https://youtu.be/xByWiry0E-w ٭… یہ وہ لوگ تھے، جنہوں نے ہر خطرے کے موقعے پر اپنی جان کو بلا دریغ خطرے میں ڈال دیا، کوئی تکلیف اور دکھ اُنہیں نہیں پہنچا، جسے اُنہوں نے تکلیف اور دکھ جانا ہو۔ بلکہ جب بھی کوئی خدمت کا موقع آتا تو وہ اپنی جان بخوشی پیش کر دیتے ٭… بنگلہ دیش، پاکستان اور افریقہ کے احمدیوں نیز فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعاؤں کی تحریک ٭…محمد حسین صاحب ابن محمد اسماعیل صاحب آف ربوہ کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍نومبر۲۰۲۵ء بمطابق ۱۴؍نبوت۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۴؍نومبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے غزوات اورغزوات میں آپؐ کی سیرت کے حوالے سے گذشتہ خطبوں میں ذکر ہو رہا ہے، اِس ضمن میں غزوۂ تبوک کی تفصیل بیان ہو رہی تھی، اِس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ اِس موقعے پر ایک خاتون نے بڑے اخلاص اور جوش کا اظہار کیا۔جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ چونکہ لشکر کو شام کی طرف جانا تھا اور مؤتہ کی جنگ کا نظارہ مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے تھا، اِس لیے ہر مسلمان کے دل میں رسول اللهؐ کی جان کی حفاظت کا خیال سب خیالوں پر مقدّم تھا، عورتیں تک بھی اِس خطرے کو محسوس کر رہی تھیں اور اپنے خاوندوں اور اپنے بیٹوں کو جنگ پر جانے کی تلقین کر رہی تھیں۔ اِس اخلاص اور اِس جوش کا اندازہ اِس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک صحابیؓ، جو کسی کام کے لیے باہر گئے ہوئے تھے، اُس وقت واپس لَوٹے جب رسول اللهؐ لشکر سمیت مدینے سے روانہ ہو چکے تھے۔ایک عرصے کی جُدائی کے بعد جب وہ اِس خیال سے اپنے گھر میں داخل ہوئے کہ اپنی بیوی کو جا کر دیکھیں گے اور خوش ہوں گے تو اُنہوں نے اپنی بیوی کو صحن میں بیٹھے ہوئے دیکھا اور محبّت سے پیار کرنے کے لیے آگے بڑھے، جب وہ بیوی کے قریب آگئے، تو اُن کی بیوی نے دونوں ہاتھوں سے اُن کو دھکّا دے دیا اور پیچھے ہٹا دیا اور کہا کہ کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ خدا کا رسولؐ اُس خطرے کی جگہ پر جا رہا ہے اور تم اپنی بیوی سے پیار کرنے کی جرأت کرتے ہو۔ پہلے جاؤ اور اپنا فرض ادا کرو، اِس کے بعد یہ باتیں دیکھی جائیں گی۔ وہ صحابیؓ فوراً گھر سے باہر نکل گئے اور اپنی سواری کی زِین کسی اور رسول اللهؐ کو تین منزل پر جا کر مِل گئے۔ اور پھر اُسی وقت گھر واپس آئے جب رسولِ کریمؐ اپنے دوسرے صحابہؓ کے ساتھ مدینہ واپس لَوٹے۔ غرض یہ وہ لوگ تھے، جنہوں نے ہر خطرے کے موقعے پر اپنی جان کو بلا دریغ خطرے میں ڈال دیا، کوئی تکلیف اور دکھ اُنہیں نہیں پہنچا، جسے اُنہوں نے تکلیف اور دکھ جانا ہو۔ بلکہ جب بھی کوئی خدمت کا موقع آتا تو وہ اپنی جان بخوشی پیش کر دیتے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ بہرحال اِس کی تفصیلات میں یہ لکھا ہے کہ پندرہ یا اُنیس مقامات پر پڑاؤ کرتے ہوئے آپؐ اپنے صحابہؓ سمیت تبوک کے مقام پر پہنچ گئے۔ تبوک کے اِس سفر میں جن جگہوں پر پڑاؤ کیا گیا، اُس کی الگ سے تفصیل نہیں ملتی، البتہ بعد میں اِن جگہوں پر مساجد تعمیر کی گئیں اور اِن مقامات کے نام پر مساجد کے نام رکھے گئے، تو مؤرّخین نے اِس سے یہ تفصیل بیان کی کہ اِنہی جگہوں پر حضورؐ نے قیام فرمایا ہو گا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم غزوۂ تبوک میں رسول اللهؐ کے ساتھ نکلے، تو آپؐ ایک رات سو گئے اور اُس وقت بیدار ہوئے جب سورج نیزہ بھر بلند ہو چکا تھا، آپؐ نے فرمایا کہ اَے بلال! کیا مَیں نے نہیں کہا تھا کہ ہمارے لیے فجر کا انتظار کرنا؟ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللهؐ! آپؐ کی طرح نیند مجھے بھی لے گئی۔ روای بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریمؐ نے لشکر کو روانگی کا حکم دیا اور پھر کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد سواری سے اُتر کر سُنّتیں ادا کیں اور صحابہؓ کو نماز پڑھائی، پھر آپؐ سارا دن اور ساری رات سفر کرتے رہے، یہاں تک کہ اگلے روز صبح کے وقت آپؐ تبوک پہنچ گئے۔ تبوک پہنچ کے آپؐ نے الله تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور صحابہؓ سے خطاب فرمایا کہ اے لوگو! سب سے سچّی بات الله کی کتاب ہے اور مضبوط ترین کڑا تقویٰ کی بات ہے اور بہترین مذہب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مذہب ہے اور بہترین سُنّت محمد (صلی الله علیہ وسلم) کی سُنّت ہے اور سب سے بلند بات ذکرِ الٰہی ہے اور بہترین قصّہ یہ قرآن ہے اور بہترین اُمور وہ ہیں، جن کو پختہ ارادے سے کیا جائے، اور بدّ ترین اُمور بدعات ہیں۔ اور بہترین ہدایت انبیاء کی ہدایت ہے اور سب سے افضل موت شہادت کی موت ہے ۔اور ہدایت کے بعد سب سے بڑا اندھا پن ضلالت ہے اور بہترین اعمال وہ ہیں جو نفع مند ہوں ، اور بہترین ہدایت وہ ہے ، جس کی پیروی کی جائے۔ اور سب سے بُرا اندھا پن دل کا اندھا ہونا ہے۔ اُوپر کا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اور جو تھوڑا اور کفایت کرنے والا ہو، وہ زیادہ اور غافل کر دینے والے سے بہتر ہے۔ اور سب سے بُری معذرت وہ ہے جو موت کے وقت کی جائے، اور سب سے بُری شرمندگی قیامت کے روز ہو گی۔ اور کچھ لوگ نمازِ جمعہ کے لیے بہت دیر سے آتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو چھوڑ چھوڑ کر ذکرِ الٰہی کرتے ہیں، اور سب سے عظیم گناہوں میں سے ایک گناہ جھوٹی زبان ہے۔ اور بہترین دولتمندی تو دل کا دولتمند ہونا ہے اور بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے اور دانائی کا کمال الله کا خوف ہے اور بہترین بات وہ ہے، جو دلوں میں جا گزیں کرے۔اور شک کرنا کُفر کا حصّہ ہے اور نوحہ کرنا جاہلیت کا عمل ہے اور خیانت جہنّم کی آگ ہے۔اور بُرا شعر ابلیس کی جانب سے ہے اور شراب گناہ کی جامع ہے اور عورتیں شیطان کے جال ہیں اور جوانی جنون کا ایک حصّہ ہے۔اور سب سے بُری کمائی سُود کی کمائی ہے اور سب سے بُرا کھانا یتیم کا مال کھانا ہے۔اور نیک بخت وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے، اور بدّ بخت وہ ہے جو ماں کے پیٹ سے ہی بدّ بخت ہو۔ اور تم میں سے ہر ایک آدمی چار ہاتھ جگہ کی طرف جانے والا ہے اور معاملہ آخرت پر موقوف ہے اور کام کا دارومدار انجام پر موقوف ہے۔ اور سب سے بُرے راوی جھوٹے راوی ہیں، اور جو کچھ آنے والا ہے، وہ قریب ہے۔ اور مومن کو گالی دینا فسق ہے اور مومن سے جنگ کرنا کفر ہے اور مومن کی غیبت کرنا الله کی معصیت ہے اور اُس کے مال کی حرمت اُس کے خون کی طرح ہے۔ اور جو الله کے مقابل پر قسم کھائے گا، وہ اُس کی تکذیب کرے گا، اور جو اِس سے مغفرت طلب کرے گا، وہ اُسے بخش دے گا۔ اور جو اپنے بھائی کو معاف کرے گا، الله اُسے معاف کر دے گا، اور جو غصّے کو پی جائے گا، الله اُسے اجر دے گا۔ اور جو مصیبت پر صبر کرے گا الله اُسے اِس کا بدلہ دے گا، اور جو شہرت پسند ہو گا، الله اُسے شہرت دے گا اور جو صبر کرے گا الله اُسے دُگنا دے گا۔اور جو الله کی نافرمانی کرے گا الله اُسے عذاب دے گا۔ پھر فرمایا! اے الله! مجھے اور میری اُمّت کو بخش دے۔ اے الله! مجھے اور میری اُمّت کو بخش دے۔ اے الله! مجھے اور میری اُمّت کو بخش دے۔آپؐ نے یہ بات تین دفعہ دُہرائی اور پھر فرمایا کہ مَیں الله سے اپنے اور تمہارے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ اِس موقع پر ھِرَقْلُ کو دعوتِ اسلام کے لیے خط کا بھی ذکر ملتا ہے۔ جب آنحضرتؐ تبوک پہنچے، تو ھِرَقْلُ یعنی قیصرروم ، اُس وقت حِمص میں موجود تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو میرا مکتوب قیصر تک لے جائے گااُس کے لیے جنّت ہے۔ ایک شخص نے عرض کی کہ اگر وہ اِس خط کو قبول نہ بھی کرے؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ اُسے قبول نہ بھی کرے تو بھی۔ چنانچہ وہ شخص آپؐ کا خط لے کر گیا اور ھِرَقْلُ کو دے دیا، اُس نے اِسے پڑھا اور کہا کہ تم اپنے نبی کے پاس چلے جاؤ اور اُسے بتا دو کہ مَیں اُس کا پیرو کار ہوں، لیکن مَیں اپنی سلطنت کو نہیں چھوڑنا چاہتا۔ اِس نے کچھ دینا ربھی آپؐ کی خدمت میں بھیجے۔وہ شخص واپس آیا، آپؐ کو اِس کے متعلق بتایا، تو آپؐ نے فرمایا: یہ اس نے جھوٹ بولا ہے۔ اور آپؐ نے دینار لوگوں میں تقسیم کر دیے۔ تاریخ میں اہلِ ایلہ سے مصالحت کا ذکر ملتا ہے۔ تبوک میں قیام کے دوران ایلہ کا حاکم یحنہ بن رؤبہ رسول اللهؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، اِس کے ساتھ اہلِ شام، اہلِ یمن، اہلِ بَحر، اہلِ جَرباء اور اَذْرُح بھی آئے اور اُنہوں نے بھی مصالحت کی درخواست کی۔ رسول اللهؐ نے اُن کے لیے ایک اَمان نامہ تحریر فرمایا، جو کہ حضرت جُہَیم بن صَلْت حضرت شُرَحْبِیْل بن حَسَنَہؓ نے رسول الله ؐ کے حکم پر تحریر کیا تھا۔ پھر اہلِ مقنا سے معاہدۂ صلح ہوا، اہلِ مقنا یہودی تھے اور یہ بستی ساحلِ سمندر پر ایلہ کے قریب آباد تھی۔ یہ بھی رسول اللهؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ نے اُنہیں بھی امان نامہ لکھ کر دیا۔ غزوۂ تبوک کے حوالے سے ہی ایک سریّہ کا ذکر ملتا ہے، یہ سریّہ حضرت خالد بن ولیدؓ بطرف اُکیدر بن عبدالملک کہلاتا ہے۔ تبوک سے ۴۰۰؍ کلومیٹر کے فاصلے پر یہ قلعہ تھا، اُکیدر قبیلہ بنو کِندہ میں سے تھا اور اِس کا بادشاہ اور عیسائی تھا۔ رسول اللهؐ نے حضرت خالدؓ سے فرمایا کہ تم اُسے رات کے وقت دیکھو گے، جب وہ گائے کا شکار کر رہا ہو گا تو تم اُسے پکڑ لینا۔پھر فرمایا کہ الله تعالیٰ تمہارے لیے دومہ کو فتح کرا دے گا۔ اگر تم اِس پر غلبہ پا لو، اُسے قتل نہ کرنا، اُسے میرے پاس لے آنا۔ اگر وہ انکار کرے، لڑائی کرے ، تو پھر اُسےقتل کر دینا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تبوک کے موقعے پر ایک صحابی حضرت عبدالله ذوالبجادین مُزنی ؓکی وفات اور تدفین کا بھی ذکر ملتا ہے، جس کو دیکھ کر بعض بڑے صحابہؓ نے خواہش کی کہ کاش! اِس دفن ہونے والے کی جگہ وہ خود ہوتے۔اسی طرح اس سفر میں حضرت معاویہ بن معاویہ مُزنیؓ کی نمازِ جنازہ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللهؐ تبوک میں تھے کہ جبرئیلؑ آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللهؐ! معاویہ مُزنی مدینے میں فوت ہو گئے ہیں، اِن کی نمازِ جنازہ پڑھیں۔ پھر کشفاً اُن کی چارپائی ، جس پر اُن کا جنازہ تھا، ہوا میں بلند کی گئی اور حضورؐ کی آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ آپؐ نے نمازِ جنازہ ادا کی۔ آپؐ کے سامنے فرشتوں کی صفیں بھی تھیں۔ حضورؐ نے حضرت جبرئیلؑ سے دریافت کیا کہ یہ مقام اُسے کیسے حاصل ہوا، جبرئیلؑ نے جواب دیا کہ سورہ قُلْ ھُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ سے محبّت کرنے کی وجہ سے، وہ اُٹھتے ، بیٹھتے ،سوار اور پیدل ، ہر حالت میں اِس کی تلاوت کرتے تھے۔ یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ تبوک میں پہنچنے کے بعد مزید پیش قدمی کے لیے صحابہؓ سے آنحضرتؐ نے مشورہ کیا۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللهؐ! اگر آپؐ کو آگے بڑھنے کا حکم ہے، تو آپؐ ضرور تشریف لے چلیں۔ تو رسول اللهؐ نے فرمایا کہ اگر مجھے الله کی طرف سے آگے جانے کا حکم ہوتا تو مَیں تم سے مشاورت نہ کرتا۔ تو پھر اُنہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللهؐ! اہلِ روم کے پاس بہت سے لشکر ہیں، اِن میں اہلِ اسلام میں سے کوئی بھی نہیں ہے، ہم اُن کے قریب آ گئے ہیں، آپؐ کے قریب آنے نے ہی اِن کو خوفزدہ کر دیا ہے، ہم اِس سال واپس چلے جاتے ہیں، حتّی کہ کوئی رائے پیدا کر لیں یا الله تعالیٰ کوئی صورتحال پیدا فرما دے۔بہرحال اِس بات کو سُن کر رسول اللهؐ نے تبوک میں بیس دن قیام فرمانے کے بعد جانے کا فیصلہ کیا اور ایک دوسرے قول کے مطابق آپؐ نے بیس دن سے کم دن تبوک میں قیام فرمایا۔ مدینے سے روانگی اور واپسی تک دو ماہ یا اِس سے زائد عرصہ لگا ہے۔ بعد ازاںحضورِ انور نے بنگلہ دیش، پاکستان اور افریقہ کے احمدیوں نیز فلسطین کے مسلمانوں کے لیے دعا کی تحریک فرمائی جس کی تفصیل درج ذیل لنک پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے: https://www.alfazl.com/2025/11/14/134663 خطبہ ثانیہ سے قبل حضورِ انور نے فرمایا کہ نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو محمد حسین صاحب ابن محمد اسماعیل صاحب آف ربوہ کا ہے، جو گذشتہ دنوں اَسّی سال کی عمر میں وفات پا گئے ۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور چار بیٹے شامل ہیں۔ آپ کے بیٹے محمد عمران صاحب نائیجر میں مبلغِ سلسلہ ہیںاور میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے والد کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے۔ ایک اور بیٹے محمد لقمان صاحب معلّم ِسلسلہ ہیں۔الله تعالیٰ اِن سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے، خاص طور پر اِن کے جو بیٹے باہر ہیں، الله تعالیٰ اِن کو صبر اور حوصلہ دے اور اِن کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔ ٭…٭…٭