اگر آپ اُن سب نعمتوں کو شمار کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہیں تو آپ میں اللہ تعالیٰ کے قرب اور خشوع کا حقیقی تصوّر پیدا ہو جائے گا مورخہ ۹؍نومبر ۲۰۲۵ء، بروزاتوار، امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ سویڈن کی تین بڑی مجالس Gothenburg، malmöاورStockholmسے تعلق رکھنے والے خدام پر مشتمل اٹھائیس(۲۸) رکنی ایک وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےسویڈن سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِانور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ سب سے پہلے امیرِ قافلہ نے وفد کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ حاضرین میں سے کئی خدام طویل عرصے کے بعد حضور ِانور کی صحبتِ صالحہ سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ اس پر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ سویڈن برطانیہ سے زیادہ دُور تو نہیں ہے۔ بعدازاں تمام شاملین ِمجلس کو حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں فرداً فرداً اپنا تعارف پیش کرنے کا موقع بھی ملا۔ مزیدبرآں دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو حضور انور کی خدمت میں متفرق سوالات پیش کرنے نیز اُن کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ کیا بچپن یا جوانی کے دوران کوئی ایسے استاد، مربی یا راہنما تھے، جن سے حضورِانور کو خاص طور پر روحانی راہنمائی یا تحریک حاصل ہوئی ہو؟ اس پر حضور ِانور نے انتہائی پُر شفقت اور محبّت بھرے انداز میں ذکر فرمایا کہ ہمارا سارا ماحول ہی استاد تھا۔ ہم ربوہ میں رہتے تھے اور سارے لوگ ہی تربیت کرتے تھے۔ ہمارے سارے ٹیچر نیک، پڑھانے والے اور دین دار تھے۔ اور اطفال اور خدام میں جو جماعتی نظام تھا، سارے نصیحتیں کرنے والے تھے۔تو ہمارا تو ماحول ہی اَور تھا۔ تمہاری طرح یہاں شہروں میں تو نہیں رہتے تھے۔ربوہ کا ماحول اس وقت بہت اچھا تھا اور سارے ہی inspire کرنے والے تھے۔ ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ آج کل بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب تک میاں بیوی دونوں کام نہ کریں، گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے، لیکن اِس سے بچوں کی تربیت متاثر ہوتی ہے۔ اس بارے میں حضورِانور سے راہنمائی کی درخواست ہے۔ اس پر حضورِانور نے نہایت پُر حکمت انداز میں فرمایا کہ مَیں کیا کہہ سکتا ہوں۔ آپ کو خود پتا ہے کہ آپ کے کتنے خرچے ہیں اور بچوں کے اخراجات پورے ہوتے ہیں کہ نہیں۔یہ تو آپ ہی بتا سکتے ہیں۔ پھرحضورِانور نے قناعت اختیار کرنے اور بچوں کی تربیت کی بابت توجہ دلائی کہ مجھ سے پوچھیں تو مَیں کہوں گا کہ قناعت کرو، تو اخراجات پورے ہو جاتے ہیں اور بچوں کی تربیت تو بہرحال پہلا فرض ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بچے دیے ہیں، تو ان کی تربیت کرنا بھی تو فرض ہے اور ماں باپ کی ذمہ داری ہے، کام پر لگ کے اپنے بچوں کی تربیت خراب نہیں ہونی چاہیے۔ حضورِانور نے بہبودِ انسانی کی غرض سے فلاحی کام کرنے والی خواتین کو اپنے وقت کو منظّم کرنے اور چھوٹے بچوں کو وقت دینے کے سلسلے میں راہنمائی عطا فرمائی کہ ویسے اگر کوئی ایسے پروفیشن میں ہے جس کا انسانیت کو فائدہ ہو رہا ہے، مثلاً اگر کوئی عورت ڈاکٹر یا ٹیچر ہے اور وہ کام کر رہی ہے، تو ٹھیک ہے۔ تو ایسےاپنے وقت کو organiseکرے کہ جو بچے چھوٹی عمر کے ہیں، ان کو تو خیر وقت دینا چاہیے۔ اسی طرح حضورِانور نے سکول جانے والے بچوں کے حوالے سے بھی والدین کو ہدایت فرمائی کہ جب بچے سکول جانے لگ جائیں، تو پھر ان سے پہلے کہ یہ بچے سکول سے گھر آئیں، ماں باپ میں سے کوئی نہ کوئی گھر میں موجود ہونا چاہیےتاکہ ان کو receiveکرے اور ان کاخیال رکھے۔ نہیں تو پھر بچے آئیں گے اور دیکھیں گے کہ نہ ماں گھر میں ہے اور نہ باپ، فریج کھولیں گے اور کوئی ٹوسٹ یا بسکٹ یا کوئی چیز نظر آئے گی تو کھا لیں گے، کچھ اورنہیں ہوگاتو ویسے ہی وہ کہیں گے کہ امّاں نے کچھ بھی نہیں بنایا۔ پھر اس کے بعد کوئی نگرانی کرنے والا نہیںتو کھیلنے کُودنےکے لیے باہر چلے جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ کسی غلط صحبت میں بھی پڑ جائیں، تو اس لیے بہتر یہ ہے کہ اگر کام کرنا بھی ہےتو اس طرح organise کرو کہ بچے جب سکول سے گھر آئیں، تو ماں باپ میں سے کوئی نہ کوئی ان کو وقت دے سکے۔ آخر میں حضورِانور نے دنیاوی اخراجات کو محدود رکھنے اور خواہشات پر قابو پانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ باقی خرچے کم کریں تو ٹھیک ہے۔ اگر دنیا کی خواہشات بڑھتی جائیں، تو کہیں اس کی تو limit ہی کوئی نہیں، وہ تو بڑھتی چلی جائیں گی اور اپنے سے اُوپر آگے کاآگے ہی نظر آتا جائے گا۔ اس لیے حدیث میں آیا ہے کہ تم نےدنیاوی معاملات، امارت یا پیسے یا دولت میں دیکھنا ہو، تو اپنے سے کم کو دیکھو تاکہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بہتر بنایا ہے۔ اور دینی معاملات میں اپنے سے اُوپر والے کو دیکھو تویہ خواہش پیدا ہو کہ مَیں بھی دینی معاملات میں اتنی ترقی کرنے والا ہوں کہ وہاں تک پہنچوں اور مجھے بھی اللہ تعالیٰ سے خالص تعلق پیدا ہو جائے۔ تو اگر یہ سوچ ہو تو پھر دنیاوی خواہشات کنٹرول میں رہتی ہیں۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ اگر کسی شخص نے پاکستان میں ملازمت حاصل کی ہو اور اس نے اپنا مذہب ظاہر نہ کیا ہو، تو ملازمت کے دوران اگر اسے نماز پڑھنے کے لیے کہا جائے، تو وہ اس صورتحال کو کس طرح مناسب طریقے سے سنبھال سکتا ہے؟ اِس پر حضورِانور نے پیش آمدہ ایسی صورتحال سے بچنے کے ضمن میں حکمت سے کام لینے کی بابت توجہ دلائی کہ کہو کہ مَیں نماز پڑھ لوں گا، مجھے چھوڑیں، حکمت سےavoidکرو۔ حضورِانور نے استثنائی صورتحال میں اس طرزِ عمل کو اپنانے کی تلقین بھی فرمائی کہ ہو سکتا ہے کہ اگر کہیں trap ہو ہی جاؤ یاپھنس جاؤ، تو پھر ٹھیک ہےکہ جان بچانے کےلیے مجبوری ہے۔ اور اگر نماز کسی کے پیچھے پڑھ بھی لیتے ہو، تو اس نماز میں اِستغفار پڑھتے رہو اور بعد میں اپنی علیحدہ نماز پڑھ لو۔ اسی تناظر میں حضورِانور نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی الله عنہ کی ارشادفرمودہ نصیحت کا بھی تذکرہ فرمایا کہ جس طرح حج کے موقع پر حضرت خلیفہ اوّل رضی الله عنہ نے ایک شخص کو کہا تھا کہ اگر تم اس طرح ہو جاؤ اور مجبوری ہو اور تمہیں خوف ہو کہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا، تو پھر جو امام نماز پڑھا رہا ہے، اس کے پیچھے نماز پڑھ لو اور اس کے بعد گھر میں آ کے اپنی نماز پڑھ لو۔ یہی حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے حج کے دوران کیا تھا، اور جب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کو آ کے بتایاتو انہوں نے کہا کہ تم نے ٹھیک کیا اور مَیں نے اس شخص کو بھی یہی کہا تھا کہ اگر تمہیں کمزوری ہے اور تم خوفزدہ ہو تو پھر ٹھیک ہے کہ اس وقت تو ان حالات میں نمازپڑھ لو اور بعد میں گھر آ کے تو پھر اپنی نماز علیحدہ پڑھو، اُن کی امامت کو تو ہم نہیں مانتے۔ ایک شریکِ مجلس نے سوال کیا کہ اگر ایک خادم کے پاس مربی بن کر جماعت کی خدمت کرنے یا سائنسدان بن کر انسانیت کی خدمت کرنے کی چوائس ہو، تو پیارے آقا اسے کیا کرنا چاہیے؟ اِس پرحضور ِانور نے انتہائی بصیرت افروز انداز میں دلچسپی اور خدمت کے امتزاج پر روشنی ڈالی کہ سائنسدان بن کے بھی جماعت کی خدمت ہو سکتی ہے اور مربی بن کے بھی جماعت کی خدمت ہو سکتی ہے، تو جس چیز میں دلچسپی زیادہ ہے وہ کرو۔ اگر سائنس میں دلچسپی ہے کہ سائنسدان بن جاؤںتو اس میں ترقی کرو۔ اور جب ترقی کرو گے تو اپنے اس ماحول میں excel کرو اور اتنے اُوپر جاؤ کہ وہاں تمہارے ارد گرد کا ماحول تمہارے سے متاثر ہو۔پھر وہاں تمہارےلیے تبلیغ کے راستے کھل جائیں گے اور وہیں تم مبلغ، مربی اور جماعت کی خدمت کرنے والے بن جاؤ گے۔ لیکن ساتھ دین کا علم بھی حاصل کرو۔ حضورِانور نےبطور حقیقی احمدی کسی بھی صورت میں دل میں پائے جانے والے جماعتی خدمت کے جوش و جذبہ کے لیے اپنی حالت کی بہتری کو ضروری قرار دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ اسی طرح جو مربی ہے، اس کو بھی اپنی فیلڈ میں ترقی کرنی چاہیے، اصل کام تو یہی ہے کہ جماعت کے افراد کی تربیت اور دوسروں کو اسلام کا پیغام پہنچانا۔ اگر اپنی تربیت صحیح نہ ہو تو انسان جماعت کی تربیت کیا کرے گا ؟ اس لیے چاہے تم سائنسدان بن رہے ہو یا مربی بن رہے ہواگر حقیقی احمدی ہو تو اس سوچ کے ساتھ کام کرو کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر عمل کرنا ہے اور میرے دل میں جماعت کی خدمت کا جوجذبہ اور جوش ہے، چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو، تو اس کے لیےمَیں نے اپنی حالت کو بہتر کرنا ہے۔جب حالت کو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق بہتر کرو گے تو پھر تربیت کے راستے کھل جائیں گے اور ساتھ ہی تبلیغ کے راستے بھی کھل جائیں گے۔ حضورِانور نے انسانیت اور جماعتی خدمت کے تناظر میں ذاتی دلچسپی اوردینی رغبت کی اہمیت کو بھی اُجاگر فرمایا کہ تو دونوں میں سے جو پسند ہے وہ کرو۔ بعض دفعہ لڑکا کہتا ہے کہ مَیں نے مربی بننا ہے، ماں باپ کہتے ہیں کہ نہیں! تم سائنس پڑھ لو، ڈاکٹر بن جاؤ یافلاں کر لو، یا ماں باپ کہتے ہیں کہ مربی بن جاؤ، توتم کہتے ہو کہ نہیں! مَیں نے تو ڈاکٹر بننا ہے۔ تو جس چیز میں دلچسپی ہے وہ کرو۔ مَیں تو یہی کہا کرتا ہوں جب لوگ میرا مشورہ مانگتے ہیں۔ نیز واضح فرمایا کہ انسانیت اور جماعت کی خدمت دونوں صورتوں میں ہو سکتی ہے۔ انسان کا اپنا جذبہ ہونا چاہیے، دین کا علم ہونا چاہیے اور خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق ہونا چاہیے۔ ایک سائنسدان بن کے دنیا میں پڑ جاؤ اور خدا کو بھول جاؤ، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آخر میں حضورِانور نے نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی مثال پیش کرتے ہوئے ہر شعبے میں قرآنی راہنمائی اور دینی وابستگی کی ضرورت پر زور دیا کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بڑے سائنسدان تھے، ابھی تک فی الحال جماعت میں ایک ہی ایسا سائنسدان پیدا ہوا ہے، اور وہ نمازیں پڑھنے والے، تہجد پڑھنے والے، قرآن کریم پرغور کرنے والے نیک آدمی بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ قرآنِ شریف میں سینکڑوں آیتیں ایسی ہیں، جو سائنس کے اوپر مجھے گائیڈ کرتی ہیں، آخر انہوں نے نوبیل انعام لے لیا اور وہ کہتے تھے کہ مجھے تو راہنمائی قرآنِ شریف سے ملتی ہے۔ تو مربی نے بھی قرآنِ کریم پڑھنا ہے اور سائنسدان نے بھی قرآنِ کریم پڑھنا ہے اور اللہ سے تعلق رکھنا ہے۔ اس سوچ کے ساتھ کام کرو تو جو مرضی بنو۔ ایک خادم نے راہنمائی کی درخواست کی کہ زندگی کے کس مرحلے پر انسان کو اپنی زندگی وقف کرنی چاہیے؟ اِس پر حضورِانور نے نہایت سادہ مگر پُر اثر انداز میں فرمایا کہ جب بھی بطور واقفِ زندگی آپ اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو وقفِ نَو ہیں، مَیں ان سے کہتا ہوں کہ وہ پندرہ سال کی عمر میں اپنے وقف کی تجدید کریں یعنی جب وہ کسی حدّ تک بالغ ہو جاتے ہیں اور پھر تعلیم مکمل کرنے کے بعد دوبارہ اپنے عہد کی تجدید کریںتاکہ وہ بہتر طور پر جان سکیں کہ اگر وہ واقفِ زندگی بن رہے ہیں، تو وہ کیا کرنے جا رہے ہیں، اور اپنی خوشی اور خواہش سے وہ وقف کر رہے ہیں۔ حضورِانور نے اپنی ذاتی مثال کی روشنی میں وقف کے لیے مناسب وقت، دلی آمادگی اور ذاتی فیصلہ کی اہمیت کو واضح فرمایا کہ مَیں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی زندگی وقف کے لیے پیش کی تھی۔ پس جب کبھی بھی آپ تیار ہوں اور آپ غور و فکر کے بعد خیال کریں اور خوب تدبّر کر کےاس نتیجے پر پہنچیں کہ آپ وقفِ زندگی کی ذمہ داریاں اور اس کے ساتھ جُڑے قربانی کے تقاضے پورے کرنے کے لیےتیار ہیں تو پھر آپ اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کر سکتے ہیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ سولہ سال کی عمر میں ہی بالغ ہو چکے ہیںتو آپ اس عمر میں بھی وقف کر سکتے ہیں، لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ابھی مَیں نے تعلیم مکمل کرنی ہے اور جماعت کے لیے کسی مفید علم یا خدمت کے قابل بننا ہے تو پھر تعلیم مکمل کرنے کے بعد وقف کر سکتے ہیں۔ حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ پس اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔اصل چیز تو آپ کا دل ہی ہے جو آپ کو بتاتا ہے کہ وقف کب کرنا ہے۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ قرآنِ کریم کے بعض حصّے metaphorical (تمثیلی یا استعارتی) زبان میں کیوں نازل ہوئے ہیں ؟ اس پر حضورِانور نے قرآنی تعلیم کی روشنی میں واضح شرعی احکام اور متشابہات کی بابت اصولی راہنمائی عطا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہا ہے کہ کچھ احکاماتclearہیں، کچھ متشابہات ہیں، اور اس لیے جو صاف صاف باتیں ہیں، ان پر تم عمل کرو۔ اور جو دوسری باتیں ہیں، ان کے کئی مطلب ہیں اور اس کی تشریحات اور تفسیریں ہیں، جو علماء بتاتے ہیں اور آدمی خود غور کرے توآدمی کو پتا لگتا ہے۔ تو جو clear-cut شریعت کے حکم ہیں، اس میں تو کوئی روک نہیں ہے وہ تو صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، اچھے اخلاق دکھاؤ، یتیموں کا خیال رکھو، غریبوں کا خیال رکھو، چیریٹی کرو، قانون کی پابندی کرو اور دین کے معاملے میں اطاعت کرو، یہ سارےclearحکم ہیں، یہ کر لو۔ حضورِانور نے ایک حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں کامل اخلاص کے ساتھ فرائض کی ادائیگی کا اجر بیان کرتےہوئے توجہ دلائی کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ کیا کیا حکم ہیں؟ آپؐ نے ساری باتیں بتائیں کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج فرض ہے اور پھر اس کے مطابق جو اسلامی تعلیمات تھیں، ساری اس کو بتا دیں کہ یہ یہ فرائض ہیں۔ اس نے کہا کہ فرائض کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ یہ فرائض ہیں، سارے فرائض کی لسٹ بتا دی، جو ہر ایک کو already پتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ یہ نوافل ہیں، یہ زائد چیزیں ہیں جو تم کرتے ہو۔ تو اس نے کہا کہ خدا کی قسم!مَیں تو صرف جو فرائض ہیںوہی ادا کروں گا اس سے زیادہ مَیں کچھ نہیں کروں گا۔ جب وہ چلا گیا، توآنحضرتؐ نےصحابہؓ سے فرمایا کہ اگر sincerely، حقیقت میں ،پورے حق ادا کرتے ہوئے اپنے یہ فرائض ادا کر دے گا تو یہ جنّت میں چلا جائے گا۔ اسی تناظر میں حضورِانور نے فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں حق ادا کرنے کی بابت مزید توجہ دلائی کہ تو اس فکر میں نہ پڑو کہmetaphorical کیوں ہے اور کیا ہے، وہ تو علمی باتیں ہیں۔ جتنا آپ کا علم ہے، اس میں ترقی کرتے جائیں گے تو پھر ان باتوں کی سمجھ آتی جائے گی۔ جو فرائض ہیںان کو ادا کرتے رہیں تو آپ کے لیے اللہ میاں نے کہا ہے کہ مَیں تو تمہیں جنّت میں لے جاؤں گا۔ تو اس لیے پہلے غور کرو کہ ہم فرائض ادا کر رہے ہیں کہ نہیں؟