https://youtu.be/M2ZEbCLy5SE?si=6tbc1_MNyjf1lCvi&t=2124 شام کے وقت ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ دادی جان اپنے آرام دہ تخت پر بیٹھی دعائیں پڑھ رہی تھیں۔ احمد، محمود اور گڑیا کھیلتے کھیلتے اُن کے پاس آ بیٹھے۔ گڑیا نے دادی جان کے گھٹنے پر سر رکھ دیا۔ گڑیا: دادی جان، جب ہم ربوہ گئے تھے تو وہاں ایک سڑک دیکھی تھی جہاں لکھا تھا شاہراہ دُختِ کِرام ۔ آپ نے کہا تھا کہ اس بارے میں آپ بعد میں تفصیل سے بتائیں گی۔ دادی جان (اپنی ڈائری اٹھاتے ہوئے): یہ دراصل حضرت مسیح موعودؑ کا ایک الہام تھا جو حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ کی ولادت سے قبل1904ء میں ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے حقیقة الوحی میں اپنے نشانات میں اِسے چالیسویں نمبر پر درج فرمایا ہے۔ آپؓ نہ صرف بہت خوبصورت اور ذہین تھیں بلکہ شکل و شباہت میں بھی اپنے پیارے بابا، حضرت مسیح موعودؑ سے بہت ملتی جلتی تھیں۔ احمد : واقعی؟ حضرت مسیح موعودؑ بھی اُن سے بہت محبت کرتے ہوں گے ناں؟ دادی جان: ہاں بیٹا، بہت زیادہ۔ جس کا اندازہ حضرت مسیح موعودؑ کی سورۂ آل عمران کی تفسیر میں بیان فرمودہ درج ذیل نکتے سے بھی ہوتا ہے۔حضرت عیسیٰؑ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ مہد میں بولنے لگے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ پیدا ہوتے ہی یا دو چار مہینے کے بولنےلگے۔ اس سے یہ مطلب ہے کہ جب وہ چار برس کے ہوئے کیونکہ یہ وقت تو بچوں کے پنگھوڑے میں کھیلنے کا ہوتا ہے اور ایسے بچے کےلیے باتیں کرنا کوئی تعجب انگیز امر نہیں۔ ہماری لڑکی امة الحفیظ بھی بڑی باتیں کرتی ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ صرف چار برس کی تھیں۔ سوچو، اتنی سی عمر میں وہ سمجھداری کی باتیں کرتی تھیں ! محمود: دادی جان! حضرت مسیح موعودؑ اُن کے ساتھ کھیلتے بھی تھے؟ دادی جان (مسکراتے ہوئے): کھیلنے سے بھی بڑھ کر ان کی ہر چھوٹی خواہش پوری کرتے تھے۔ ایک دن حضرت مسیح موعودؑ سیر کو جا رہے تھے کہ حضرت اماں جانؓ نے پیغام بھیجا کہ امة الحفیظ رو رہی ہیں اور ساتھ جانے کی ضد کر رہی ہیں۔تو کیا ہوا؟ آپؑ نے فوراً ملازمہ کو بھیجا کہ اُنہیں لے آؤ۔ پھر آپؑ نے خود اپنی گود میں اٹھا لیا اور سیر پر ساتھ لے گئے۔ گڑیا:کتنا پیارا منظر ہوگا ناں دادی جان؟ دادی جان: ہاں میری گڑیا، بہت پیارا۔اور سُنو، حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کے بچپن کے بارے میں بتایا کہ امۃ الحفیظ ڈھائی سال کی تھی۔ کبھی کبھار حضرت مسیح موعودؑ کے پاس جا کر کہا کرتی تھی کہ ابا مجھے چیجی (چیز) دو۔ اور حضرت مسیح موعودؑ اسے کوئی چیز کھانے کی دے دیا کرتے تھے۔ احمد: لیکن دادی جان، کیا وہ بھی دوسروں کی طرح شرارتیں کرتی تھیں؟ دادی جان: ایک دفعہ تو انہوں نے ایک خادم سے کوئی بُرا لفظ سیکھ لیا اور توتلی زبان میں حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے کسی کو کہا۔ آپ نے بہت خفگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ اس چھوٹی عمر میں جو الفاظ زبان پر چڑھ جاتے ہیں وہ دماغ میں محفوظ بھی رہ جاتے ہیں اور بعض دفعہ انسان کی زبان پر مرتے وقت جاری ہوجاتے ہیں۔ بچے کو فضول بات ہرگز نہیں سکھانی چاہیے۔ محمود ( کچھ سوچتے ہوئے ): مطلب یہ کہ ہمیں بچپن سے ہی اچھے الفاظ بولنے چاہئیں۔ دادی جان: ہاںبالکل بیٹا۔ یہی سبق تو حضرت مسیح موعودؑ نے دیا۔اور آپ کو معلوم ہے؟ حضرت اماں جانؓ کو بھی اپنی یہ چھوٹی بیٹی بہت پیاری تھیں۔ ایک بار انہوں نے ایک دونّی (چھوٹا سکہ) پر حضرت مسیح موعودؑ سے دعا کروا کر رکھ لی تاکہ یہ برکت ہمیشہ امة الحفیظ بیگم ؓکے ساتھ رہے۔ گڑیا (حیرت سے): اور وہ دعا ہمیشہ اُن کے ساتھ رہی؟ دادی جان: جی ہاں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد حضرت اماں جانؓ نے کبھی انہیں اکیلا محسوس نہیں ہونے دیا۔ایک بار صاحبزادی امة الحفیظ بیگم سکول جانے سے ناراض ہو گئیں اور کہا کہ میں نہیں جاؤں گی۔ تو حضرت اماں جانؓ نے کیا کیا؟ سارا سکول ہی گھر بلا لیا! دارالمسیح کے صحن میں اُن کی کلاس لگ گئی۔ احمد (قہقہہ لگا کر): واہ! یہ تو سب سے اچھا سکول ہوگا۔ دادی جان (ہنستے ہوئے): ہاں بیٹا، محبت بھرا سکول۔ آپ کی بیٹی محترمہ فوزیہ شمیم صاحبہ آپؓ کے بچپن کے واقعات بیان کرتے ہوئے تحریر کرتی ہیں کہ بعض اوقات آپ کھیلتے کودتے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے درس میں بھی شامل ہوجاتیں اور حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ آپ کو اپنی گود میں بٹھاکر درس دیتے۔ ایک دفعہ حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے آپ کو سمجھایا تھا کہ اپنی نیک قسمت کے لیے ابھی سے دعا کرنی چاہیے۔ محمود: یعنی بچپن سے ہی نیک بننے کی دعا کرنی چاہیے؟ دادی جان: بالکل۔ اسی لیے تو امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ کا بچپن پاکیزہ اور بابرکت تھا۔ انہوں نے سات سال کی عمر میں قرآن کریم ناظرہ مکمل کیا، جس پر3؍جولائی 1911ء کو تقریب آمین ہوئی جس میں حضرت مسیح موعودؑ کی منشاء کے مطابق حضرت مصلح موعودؓ کی لکھی ہوئی نظم پڑھی گئی جس میں اس مصرعہ کی تکرارہے: فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْاَمَانِیْ گڑیا : دادی جان یہ نظم ہمارے سلیبس میں بھی تھی۔ مجھے یہ شعر ابھی تک یاد ہیں حفیظہ جو مری چھوٹی بہن ہے نہ اب تک وہ ہوئی تھی اس میں رنگیں ہوئی جب ہفت سالہ تو خدا نے یہ پہنایا اُسے بھی تاجِ زرّیں دادی جان: شاباش بیٹا! چلیں اب اذان ہونے والی ہے اٹھ کر وضو کریں پھر نماز پڑھتے ہیں ۔ بچے :ٹھیک ہے دادی جان اور اندر چلے جاتے ہیں ۔ (بحوالہ کتاب دختِ کرام ) (درثمین احمد۔ جرمنی)