https://youtu.be/P4AMWmN0hSo خاکسار کی والدہ محترمہ امینہ مبارکہ خانم صاحبہ (سابق صدر لجنہ فاروق آباد ضلع شیخوپورہ ) اہلیہ محترم عبدا لحمید بھٹی صاحب(سابق امیر ضلع شیخوپورہ) مورخہ ۴؍جنوری ۲۰۲۵ء کی شام طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں وفات پا گئیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بلانے والا ہے سب سے پیارااسی پہ اے دل تو جاں فدا کر ہمارے دل غمگین اور آنکھیں آنسو بہاتی ہیں،لیکن ہم اپنے پیارے خدا کی رضا پر راضی ہیں۔ خاکسار کی والدہ حضرت چودھری محمد خان صاحبؓ، صحابی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ( نمبردارموضع گل منج، ایم ٹی اے پر’’ خوش نصیب لوگ‘‘ کے عنوان کے تحت ان کی ایک روایت آیا کرتی ہے)کی پوتی تھیں۔ اور مکرم چودھری محمد یعقوب خان صاحب (سابق صدر جماعت احمدیہ حلقہ غلام محمد آباد کالونی، فیصل آباد ) کی بیٹی، اور پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں۔ حضرت چودھری محمد خان صاحبؓ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذاتی تبلیغ سے احمدی ہوئے۔ ان کی بیعت کا واقعہ ہمارے بڑے ماموں جان مکرم چودھری خالد سیف اللہ خان صاحب نے بھی اپنی کتاب ’’مکتوب آسٹریلیا‘‘ میں (صفحہ ۳۳۹) پر درج کیا ہے۔ امی جان کے دادا جان چودھری محمد خان صاحب موضع گل منج کے نمبر دار تھے۔ انہوں نے اپنی بیعت کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی میری جوانی کا آغاز ہی ہو رہا تھا۔ میں اور میرا بھائی رانجھے خان موضع کھبہ (جو کہ ہمارے رشتے داروں کا گاؤں تھا) گئے۔ وہاں واپسی پر جب ہم قادیان دارالامان پہنچے تو میں نے اپنے بھائی سے کہا نماز عصر کا وقت ہے اگر آگے جا کے نماز پڑھی تو وقت تنگ ہو جائے گا۔ اس جگہ نماز پڑھ کر آگے چلتے ہیں۔ چنانچہ ہم لوگ مسجد اقصٰی میں نماز کے لیے چلے گئے۔ جب ہم مسجد پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز عصر پڑھ کر گھر واپس جانے کے لیے جوتی پہن رہے تھے۔ میں نے جا کر السلام علیکم کہا۔چنانچہ حضورؑ نے احسن طریق پر وعلیکم السلام فرمایا۔ ہم لوگ وضو کرنے لگ گئے۔ اور حضورؑ جوتا اتار کر دوبارہ صف پر بیٹھ گئے۔ جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے مخاطب کرکے فرمایا: ’’لڑکے تمہارے گاؤں میں ہمارے اشتہار پہنچ گئے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا،نہیں۔فرمایا: میرے اشتہار تو دُور دراز کے جزیرے تک پہنچ گئے ہیں، تمہارا گاؤں کتنی دُور ہے۔ میں نے عرض کی یہی کوئی چار کوس کے فاصلے پر۔ فرمانے لگے چلو میرے ساتھ میں تم کو اشتہار دیتا ہوں۔ چنانچہ حضورؑ ہم کو ساتھ لے کر اپنے گھر تشریف لائے۔مسجد مبارک کے ساتھ جو ملحقہ کمرہ ہے جس میں آپؑ عموماً بیٹھ کر تصنیف کا کام کیا کرتے تھے ایک طرف صف بچھی ہوئی تھی اور اس پر کتابوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے اور سامنے الماری میں اشتہار پڑے ہوئے تھے۔ حضرت صاحبؑ نے مجھے فرمایا جتنے تمہارے گاؤں میں پڑھے ہوئے آدمی ہیں اتنے اشتہار اٹھا لو۔ پڑھے ہوئے آدمی تو ہمارے گاؤں میں دو چار ہی تھے میں نے پندرہ اشتہار اٹھا لیے۔ جب ہم اپنے گاؤں شام کے وقت پہنچے تو میرے والد صاحب کے پاس بہت سے افراد بیٹھے ہوئے تھے،میں نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ حضرت مرزا صاحبؑ نے مجھے اشتہار دیے ہیں، میں پڑھ کر سناتا ہوں۔ چنانچہ ایک شخص اندر سے جلتا ہوا دیا اٹھا لایا اور میں نے اشتہار پڑھ کر سنایا، والد صاحب تو کچھ نہیں بولے لیکن میرے دل میں خیال گزرا کہ سیکھواں والی میں جمال الدین صاحب(والد ماجد حضرت جلال الدین شمس صاحبؓ) حضرت مرزا صاحب کا ذکر کرتے رہتے ہیں،ان کے پاس چلتے ہیں۔ چنانچہ میں اگلی صبح نماز فجر پڑھنے کے بعد سیکھواں چلا گیا۔ میاں جمال الدین، خیر الدین سے کہا حضرت صاحب نے مجھے اشتہار دیا ہے۔ وہ کہنے لگے،’’چودھری صاحب ہم تو بیعت کر آئے ہیں آپ بھی کر آئیں۔‘‘ چنانچہ میں سیدھا قادیان چلا گیا۔ وہاں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت کی، جس دن بیعت کی وہ جمعہ کا دن تھا،بیعت کے بعد انہوںنے گاؤں واپس جانے کی اجازت مانگی تو حضورؑ نے فرمایا،ابھی چند دن اور یہاں ٹھہرو۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک قادیان دارالامان ٹھہر ا رہا۔ اگلا جمعہ پڑھ کر میں نے پھر اجازت مانگی تو حضور نے فرمایا: ہاں! اب چلے جاؤ۔ امی جان کے نانا جان حضرت میاں مہر اللہ صاحب کو بھی زیارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شرف حاصل ہوا اور چاند،سورج گرہن کا نشان دیکھ کر احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ جو احباب جماعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جسد مبارک بٹالہ ریلوے اسٹیشن سے قادیان تک اٹھا کر لائےتھے،ان میں شامل ہونے کا انہیں بھی شر ف حاصل ہوا۔ خاندانی حالات: ہمارے نانا جان چودھری محمد یعقوب خان صاحب موضع گل منج ضلع گورداسپور کے نمبر دار تھے، ہمارا ننھیالی گاؤں اگرچہ قادیان سے زیادہ دُور نہیں تھا لیکن ہماری امی جان کے والدین نے قادیان میں رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ کیونکہ قادیان کا ماحول ایک تو مذہبی لحاظ سے بہت پاکیزہ تھا دوسرے یہاں پر تعلیمی سہولیات بھی موجود تھیں۔ قادیان کے ماحول کا سارے خاندان کی تربیت پر اثر بہت پاکیزہ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارے نانا جان نے فیصل آباد میں رہائش اختیار کی۔ ان کی تمام اولاد اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعلیم یافتہ بھی ہے اور جماعت کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والی بھی۔ ہمارے نانا جان کو خود بھی قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کی توفیق ملی۔ اس دوران انہیں حضرت مرزا شریف احمدصاحب رضی اللہ عنہ کے گھر رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ نانا جان کو خلافت سے بہت عقیدت تھی،اگر چہ اونچا سننے لگے تھے لیکن جب بھی خطبہ جمعہ ایم ٹی اے پر آتا تو آکر خاموشی سے بیٹھ جاتے اور خطبہ ختم ہونے کے بعد پوچھتے کہ حضور نے کیا فرمایا ہے؟ ہماری والدہ کی جب کبھی حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب سے ملاقات ہوتی تو کہتیں کہ خاکسار کے والد آپ کے کلاس فیلو رہے ہیں انہیں خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے بہت محبت تھی، روزانہ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے لیے دو نفل پڑھتے تھے۔ انہوںنے فرمایا کہ آپ بھی پڑھا کریں، پھر امی جان بھی خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے دو نفل پڑھنے لگیں۔ نانا جان اپنی ساری پنشن چندے میں دیتے تھے۔ نانا ابا کہتے تھے کہ خاندان حضرت مسیح موعود ؑمیں ہر بچے کا اپنا اپنا قرآن ہوتا ہے، اس لیے انہوں نے اپنے سب بچوں کو بھی الگ الگ قرآن لے کر دیا ہوتا تھا ( ہماری والدہ کا بھی یہی طریق تھا)۔ جماعت اور خلافت سے گہرا تعلق بچوں کو سکھایا۔ ہمیشہ ہر جلسے پر بچوں کو لے کر جاتے۔ الفضل اخبار اور رسائل ہمیشہ گھر میں لگواتے۔ امی جان کی جماعتی خدمات: جب ہمارے والد صاحب محترم عبدا لحمید بھٹی کا ٹرانسفر شیخوپورہ کالج میں ہوا تو انہوں نے رہائش فاروق آباد میں رکھی۔ امی جان کو خدا کے فضل سے سترہ سال(۱۹۸۱ء تا ۱۹۹۷ء) صدر لجنہ فاروق آباد کے طور پر خدمات کی توفیق ملی۔ اس دوران نگران حلقہ فاروق آباد (حلقے میں چودہ دیہات شامل تھے)کے طور پر بھی کام کی توفیق ملی اور وفات سے چار ماہ پہلے (اگست ۲۰۲۴ء) ربوہ منتقل ہونے تک، سیکرٹری اصلاح و ارشادلجنہ فاروق آباد کے طور پر(قریباً چوالیس سال) خدمت کی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین جب تک صدر لجنہ کے طور پر کام کیا،فاروق آباد کی لجنہ خدا کے فضل سے پوزیشن لیتی رہی۔ چھ سال سوم انعام اور گیارہ سال دوم انعام حاصل کیا۔ اس کے علاوہ اصلاح و ارشاد میں خدا کے فضل سے اول پوزیشن لیتی رہیں۔ اصلاح و ارشاد کا بہت شوق تھا، اصلاح و ارشاد میں پاکستا ن بھر میں انفرادی کام کرنے والی لجنات میں چار سال ’’مستعد داعی الی اللہ ‘‘ کا دوم انعام حاصل کیا۔ یہ حضرت چھوٹی آپا سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے دستخط شدہ قرآن تھے جو کہ سرمایہ حیات ہیں۔ اس کے علاوہ صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر’’سند خوشنودی‘‘ ملی۔ ایک مرتبہ محترمہ منیرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت چودھری فتح محمد سیا ل صاحب (سابق صدر لجنہ ضلع شیخوپورہ) نے امی جان کو ارشاد فرمایا کہ آپ فاروق آباد میں حضرت چھوٹی آپا کو بلائیں۔ جس پر امی جان نے حضرت چھوٹی آپا سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کو فاروق آباد دورے کی دعوت دی اور فاروق آباد کی زمین کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اس نے اس معزز ہستی کے قدم چومے۔ (خطابات مریم، جلد دوم، صفحہ۹۴۵) جب انہیں مرکز سے انعام ملتے تو وہ اپنی سیکرٹریوں کی حوصلہ افزائی کے لیے خود انعامات دیتیں۔ جماعت کے چندے سے کبھی کوئی مقامی فنڈ نہیں رکھتی تھیں، مقامی اخراجات خود سے کرتی تھیں۔ انہوں نے مختلف جگہوں پرنئی لجنہ قائم کیں، جبکہ تین ایسی جگہیں تھیں جہاں نئی بیعتیں کروا کر لجنہ قائم کرنے کی توفیق ملی۔ الحمدللہ۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا، اس مقصد کے لیے بہت سفر کیے،جو عموماً دیہاتی علاقوں میں تھے۔ ایک مرتبہ مرکز سے کچھ لجنہ ممبرات نے ان کے ساتھ دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور پھر ان کے ساتھ دورے پر گئیں۔ اُن دنوں سفری سہولتیں زیادہ نہیں ہوتی تھیں اس لیے جہاں تک بس جاتی، بس پر جاتیں اور جہاں پیدل یا ٹانگہ پر سفر کرنا پڑتا، اس پر سفر کرتیں۔ سفر کے دوران اپنا اور اپنے ساتھ سفر کرنے والی لجنہ ممبر کا کھانا ساتھ لے کر جاتی تھیں۔ کہتی تھیں ایک تو اس سے میزبان لجنہ پر کھانے کا بوجھ نہیں پڑتا، دوسرا میزبان لجنات کو ہمارے پاس بیٹھ کر بات سننے کا وقت مل جاتا ہے ورنہ وہ لوگ کھانا وغیرہ پکانے میں مصروف ہو جا تی ہیں۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جماعت کو دعوت الی اللہ کے لیے تحریک فرمائی تو امی جان نے نہ صرف اپنے حلقے میں بلکہ جہاں بھی ان کے علم میں آتا کہ کوئی احمدیت کی بات سنتا ہے جا کر دعوت الی اللہ کرتیں، اس سلسلے میں بہت سفر کیے، کبھی کہتیں کہ ( جتنے میں نے سفر کیے ہیں ) یہ گلیاں گواہی دیں گی۔ اپنے ساتھ کسی ایک احمدی خاتون کو لے کے جاتیں، بہت سی جگہوں پر خدا تعالیٰ کے فضل سے پھل حاصل کیے، کہتی تھیں ’میں ہمیشہ، ابھی تک، یہ دعا کرتی ہوں کہ اےاللہ! جن لوگوں نے تیری بات سننی ہے، اس پرعمل کرنا ہے اور ہمیشہ قائم رہنا ہے، مجھے ان کے پاس لے جا، یا انہیں میرے پاس لےآ‘۔ لجنہ کراچی کے زیر انتظا م شا ئع شدہ کتاب ’’محسنات ‘‘ کے صفحہ ۱۵۵ پر امی جان کا نام درج ہے،یہ چھ سال کی کاوشوں کے پھل ہیں جو یہاں درج ہیں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ان سے درگزر کا سلوک فرمائے۔آمین حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد کے مطابق تمام پاکستان سے غیر ازجماعت کو ربوہ لے جایا جاتا تھا۔ ضلع شیخوپورہ کا دن ہر جمعرات کو ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ہم غیرازجماعت کو لے کر گئے تھے۔ حضور تشریف لائے تو حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ نے تعارف کروایا کہ فاروق آباد سے آئی ہیں تو حضور نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں یہ تو مبلغ ہیں۔امی جان کہتی تھیں کہ حضورؒ کی شفقت ہے ورنہ ہم کس قابل۔ جب حضرت چھوٹی آپا نے لجنات کو قرآن با ترجمہ سیکھنے کی ہدایت فرمائی تو امی جان اپنے والد صاحب سے باترجمہ قرآن لے کر آئیں اور پہلے خود ترجمہ کے ساتھ سیکھا اور پھر لجنات کو پڑھایا۔ اس طرح کچھ لجنات ایسی تیار ہوگئیں جو تیاری کر کے پڑھا سکتی تھیں۔اسی طرح جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ترتیل کے ساتھ قرآن سیکھنے کی تحریک کی تو خاکسار اس وقت ناصرات میں تھی، امی جان مجھے مرکز چھوڑ کر آئیں جہاں میں نے ترتیل سیکھی اور واپس آکر ترتیل کی کلاس لگائی۔ فاروق آباد کی مسجد جو ہمارے گھر سے قریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ہے وہاں قرآن کی کلا س لینے جایا کرتی تھیں۔ لجنہ کو ترجمہ قرآن سکھانے کی توفیق ملی۔ سردی، گرمی کا خیال نہ کرتیں۔ ایک مرتبہ کافی بیمار ہو گئیں لیکن کام نہیں چھوڑا۔ اس کے علاوہ مختلف احمدی گھروں میں بھی ترجمہ قرآن کی کلاسز لگاتیں۔ ایک لجنہ ممبر صبا صاحبہ جن کے گھر قریباً گیارہ سال روزانہ قرآن کی کلاس لینے جاتی رہیں وہاں چودہ، پندرہ ممبرات جمع ہو جاتی تھیں۔وہ بتاتی ہیں کہ خاکسار کی والدہ باقاعدہ خانے بنا کر، لفظوں کے کئی کئی مطلب سمجھا کرترجمہ پڑھاتی تھیں۔ ذاتی زندگی: جہاں تک عبادت کا تعلق ہے، کیونکہ ان کے والدین قادیان کے ماحول سے متا ثر تھے اور جماعت کے ساتھ گہر اتعلق تھا اس لیے پنجوقتہ نمازوں میں پابندی اور نماز تہجد میں باقاعدگی سے اٹھنا، اُن کا معمول تھا۔ قرآن کی بہت زیادہ تلاوت کرنے اور تفسیر پڑھنے میں بہت دلچسپی لیتیں۔ ہم بچوں کو بھی نماز اور تلا وت کی عادت ڈالی۔ کچن میں کھانا بناتے ہوئے ساتھ ساتھ قرآن کریم کا حفظ کیا ہوا حصہ نیز قصیدہ دہرا لیا کرتیں۔ آپ کو قرآن کے تقریباً پانچ پارے حفظ تھے۔ جب ۱۹۷۴ء میں فیصل آباد میں واقع ہمارے نانا اباکے گھر کو شر پسندوں نے حملہ کر کے آگ لگا دی، اس سے ایک دن قبل ہمسائی نے ایک پمفلٹ امی جان کو دکھایا، جس میں لکھا تھا کہ ’’ربوہ میں ہمارے ساتھ ربوہ ریلوے اسٹیشن پر یہ،یہ ظلم ہوا‘‘ اور جو تاریخ اس پمفلٹ پر لکھی ہوئی تھی وہ پچھلے دن کی تھی۔ یعنی یہ پمفلٹ واقعہ رونما ہونے سےایک دن پہلے شائع کروا کر بانٹ دیے گئے تھے۔ کہتی تھیں اگلے دن جب ہمارے گھر کو آگ لگا دی گئی میں یہی دعا کرتی تھی کہ یا اللہ! چیزوں کی کوئی بات نہیں ہے، لیکن جس طرح تُو نے حضرت ابراہیمؑ کو جلتی آگ سے بچایا اور جو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہےہمیں بھی اس آگ سے بچا۔ مار پیٹ اور مالی نقصان تو بہت ہوا۔ لیکن خداتعالیٰ نے اپنا کرم کیا اور سب کی زندگیاں محفوظ رکھیں۔ ایک مرتبہ خاکسار نے امی جان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس وقت کی دعا اس رنگ میں بھی قبول فرمائی کہ اپنے فضل سے سب افراد خاندان کو اچھی عمر عطا فرمائی۔ آپ کہتیں کہ جب ۱۹۷۴ ء میں شر پسندوں نےہمارے گھر کو آگ لگا دی تو میں دعا کرتی رہی کہ یا اللہ !میرا قرآن (تفسیر صغیر جو نانا ابا نے انہیں تحفے میں دی تھی )، تذکرہ اور کتاب سیرت خاتم النبیینؐ مجھے مل جائیں۔خدا کا کرنا ہوا کہ یہ کتابیں مجھے بعدمیں ایک ہمسائی کے ذریعہ مل گئیں۔ امی جان کو مالی قربانی کا بہت شوق تھا جو بھی جیب خرچ ہمارے والد صاحب کی طرف سے ملتایا بھائیوں کی طرف سے تحفے ملتے جمع کرتی رہتیں اور مختلف جما عتی تحریکات میں دیتیں، اپنے زیورات بھی کئی مرتبہ چندے کی مختلف تحریکات میں دیے۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے وقف نو کی تحریک فرمائی تو اپنے اکلوتے بیٹے کو وقف کر دیا۔ پردے کی بہت پابند تھیں، پردہ کرنے کا اپنا روایتی طریقہ آخری وقت تک اپنائے رکھا۔ ہم بیٹیوں کو پردہ کی اہمیت ان کے پردے کے متعلق اسی رویہ سے ملی۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی انہوںنے پردے کے بارے میں سختی کی ہو، گھر کا ماحول ہی ایسا تھا کہ جیسے جیسے بڑے ہوئے پردہ کرنے لگے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے تبلیغ کا شوق امی جان کو بچپن ہی سے تھا سکول کے دنوں میں آدھی چھٹی کے وقت کلاس فیلو بچیاں ان کے پاس آکر بیٹھ جاتیں اور امی جان انہیں حضرت مسیح موعودؑ کے واقعات سناتیں۔ فاروق آباد میں جہاں ہمارا گھر ہے اردگرد تمام غیرازجماعت رہتے ہیں اور موقع پا کر مخالفت کرنے یا شر پہنچانے سے گریز نہیں کرتے لیکن امی جان متواتر ہمسا یوں سے نیک سلوک کرتی رہتیں۔ تما م غیر از جماعت ہمسائے ان کی بہت عزت اور احترام کرتے۔ رمضان میں اپنے ہمسایوں کو راشن دیتیں کئی مرتبہ انہیں کھانا بنوا کر بھی بھجواتیں۔ جس بچی کی بھی شادی ہوتی اس کو ساتھ لے کر بازار جاتیں اور اس کی پسند کے مطابق ا س کو چیزیں خرید کر دیتیں۔ ایک ہمسائی بچی نے ان سے کہا کہ جتنا مزا مجھے آپ کے ساتھ جا کر آیا ہے کبھی اپنی امی کے ساتھ بھی نہیں آیا۔ احمدی بچیوں کو شادی کے موقع پر دوسری چیزوں کے ساتھ قرآن کریم کا تحفہ بھی ضرور دیتیں۔ اُن کے اِسی حسن سلوک کا اثر تھا کہ ایک ہمسائی کی ان کے ساتھ بہت گہری دوستی ہو گئی تھی خدا تعالیٰ نے اس خاتون کو احمدیت کی سچائی کے نشان بھی دکھائے لیکن اس کے گھر والے اس کو احمدی نہیں ہونے دیتے تھے۔ اس کی بیٹی کی شادی پر اسے حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے ترجمے کاقرآن تحفہ میں بھی دیا۔ اگر چہ حالات کی وجہ سے غیر از جماعت کو کبھی قرآن نہیں دیتی تھیں۔ امی جان کو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت عقیدت تھی۔ صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ، صاحبزادی امۃالحکیم بیگم صاحبہ اور صاحبزادی امۃالباسط بیگم صاحبہ کے ساتھ بہت پیار کا تعلق تھا۔کہتی تھیں میں صاحبزادی امۃالحکیم بیگم صاحبہ کو جا کر قصیدہ سنایا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ ربوہ گئیں اور صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ کی طرف نہ جا سکیں۔ کچھ دن بعد میری باجی کا ان کی طرف جانا ہوا تو انہوںنے کہا کہ تمہاری امی آئی تھیں مجھ سے مل کر نہیں گئیں۔ یہ سب ان کی شفقت اور محبت تھی کہ انہوں نے یاد رکھا۔ لاکھوں روپے سے قیمتی سلام: فاروق آباد کے سابق صدر جماعت شیخ محمد علی صاحب کے ایک خط کے جوا ب میں ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ وہاں ایک بی بی ہیں انہیں تبلیغ کا بہت شوق ہے ان سے میرا سلا م کہنا۔ شیخ صاحب کی بیگم صاحبہ نے ہماری امی جان کو کہا کہ آپ کو بہت مبارک ہو حضورؒ نے ہمارے خط میں آپ کو سلام بھیجا ہے۔ امی جان کہتی تھیں یہ لاکھوں روپے سے قیمتی سلام ہے، سرمایہ حیات ہے،محض خدا کا احسان اور خلیفہ وقت کی ذرّہ نوازی ہے ورنہ ہماری کیا حیثیت۔ اولاد کے تاثرات: ہماری والدہ کی دوسری خوبیوں کے علاوہ یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ وہ کسی بھی ناراضگی ؍ جھگڑے میں خواہ گھریلو ہو یا گھر سے باہر کہیں، خواہ غلطی کسی کی بھی ہو، معافی مانگنے میں ہمیشہ پہل کرتی تھیں۔ کہتی تھیں معافی مانگنے والے کا درجہ بڑا ہوتا ہے۔ ان کی نواسی ڈاکٹر ماریہ ندرت بھٹی کہتی ہیں کہ نانی اماں نے بچپن سے ہمیں نیکی کی باتیں بتائیں۔ جب بھی میرے اور میرے بھائیوں کے امتحان ہوتے ہمیشہ اپنا کمرہ بند کرکے بیٹھ جاتیں اورجب تک پرچہ ہوتا بیٹھ کر توجہ سے دعا کرتیں،ہمیں بھی دعا کےلیے حضور کو خط لکھنے کا کہتیں۔ ہمیشہ قرآن کریم پڑھنے اور یاد کرنے کی تلقین کرتیں ان کی تحریک پر میں نے اور میرے چھوٹے بھائی فاران احمد بھٹی نے سورہ یٰسین یاد کی۔ جب انہیں بتا یا تو انہوںنے سجدہ شکر ادا کیا۔ مجھے اور میرے چھوٹے بھائیوں کو قرآن کا ترجمہ پڑھنے کو کہتی تھیں کہ زیادہ نہیں تو صرف ایک آیت کا ترجمہ ہی مجھے فون پر سنا دیا کرو۔جب کبھی ہم بچے ان کے پاس ملنےجاتے اور اکٹھے بیٹھتے تو کہتیں کہ آؤجلسہ کر لیتے ہیں۔ کوئی بچہ تلا وت کردے، کو ئی نظم پڑھ دے اور کوئی تقریر کر دے۔ دوسری نواسی راضیہ راشد بھٹی کہتی ہیں کہ نانی اماں کہتی تھیں پہلے پانچ پارے ترجمے سے یاد کر لو باقی خود ہی آ جاتے ہیں کیونکہ بہت سے الفاظ بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ ان کے اسی توجہ دلانے پر میں نے قرآن ترجمے سے مکمل پڑھ لیا۔ اور چھوٹی بہن سائرہ راشد بھٹی نے بھی با ترجمہ قرآن شروع کر لیا۔ ان کے نواسے نواسیاں کہتے ہیں کہ جب بھی ہم ان کے گھر جاتے ہمیں تہجد اور فجر کی نماز کے لیے خود بڑے پیار سے جگاتیں۔جب بھی ہم کسی کامیابی کا بتاتے، تو سجدہ شکر ادا کرتیں۔ اپنے نیک نصیب ہونے کے لیے دعا کرنے کا کہتیں۔ کسی نے کوئی تقریر کرنی ہوتی تو اس کی تقریر میں مدد کرتیں موضوع کے متعلق آیات اور احادیث بتاتیں۔ ان کے نواسے، نواسیوں کو ان سے بہت پیار تھا، اتنا کہ ان کی وفات پر ہمیں انہیں حوصلہ دینا پڑ رہا ہے۔ یہ تذکرے یہ تجسس اسی کا نذرانہ : خاکسار کا اپنی والدہ کے سا تھ بہت ہی پیار کا تعلق تھا۔جب سے ہوش سنبھالی انہیں خدمت دین کے لیے ہمہ وقت بے چین دیکھا۔ خلافت سے والہانہ عشق تھا۔جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے وصیتوں کی تحریک کی تو اس کے لیے نکل کھڑی ہوئیں۔ پاکستان میں خطبہ جمعہ کا وقت شام کا ہوتا ہے حضور کے وصیت والے خطبے کے بعد مجھے یاد ہے اتنی بے چین ہوئیں کہنے لگیں دل کر رہا ہے(لوگوں کو وصیت کا کہنے) ابھی رات کو ہی چلی جاؤں(ہم بچوں کی تو پہلے ہی وصیتیں کروا لی ہوئی تھیں)۔ ہمارے ابو جان کبھی ان کے اس والہانہ شوق کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے۔ ان کی ہمیشہ سے بہت شدید خواہش تھی کہ ان کے بچے الفضل میں اور جماعتی رسا ئل میں مضامین لکھیں۔کہتی تھیں کہ میں جو تبلیغ کرتی ہوں اس کا تو کوئی ریکارڈ نہیں رہ جاتا۔ لیکن جو مضامین جماعتی اخبارات و رسائل میں چھپتے ہیں یہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ ان کی اس تحریک کا ہی نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو چھوٹی عمر سے یہ توفیق بخشی کہ ان کی خواہش پوری کر سکوں۔ میں جو بھی مضمون لکھتی سب سے پہلے ان کو بھیجتی، وہ پڑھ کر بہت خوش ہوتیں۔حوصلہ افزائی بھی کرتیں اور ضرورت کے مطابق نہایت ہی مناسب مشورہ بھی دیتیں۔ میں ان کے مشورے کے مطابق تبدیلی کرتی اور دوبارہ پڑھنے کو بھیجتی، اس طرح وہ پروف ریڈنگ کا کام بھی کر دیتی تھیں۔امی جان کی وفات کے بعد یہ پہلا مضمون ہے جو میں لکھ رہی ہوں اور لکھتے ہوئے یہی سوچ رہی ہوں کہ کس سے مشورہ کروں گی؟ مجھے قرآن کے کسی حوالہ کی ضرورت ہوتی یا جماعتی کتب میں سے کوئی حوالہ ڈھونڈنا ہوتا تو ان سے پوچھتی۔ میری بڑی بہنوں کو بھی خدا تعا لیٰ نے لکھنے کی توفیق دی۔جب ان کی اولاد میں کوئی خدمت دین کی توفیق پاتا تو بہت خوش ہوتیں۔ بہت حوصلہ افزائی کرتیں اور سجدہ شکر بجا لاتیں۔ انہوںنے تفسیر کبیر جوانی کی عمر میں مکمل پڑھ لی تھی، تفسیر کبیر سے انہیں عشق تھا، چونکہ یہ تفسیر ان دنوں چھپ نہیں رہی تھی وہ فاروق آباد کے ایک احمدی گھرانے سے ادھار لے کر آتیں اس کے نوٹس بناتیں اور پھر جلد واپس کر کے دوسری جلد لے کر آتیں اس سے ان کی قرآن اور تفسیرکبیر سے والہانہ محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ دیباچہ تفسیر القرآن، حقائق الفرقان، سیرت خاتم النبیینؐ، کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیوانی تھیں۔ ان کے کمرے میں بستر کے دونوں طرف کتابوں کے ڈھیر لگے ہوتے۔ اسی طرح چندہ دینے میں بہت باقاعدہ تھیں۔تحریک جدید اور وقف جدید کے سال شروع ہونے سے پہلے ہی چندہ الگ کر کے رکھ دیتی تھیں جیسے ہی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نئے سال کا اعلان فرماتے فوراً سب سے پہلے چندہ دیتیں۔ اس مرتبہ بھی ان کا تحریک جدید اور وقف جدید ادا شدہ ہے اگرچہ وقف جدید کے سال کا اعلان ان کی وفات سے ایک دن قبل ہوا تھا۔ میری عادت تھی کہ روزانہ صبح فون کر کے ان کا حا ل احوال پوچھتی اور ان کی یہ روٹین تھی کہ جو بھی کتاب یا تفسیر ان کے زیر مطالعہ ہوتی اس میں سےعموماً مجھے کو ئی اقتباس سناتیں۔ وہ صبحیں جو تفسیروں اور اقتباسات سے رنگین تھیں کبھی نہ بھولنے والی ہیں، جواب دوبارہ کبھی لوٹ کر نہ آئیں گی۔ ہم دونوں کو ہی اس فون کال کی عادت ہو گئی تھی۔ مجھے انگلینڈ منتقل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ جب پہلی بار جلسہ سالانہ پر گئی، تو حدیقۃالمہدی میں چونکہ فون کے سگنلز نہیں آتے، جلسے کے دوران چند دن ان سے با ت نہ کر سکی جب واپس آ کر فون کیا تو کہنے لگیں ’’تم چلی گئی تو مجھے لگا کہ جیسے میں بیمار ہو گئی ہوں۔‘‘ مجھےجب کبھی کوئی پریشانی ہوتی تو انہیں دعا کے لیے کہتی، میں نے ان کی دعاؤں کو اپنے حق میں قبول ہوتے بہت بار تجربہ کیا۔ پچھلے کچھ عرصہ سے انہیں اپنی پریشانی کی باتیں نہیں بتاتی تھی کہ وہ پریشان نہ ہوں اب سوچتی ہوں کہ بتا دیتی تو ان کی دعائیں تو مل جاتیں۔ ہمارے بچپن میں ہمیں سچ بولنے پر بہت زور دیا۔ میں کہہ سکتی ہوں کہ یہ وہ چیز تھی جس کی سختی سے نصیحت کرتی تھیں۔اس لیے سچائی کی اہمیت اگر چہ بچپن سے دل میں تھی لیکن جب معاشرے میں نکلے، تو تب حقیقی معنوں میں احساس ہوا کہ جھوٹ کس قدر بد صورت چیز ہے۔یہ ہماری والدہ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے، جو انہوںنے ہمیں سچائی کی اہمیت کا احساس دلایا۔ جزاک اللہ امی جان۔ جو بھی لوگ تعزیت کے لیے آرہے ہیں وہ ان کے خدمت دین کے جذبے، پردے کی پابندی اور قرآن سے محبت کا بہت ذکر کر رہے ہیں۔ یہ ان کی قرآن کریم سے محبت ہی تھی جو ہم سب بھائی بہنوں نےان کے توجہ دلانے پر بہت کم عمری میں آخری آدھا پارہ، حفظ کیا۔ اس کے علاوہ سورہ یٰسین، سورہ جمعہ اور قرآن کے کچھ حصے یا د کیے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹیاں ان کو غسل دیں، ان کی بڑی دونوں بیٹیوں اور تینوں نواسیوں نے مل کر ان کو غسل دیا۔ اپنے لیے کفن کا کپڑاحضور سے دعا کروا کر رکھا ہوا تھا۔ وہ بھی انہیں پہنا دیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے آخری وقت میں ان کے تمام کام آسانی سے کردیے۔بہشتی مقبرہ دارالفضل میں ان کی خواہش کے مطابق تدفین کی اجازت مل گئی۔ الحمدللہ امی جان ۳؍۱ حصہ کی موصیہ تھیں۔ مورخہ۵؍جنوری ۲۰۲۵ء کو مغرب کی نماز کے بعد محترم ناظر صاحب اعلیٰ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ افراد جماعت سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ میری والدہ سے مغفرت اوررحم کا سلوک فرمائے، اپنے پیاروں کا قرب عطا فرمائے۔ ہمیں ان کی نیکیاں زندہ رکھنے کی توفیق دے آمین (ریحانہ صدیقہ بھٹی۔ یوکے)