زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو۔ جو زنا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ زنا کی راہ بہت بری راہ ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کے لئے سخت خطرناک ہے۔ اور جس کو نکاح میسر نہ آوے چاہیے کہ وہ اپنی عفت کو دوسرے طریقوں سے بچاوے۔ مثلاً روزہ رکھے یا کم کھاوے یا اپنی طاقتوں سے تن آزار کام لے۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ۳۴۲) قرآن شریف میں یہ آیت ہے قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ يَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ (النور:۳۱) یعنی مومنوں کو کہہ دے کہ نامحرم اور محل شہوت کے دیکھنے سے اپنی آنکھیں اس قدر بند رکھیں کہ پوری صفائی سے چہرہ نظر نہ آسکے اور نہ چہرہ پرکشادہ اور بے روک نظر پڑسکے۔ اور اِس بات کے پابند رہیں کہ ہرگز آنکھ کو پورے طور پر کھول کر نہ دیکھیں نہ شہوت کی نظر سے اور نہ بغیر شہوت سے کیونکہ ایساکرنا آخر ٹھوکر کاباعث ہے یعنی بے قیدی کی نظر سے نہایت پاک حالت محفوظ نہیں رہ سکتی اور آخر ابتلا پیش آتا ہے اور دِل پاک نہیں ہوسکتا جب تک آنکھ پاک نہ ہو اور وہ مقام اَزْكٰىجس پر طالب حق کے لئے قدم مارنا مناسب ہے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اور اِس آیت میں یہ بھی تعلیم ہے کہ بدن کے ان تمام سوراخوں کومحفوظ رکھیں جن کی راہ سے بدی داخل ہوسکتی ہے۔ سوراخ کے لفظ میں جو آیت ممدوح میں مذکور ہے آلات شہوت اور کان اور ناک اور منہ سب داخل ہیں۔ اب دیکھو کہ یہ تمام تعلیم کس شان اور پایہ کی ہے جو کسی پہلو پر نامعقول طور پر افراط یا تفریط سے زور نہیں ڈالا گیا اور حکیمانہ اعتدال سے کام لیا گیا ہے۔ اور اس آیت کا پڑھنے والا فی الفور معلوم کرلے گا کہ اِس حکم سے جو کھلے کھلے نظر ڈالنے کی عادت نہ ڈالو یہ مطلب ہے کہ تا لوگ کسی وقت فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اور دونوں طرف مرد اورعورت میں سے کوئی فریق ٹھوکر نہ کھاوے لیکن انجیل میں جو بے قیدی اور کھلی آزادی دی گئی اور صرف انسان کی مخفی نیت پر مدار رکھا گیا ہے اِس تعلیم کا نقص اور خامی ایسا امر نہیں ہے کہ اس کی تصریح کی کچھ ضرورت ہو۔ (تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد ۱۵صفحہ ۱۶۴-۱۶۵) مزید پڑھیں: مہدی کا زمانہ۔ ایک عظیم الشان جمعہ