(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۶؍نومبر۱۹۳۷ء) ۱۹۳۷ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرنے والےصفاتِ الٰہیہ کے مظہر کیسے بن سکتے ہیں کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) ایسا آدمی جو مذہب کی حقیقت کو سمجھ کر مذہب میں شامل نہیں ہوتا، غاوی ہی ہوتا ہے۔ وہ چند مسائل سنتا ہے اور سمجھتا ہے کہ احمدیت انہی چند مسائل کو مان لینے کا نام ہے۔ وہ مسلمان ہوتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھ لیا جائے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی تفسیر سارا قرآن ہے۔ اس سارے قرآن پر عمل کئے بغیر وہ کس طرح مسلمان ہوسکتا ہے۔ جس طرح انسان کسی ایک عضو کا نام نہیں بلکہ انسان مجموعہ ہے ناک کا، کانوں کا، آنکھوں کا، منہ کا، گردن کا، سر کا، سینہ کا، دھڑ کا، ہاتھوں کا اور پائوں وغیرہ کا اور ان میں سے کوئی چیز الگ نہیں ہوسکتی۔ نہ ہاتھ الگ ہوسکتے ہیں نہ پائوں الگ ہوسکتے ہیں۔ نہ سر الگ ہوسکتا ہے نہ دھڑ الگ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہنے سے بےشک انسان کو مسلمان کا نام حاصل ہوجاتا ہے مگر یہ ایسا ہی نام ہے جیسے اعضاء کے مجموعہ کا نام انسان ہے۔ جس طرح ان اعضاء کے بغیر انسان نہیں، اسی طرح ان تفاصیل کے بغیر اسلام نہیں تھوڑے ہی دن ہوئے میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ اس میں ایک لطیفہ آگیا۔لکھا تھا کہ ایک شخص نے جو سخت بھوکا تھا یک دفعہ چند لوگوں کو جو اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہیں جاتے دیکھا۔ اس نے خیال کیا کہ یہ غالباً دعوت پر جارہے ہیں میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوجائوں۔ جب یہ کھانا کھانے لگیں گے تو میں بھی وہیں سے کھانا کھالوں گا۔ چنانچہ وہ ان کے ساتھ شامل ہوگیا۔ جاتے جاتے وہ بادشاہ کے دربار میں پہنچے اور انہوں نے اس کی تعریف میں قصائد پڑھنے شروع کردیئے۔ تب اُسے پتہ لگا کہ یہ تو شاعر ہیں اور اپنے اپنے قصائد سنانے آئے ہیں۔ چنانچہ ہر شاعر نے اپنی اپنی باری پر اُٹھ کر قصیدہ سنانا شروع کردیا۔ یہ اب سخت حیران ہوا کہ میں کیا کروں۔ شعر کہنے کی اس میں قابلیت نہیں تھی مگر طبیعت لطیفہ سنج تھی۔ جب سب شاعراپنے اپنے قصائد سنا چکے اور بادشاہ سے انعا م لے کر گھروں کو روانہ ہوگئے تو بادشاہ اُس سے مخاطب ہوا اور کہا کہ اب آپ قصیدہ شروع کریں۔ یہ کہنے لگا حضور! میں شاعر نہیں ہوں۔ بادشاہ نے پوچھا کہ پھر آپ یہاں کیوں آئے ہیں! وہ کہنے لگا حضور میں وہی ہوں جس کا قرآن کریم میں اس طرح ذکر آتا ہے کہ وَالشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الۡغَاوٗنَ۔(الشعراء: ۲۲۵)کہ شاعروں کے پیچھے غاوی آیا کرتے ہیں۔ وہ شاعر تھے اور میں غاوی ہوں۔ قرآن کریم کی اس آیت کا تو یہ مطلب ہے کہ شاعروں کے پیچھے چلنے والے گمراہ لوگ ہوتے ہیں۔ کیونکہ شاعر کوئی حقیقت بیان نہیں کرتے۔ کبھی رنج کی بات پر شعر کہہ دیں گے، کبھی خوشی کی بات پر، کبھی کچھ کہہ دیتے ہیں کبھی کچھ۔ ان کا کوئی اصول نہیں ہوتا۔ تو ایسے لوگوں کے پیچھے چلنے والے غاوی ہی ہوتے ہیں۔ نیک آدمی جو حقیقت کا متلاشی ہوتا ہے شعراء کے پیچھے نہیں جاتا۔ لیکن اُس نے اپنی بات میں لطیفہ پیدا کرنے کے لیے کہا کہ شاعروں کے پیچھے غاوی آیا کرتے ہیں، آپ مجھے غاوی سمجھ لیجئے۔ بادشاہ کو اُس کا یہ لطیفہ پسند آگیا اور اُس نے حکم دے دیا کہ اسے بھی کچھ انعام دے دیا جائے۔ یہ تو ایک لطیفہ ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسا آدمی جو مذہب کی حقیقت کو سمجھ کر مذہب میں شامل نہیں ہوتا، غاوی ہی ہوتا ہے۔ وہ چند مسائل سنتا ہے اور سمجھتا ہے کہ احمدیت انہی چند مسائل کو مان لینے کا نام ہے۔ وہ مسلمان ہوتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھ لیا جائے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی تفسیر سارا قرآن ہے۔ اس سارے قرآن پر عمل کئے بغیر وہ کس طرح مسلمان ہوسکتا ہے۔ جس طرح انسان کسی ایک عضو کا نام نہیں بلکہ انسان مجموعہ ہے ناک کا، کانوں کا، آنکھوں کا، منہ کا، گردن کا، سر کا، سینہ کا، دھڑ کا، ہاتھوں کا اور پائوں وغیرہ کا اور ان میں سے کوئی چیز الگ نہیں ہوسکتی۔ نہ ہاتھ الگ ہوسکتے ہیں نہ پائوں الگ ہوسکتے ہیں۔ نہ سر الگ ہوسکتا ہے نہ دھڑ الگ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہنے سے بے شک انسان کو مسلمان کا نام حاصل ہوجاتا ہے مگر یہ ایسا ہی نام ہے جیسے اعضاء کے مجموعہ کا نام انسان ہے۔ جس طرح ان اعضاء کے بغیر انسان نہیں، اسی طرح ان تفاصیل کے بغیر اسلام نہیں۔ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ایک مفرد شَے نہیں بلکہ وہ چار اعضائے روحانی کا نا م ہے۔ الملک کے بروز کا اور الحق کے بروز کا اور توحید کے بروز کا اور ربوبیت کے بروز کا۔ یعنی انسان کو لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے والا تب کہا جاسکتا ہے جب وہ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ۔ الرَّحِیْمِ اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِکا مظہر ہو۔ اگر کوئی شخص ان صفات کو اپنے اندر پیدا نہیں کرتا اور محض زبان سے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہے چلا جاتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی ایسی چیز کو آدمی آدمی کہتا رہے جس کانہ دل ہو نہ دماغ ہو نہ منہ ہو۔ یہ لوگ بھی گویا غاوی ہوتے ہیں جو احمدیت میں داخل تو ہوجاتے ہیں مگر نہیں سمجھتے کہ احمدیت میں داخل ہونے کے کیا اغراض و مقاصد ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان پر کس قدر ذمہ واریاں عائد ہونے والی ہیں۔ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ احمدیت میں داخل ہوکر ہمیں اِس دنیا میں کچھ انعام مل جائے گا اسی لئے جب انہیں کوئی کام بتایا جاتا ہے، جب ان پر کوئی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تویہ خیال نہیں تھا کہ احمدیت میں داخل ہوکر اِس قدر بوجھ پڑ جائیں گے۔ ہم نے تو سمجھا تھا کہ ہم جب احمدی ہوگئے تو ہمیں انعام مل جائے گا۔ حالانکہ جس دن وہ احمدیت میں داخل ہوئے تھے وہ اِس لئے نہیں ہوئے تھے کہ ان میں انعام تقسیم کیاجائے گا بلکہ اس لئے ہوئے تھے کہ وہ اپنی جانیں اور اموال سلسلہ کے لیے قربان کردیں گے۔ پس جب لوگوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ آئو اور مسلمان ہوجائو یا یہ کہا جاتا ہے کہ آئو اور احمدی ہوجائو تو اِس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ آئو اور روٹیاں کھائو۔ بلکہ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ آئو اور سر کٹوائو۔ اور جب کوئی شخص سر کٹوانے آگیاتو اسے انعام کی ہوس کہاں رہی۔ کہتے ہیں ’’جب اوکھلی میں سر دیا تو موہلوں کا کیا ڈر۔‘‘ جب کوئی شخص اوکھلی میں اپنا سر دے دیتا ہے تو اسے اس بات کا کیا خوف ہوسکتا ہے کہ وہ پیسا جاتا ہے یا کچلا جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بار بار رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے کہ تُو لوگوں پر کوئی جبر کرنے والا نہیں۔ اگر کسی شخص پر جبر کیا جائے اور اُسے زبردستی مذہب میں داخل کیا جائے تو وہ بعد میں کہہ سکتا ہے کہ میں اپنی خوشی سے شامل نہیں ہوا، تم نے جبرکیا اور میں نے مان لیا۔ لیکن جب ہم دلائل دیتے ہیں اور دلائل پیش کرکے کہتے ہیں کہ جس کا جی چاہتا ہے ان دلائل کو سُن کر ہمارے اندر شامل ہوجائے اور جس کو شرح صدر نہیں وہ شامل نہ ہو تو اس کے بعد جو شخص ہمارے اندر شامل ہوتا ہے وہ یہ ارادہ لے کر آتا ہے کہ میں اپنا سر دے دوں گا مگر اس راستہ سے جس کو میں نے سچا تسلیم کرلیا ہے پیچھے قدم نہیں ہٹائوں گا۔ پھر جو شخص سر دے دیتا ہے اس کا یہ حق کہاں باقی رہ جاتا ہے کہ وہ کسی حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کرسکے۔ہاں یہ سر دینا جاہلانہ نہ ہو کہ خودکشی کی اور مرگئے۔ بلکہ سر دینے سے مراد اپنے جذبات کی قربانی، اپنے احساسات کی قربانی، اپنے علم کی قربانی، اپنے اموال کی قربانی اور اپنی خواہشات کی قربانی ہے۔ البتہ اگر کسی وقت تلوار سے جہاد بھی شروع ہوجائے تو اُس وقت ظاہری طور پر اپنی جانیں قربان کرنا بھی ضروری ہوگا لیکن ایسا جہاد بہت کم ہوتا ہے۔ اور یہ جہاد انسانی زندگی کا کروڑواں حصہ بھی نہیں۔ اگر حساب لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی کا کروڑ منٹ اور کاموں میں خرچ ہوا ہے مگر ایک منٹ صرف جہاد پر خرچ ہوا ہے۔ پس سر کٹوانے سے وہ سرکٹوانا مراد نہیں بلکہ اپنے نفس کی کُل طاقتوں کو خداتعالیٰ کے احکام کے تابع کردینا ہے اور انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے نفس کو کلیۃً تابع کردے۔ ربّ العٰلمین کی صفت کے ماتحت وہ اپنے نفس کو کلیۃً تابع کر دے، رحمٰن کی صفت کے ماتحت وہ اپنے نفس کو کلیۃً تابع کردے، رحیم کی صفت کے ماتحت وہ اپنے نفس کو کلیۃًتابع کردے۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صفت کے ماتحت۔ جو جماعت اور جو قوم یہ کام کرلیتی ہے وہی کامیابیاں اور عروج دیکھنے کی مستحق ہوتی ہے اور یہی غرض میری تحریک جدیدسے ہے۔ چنانچہ تحریک جدید کے تمام مطالبات اسی لئے ہیں کہ تم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنائو۔ مثلاً جب میں نے کہا جائو اور باہر تبلیغ کے لیے نکل جائو تو میںنے یہ حکم ربّ العٰلمین کی صفت کے ماتحت دیا اور اس لئے دیا تا تم بھی صفت ربّ العٰلمین کے مظہر بن جائو۔ کیونکہ کچھ قومیں پیاسی ہیں انہیں پانی پلائو، وہ تاریکیوں میں بھٹکتی پھررہی ہیں تم انہیں وہ نور پہنچائو جو خداتعالیٰ نے تمہیں دیا ہے اور جس طرح ربّ العٰلمین تمام جہان کی ربوبیت کرتا ہے اسی طرح تم بھی نکلو اور تمام دنیا کو اپنی روحانی تربیت کی آغوش میں لے لو۔ پھر جب میں نے چندے کی تحریک کی تو وہ بھی ربّ العٰلمین اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صفت کے ماتحت تھی۔ کیونکہ ملک کے لیے خزانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور کوئی قوم اُس وقت تک اپنا نظام درست نہیں کرسکتی جب تک اُس کے پاس خزانہ موجود نہ ہو۔ پھر جب میں نے امانت فنڈ کی تحریک کی تو وہ بھی صفت ربّ العٰلمین کے ماتحت کی کیونکہ ربّ العٰلمین کی صفت اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ سب زمانوں پر نظر رکھی جائے اور آج کی ضرورتوں کے پورا کرنے کا ہی خیال نہ کیا جائے بلکہ کل کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ربّ العٰلمینہے، اس نے یہ نہیں کیا کہ جن چیزوں کی انسان کو ضرورت ہے وہ اُس نے آج پیدا کی ہوں بلکہ کروڑوں کروڑ سال پہلے اُس نے یہ چیزیں تیار کرنی شروع کردی تھیں۔ اسی طرح ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم بھی کل کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لیے آج سے تیاری شروع کردیں اور اسی وجہ سے میں نے امانت کی تحریک جاری کی۔ پھر جب میں نے کہا کہ اپنے ہاتھوں سے کام کرو تو یہ بھی ربّ العٰلمین کی صفت کے ماتحت تھا۔ کیونکہ ربّ العٰلمین کی صفت کے ماتحت کوئی شخص اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرنے والا نہ ہو۔ ربوبیت کا تعلق ماں باپ والی خدمت سے ہے اور ماں باپ کی خدمت چندہ سے نہیں بلکہ ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ بعض بیمار مائیں بے شک اپنے بچہ کو دودھ نہیں پلاتیں اور وہ اس بات پر مجبور ہوتی ہیں کہ نوکروں سے خدمت لیں۔ مگر تندرست مائیں ہمیشہ اپنے بچوں کی اپنے ہاتھ سے خدمت کرتی ہیں۔ خواہ ان کے ایک نہیں دس، پچاس اورسَو نوکر بھی ہوں۔ ملکیت کی زندگی کے ماتحت بے شک خدمتگاروں سے کام لیا جاسکتا ہے مگر صفت ربّ العٰلمین کے ماتحت ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے کام کرے۔ محمد ﷺ جن کے قدموں کے نیچے ہزاروں انسان اپنی آنکھیں بچھانے کے لیے تیار تھے اور جن کی خدمت کے لیے ہزاروں لوگ موجود تھے، انہیں جب ہم اہلی زندگی میں دیکھتے ہیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ رسو ل کریم ﷺ ایک موقع پر جھکتے ہیں اور فرماتے ہیں عائشہؓ! میری پیٹھ پر پیر رکھ کر فلاں نظارہ دیکھ لو۔(بخاری کتاب العیدین باب الحراب والدرق یوم العید) پھر آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تو حضرت حسنؓ جو ابھی چھوٹے بچے تھے آتے اور جب آپ سجدہ میں جاتے تو گردن پر چڑھ کر بیٹھ جاتے۔ جب آپ سجدہ کے بعد کھڑے ہونے لگتے تو انہیں اپنی گودی میں لے لیتے۔ پھر رکوع میں جاتے تو اُتار دیتے اور جب پھر سجدہ میں جاتے تو وہ پھر آپ کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے۔ صحابہ ایک دفعہ یہ دیکھ کر حضرت حسنؓ پر ناراض ہوئے تو آپ نے فرمایا رہنے دو بچوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ان کے شفیق بنو۔ غرض گو دنیا جہان کے لیے محمد ﷺ قربانی کررہے تھے اور دنیا جہان بھی آپ کے لیے ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار تھی مگر حضرت حسن کے ساتھ سلوک ایک جداگانہ رنگ رکھتا تھا۔ جو سلوک آپ سے حسنؓ کرتے تھے کسی اور کا بچہ کرتا تو شاید وہ باپ اپنے بچہ کو مار مار کر اَدھ موا کردیتا۔ کیونکہ یہاں صرف ایمان کا سوال نہیں تھا بلکہ اہلی زندگی کا بھی سوال تھا۔ غرض ربوبیت کے مرکز میں آکر ہاتھوں سے کام کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہی تحریک جدید میں مَیں نے جماعت سے مطالبہ کیا کہ اپنے ہاتھوں سے کام کرو اور اسی طرح کرو کہ جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کا کام کرتے ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہی عورت جو اپنے ہاتھ سے اپنا ناک پونچھنے میں بھی ہتک محسوس کرتی ہے اور بغیر رومال کے اُسے صاف نہیں کرتی جب دیکھتی ہے کہ اُس کے بچے کاناک بہہ رہا ہے تو کس طرح فوراً اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کا ناک اپنے ہاتھ سے صاف کردیتی ہے۔ وہ بادشاہ جو اُٹھ کر اپنے ہاتھ سے پانی لینا بھی برداشت نہیں کرسکتے بچوں کو اپنی گودی میں اُٹھائے پھرتے ہیں۔ تو اپنے ہاتھوں سے بنی نوع انسان کی خدمت کرنا یہ ربوبیت کا حصہ ہے اور ہر شخص جو صفت ربّ العٰلمین کا مظہر بننا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ کام کرے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ پیسے لے لو مگر ہاتھ سے کام نہ لو وہ ملکیت کا مظہر تو بنتا ہے مگر ربّ العٰلمین کا مظہر نہیں بنتا۔ حالانکہ ربوبیت کا مادہ فطرتِ انسانی میں داخل ہے۔ ایک زمیندار بے شک ٹیکس ادا کرتا ہے مگر کوئی زمیندار اس امر کو برداشت نہیں کرسکتا کہ گورنمنٹ کچھ ٹیکس بڑھادے اور اس کے بچوں کی پرورش کا ذمہ خود لے لے۔ وہ کہے گا ٹیکس بے شک بڑھادو مگر بچہ کی خدمت مَیں ہی کروں گا اور کسی کو نہیں کرنے دوں گا۔ روس میں کئی دفعہ محض اس بات پر بغاوت ہوگئی ہے کہ حکومت کہتی ہے کہ قوم کے بچوں کو ہم پالیں گے اور ان کی پرورش حسب منشاء کریں گے اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی خود پرورش کریں گے تمہارے سپرد نہیں کرسکتے۔ حکومت کے افسر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے بچوں کو عمدہ سے عمدہ مکانوں میں رکھیں گے۔ اچھی سے اچھی غذا کھلائیں گے تم ان کی پرورش ہمارے ذمہ رہنے دو مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم خواہ بھوکے مریں یا فاقے برداشت کریں بچوں کو اپنی گودی سے نہیں اتاریں گے۔ غرض ملکیت کے ماتحت چندے دیئے جاتے ہیں لیکن ربوبیت کے ماتحت ہاتھوں سے خدمت کی جاتی ہے۔ تم اپنے بچے کو اس لئے گودمیں نہیں اُٹھاتے کہ اس کو اُٹھانے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ اگر تمہارے ہزار خادم بھی ہوں تب بھی تم اپنے بچے کو خود اٹھائو گے کیونکہ ربوبیت تمہاری فطرت میں داخل ہے۔ مجھے ایک نظارہ کبھی نہیں بھولتا میں اُس وقت چھوٹا سا تھا، سولہ سترہ سال کی عمر تھی کہ اُس وقت ہماری ایک چھوٹی ہمشیرہ جو چند ماہ کی تھی فوت ہوگئی اور اُس کو دفن کرنے کے لیے اِسی مقبرہ میں لے گئے جس کے متعلق احرار کہتے ہیں کہ احمدی اس میں دفن نہیں ہوسکتے۔ جنازہ کے بعد نعش حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں پر اُٹھالی۔ اُس وقت مرزا اسماعیل بیگ صاحب مرحوم جو یہاں دودھ کی دکان کیا کرتے تھے آگے بڑھے اور کہنے لگے حضور! نعش مجھے دے دیجئے میں اُٹھالیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مڑ کر اُن کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’یہ میری بیٹی ہے‘‘۔ یعنی بیٹی ہونے کے لحاظ سے اِس کی ایک جسمانی خدمت جو اِس کی آخری خدمت ہے یہی ہوسکتی ہے کہ میں خود اِس کو اُٹھا کر لے جائوں۔ تو صفت ربّ العٰلمین کے مظہر بننا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ مخلوق کی جسمانی خدمات بجالائو۔ اگر تم خدمت دین میں اپنی ساری جائداد دے دیتے ہو، اپنی کُل آمد اسلام کی اشاعت پر خرچ کردیتے ہو تو تم ملکیت کے مظہر تو بن جائو گے مگر ربّ العٰلمین کے مظہر نہیں بنو گے۔ کیونکہ ربّ العٰلمین کا مظہر بننے کے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو اور غرباء کی خدمت پر کمربستہ رہو۔ ہاں جب تم اپنے ہاتھوں سے بھی بنی نوع انسان کی خدمات بجالائو گے تو تم ربّ العٰلمین کی صفت کے بھی مظہر بن جائو گے۔ پھر جب میں نے کہا کہ تحریک جدید کے بورڈنگ میں اپنے بچوں کو داخل کرائو تو یہ تمہیں صفت رحیمیت کا مظہر بنانے کے لیے مطالبہ کیا۔ کیونکہ رحیمیت کہتی ہے کہ تم ایسی اعلیٰ تربیت کرو اور ایسی عمدہ خوبیاں مخلوق میں پیدا کرو کہ جن سے وہ دوامی زندگی اختیار کرلے۔ پھر یہ تحریک ایک رنگ میں ربّ العٰلمین کی صفت کے ماتحت بھی ہے یعنی قوم کے ہر شعبہ کی اصلاح کی جائے۔ اسی طرح جب میں نے سادہ زندگی اختیار کرنے کے لیے کہا تو یہ مطالبہ صفت رحمانیت اور صفت مَلِکیت کے ماتحت آتا تھا۔ کیونکہ ہر وہ قوم جو اپنی زندگی عیش پسند بنالیتی ہے غرباء کی خدمت میں حصہ نہیں لے سکتی۔ حالانکہ رحمانیت کی صفت چاہتی ہے کہ مزدوروں سے ہی نہیں بلکہ غیروں سے بھی سلوک کیا جائے اور پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے پاس سامان ہوں اور سامان تبھی ہوسکتا ہے جب اس کی زندگی کو بعض قیود کے اندر رکھا جائے۔ جو شخص بعض قیود کے اندر اپنے آپ کو نہیں رکھتا وہ موقع پر ضرور فیل ہوجاتا ہے۔ پھر ایک ملِک ہونے کے لحاظ سے بھی سادہ زندگی ضروری ہے کیونکہ ملک کے لیے سپاہ ضروری ہے اور سپاہی کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ جفاکش ہو۔ ورنہ فوج جس کے سپاہی ترفّہ[تَرَفُّہ: دولتمندی، خوشحالی، آسودگی]میں زندگی بسر کرتے ہوں لڑائی میں کام نہیں آسکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک لطیفہ بیان کیا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا جسے یہ وہم ہوگیا کہ سپاہیوں پر روپیہ فضول برباد کیا جاتا ہے ملک میں جو ہزاروں لاکھوں قصائی موجود ہیں یہی لڑائی کے لیے کافی ہیں۔ جب جنگ کا موقع ہوا انہیں بلایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اِس خیال کے آتے ہی اُس نے تمام سپاہی موقوف کردیئے۔ جب یہ خبر اِردگرد پھیلی تو اس کے قریب ہی ایک اور بادشاہ تھا جو اُس کا دشمن تھا۔ اُس نے دیکھا کہ یہ موقع عمدہ ہے۔ اب فوجیں اِس نے موقوف کردی ہیں اِس پر حملہ کردینا چاہئے۔ چنانچہ وہ اپنی فوج لے کر ملک پر حملہ آور ہوگیا۔ بادشاہ کو جب یہ خبر پہنچی تو اُس نے حکم دیا کہ فوراً تمام قصائیوں کو جمع کیا جائے اور ایک فوج بنا کر انہیں کہہ دیا جائے کہ دشمن پر حملہ کردیں۔ اِس پر اوّل تو اُن قصائیوں کو جمع کرنے میں بہت دیر لگی اور اتنے عرصہ میں دشمن کی فوجیں شہر کے قریب آگئیں۔ لیکن خیر جدوجہد کے بعد قصائیوں کو جمع کرکے میدانِ جنگ میں بھیج دیا گیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بادشاہ نے کیا دیکھا کہ وہ تمام قصائی بھاگے چلے آرہے ہیں اور بادشاہ سے مخاطب ہوکر فریاد کررہے ہیں کہ انصاف! انصاف! بادشاہ نے پوچھا کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے بھلا یہ بھی کوئی انصاف ہے ہم باقاعدہ دشمن کے ایک آدمی کو پکڑتے اور پوری احتیاط کے ساتھ اُسے ذبح کرتے ہیں۔ مگر وہ لوگ نہ رگ دیکھتے ہیں نہ پٹھا، یونہی مارتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔ وہ قصائی تو اِدھر انصاف کی جستجو کرتے رہے اور اُدھر دشمن کی فوجیںبے انصافی کے لیے مُلک میں داخل ہوگئیں۔ تو دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوتا جب تک قوم کے افراد میں ایک نظام نہ ہو اور ان میں جفاکشی کی عادت نہ ہو اور جفاکشی بغیر سادہ زندگی اختیار کئے پیدا نہیں ہوتی۔ اسی طرح ربّ العٰلمین کی صفت کے ماتحت بھی سادہ زندگی کی تحریک اُس طرح آتی ہے کہ سادہ زندگی اُس فرق کو دُور کرتی ہے جو امراء اور غرباء میں پایا جاتا ہے۔ جس طرح باپ چاہتا ہے کہ کسی وقت اُس کے تمام بیٹے خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھائیں۔ اسی طرح ربّ العٰلمین یہ چاہتا ہے کہ امراء اور غرباء میں ایسا فرق نہ ہو جس کی وجہ سے ان کا ایک دستر خوان پرجمع ہونا مشکل ہو۔ فرق بے شک ہو مگر ایسا نہ ہو جو آپس کے تعلقات کو خراب کردے اور ان میں اس قدر انسانیت بھی باقی نہ رہنے دے کہ امیر غریب کو حقیر اور ذلیل جانے اور غریب امیر کے متعلق سمجھے کہ وہ عام انسانوں سے بالا ہوگیا ہے۔ مگر امارت و غربت کا امتیاز سادہ زندگی سے ہی دور ہوسکتا ہے اوریہ بھی صفت ربّ العٰلمین کے ماتحت ایک تحریک ہے جس پرعمل کرکے انسان اپنے آپ کو ربّ العٰلمین کا مظہر بناسکتا ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: تحریک جدید کے تمام مطالبات پر عمل کرنے والےصفاتِ الٰہیہ کے مظہر بن سکتے ہیں(قسط سوم)