خدا کا ارادہ ہے کہ کفار کی بدی اور ظلم کو مومنوں سے دفع کرے یعنی مومنوں کو دفاعی جنگ کی اجازت دے تحقیقاً خدا خیانت پیشہ ناشکر لوگوں کو دوست نہیں رکھتا۔ خدا اُن مومنوں کو لڑنے کی اجازت دیتا ہے جن پر کافر قتل کرنے کے لئے چڑھ چڑھ کے آتے ہیں اور خدا حکم دیتا ہے کہ مومن بھی کافروں کا مقابلہ کریں کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور خدا اُن کی مدد پر قدرت رکھتا ہے یعنی اگرچہ تھوڑے ہیں مگر خدا اُن کی مدد پر قادر ہے۔ یہ قرآن شریف میں وہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ کی اجازت دی گئی۔ آپ خود سوچ لو کہ اس آیت سے کیا نکلتا ہے۔ کیا لڑنے کے لئے خود سبقت کرنا یا مظلوم ہونے کی حالت میں اپنے بچاؤ کے لئے بمجبوری مقابلہ کرنا۔ ہمارے مخالف بھی اس بات کو جانتے ہیں کہ آج ہمارے ہاتھ میں وہی قرآن ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شائع کیا تھا۔ پس اُس کے اس بیان کے مقابل پر جو کچھ برخلاف اس کے بیان کیا جائے وہ سب جھوٹ اور افترا ہے۔ مسلمانوں کی قطعی اور یقینی تاریخ جس کتاب سے نکلتی ہے وہ قرآن شریف ہے۔ اب ظاہر ہے کہ قرآن شریف یہی بیان کرتا ہے کہ مسلمانوں کو لڑائی کا اُس وقت حکم دیا گیا تھا جب وہ ناحق قتل کئے جاتے تھے اورخدا تعالیٰ کی نظر میں مظلوم ٹھیر چکے تھے اور ایسی حالت میں دو صورتیں تھیں یا تو خدا کافروں کی تلوار سے اُس کو فنا کردیتا اور یا مقابلہ کی اجازت دیتا اور وہ بھی اس شرط سے کہ آپ اُن کی مدد کرتا کیونکہ اُن میں جنگ کی طاقت ہی نہیں تھی۔ اور پھر ایک اور آیت ہے جس میں خدا نے اس اجازت کے ساتھ ایک اور قید بھی لگادی ہے اور وہ آیت سیپارہ دوم سورۃ البقرۃ میں ہے اور اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ جو لوگ تمہیں قتل کرنے کے لئے آتے ہیں اُن کا دفع شر کے لئے مقابلہ تو کرو مگر کچھ زیادتی نہ کرو اور وہ آیت یہ ہے۔ وَقَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ (البقرۃ:۱۹۱) یعنی خدا کی راہ میں اُن لوگوں کے ساتھ لڑو جو لڑنے میں سبقت کرتے ہیں اور تم پر چڑھ چڑھ کے آتے ہیں مگر اُن پر زیادتی نہ کرو اور تحقیقاً یاد رکھو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ۳۹۱-۳۹۲) ایسے نازک وقت میں یہ راقم آپ کو صلح کے لئے بلاتا ہے جبکہ …صلح کی بہت ضرورت ہے۔دنیا پر طرح طرح کے ابتلا نازل ہو رہے ہیں۔زلزلے آرہے ہیں۔قحط پڑ رہا ہے اور طاعون نے بھی ابھی پیچھا نہیں چھوڑا اور جو کچھ خدا نے مجھے خبردی ہے وہ بھی یہی ہے کہ اگر دنیا اپنی بدعملی سے باز نہیں آئے گی اور بُرے کاموں سے توبہ نہیں کرے گی تو دنیا پر سخت سخت بلائیں آئیں گی اور ایک بلا ابھی بس نہیں کرے گی کہ دوسری بلا ظاہر ہو جائے گی۔آخر انسان نہایت تنگ ہو جائیں گے کہ یہ کیاہونے والا ہے۔اور بہتیری مصیبتوں کے بیچ میں آکر دیوانوں کی طرح ہو جائیں گے۔سو اے ہموطن بھائیو! قبل اس کے کہ وہ دن آویں ہوشیار ہوجاؤ۔… اور جس قوم میں کوئی زیادتی ہے جو وہ صلح کی مانع ہو اس زیادتی کو وہ قوم چھوڑ دےورنہ باہم عداوت کا تمام گناہ اسی قوم کی گردن پر ہوگا۔ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳، صفحہ ۴۴۴) مزید پڑھیں: انسان کے لیے لازمی اَمر ہے وہ استغفار میں ہمیشہ مشغول رہے