہ ہمارے سلسلے کو ایک انجمن سمجھتے ہیں، مذہب نہیں سمجھتے۔ تو دنیا میں ترقیات کے جو ذرائع سمجھے جاتے ہیں وہ بالکل اَور ہیں اور دین میں جو ترقیات کے ذرائع سمجھے جاتے ہیں وہ بالکل اَور ہیں۔ انجمنیں اَور طرح ترقی کرتی ہیں اور دین اَور طرح۔ دین کی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اخلاق کی درستی کی جائے۔‘‘ (دین کی ترقی کے لئے ضروری چیز ہے کہ اخلاق درست ہوں۔ اعلیٰ اخلاق ہوں۔ ) ’’قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کیا جائے۔ نمازیں پڑھی جائیں‘‘ (تا کہ روحانیت میں ترقی ہو۔) ’’روزے رکھے جائیں۔ اللہ تعالیٰ پر توکّل پیدا کیا جائے۔ اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا جائے۔ اگر ہم یہ تمام باتیں کریں گے تو گو دنیا کی نگاہ میں ہم پاگل قرار پائیں گے مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہم سے زیادہ عقلمند اور کوئی نہیں ہو گا۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ مسلمان جب مالی قربانیاں کرتے ہیں تو منافق کہا کرتے ہیں کہ یہ مسلمان تو احمق ہیں۔ بس روپیہ برباد کیئے چلے جا رہے ہیں۔ انہیں کچھ ہوش نہیں کہ اپنے روپیہ کو کسی اچھے کام پر لگائیں۔ اسی طرح جب وہ اوقات کی قربانی کرتے تو پھر وہ کہتے کہ یہ تو پاگل ہیں۔ اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔ انہوں نے ترقی خاک کرنی ہے۔ گویا مسلمانوں کو یا وہ احمق قرار دیتے یا ان کا نام مجنون رکھتے۔ یہی دو نام انہوں نے مسلمانوں کے رکھے ہوئے تھے۔ مگر دیکھو کہ پھر وہی احمق اور مجنون دنیا کے عقلمندوں کے استاد قرار پائے۔ پس ہماری جماعت جب تک وہی احمقانہ رویّہ اختیار نہیں کرے گی جس کو کافر اور منافق احمقانہ قرار دیتے تھے اور ہماری جماعت جب تک وہی مجنونانہ رویّہ اختیار نہیں کرے گی جس کو کافر اور منافق مجنونانہ رویّہ قرار دیتے تھے اس وقت تک اسے کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر جھوٹ بھی بول لیا کرو۔ اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر دھوکہ فریب کر بھی لیا کرو۔ اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر چالبازی سے کام لے لیا کرو۔ اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر غیبت اور چغلی سے بھی کبھی کبھی فائدہ لے لیا کرو اور پھر یہ امید رکھو کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو جائے تو یاد رکھو تمہیں ہرگز وہ کامیابی حاصل نہیں ہو گی جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا ہے۔ یہ چیزیں دنیا کی انجمنوں میں بیشک کام آیا کرتی ہیں۔‘‘ (دھوکہ بھی، فریب بھی، غیبت بھی، چغلی بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا بھی) ’’مگر دین میں ان کی وجہ سے برکت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی لعنت اترا کرتی ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد 19 صفحہ 686-688۔ الفضل 27 ستمبر 1938ء صفحہ 3) اس لئے تمام اعلیٰ اخلاق، روحانیت میں ترقی، یہ چیزیں دینی جماعتوں میں ہونی چاہئیں۔ پس ہر احمدی کو اپنے ایمانداری کے معیاروں کو، روحانیت کے معیاروں کو بہت بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: اشتہارات کی اشاعت۔ مسیح موعودؑ کی آمد کا ایک مقصد