تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ) یہ مختصر کتابچہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ کی ایک تاریخی تقریر پر مبنی ہے جو انہوں نے جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۳۱ء کے موقع پر سامعین کے سامنے کی تھی۔ اس میں آسمانی بادشاہت کے دینی تصور کو تفصیل سے واضح کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ جو روحانی عمارت تعمیر ہوئی، وہ کس طرح آنحضرت ﷺ پر ہر لحاظ سے مکمل ہوئی اور کس شان سے آپ ﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعے دنیا میں اپنی تکمیل کااظہار ہوا۔ فاضل مصنف نے نہایت فصاحت سے پیش گوئیوں، تاریخ اور حالاتِ زمانہ کی روشنی میں اس حقیقت کو نمایاں کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت درحقیقت آنحضرت ﷺ کی بعثتِ ثانیہ ہے۔یوں یہ کتاب نہ صرف تاریخی حقائق پر مبنی ہے بلکہ قاری کو ایک نئے ولولے اور ایمانی جوش سے سرشار کرتی ہے۔ حضرت سیدزین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جب ۱۹۳۰ء کی دہائی میں ناظر دعوۃ و تبلیغ سلسلہ عالیہ احمدیہ قادیان تھے تو انہوں نے جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۳۱ء منعقدہ اواخر ماہ دسمبر میں مندرجہ بالا موضوع پر تقریر کی تھی، جسے جنوری؍فروری ۱۹۳۲ء میں استفادہ عام کے لیے کتابی شکل دی گئی اور محمد دین صاحب ملتانی ہیڈ کلرک نظارت دعوۃ و تبلیغ قادیان نے ضیاءالاسلام پریس قادیان سے قریباًایک صدصفحات پر شائع کیا، تب پریس کے پرنٹر حضرت بھائی عبدالرحمٰن ؓقادیانی تھے۔ مکرم بشیر احمد خان بھٹی خوش نویس کی کتابت میں تیار ہونے والی اس کتاب میں سرورق، ایک صفحہ کا دیباچہ اورمتن کے آخر پر فہرست مضامین اور فہرست اغلاط بھی ہے۔ جبکہ کتاب کے متن سے استفادہ سہل بنانے کےلیے صفحات کے اطراف میں ذیلی عناوین بھی جلی حروف میں درج کیے گئے ہیں۔ ہم سب آگاہ ہیں کہ اس دنیا میں انبیاء علیہم السلام نے ایک محل تیار کیاجس کی آخری اینٹ سرور ِکائنات حضرت محمدﷺ کی ذات ستودہ صفات تھی۔ آپؐ نے شریعت کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جو بنی نوع انسان کے لیے بطور ایک کامل راہنما اور دستور العمل کے ٹھہری۔ یہ ایک مرحلہ تھا جو محمدرسول اللہﷺ کے انفاس قدسی سے ٹھیک اپنے وقت پر طے ہوا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ تھا جس کے لیے بھی ایک وقت مقرر تھا وہ یہ کہ تمام امتوں اور قوموں اور مملکتوں کو انبیاء کے اس تیار شدہ محل میں داخل کرنا۔ یہ عظیم الشان کام محمد رسول اللہﷺ کی بعثت ثانیہ کے ساتھ تعلق رکھتا تھا جس کی پیش گوئی جیسے آپﷺ نے کی دوسرے انبیاء نے بھی کی اور یہ آخری مرحلہ انبیاء کی پیش گوئیوں کے مطابق ایک دجل عظیم اور شب غاسق کی تاریکیوں میں سے گزرتا ہوا مسیح موعودؑ کے ہاتھ سے محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت اولیٰ سے تیرہویں صدی اور مسیح اول سے انیسویں صدی کے اواخر میں ایک بڑے جہاد کے بعد طے پانا تھا۔ فاضل مصنف نے اپنی اس تقریر میں یہی موضوع کھول کر بیان کیا ہے تاکہ لوگوں کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عظیم الشان مقصد کی وضاحت اوراس کے متعلق انبیاء کی پیش گوئیوں اوران کے پورا ہونےکے اوقات کی تعیین و تشریح ہوجائے۔ جیسا کہ حضورؑ فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں۔ کیا یورپ اور کیا ایشیا اُن سب کو توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا۔‘‘ دراصل اس اہم موضوع کو کماحقہ سمجھنا اور اس کے مطابق اپنے معاملات اور جدوجہد کو ڈھالنا مشرق و مغرب کے ہر ملک میں بسنے والے ہر احمدی کو ایک نیا ولولہ اور ایمانی جوش دے گا جس سے جہاں بساط دنیا کے بظاہر حسین و پائیدار نقشے درست طرز پر ڈھلیں گے وہاں اس فرد واحد کی زندگانی میں مقصدیت داخل ہوکر اسے اس کے ذاتی نفسی نکتہ میں ترقی دے گا۔ اگر اس کتاب کا جائزہ لیں تو ملتا ہے کہ مصنف نے پہلے سات صفحات پر آسمانی بادشاہت کے متعلق انبیاء علیہم السلام کی پیش گوئیاں درج کی ہیں۔ اس کے بعد عیسائیوں کے اس دعویٰ کا جائزہ لیا گیا ہے کہ آسمانی بادشاہت ان کی ہے۔ پھر مسیح الناصریؑ کی آمد ثانی کے متعلق عیسائیوں کے شدید انتظار اور ان کے حسابات کا ذکر ہے۔ صفحہ ۲۱؍پر اس انتظار میں ناامیدی اور اس کی توجیہ کی گئی ہے۔ کتاب کے صفحہ ۲۴؍پر آسمانی بادشاہت کی تعریف درج کی گئی ہے ، انسان کی حیثیت اور بنی نوع انسان میں طبقہ حاکمہ اور طبقہ محکومہ نیز انسان کی طبعی سرکشی اور اس پر بشری حکومت کے تسلط کی نوعیت اور اس کے اثر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ آگے بڑھتے ہوئے مصنف نے انسان کی طبعی سرکشی اور حضرت محمد ﷺ کے دعویٰ پر روشنی ڈالی ہے۔ آپؐ کے طبقہ حاکمہ سے خطاب اور جنّ و انس کی اصطلاح اوراس کا درست مفہوم واضح کیا گیا ہے۔ صفحہ ۴۰ کے بعد انسانی آزادی کا آغاز، اس آزادی کا غلط مفہوم اور انسانی آزادی کی حقیقی راہ پر بات کی گئی ہے۔ صفحہ ۴۹ پر آسمانی بادشاہت کے قیام کاذکر ہے نیز بتایا گیا ہے کہ نیکی او رگناہ روحانی انسان کی نظر میں کیسے ہیں اور آسمانی بادشاہت میں حاکم کی حیثیت کیسی ہے ۔آسمانی بادشاہت کا نصب العین کیا ہے؟ جس سے سامنے آتا ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کی دعوت تامہ کے بعد شیطان کی انتہائی ہزیمت کیسے ہوئی اور شیطان نے حضرت محمد ﷺ پر دو کون سے بڑے حملے کرنے کی کوشش کی۔ کتاب کے صفحہ ۶۶؍ پر فتنہ ابولہب اور فتنہ دجال کا جائزہ لے کر بتایا گیا ہے کہ یہ دونوں فتنے ایک ہی ہیں۔ نیز فتنہ ابولہب کا عیسائیت سے کیا تعلق ہے۔ صفحہ ۷۱ پر ہے کہ احمدیت اور آسمانی بادشاہت کیسے ایک ہیں اور اس تناظر میں دجل عظیم کے مظاہر کس طرح مصروف کار ہیں۔ صفحہ ۸۰؍ پر قرآن مجید کی عظیم الشان پیش گوئی کا حوالہ دیا گیا ہے اور امت مرحومہ کی خستہ حالی کا نوحہ لکھ کر مصنف نے صفحہ ۸۴ پر حق تعالیٰ کے مقدسوں کے دوسرے گروہ کا احوال بتایا ہے۔ اور بتایا کہ مشیت الٰہی جو قدیم سےہے وہ اب بھی کس طرح پوری ہوکر رہے گی۔ کتاب کے آخری صفحات میں مصنف نے مثالوں سے اپنا نکتہ نظر واضح کرنے کے لیے خدا تعالیٰ کی قہاری تجلیات کے مشاہدات بتائے ہیں، جیسا کہ جنگ عظیم اور زار روس کا زوال وغیرہ آنحضرت ﷺ کے معراج اور اس کے متعلق عظیم الشان پیش گوئی کا ذکر کرکے انصاراللہ سے خطاب کرتے ہوئے بڑے پُر زور اور دردمندانہ الفاظ میں لکھا کہ ’’اے انصار اللہ کی جماعت! حق تعالیٰ کے مقدسوں کے دوسرے گروہ… تمہارے ہاتھوں سے النصر اور الفتح کا علم بلند ہونا ہے اور قوموں نے محمد رسول اللہ ﷺ کے حرم سرائے میں داخل ہوکر ابدی امن حاصل کرنا ہے۔ سو اپنی جانشینی کو آپ سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔ اور اس دور کی مسافت کو تیز قدموں سے جلدی طے کریں۔… رات اپنی آخری گھڑیاں طے کررہی ہے اور فرعونی حکومتوں کا خاتمہ ہوا چاہتا ہے۔ اور وہ موعودہ فجر چمکتی ہوئی روشنی کے ساتھ اپنے افق سے نمایاں ہونے والی ہے۔ اور یہ رات سکون پذیر ہوکر اعلان کرنے کو ہے۔…اور قومیں اور مملکتیں اس قصر عظیم میں داخل ہونے والی ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے ہاتھوں سے تیار ہوا۔ جس کا آخری پتھر محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ستودہ صفات ہے۔ اسی پتھر کو معماروں…نے ردّ کیا۔ پر وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا۔ اور یہ خدا وند کی طرف سے ہوا۔ اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔ خدا کی بادشاہت اس قوم کو دی جائے گی جو اس کے پھل لائے۔ اور جو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے مگر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔‘‘ الغرض یہ کتاب محض ایک علمی تقریر نہیں بلکہ روحانی بیداری کے لیے ایک پکار بھی ہے۔ اس میں مصنف نے احمدیوں کو متوجہ کیا ہے کہ وہ اس آسمانی بادشاہت کے وارث بن کر، دنیا میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا پرچم بلند کریں۔ موجودہ دور کے فتنوں، خصوصاً دجل عظیم، کے پس منظر میں حضرت مسیح موعودؑ کے مشن کو سمجھنا اور اسے آگے بڑھانا ہر احمدی کی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ مصنف نے پُراثر انداز میں لکھا ہے کہ رات اپنی آخری گھڑیاں طے کررہی ہے اس لیے لازم ہے کہ ہم اپنی روحانی جانشینی کو پہچانیں اور آنے والی صبح کے استقبال کے لیے پوری تیاری کریں۔ مزید پڑھیں: آنحضرت ﷺکااپنے معاندین کے ساتھ عفو کا سلوک