بہرحال یہ انسان کے لیے لازمی اَمر ہے وہ استغفار میں ہمیشہ مشغول رہے۔یہ جو قحط اور طرح طرح کی بَلائیں دنیا میں نازل ہوتی ہیں ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ لوگ استغفار میں مشغول ہوجائیں۔مگر استغفار کا یہ مطلب نہیں ہے جو اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ کہتے رہیں۔اصل میں غیر ملک کی زبان کے سبب لوگوں سے حقیقت چھپی رہی ہے۔عرب کے لوگ تو ان باتوں کو خوب سمجھتے تھے۔مگر ہمارے ملک میں غیر زبان کی وجہ سے بہت سی حقیقتیں مخفی رہی ہیں۔بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی دفعہ استغفار کیا۔سو تسبیح یا ہزار تسبیح پڑھی مگر جو استغفار کا مطلب اور معنے پوچھو تو بس کچھ نہیں۔ہکّا بکّا رہ جاویں گے۔انسان کو چا ہیے کہ حقیقی طور پر دل ہی دل میں معافی مانگتا رہے کہ وہ معاصی اور جرائم جو مجھ سے سرزد ہو چکے ہیں ان کی سزا نہ بھگتنی پڑے اور آئندہ دل ہی دل میں ہر وقت خدا سے مدد طلب کرتا رہے کہ آئندہ نیک کام کرنے کی توفیق دے اور معصیت سے بچائے رکھے۔ خوب یاد رکھو کہ لفظوں سے کچھ کام نہیں بنے گا۔اپنی زبان میں بھی استغفار ہو سکتا ہے کہ خداپچھلے گناہوں کو معاف کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے اور نیکی کی توفیق دے اور یہی حقیقی استغفار ہے۔کچھ ضرورت نہیں کہ یونہی اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ کہتا پھرے اور دل کو خبر تک نہ ہو۔یادرکھو کہ خدا تک وہی بات پہنچتی ہے جو دل سے نکلتی ہے۔اپنی زبان میں ہی خدا سے بہت دعائیں مانگنی چاہئیں۔اس سے دل پر بھی اثر ہوتا ہے۔زبان تو صرف دل کی شہادت دیتی ہے۔اگر دل میںجوش پیدا ہو اور زبان بھی ساتھ مل جائے تو اچھی بات ہے۔بغیر دل کے صرف زبانی دعائیں عبث ہیں ہاں دل کی دعائیں اصلی دعائیں ہوتی ہیں۔جب قبل از وقتِ بَلا انسان اپنے دل ہی دل میں خدا سے دعائیں مانگتا رہتا ہے اور استغفار کرتا رہتا ہے تو پھر خدا وند رحیم و کریم ہے وہ بَلا ٹل جاتی ہے۔لیکن جب بَلا نازل ہوجاتی ہے پھر نہیں ٹلاکرتی۔بَلا کے نازل ہونے سے پہلے دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔اور بہت استغفار کرنا چاہیے۔اس طرح سے خدا بَلا کے وقت محفوظ رکھتا ہے۔ (ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۲۵۱، ۲۵۲، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)