https://youtu.be/X8qnyGspXQE آج سے سو سال قبل سر زمین انڈونیشیا میں پہنچنے والے پہلے مبلغ ’’[حضرت مولوی رحمت علی صاحب]ان لوگوں میں سے ہیں کہ جن کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو خدا کئی دفعہ سچا کر دکھاتا ہے۔ یہ پہلے کہتے ہیں اور فرشتوں کو بعد میں ان کی متابعت کا حکم دیا جاتا ہے‘‘(حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ) ۱۹۲۰ء کی دہائی کے آغاز میں جزائر شرق الہند سے تین نوجوان طلبہ مولوی ابو بکر ایوب صاحب، مولوی نور الدین صاحب اور مولوی زینی دحلان صاحب دینی تعلیم حاصل کرنے ہندوستان آئے۔ لکھنؤ اور لاہور میں کوشش کے بعد بالآخر اگست ۱۹۲۳ء میں قادیان آگئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا مدعا بیان کیا۔ حضورؓ نے اس شرط پر دینی تعلیم کے اہتمام کا وعدہ فرمایا کہ چھ ماہ تک صرف اردو زبان پڑھنی ہوگی۔چنانچہ انہوں نے شرط قبول کرتے ہوئے پہلے اردو سیکھی اور پھر دینیات کی تعلیم حاصل کرنے لگے اور قادیان کے ماحول اور احمدیہ تعلیم سے متاثر ہوکر جلد ہی احمدیت میں داخل ہوگئے۔ ان تینوں کی مساعی سے سماٹرا اور جاوا سے مزید طلبہ بھی قادیان آگئے۔ بہرحال ان سب طلبہ نے خط و کتابت کے ذریعہ اپنے رشتہ داروں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا پیغام دیتے ہوئے انہیں بیعت کی دعوت دی چنانچہ بعض نے بیعت کی حامی بھر لی اور بعض نے مخالفت کا رنگ اختیار کیا۔ بہر کیف ان حالات میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حضرت مولوی رحمت علی صاحب کو بطور مبلغ اسلام احمدیت انڈونیشیا جانے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت مولوی رحمت علی صاحب حضرت مولوی رحمت علی صاحبؓ ۱۸۹۳ء میں اوجلہ ضلع گورداسپور کے مخلص صحابی حضرت بابا محمد حسن صاحبؓ (موصی نمبر ۱۔ وفات: ۲۰؍جولائی ۱۹۵۰ء) کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قادیان سے ہی حاصل کی۔ آپ کے والدصاحب نے بچپن میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دیا اور عرض کی کہ ’’میں نے اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں وقف کر دیا ہوا ہے۔ میرا ایک ہی لڑکا ہے اُسے بھی آج میں وقف کرتا ہوں، اگر حضور اس کو اپنے حکم سے شاخ دینیات (مدرسہ احمدیہ) میں داخل کر دیں گے تو میں کامیاب ہوگیا۔‘‘ اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا : ’’میں محمد حسن پر بڑا خوش ہوں، اس نے مجھ کو لڑکا شاخ دینیات کے لیے دیا ہے۔‘‘ (الفضل ۲۶؍ستمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۵) حصول تعلیم کے بعد ۱۹۱۷ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تحریک وقف زندگی پر لبیک کہتے ہوئے، آپ نے بھی اپنا نام حضور کی خدمت میں پیش کر دیا اور ۱۹۲۱ء میں مبلغین کلاس پاس کر لی۔ کچھ عرصہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں بطور عربی مدرس خدمت کی توفیق پائی۔ ۱۹۲۵ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کو انڈونیشیا جانے کا ارشاد فرمایا۔چنانچہ آپ اگست ۱۹۲۵ء میں قادیان سے روانہ ہوئے اور ستمبر میں وہاں پہنچ گئے۔ روانگی سے قبل حضورؓ نے ایک دن بعد نماز فجر پنجابی زبان میں تفصیلی نصائح فرمائیں جن کا مفہوم اردو زبان میں اخبار الفضل ۱۵؍ستمبر ۱۹۲۵ء میں صفحہ ۵ تا ۷ شائع شدہ ہے۔ انڈونیشین طلبہ کی حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ ایک یادگار تصویر انڈونیشیا میں آپ سب سے پہلے سماٹرا کے قصبہ ’’تاپا وان‘‘ (Tapak Tuan) میں نزیل ہوئے اور پھر تبلیغی لحاظ سے صوبہ مغربی سماٹرا کے دار الحکومت پاڈانگ (Padang) کو زیادہ موزوں یقین کرتے ہوئے وہاں اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا جہاں بہت جلد ایک جماعت قائم ہوگئی۔ جماعت قائم ہونے کے ساتھ ساتھ مخالفت میں بھی بہت تیزی آئی اور جماعت کے خلاف مخالفت کا بازار گرم ہوا، اس پر مستزاد یہ کہ لاہوریوں کا پراپیگنڈا بھی جماعت احمدیہ کی ترقی میں مشکلات پھیلا رہا تھا۔ آپ نے ان تمام حالات کا بڑی ہمت اور دعاؤں کے ساتھ مقابلہ کیا اور کامیابی حاصل کی۔ اپنی ایک ابتدائی رپورٹ میں آپ لکھتے ہیں: “It is four months that I have come here. There is a storm of opposition against us. People call me ‘Kafir’, ‘Anti-Christ’, ‘infidel’, and a ‘magician’. But in spite of this, the movement is progressing. The headmaster of a school has recently joined our movement, and in all there are now about 40 persons in our community.” (Review of Religions, March 1926 page 20) ایک اور رپورٹ میں آپ لکھتے ہیں:’’… علماء کی مخالفت دن بدن بڑھ رہی ہے اور کام کی زیادتی اس قدر ہے کہ رات کے دو بجے کے بعد سوتا ہوں اور بعض دفعہ تمام دن اور رات کام کرنا پڑتا ہے جس سے صحت پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ میری مخالفت علماء کا طبقہ خاص کر کر رہا ہے، ان کو مقابلہ کے لیے بلایا مگر ابھی تک انکار ہے …. پادری بھی دن بدن بڑھ رہے ہیں … اور وہ بھی میری مخالفت پر لگے ہوئے ہیں … ان دونوں اقوام کے پاس روپیہ ہے، سامان ہے اور طاقت ہے لیکن اے احمدی قوم! تو بھی تہی دست نہیں، تیرے پاس تیرا خدا ہے۔ تو اس کے حضور دعا کر …‘‘(الفضل ۱۷؍ستمبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۲) لا ریب یہ محض فضل الٰہی تھا کہ معاندین کی تمام چالیں اور کوششیں بے کار ثابت ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے مقابل پر کامیاب کرتے ہوئے دن بدن مبائعین کی تعداد میں اضافہ کیا اور ایک مخلص جماعت قائم کر دی۔ تبلیغ احمدیت میں آپ کے ساتھ قادیان سے تعلیم یافتہ نو وارد انڈونیشین مبلغین نے بھی بھرپور ساتھ دیا اور ان مخالفانہ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ انڈونیشیا کے مشہور اسلامی سکالر عبدالمالک کریم امر اللہ المعروف بہ Hamka اپنی کتاب Ayahku میں لکھتے ہیں:’’ Kawan – kawan saya yang dahulunya sama belajar di Sumatera Thawalib, setelah pulang dari sana telah “berubah”. Orangnya tenang – tenang dan penuh perasaan dan khidmat kepada kepercayaannya. Sikapnya kebanyakan menarik hati, terutama kesabarannya ketika dimaki dan diejek. Di antara kawan saya itu ialah Zaini Dahlan, yang seketika sama mengaji terhitung murid yang tidak memperhatikan kaji dan hanya suka bergarah dan bersenda gurua,… Tetapi setelah kembali dari Qadyan, dia menjadi seorang yang tenang, dan shaleh dan yakin memegang kepercayaannya. Dan Abubakar Ayub dan Ahmad Nuruddin, yang sama belajar dengan daku di sekolah Diniyah.