کیا مَیں نمازوں کا حق ادا کر کے نمازیں پڑھ رہا ہوں؟کیا میں حق ادا کرتے ہوئے روزے ادا کر رہا ہوں؟ مَیں کیا غریبوں کا حق ادا کرتے ہوئے ان کی خدمت کر رہا ہوں اور چیریٹی کر رہا ہوں؟ کیا اپنے رشتہ داروں سے حُسنِ سلوک کا جو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہےوہ مَیں کر رہا ہوں؟ نکاح اورشادی کے بعد اللہ تعالیٰ کا بڑا واضح حکم ہے کہ بیوی بچوں کا خیال رکھو اور رشتہ داروں کا خیال رکھو۔ تو مَیں یہ حق ادا کر رہا ہوں؟ تو یہ میاں بیوی دونوں کو سوچنا ہوگا۔ باقی اَور بہت ساری باتیں ہیں۔ پھر حضورِانور نے علمی و روحانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ معرفت میں تدریجی ترقی کے اصول کو بھی نہایت حکیمانہ انداز میں واضح فرمایا کہ اب آپ سائنس یا دوسری چیزوں میں پڑھتے ہیں، بہت ساری چیزیں ایسی ہیں کہ وہ آپ کو سمجھ نہیں آتیں توآپ کودوسروں سے مدد لینی پڑتی ہے۔ ہر چیز black and white میں سامنے تو نہیں آ جاتی۔ شریعت نے جو موٹے اصول بتا دیےکہ یہ باتیں ہیں، یہ حکم کرنے والے ہیں، یہ تم کرو۔ اور یہ چیزیں ایسی ہیں جو علمی باتیں ہیں، ان میں تم ترقی کرو گے تو جہاں جہاں تمہاری روحانیت ترقی کرتی جائے گی، جہاں تمہارا علم ترقی کرتا جائے گا، جس طرح تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھتا جائے گا، توتمہیں ان باتوں کی سمجھ آتی جائے گی۔ حضورِانور نے قرآنی احکام کی تاویلات سے اجتناب برتنے اور ان کی حقیقی تفہیم حاصل کرنے کی ضرورت و اہمیت کو بھی اُجاگر فرمایا کہ اگر تم ان تشبیہات کو لے کے عمل نہ کرو، ان کے غلط مطلب نکالتے رہو، تو پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں تمہیں سزا بھی دوں گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو اہلِ علم ہیں، جو مفسّرین ہیں ان کی باتوں پر غور کرو۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآنِ شریف کے بھی کئی بطن ہیں، اس کی آیتوں کے کئی مطلب ہیں اور اس کی تشریح ہوتی ہے، تفاسیر ہوتی ہیں اور اپنے وقت پر تفسیریں کھلتی رہتی ہیں۔ اس لیے علماء پُر انے زمانے میں بھی اور بعد میں بھی اس کی تفسیریں کھولتے رہے۔ جب کسی کا اس کے لحاظ سے status بلند ہوتا جاتا ہےتو وہ ان باتوں پر بھی ترقی کرتا چلا جاتا ہے، لیکن اگر اس کا بہانہ بنا کے کہ یہ شبہے والی بات ہے اور اس میں تم اپنے مطلب کی بات نکال لو کہ جس میں تمہاری favourہو، جس طرح بعض فرقوں نے نکال لیا ہے کہ پانچ نمازوں کا تو حکم نہیں ہے اور اس لیے تین یا چار پڑھ لو۔ بعض فرقے اسلام میں بھی ایسے ہیں کہ جنہوں نے نمازوں پر پابندیاں ہٹا دیں یا نماز پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ چکر نہ چلاؤ، اس سے گناہ ہوگا۔ تو الله تعالیٰ نے مزید ثواب میں بڑھانے کے لیے، ہمارے علم کو بڑھانے کے لیے، ہماری سوچوں کو بڑھانے کے لیے بعض چیزیں غور طلب رکھی ہیں، تفاسیر پڑھو گے، تو ان کی سمجھ آتی ہے۔ آخر میں حضورِانور نے اس نصیحت کا بھی اعادہ فرمایا کہ لیکن بنیادی چیزیں وہی ہیں کہ جوclear-cut احکامات ہیں۔ ان پر عمل کرو تواللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں تمہیں معاف کردوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی شرط تو نہیں رکھی کہ جو شُبہ والی یا metaphorical باتیں ہیں یا تشبیہات جو دی ہوئی ہیں، اس پر عمل نہیں کرو گے، تو مَیں تمہیں جہنّم میں ڈالوں گا۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ نہیں!تم نماز قرآن پڑھو، باقی اللہ اور غیب پر ایمان رکھو، توبس تمہارے لیے یہی کافی ہے۔ جس طرح جس طرح تمہارا علم بڑھتا جائے گا اور تم تفسیریں پڑھو گے تو تمہیں متشابہات اور metaphors کا پتا بھی لگتا جائے گا۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ مَیں اپنی روزانہ کی نمازوں میں خشوع و خضوع کس طرح پیدا کر سکتا ہوں؟ اس پر حضورِانور نے استفہامیہ انداز میں خادم سے متفرق دینی و ایمانی امور کی بابت استفسار فرمایا کہ آپ ایمان رکھتے ہیں کہ اسلام ایک سچا مذہب ہے، آپ یقین رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی خاتم النبیین ہیں، آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ة والسلام کو وہ وجود تسلیم کرتے ہیں کہ جنہیں اسلام کی تجدید کے لیےآخری زمانے میں مبعوث ہونا تھا، کیا آپ نظامِ خلافت پر ایمان رکھتے ہیں، آپ یہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بے شمار احکامات عطا فرمائے ہیں، جن میں بہت سے اَوامر و نواہی ہیں، جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے اوراللہ تعالیٰ نے ہمیں بالکل واضح تعلیم دی ہے، آپ یہ مانتے ہیں کہ جو کچھ آپ کو حاصل ہو رہا ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، وہ ربّ العالمین ہے اور وہی ہر ایک کو رزق دینے والا اور پالنے والا ہے؟ ان تمام سوالات کے اثبات میں جواب سماعت فرمانے کے بعد حضورِانور نے توجہ دلائی کہ اور اسی نے آپ کو یہ زرخیز دماغ عطا فرمایا ہےتا کہ آپ ان باتوں پر غور کریں اور اللہ تعالیٰ کی محبّت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور یہی آپ کی خواہش ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی محبّت حاصل کریں۔ حضورِانور نے خداداد فراست کی روشنی میں پُرمعارف، دلنشین اور روح پرور انداز میں حقیقی خشوع اور قُربِ الٰہی کے حصول کے عملی تصوّر کو بھی واضح فرمایا کہ اگر آپ ان تمام باتوں کوشمار کریں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا مشاہدہ کریں جو اس نے آپ پر کی ہیںتو یقیناًآپ اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بندے بن جائیں گے۔ جب آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں، اس کی حمد کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس نے آپ کے فائدے کے لیےآپ کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں، تو اس سے آپ کے جذبات اُبھریں گے اور اس کے نتیجے میں آپ اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی آپ پر کی گئی رحمتوں پر غور کریں گے اور یہی کیفیت آپ کو مزید عاجز اور منکسر المزاج بنا دیتی ہے۔ جب اس قسم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، تو یقینا ًپھر آپ روتے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان روحانی جذبات کو پہلے سے بھی بڑھا دے۔ اسی کیفیت کو خشوع کہا جاتا ہے۔ آخر میں حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ پس اگر آپ ان سب نعمتوں کو شمار کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہیں تو آپ میں اللہ تعالیٰ کے قرب اور خشوع کا حقیقی تصوّر پیدا ہو جائے گا۔ ایک خادم کی جانب سے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں موجودہ عالمی تناظر میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ آج کل لوگ کہتے ہیں کہ AI یعنی مصنوعی ذہانت پانچ سے دس سال میں کئی ملازمتوں کی جگہ لے لے گی۔ اس پر حضورِانور نے تصدیق فرمائی کہ یہی ہو جائے گا اور اس کے بعد یہ بھی کہتے ہیں کہ گورنمنٹوں کو بھی ہوشیار ہو جانا چاہیے، کیونکہ جب ملازمتیں ختم ہوں گی، تو گورنمنٹوں کو ٹیکس نہیں ملے گا۔ لوگ کماتے ہیں، تو ٹیکسpay کرتے ہیں اور ان ٹیکسوں سے ہی گورنمنٹ چل رہی ہوتی ہے۔ اور جبincome کم ہو جائے گی، تو ان کی economies بالکل گرنی شروع ہو جائیں گی اور پھر گورنمنٹ کہے گی کہ اوہو! اب تو AIکو بند کرو۔ تو کہیں نہ کہیں ان کو کبھی نہ کبھیsenseآ ہی جائے گی۔ موصوف نے مزید سوال کیا کہ اس صورتحال میں ہم نوجوانوں کو کن فیلڈز میں جانا چاہیے؟ جس پر حضور ِ انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ جس فیلڈ میں بھی جاؤ گے وہاں AI آ جائے گی اور اس نے مصیبت ڈالی ہوئی ہے۔ اسی طرح AIکے بڑھتے ہوئے اثرات اور مستقبل میں ملازمتوں کے بحران کے تناظر میں درپیش ممکنہ صورتحال پر متنبّہ فرمایا کہ ملازمتیں تو کم ہوں گی، جیسا کہ پہلے مَیں نے تمہیں بتا دیا ہے، تو اس کا حل یہی ہے کہ contentmentپیدا کرو۔ پُرانے زمانے کی طرح ہل چلا کے روٹی پکاؤ اور کھاؤ، تو پھر ہماراوہی کام رہ جائے گا۔ صرف چند ایک امیر لوگ رہ جائیں گے اور جب وہ لوگ رہ جائیں گے، تو پھر پیچھے کچھ نہیں ہوگا۔ حکومتوں کی economy بھی بالکل flop کر جائے گی، تو پھر کیا ہوگا کہ تباہی ہوگی۔ اسی تباہی کی طرف انسان چل رہا ہے، یا تو وہ اللہ کو پہچانے گا یا پھر تباہ ہو جائے گا۔ اس لیے جس فیلڈ میں بھی جاؤ گے، یہی میرا خیال ہے کہ اس میں تمہاری ساری یا شایدآدھی زندگی گزر جائے گی، اگلے بچوں کی فکر کرو کہ وہ بیچارےکیا کریں گے۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ احمدیوں کوعاجزی اور عزتِ نفس کے درمیان کس طرح ایک توازن قائم رکھنا چاہیے؟ تاکہ جماعت کے نام کو نقصان نہ پہنچے، کیونکہ جس طرح کبھی کبھی کام پر یا باہر جھگڑے ہو جاتے ہیں۔ اِس پر حضورِانور نے سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں انتہائی لطیف پیرائے میں سمجھایا کہ وقار علیحدہ چیز ہے، عاجزی علیحدہ چیز ہے۔self-respectوقار اورdignityکو کہتے ہیں۔ humilityعاجزی ہے۔ اپنے آپ کو ہر بات میںboastکرنا اور تکبّرسے باتیں کرنا، اس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس چیز سے منع نہیں کیا کہ تم اپنا وقار قائم نہ کرو۔ اپنا وقار قائم کرو گے تو لوگ بھی عزت کریں گے۔ اب بعض لوگ بہت عاجز ہوتے ہیں، لوگ ان کی عزت کرتے ہیں اور اس بات کی وجہ سے عزت کرتے ہیں کہ ان میں بڑی عاجزی ہے اور عاجزی ان کے اُوپر کوئی منفی اثر تو نہیں چھوڑ رہی۔ اس کا ایک plus point ہی ان کو مل رہا ہے کہ ہاں جی! بندہ بڑا عاجز ہے اور بہت آرام سے ملتا ہے، تو کیا وہ اپنی self-respect، honour اورdignityکو قربان کر رہا ہوتا ہے؟ تو عاجزی دکھانا اَور چیز ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس لیےاللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں۔‘‘ بایں ہمہ حضورِانور نے اس معاملے میں انتہائی باریک بینی سے توجہ دلائی کہ جہاں موقع ہو وہاں بحث کرنے کی بجائے جو حق سمجھتے ہو، اللہ تعالیٰ کی خاطر اس کو بیان کر دو، تو اللہ تعالیٰ اس کو اچھا سمجھتا ہے۔ لیکن وہاں ضد ّمیں آنا اور arrogance دکھانا اور یہ کہنا کہ مَیں پتا نہیں کیا چیز ہوں، میرے سے کون confrontکر سکتا ہے یامیری دلیلوں اور میری باتوں کوکون contradictکر سکتا ہے؟ اور مَیں یہ کر دوں گا یا وہ کر دوں گا، یہ humilityکے خلاف ہے اور یہ بات تمہیں self-respectبھی نہیں دیتی، تو لوگ تمہارے سے دُور ہٹ جائیں گے اور تمہیں یہی کہیں گےکہ یہ بڑا arrogant آدمی ہے۔ تو یہ چیزیں تو دیکھنے والی ہیں۔ مزید برآں حضورِانور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاجزی اور دینی غیرت سے مزیّن مبارک اور کامل عملی نمونوں کی روشنی میں واضح فرمایا کہ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں، وہاں جہاں بحث کی گئی، آپ نے اللہ کی خاطر چھوڑ دی۔ لیکن کیا اس عاجزی کی وجہ سے آپ میں کوئی عزتِ نفس نہیں تھی؟ آپ نے لوگوں کے سامنے کوئی بھیک مانگی؟ جہاں مقابلہ آیا وہاں آپؑ نےمقابلہ بھی کیا۔ آریوں کو بھی جواب دیا، عیسائیوں کو بھی جواب دیا، دہریوں کو بھی جواب دیا اور جہاں مذہب کی عزت کا سوال آیا، تووہاں کھل کے اپنا موقف بھی بیان کیا، مختلف لٹریچر کی کتابوں میں یہ ساری باتیں موجود ہیں، لیکن ساتھ ہی عاجزی بھی تھی۔ تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی نمونہ تھا۔ ایک موقع پر آپؐ عاجزی دکھاتے ہیں، بچوں، عورتوں اور غریبوں سے بھی عاجزی دکھاتے ہیں اور پیار کرتے ہیں، تو دوسری طرف جہاں اسلام کی عزت کا سوال آیا، تو نہ تو ابو جہل کو دیکھا اور نہ ہی کسی اَور کو دیکھا۔ ایک سائل نے سوال کیا کہ حضور ِانورکے نزدیک آج انسانیت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟ اِس پر حضورِ انورنے راہنمائی عطا فرمائی کہ یہ سوشل میڈیا، یہ ٹی وی چینل اور غلط قسم کی حرکتیں، اے آئی وغیرہ، یہ سب کچھ، یہی چیلنجز ہیں۔ حضور انور نے ان ذرائع کے درست اور کارآمد استعمال کی بابت توجہ دلائی کہ ان کو صحیح طرح اور جائز طریقے سے استعمال کرو توان کا استعمال ٹھیک ہے۔ اسی میڈیا کے اُوپر اخلاقیات کی باتیں کرو، مذہب کی باتیں کرو، خدا تعالیٰ کاپیغام سناؤ، تو یہی ان چیلنجز کا توڑہے اورتمہارے اخلاق بھی درست رہیں گے، تمہارا مذہب بھی درست رہے گا اور لوگوں کو awareness بھی ہو جائے گی کہ یہ کیا چیز ہے، تواس کا صحیح استعمال بھی ہو جائے گا، لیکن اس سے چھٹکارا تو اب کوئی نہیں ملنا۔ مزید برآں میڈیا کے مثبت استعمال سے اخلاقی اور دینی چیلنجز سے نمٹنے کے حوالے سے اس بات پر زور دیا کہ اس کاصحیح استعمال کرنے کے لیے احمدی ہیں جو ان ذرائع کو صحیح استعمال کریں اور خدا تعالیٰ کی تعلیم اور اس کے احکامات کے مطابق اسی پر ایسی چیزیں ڈالیں کہ لوگ صرف ان کی بُرائیوں کو ہی نہ دیکھتے رہیں، بلکہ تمہاری اچھائیاں بھی دیکھتے رہیں اور یہی ایک طریقہ ہے جس سے اس کو تمcounter کر سکتے ہو۔ اسی طرح آخر میں حضورِانور نے اس اَمر کا اعادہ فرمایا کہ جو غلط قسم کے چیلنج ہیں، اخلاق خراب کرنے کی جو کوششیں ہیں، یہی بہت بڑے چیلنج ہیں اور ہم ان کا توڑ اور counter کر سکتے ہیں۔ ملاقات کے اختتام پر تمام شاملینِ مجلس کو ازراہِ شفقت اپنے محبوب آقا کے ساتھ گروپ تصویر بنوانے اور آپ کے دستِ مبارک سے قلم بطور تبرک حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ بعد ازاں دو خدام جنہیں تعلیمی میدان میں اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر تمغوں سے نوازا گیا تھا،انہوں نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عاجزانہ درخواست کی کہ حضور انور انہیں بنفسِ نفیس یہ تمغے عطا فرمائیں۔ حضورِانور نےپہلے خادم کو اپنے دستِ مبارک سے میڈل گلے میں پہنانے کے بعد دریافت فرمایا کہ تمہیں یہ میڈل یہاں ملا تھا یا وہاں سویڈن میں؟ جس پر حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا گیاکہ مجھے یہ میڈل نورڈک جلسے پر ملا تھا۔ اس پر حضورِانور نے مزید دریافت فرمایا کہ ناروے میں ملا تھا، تو موصوف نے اثبات میں جواب عرض کیا۔ دوسرے خادم کو بھی یہی سعادت حاصل ہوئی، تو حضورِانور نے تمغے کی بابت دریافت فرمایا کہ یہ تمہیں پاکستان سے ملا ہے، جس پر خادم نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے عرض کیا کہ جی! اسلام آباد،پاکستان سے۔ یہ سماعت فرما کر حضورِانور مسکراتے ہوئے پہلےمیڈل حاصل کرنے والے خادم سے مخاطب ہوئے اور ازراہِ شفقت تبصرہ فرمایا کہ اس کا میڈل تو سونے کا ہے، تمہارا تو جعلی ہے، اس کے اندر تو دس گرام سونا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ تمہارے میڈل میں نہیں ہے ۔ اس پر موصوف نے انتہائی انکسار اور بشاشتِ قلبی سے عرض کیا کہ میرے لیےتو بس سونے کے برابر ہی ہے۔ اس پر حضورِانور نے اس عاجزانہ جذبے کو سراہتے ہوئے پذیرائی فرمائی کہ ہاں! بس اصل چیزیہی ہے۔ الغرض یہ روح پرور نشست حضورِانور کے دعائیہ کلمات ’’السلام علیکم‘‘ پر بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ساؤتھ ویسٹ ریجن کےایک وفد کی ملاقات