اخلاق کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ: ۸۴) کہ لوگوں کے ساتھ نرمی اور اچھے طریق سے پیش آؤ۔ ان سے اچھے طریق سے بات کیا کرو۔ اب عام طور پر انسان دوسروں سے اکّھڑپن سے بات نہیں کرتا باوجود اس کے کہ بعض طبائع میں خشونت اور اکھڑپن ہوتا ہے لیکن وہ ہر وقت اس کا اظہار نہیں کرتے۔ تو جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگوں سے بات کرو تو ان سے نرمی اور ملاطفت سے پیش آؤ تو ایسے ہی لوگوں کو کہتا ہے کہ اپنی اس خشونت اور اکھڑ پن کی طبیعت میں نرمی پیدا کرو اور کبھی بھی تمہارے سے ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جو دوسرے کو تکلیف پہنچانے والی ہو۔ ذرا ذرا سی بات پر مغلوب الغضب نہ ہو جایا کرو۔ لیکن بعض انسان اپنی طبیعت کی وجہ سے جیسا کہ مَیں نے کہا طبائع ہوتی ہیں، یکدم بھڑک بھی جاتے ہیں تو ایسے لوگ اگر سخت بات کہنے کے بعد اپنی سختی پر افسوس کریں اور جو جذباتی یا کسی بھی قسم کی تکلیف ان سے دوسروں کو پہنچی ہو اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں، توبہ اور استغفار کریں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے اور ان کی توبہ قبول بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر توجہ نہ دینے والے بےجا تشدد اور سختی کرتے چلے جانے والے اور کسی قسم کی بھی ندامت محسوس نہ کرنے والے تو وہ لوگ ہیں جو نہ صرف اخلاق سے گر رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نفی کر کے گنہگار بھی ہو رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی عبادتیں بھی ان کے کسی کام نہیں آتیں۔ پس اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنی مغفرت کی امید دلاتا ہے جو کسی خاص جوش یا غصے کے ماتحت ایک فعل کردیں لیکن بعد میں ہوش آ جانے پر اپنے اس فعل پر نادم ہوں، شرمندہ ہوں اور اس کے ازالے کی کوشش کریں۔ لیکن جو شخص نادم نہ ہو، ہوش آ جانے پر بھی کسی قسم کی ندامت یا افسوس کا اظہار نہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہیں پیش کر سکتا۔ پس ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ بہت سے معاملات میرے سامنے آتے ہیں۔ میاں بیوی کے جھگڑوں کے، لین دین کے معاملات ہیں کہ لوگ ایسے مغلوب الغضب ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں دیکھتے کہ کیا کہہ رہے ہیں، کیا کر رہے ہیں۔ عورتوں کو جذباتی تکلیف بھی دیتے ہیں، ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے معاملات ہیں۔ آپس میں غلط قسم کے رویے ہیں۔ پھر یہ سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ اصلاحی کمیٹی کوشش کرے یا قضا کوشش کرے تو یہ لوگ اپنی بات پر اَڑے رہتے ہیں تو پھر تعزیر ہوتی ہے اور جب کسی فریق پر تعزیر ہو جائے تو پھر ان کو تھوڑی سی ہوش آتی ہے۔ پھر معافی کے لئے بھی لکھتے ہیں اور پھر جو زیادتیاں انہوں نے کی ہیں اس کا مداوا کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے ایسے لوگ سزا کے بعد معافی لے کر اپنے انجام کو بچا لیتے ہیں لیکن تعزیر کا داغ ان پر لگ جاتا ہے۔ اگر اپنی اَنا کے چکر میں نہ پڑتے تو پہلے سے ہی افہام و تفہیم سے معاملہ طے ہو سکتا ہے۔ پس ایسے لوگوں کو اپنے ایمانوں کو بچانے کی فکر کرنی چاہئے۔ بعض ایسے ہیں جو کسی بھی صورت میں نہیں مانتے وہ تو بالکل ہی دُور ہٹ جاتے ہیں۔ دنیا اور اس کے فوائد اور اس کی سہولتیں چند روزہ ہیں۔ اپنے انجام کی ہمیں فکر کرنی چاہئے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍اکتوبر۲۰۱۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳۱؍اکتوبر۲۰۱۴ء) مزید پڑھیں: تم اپنے خدا سے صاف ربط پیدا کرو