‘‘ (Ayahku page 139 – Edition 4, July 1984 Jakarta) ترجمہ: ’’میرے وہ دوست جو سماٹرا ثوالیب میں پڑھتے تھے، وہاں [قادیان]سے واپسی کے بعد ’’تبدیل‘‘ ہوگئے تھے۔ وہ پُر سکون اور احساس سے بھرپور تھے،اپنے عقائد کے احترام سے سرشار تھے۔ ان کا رویہ زیادہ تر دلکش تھا، خاص طور پر جب لعنت اور مذاق اڑایا گیا تو اُن کا صبر۔ میرے دوستوں میں ذہنی دحلان بھی تھا جو ایک زمانے میں ایسے طلبہ میں شمار ہوتا تھا جو قرآن پڑھتے ہوئے بھی قرآن کی طرف توجہ نہیں دیتے تھےاور صرف جوش میں آنا اور مذاق کرنا پسند کرتے تھے …. لیکن قادیان سے واپس آنے کے بعد وہ ایک پُر سکون، متقی اور پُر اعتقاد شخص بن گیا جو اپنے عقائد پر قائم تھا۔ اور ابو بکر ایوب اور احمد نور الدین بھی جو میرے ساتھ دینی سکول میں پڑھتے تھے۔ ‘‘ چار سال بعد یعنی ۱۹۲۹ء میں آپ قادیان واپس تشریف لائے۔ آپ کی واپسی پر مدرسہ احمدیہ نے آپ کے اعزاز میں دعوت چائے دی جس میں تقریر کرتے ہوئے آپ نے انڈونیشیا میں اپنی خدمات کا احوال بیان کیا اور بتایا کہ ’’سماٹرا میں کوئی شہر ایسا نہ ہوگا جہاں کے لوگ میرے نام سے واقف نہ ہوں۔‘‘ (الفضل ۲۵؍اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ۱ ،۲) ایک اور تقریب کے دوران آپ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:’’… چار سال میں جب بھی کبھی مجھے خیال آیا کہ فلاں کام میرے لیے آسان ہے، وہی کام میرے لیے مشکل ہوگیا لیکن جب یہ خیال رہا کہ جو کچھ ہوگا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی برکت اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں کے طفیل ہوگا، تو مشکل سے مشکل مرحلہ میں بھی کامیابی حاصل ہوئی۔‘‘ (الفضل ۲۶؍نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶) ایک سال بعد حضورؓ نے آپ کو دوبارہ انڈونیشیا جانے کا ارشاد فرمایا۔چنانچہ آپ ۶؍نومبر ۱۹۳۰ء کو قادیان سے روانہ ہوئے، اِس مرتبہ آپ کے ساتھ دوسرے مبلغ محترم مولانا محمد صادق کنجاہی (ثم سماٹری) بھی تھے جن کو آپ نے حضورؓ کی ہدایت کے مطابق سماٹرا میں رکھا اور آپ خود جاوا چلے گئے جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تبلیغ اسلام احمدیت میں عظیم الشان کامیابیوں سے نوازا۔ جاوا میں احمدیت کی ترقی کو دیکھ کر بڑے بڑے مولویوں نے احمدیت کی آواز کو دبانے کی کوشش کی، اس کی ایک جھلک ہمیں مصری رسالہ ’’الفتح‘‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں لکھا ہے: ’’حضر الیٰ بلدۃ بلیکن بجاوا حضرۃ الشیخ محمد بیضاوی و الشیخ بزراجی، و ھما من اعضاء جمعیۃ نھضۃ العلماء لنشر الدعوۃ لمقاومۃ حرکۃ الأحمدیۃ فی ذالک البلد۔ و جمعیۃ نھضۃ العلماء لھا منزلۃ عالیۃ بین جمھور المسلمین فی جاوا۔‘‘ (الفتح، القاھرہ۔ العدد ۳۰۹ السنۃ السابعۃ۔ یوم الخمیس ۷؍ جمادی الاولی ۱۳۵۱ھ بمطابق ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۳۸) ترجمہ: شیخ محمد بیضاوی اور شیخ بزراجی جاوا کے علاقہ بلیکن میں وارد ہوئے، یہ دونوں جمعیت نہضۃ العلماء کے رکن ہیں اور اس علاقے میں احمدیہ موومنٹ کے خلاف مزاحمت کو پھیلانے کے لیے آئے ہیں۔ جاوا کے جمہور مسلمانوں میں جمعیت نہضۃ العلماء کا مقام بہت بلند ہے۔ لیکن ان نام نہاد علماء کے مکروں اور چالوں کے باوجود اشاعت احمدیت کا سفر رواں دواں رہایہاں تک کہ احمدیہ مخالف مصری اخبار ’’الفتح‘‘ نے لکھا: ‘‘من أغرب ما سمع انتشار مذھب القادیانی بجاوہ، و تدین طائفۃ من أھالی جاوہ بہ، و لا یفھم کیف انتشر ذالک الدین الباطل و کیف جازت علی عقول إنصاف المتعلمین تلک التعالیم الواھیۃ الملفقہ، غیر أن العلماء ھناک لا یفتأون یوضحون للناس بطلان تلک النحلۃ و فساد تعالیمھا و ضلال من یعتقدھا و یتبعھا۔‘‘ (الفتح، القاھرہ۔ العدد ۳۰۶ السنۃ السابعۃ۔ یوم الخمیس ۱۶؍ ربیع الثانی ۱۳۵۱ھ بمطابق اگست ۱۹۳۲ء صفحہ ۵) ترجمہ: اور ان عجیب باتوں میں سے جو سنی گئی ہیں ایک جاوا میں قادیانی عقیدہ کا پھیلنا ہے، اور یہ کہ جاوا کے لوگوں کا ایک گروہ اس پر یقین رکھتا ہے، اور کسی کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ (جھوٹا) مذہب کیسے پھیلا اور یہ کمزور اور ’’من گھڑت‘‘ تعلیمات سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں میں کیسے جائز ہوگئیں۔ حالانکہ وہاں کے علماء لوگوں کو اس نظریہ کے جھوٹ، اس کی تعلیمات کی خرابی اور اس کے ماننے والوں کی گمراہی کو سمجھانے سے باز نہیں آتے۔ نہ صرف یہ کہ انڈونیشیا کے چوٹی کے علماء تحریک احمدیت کو مٹانے میں کوشاں تھے بلکہ ہندوستان سے بھی مولانا عبدالعلیم صدیقی (والد مولانا احمد شاہ نورانی) جیسے مولوی صاحبان احمدیت کو مٹانے کا عزم لے کر پہنچے اور احمدیت کے خلاف لوگوں میں جھوٹا پراپیگنڈا کر کے عوام الناس کو احمدیت سے بد ظن کر نے کی کوشش کی اور اخبارات میں جزائر سے احمدیت کے خاتمے کی خبریں شائع کرائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ احمدیت کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا تو ضرور کیا گیا لیکن احمدی مبلغین کی انتھک محنت نے لوگوں کے دلوں سے احمدیت کے خلاف شکوک و شبہات کو بخوبی صاف کر کے انہیں داخل احمدیت کیا۔ جب احمدیت کی ترقی کی یہ رپورٹیں جماعتی اخبارات میں شائع ہوئیں تو چند سال بعد مولوی عبدالعلیم صدیقی صاحب نے اپنے ایک خط میں لکھا:’’…. و مع الأسف علمتُ من جرائد القادیانین أن قد ذلّلوا الصعوبات التی کانت أمام نفوذ حرکاتھم التضلیلیۃ، فأدرکوا النجاح، أخذت جمعیاتھم تشتدّ قوّۃ و نفوذًا، و استطاعوا أخذ أبناء الإسلام إلیٰ دینھم المعوّج۔ و توغلوا فی تلک الدیار و وطدوا دعائمھم إلی أن أنشأوا لھم فرعا قوی الحرکۃ بنفس ھولندا۔ فما ھذہ الأنباء من دیار کجاوا، و فیھا العلماء و الفضلاء من المسلمین؟ ھذہ مخزیۃ، واللّٰہ تتفتت من سماعھا الأکباد۔ أین إخواننا من السادۃ العلویین و من الارشادیین! و أین إخواننا أعضاء نھضۃ العلماء؟ أین الجمعیۃ المحمدیہ! (الفتح، القاھرہ، ۲۲؍ المحرم ۱۳۵۴ھ بمطابق ۲۶؍اپریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۲ ) ترجمہ: اور بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات لکھ رہا ہوں کہ مجھے قادیانی اخبارات سے معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنی (گمراہ کن) تحریک کے اثر کی راہ میں آنے والی مشکلات پر قابو پا لیا ہے اور کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی انجمنیں طاقت اور اثر میں بڑھ رہی ہیں اور وہ اسلام کے بیٹوں کو اپنے ’’ٹیڑھے‘‘ مذہب کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے ان سرزمینوں میں گھس کر اپنی بنیادیں مضبوط کیں یہاں تک کہ انہوں نے ہالینڈ میں ہی تحریک کی ایک مضبوط شاخ قائم کر لی۔ جاوہ کی سرزمین سے یہ کیا خبر ہے جہاں علماء اور نیک مسلمان ہیں؟ یہ شرمناک ہے۔ بخدا! یہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے کبار علماء اور واعظین کہاں ہیں؟ اور نہضۃ العلماء کے ہمارے بھائی کہاں ہیں اور کہاں ہے جمعیت محمدیہ؟ حضرت مولوی رحمت علی صاحب نے بفضلہ تعالیٰ جاوا اور سماٹرا میں مخالفوں کا مقابلہ کرتے ہوئے بیعتوں کے حصول میں کامیابی حاصل کی بلکہ ان نو مبائعین کی تعلیم و تربیت میں بھی اہم کردار کیا اور انہیں جلد ہی جماعتی نظام پر چلنا سکھا دیا۔ محترم عبدالمغنی صاحب ناظر بیت المال قادیان اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں: ’’سماٹرا میں مولانا مولوی رحمت علی صاحب کی کوشش اور سعی سے بڑی بڑی تین جماعتیں ہیں … مولانا مولوی رحمت علی صاحب کی ایک رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ سماٹرا کی جماعتوں کے چندوں کے انتظام مقامی پریذیڈنٹ اور جنرل سیکرٹری ہی کرتے ہیں اور جس طرح سے دار الامان میں عہدوں پر ہی خط و کتابت ہوتی ہے، اس طرح سے یہاں بھی میں نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ تمام خط و کتابت عہدوں پر ہی ہوتی ہے اور چندوں کی پڑتال کے لیے یہ قاعدہ انجمن سماٹرا نے بنا رکھا ہے کہ ماہوار حساب نہایت باقاعدہ چیک کیا جاتا ہے اور تمام حساب چیک کر کے اس پر تمام عہدہ داران کے باقاعدہ درستی حساب کے دستخط ہوتے ہیں … اس ملک میں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک آڈیٹر نے کہا کہ کیا احمدی جماعت ان قوانین پر (چندوں کے باقاعدہ جمع کرنے اور باقاعدہ حسابات رکھنے پر) پابند ہے اور اسی طرح سے کرتے ہیں؟ تو اُسی وقت دوران لیکچر مَیں نے سیکرٹری مال کو جواب کے واسطے عرض کیا تو اُس نے دو سال کا حساب اور رسیدات اور حسابات کے متعلق تمام امور مفصل بیان کیے۔ تو لوگ اس طرح کا باقاعدہ حساب دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے … اس کے علاوہ سب سے زیادہ شکریہ اور دعا کے مستحق مولوی رحمت علی صاحب ہیں جنہوں نے جزیرہ سماٹرا کی جماعتوں کی تربیت عمدہ اور اچھی طرح سے کی ہے اور پنجاب کی بہترین جماعتوں کے نمونہ پر ان کو چلایا ہے۔ اللہ تعالیٰ مولوی صاحب کو جزائے خیر عطا فرماوے اور اپنے رضا کے مقام پر کھڑا کرے۔‘‘(الفضل ۳۱؍جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۰) غرضیکہ بہت جلد انڈونیشیا میں احمدیت کی ایک مضبوط شاخ قائم ہوگئی اور دن بدن پھلنے پھولنے لگی۔ چھ سال بعد آپ واپس قادیان آئے، اہل جاوا نے آپ کو نم آنکھوں مگر بڑے شاندار طریقہ سے رخصت کیا اور آپ ۳؍دسمبر ۱۹۳۶ء کو قادیان پہنچے۔ (الحکم ۷؍دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۱) قریباً دس ماہ قادیان میں قیام کے بعد آپ تیسری مرتبہ ۲۷؍ستمبر ۱۹۳۷ء کو جاوا کے لیے روانہ ہوئے۔ سوا دو سال اپنے فرائض نہایت خیر و خوبی کے ساتھ سر انجام دینے کے بعد ۲۱؍دسمبر ۱۹۳۹ء کو پھر قادیان آئے اور قریبًا ایک سال قادیان میں قیام رکھنے کے بعد مورخہ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۴۰ء کو چوتھی مرتبہ انڈونیشیا تشریف لے گئے۔ (الفضل ۱۶؍اکتوبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۷) دو سال بعد یعنی مارچ ۱۹۴۲ء میں جاپانیوں نے اپنی جنگی پیش قدمیوں کے چلتے جزائر شرق الہند پر قبضہ کر لیا اور تمام سیاسی اور مذہبی تنظیموں کو حکما ًبند کر دیا گیا جس کی وجہ سے احمدی مبلغین کے لیے بھی مشکلات اور تکالیف کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ آپ نے اس مشکل وقت میں بھی فارغ بیٹھنے کی بجائے تحریری خدمات کا حیرت انگیز کارنامہ سر انجام دیا چنانچہ ان کٹھن حالات کا ذکر کرتے ہوئے ایک مرتبہ آپ نے اخبار الفضل میں اپنے ایک درد مندانہ مضمون ’’تعلیم یافتہ احمدی احباب سے خطاب‘‘ میں لکھا: ’’… لڑائی شروع ہونے کے وقت میں نے اس کام کا تہیہ کیا اور قسم کھائی کہ جب تک میں اس کام کو پورا نہ کر لوں، اپنے ملک میں واپس نہ جاؤں گا۔ لڑائی کے وقت لیکچروں کا سلسلہ بند ہوگیا اور جلسہ کرنے ممنوع قرار دیے گئےتھے۔ اس وقت اپنی کوٹھری میں بیٹھ کر رات کو جب بجلی ذرا جلانے کی اجازت ہوتی اور دن کو جب توپوں اور ہوائی جہازوں کی آوازوں سے ذرا اطمینان ہوتا، کام شروع کرتا اور عرصہ چار سال میں محض خدا تعالیٰ کے فضل و کرم اور خلیفۃ المسیح الثانی کی دعاؤں کے طفیل ۲۵ کتب تحریر کیں جن میں سے اکثر کئی کئی سو صفحات پر مشتمل ہیں۔‘‘ (الفضل ۵؍ستمبر ۱۹۴۸ء صفحہ ۵) آپ کے انڈونیشیا قیام کے دوران آگ سے بچنے والا واقعہ بھی ایک ایمان افروز واقعہ ہے جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ ۱۱؍فروری ۱۹۸۳ء میں ’’اللہ کی راہ میں استقامت دکھانے والوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں‘‘ کے مضمون کے تحت فرمایا: ’’مولوی رحمت علی صاحب مبلغ احمدیت نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس طرح انڈونیشیا میں خدمت اسلام میں کاٹا کہ پیچھے جوان بیوی بوڑھی ہوگئی، اس کے کالے بال سفید ہوگئے اور بچے جوان ہوگئے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ بعض دفعہ بچے ماں سے اپنے ابا کے متعلق پوچھا کرتے اور خصوصیت کے ساتھ ایک بچہ جو چھوٹا تھا وہ اپنی ماں کو تنگ کرتا اور کہتا کہ امی! دوسروں کے ابّا آتے ہیں اور ان کے لیے چیزیں لاتے ہیں، میرا ابا کہاں ہے؟ وہ کبھی نہیں آتا۔ اس کی امی کی آواز بھرا جاتی تھی جس کی وجہ سے بول نہیں سکتی تھیں اور جس طرف بھی وہ انڈونیشیا سمجھا کرتی تھیں اُس طرف اشارہ کر کے کہتیں کہ تمہارا ابا اس طرف ہے، وہاں سے کسی وقت آئے گا۔ اس عرصے میں وہ بچہ جوان ہوگیا اور بچپن میں باپ کی شفقت کا جو سایہ ہوتا ہے اس سے محروم رہ کر جوان ہوا۔ جتنی عظیم الشان قربانی کوئی خاندان خدا کی راہ میں دیتا ہے اسی شان کے فرشتے اس پر نازل ہوا کرتے ہیں، یہ ان لوگوں میں سے ہیں کہ جن کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو خدا کئی دفعہ سچا کر دکھاتا ہے۔ یہ پہلے کہتے ہیں اور فرشتوں کو بعد میں ان کی متابعت کا حکم دیا جاتا ہے۔ چنانچہ مولوی رحمت علی صاحب انڈونیشیا میں جس محلہ میں رہائش پذیر تھے وہ سارے کا سارا لکڑی کے مکانوں کا بنا ہوا تھا۔ ایک دفعہ وہاں ایسی خوفناک آگ لگ گئی جو پھیلتے پھیلتے ہوا کے رخ کے مطابق مولوی صاحب کے گھر کی طرف چل پڑی۔ جماعت کے پریشان حال ممبران وہاں پہنچے اور ان کی منتیں کیں کہ مولوی صاحب! آپ اس جگہ کو چھوڑ دیں۔ کم ازکم سامان ہی نکال لیں،بعد میں انسان تو جلدی سے بھاگ کر بھی باہر جا سکتا ہے، یہ بہت ہی خطرناک آگ ہے جو کسی چیز کو نہیں چھوڑے گی۔ پھر ہوا کا رخ ایسا ہے کہ لازمًا اس نے آپ کے گھر تک پہنچنا ہی پہنچنا ہے۔ مولوی صاحب نے کہا اس جگہ کو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں تو اس آقا کا غلام ہوں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی بھی غلام ہے۔ (تذکرہ صفحہ ۳۲۴) اس لیے یہ آگ مجھے کچھ نہیں کہہ سکتی… انڈونیشیا کی تاریخ کا یہ ایک درخشندہ واقعہ ہے کہ وہ آگ بڑھتی رہی اور اس نے سارے مکان جلا دیے لیکن جب اس کے شعلے مولوی صاحب کے مکان کو چھونے لگے تو اچانک اتنی موسلا دھار بارش آئی کہ دیکھتے دیکھتے وہ شعلے بھسم ہوگئے اور آگ مکان کو ذرا سی نقصان بھی نہ پہنچا سکی… (خطبات طاہر جلد ۲ صفحہ ۷۹ تا ۸۱) حضرت مولانا صاحب بالآخر دس سال بعد انڈونیشیا سے واپس تشریف لے آئے اور مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۵۰ء کو لاہور پہنچے۔ واپسی کے بعد آپ نے بیرونی ممالک سے آنے والے مبلغین احمدیت کے ایک وفد کے ہمراہ رئیس وفد کی حیثیت سے مغربی پاکستان کا کامیاب دورہ کیا۔ اپریل ۱۹۵۳ء میں آپ کو مشرقی پاکستان میں بطور رئیس التبلیغ مقرر کیا گیا جہاں خدمات دینیہ بجالاتے ہوئے آپ بیمار ہوگئے جس کی وجہ سے ڈھاکہ سے لاہور آگئے اور ڈیوس روڈ پر اپنی الاٹ کرائی ہوئی کوٹھی میں رہائش پذیر ہوکر میو ہسپتال سے علاج کرایا، وقتاً فوقتاً مرکز سلسلہ بھی چلے جاتے۔ آخری ایام میں ربوہ آگئے تھے جہاں ۳۱؍اگست ۱۹۵۸ء کو بعمر ۶۵؍سال مولائے حقیقی سے جا ملے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔ آپ کو ربع صدی سے زائد عرصہ میدان تبلیغ میں شاندار خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ انڈونیشین زبان پر عبور حاصل تھا۔ آپ نہایت سادہ مزاج بزرگ تھے۔ محترم شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ آپ سے دریافت کیا کہ آپ راہ و رسم پیدا کرنے کے لیے کیا طریق اختیار کرتے تھے؟ فرمانے لگے جو شخص مجھے آگے سے آتا ہوا ملتا مَیں اسے کہتا ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘‘ وہ جواب میں کہتا ’’وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ‘‘ مَیں دریافت کرتا کہ ’’آپ خوش ہیں‘‘ وہ کہتا ’’ہاں! میں خوش ہوں‘‘ میں کہتا ’’کس قدر خوش‘‘ اس پر وہ ہنس پڑتا اور میری اس کے ساتھ دوستی قائم ہو جاتی۔ (تاریخ احمدیت لاہور صفحہ ۲۰۱) تبلیغ دین کا بہت جوش رکھتے تھے، انڈونیشیا میں احمدیت کی ابتدائی تاریخ آپ کے اس جوش و خروش پر شاہد ہے۔ تبلیغ احمدیت کا یہی جوش اور ولولہ آپ احمدیوں میں دیکھنا چاہتے تھے، ایک مرتبہ آپ نے احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’’کیا آپ نے اس مبارک نام کو اور اس کی تعلیم کو اور اس پیارے مسیح و مہدی کے منشاء کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا ہے۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ پہاڑوں کی چوٹیاں، سمندر کا پانی، میدانوں کی ریت اور جنگلوں کے درخت آپ کی تبلیغ کے گواہ ہیں اور کیا آپ مجمع عام میں پورے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ تمام لوگ اس نام سے پورے آشنا ہو چکے ہیں…‘‘ (الفضل ۵؍ستمبر ۱۹۴۸ء صفحہ ۵) حضرت مولوی محب الرحمٰن صاحب ابن حضرت حاجی حبیب الرحمٰن صاحب کپورتھلوی بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ میں نے ان سے اور باتوں کے دوران میں دریافت کیا کہ آپ وہاں کس طرح رہتے ہیں اور کھانے وغیرہ کا کیا انتظام ہے؟ …. مولوی رحمت علی صاحب مرحوم نے بتایا کہ میں نے معمول بنایا ہوا تھا کہ اپنے کاموں سے فارغ ہوکر زیادہ رات گئے کھانا ہوٹلوں سے لایا کرتا تھا کہ اس وقت کھانا سستا مل جاتا تھا۔ یہ اس لیے کہ سلسلہ کا خرچ کم ہو اور جو رقم بچے اس سے دوسرے اہم کام کرتا جس سے اسلام کی زیادہ خدمت ہو سکے۔‘‘ (الفضل ۲۰؍ستمبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۵) آپ کی وفات پر بزرگان احمدیت نے آپ کے ذکر خیر پر مشتمل مضامین لکھے۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی ایک تقریر میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’…. وہ ایک درویش صفت انسان تھے، انہوں نے اپنے اندر وہ خوبی اور صفت پیدا کر لی تھی کہ جو فضل الٰہی کو جذب کرنے کا موجب ہوا کرتی ہے … اور اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ کامیابی نصیب کی کہ جو ہم سب کے لیے قابل رشک ہے۔‘‘ (الفضل ۶؍ستمبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۸) محترم مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب نے لکھا: ’’ہمارے مرحوم بھائی حضرت مولوی رحمت علی صاحب مجاہد سلسلہ … کی یہ قابل رشک قربانی اور ایثار احمدیت کے نونہالوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی اور تاریخ احمدیت ہمیشہ ان کا نام زندہ رکھے گی …‘‘ (الفضل ۲۱؍اکتوبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۴) حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ نے اپنے اس دیرینہ ساتھی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’…آپ نے جس صبر اور استقلال کا نمونہ دکھایا اور جس رنگ میں سلسلہ کے لیے بے لوث اور قابل قدر خدمات سر انجام دیں، وہ قابل رشک ہیں اور آپ کا نام تاریخ سلسلہ احمدیہ میں ایک روشن ستارہ کی مانند درخشاں رہے گا …‘‘ (الفضل ۳؍ستمبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۴) محترم مولانا محمد صادق سماٹری صاحب نے لکھا: ’’…مکرم مولانا رحمت علی صاحب کی کامیابی کا راز اسی میں مضمر ہے، انہوں نے ان لوگوں کی عادات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا، ان میں گھل مل گئے حتیٰ کہ ان میں سے ہر ایک یہی خیال کرتا کہ مولانا صاحب ان کے گھرانے کے ایک فرد ہیں۔‘‘(الفضل ۷؍دسمبر ۱۹۵۸ء صفحہ ۵) آپ کی اہلیہ حضرت عائشہ بیگم صاحبہ بنت حضرت چودھری عبدالعزیز صاحب پٹواری رضی اللہ عنہ آف اوجلہ یکے از ۳۱۳؍تھیں۔لا ریب آپ کی دینی خدمات میں ان کی قربانی اور ایثار کا بھی بڑا حصہ ہے۔ اولاد میں ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہٗ وَ ارْحَمْہُ وَ ارْفَعْ دَرَجَاتِہٖ مزید پڑھیں: حضرت حلیمہ سعدیہؓ رسولِ رحمت ﷺ کی رضاعی والدہ