اللہ سے تعلق پیدا کرنے سے جماعت سے تعلق بڑھے گا اور جما عت کے تعلق کے لیے تمہیں اللہ سے تعلق بڑھانا پڑے گا اور یہی خلافت کے ساتھ تعلق ہے۔ خلافت کا مقصد بھی یہی ہے کہ لوگوں کو راہنمائی کرے کہ ان کا اللہ سے کس طرح تعلق ہونا چاہیے اور اس کے لیے نصیحتیں کرتے رہتے ہیں۔کبھی خدام الاحمدیہ کے اجتماع پہ میری تقریریں ہیں، جلسوں پہ تقریریں ، وہ سب نیکی کی بات ہی کہتا ہوں۔اس پر عمل کر لو اور اللہ سے دعا کرو کہ ہمیں عمل کی توفیق ملے تو پھر اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۲۰۲۵ء، بروز ہفتہ، امام جماعت احمديہ حضرت خليفة المسيح الخامس ايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز کے ساتھ مجلس خدام الاحمديہ امريکہ کے مڈویسٹ ريجن کے وفدکو شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ پچیس (۲۵)رکني وفد کي يہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) ميں منعقد ہوئي۔ مذکورہ وفد نے خصوصي طور پر محض حضورِانور کي اقتدا ميں نمازيں ادا کرنے اور آپ کي بابرکت صحبت سے روحاني فيض حاصل کرنے کي غرض سے امريکہ سے برطانيہ کا سفر اختيار کيا۔ جب حضورِانور مجلس ميں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملينِ مجلس کو السلام عليکم کا تحفہ عنايت فرمايا۔ ملاقات کے آغاز پر حضورِ انور نے صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ سے گفتگو فرمائی، اس کے بعد امیرِ قافلہ سیدرضا احمد صاحب نے وفد کا مختصر تعارف پیش کیا۔ بعد ازاں ہر خادم کو انفرادي طور پر اپنا تعارف پيش کرنے کي سعادت حاصل ہوئي، جس ميں اپنا نام، خانداني پسِ منظر، تعليمي مصروفيات اور جماعتي خدمات کا ذکر کيا گيا۔ تعارف کے دوران حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کئی نوجوانوں سے گفتگو فرمائی۔ ایک خادم نے بتایا کہ وہ الیکٹریکل انجینئرنگ پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے بعد اپنی زندگی وقف کرنا چاہتا ہے۔ دوسرے خادم نے عرض کیا کہ وہ میڈیا کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ آئندہ زندگی میں ایم ٹی اے انٹرنیشنل میں خدمتِ دین کی توفیق پا سکے۔ ایک خادم نے عرض کی کہ وہ جامعہ احمدیہ میں داخل ہونا چاہتا ہے، جس پر حضورِ انور نے دریافت فرمایا کہ کیا وہ جامعہ گھانا جانے کے لیے بھی تیار ہے؟ اس پر اُس خادم نے اثبات میں جواب دیا۔ ایک خادم نے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ میں ابھی Bachelors in data analytics کررہا ہوں۔ اور مَیں بھی ایک وقف نوہوں۔ حضور انورنے فرمایا:اچھا، ماشاء اللہ۔ حضور انور نے نصیحت فرمائی کہ باقاعدہ قرآن شریف بھی پڑھا کرو ۔ وقف نو جو ہے ناں واقفین نو کو پانچ نمازیں اور قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی ٹرانسلیشن یہ basic چیز ہے جو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تب وقف نو ہوگا otherwise you cannot fulfil your pledge(ورنہ آپ اپنے عہد کو نبھانے والے نہیں ہوں گے۔) ایک اور خادم نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے عرض کی کہ پیارے حضور میں ۱۹؍سال کا ہوں اور میں وقف نو میں بھی ہوں اور ابھی میں یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس پڑھ رہا ہوں۔ حضور انورنے مذکورہ بالا نصیحت کو بالائے خاطر رکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے میں وقف نو والی باتیں ہونی چاہئیں ۔ صرف داڑھی رکھنا اور وقف نو ٹائٹل کافی نہیں۔ بعد ازاں شاملينِ مجلس کو حضور انور کي خدمت اقدس ميں متفرق سوالات کرنے نيز ان کے جواب کي روشني ميں حضورانور کي زبانِ مبارک سے نہايت پُرمعارف، بصيرت افروز اور قيمتي نصائح پر مشتمل راہنمائي حاصل کرنے کي سعادت بھي نصيب ہوئي۔ حضور انور ایدہ اللہ کی خدمت اقدس میں کیا جانے والا پہلا سوال یہ تھا کہ ہم اپنے سے بڑی عمر کے خدام کو مسجد میں آنے اور جماعتی پروگراموں میں شامل ہونے کے لیے کس طرح توجہ دلا سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بارے میں راہنمائی عطا فرماتے ہوئے فرمایا کہ ان کو کہو میں آپ سے چھوٹی عمر کا ہوں، اس کے باوجود میں قائد بن گیا۔ اب میں خود تو نہیں بنا ،مجھے بنا دیا گیا ہے۔اب میں نمازیں پڑھنے آتا ہوں تو آپ سے بھی درخواست ہے کہ آپ نمازیں پڑھنے آیا کریں۔ توجہ دلانا ہمارا کام ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ میں بھی اپنے محلے میں زعیم رہا ہوں اور میرے سے بڑی عمر کے میرے خدام تھے بلکہ بعض میرے ماموں وغیرہ بھی تھے تو ان کو میں کہا کرتا تھا مسجد میں آؤ۔ نظام نظام ہے۔ آپ کو میری بات کی پابندی کرنی پڑے گی ۔ ہوں گے ماموں گھر میں! پر جماعت کا جماعتی نظام ہے۔اُن کو پیار سے سمجھاؤ، ادب سے سمجھاؤ کہ ہمارے یہ پروگرام ہوتے ہیں اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جو جماعت کے پروگرام ہوں ان پر عمل کریں اور خاص طور پہ اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہےپانچ نمازیں مسجد میں پڑھنے کا ہمیں کوشش کرنی ہےکہ آئیں تاکہ آپ کے بچے بھی پھر آپ کی کاپی کریں ،آپ کے footstep پہ چلیں اور پھر وہ مسجد میں آئیں گے۔ تو اس لیے بچوں کی تربیت کے لیے بھی ضروری ہے کہ آپ آئیں۔ان سے کہو کہ میں زعیم تو بن گیا ہوں لیکن میری تربیت کرنا بھی آپ لوگوں کا فرض ہے۔ اس لیے آپ لوگ اپنے نمونے دکھائیں تاکہ میں اَور بہتر احمدی مسلمان بنوں۔ اس کے بعد ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور کو نوجوانی میں مختلف صحابہ کرامؓ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی صحبت میسر آئی ہوگی۔ پیارے حضور ازراہ شفقت صحابہ ؓکے ساتھ کوئی یادگار واقعہ بیان فرمائیں۔ حضور انور نے سوال کے جواب میں وفد کو اصحاب احمدؑ کی چند ایمان افروز یادیں سنائیں۔ فرمایا کہ بچپن میں یا پندرہ سولہ سال کی عمر میں صحابہؓ سے لمبی چوڑی sittings تو نہیں ہوئیں۔ میں مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے پاس گیا ہوں ۔ وہ بیٹھتے تھے، بڑے دعا گو تھے۔ ان کو دعا کے لیے کہو تو دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیا کرتے تھے۔ حافظ شاہ جہان پوری صاحبؓ تھے۔ بڑے علمی آدمی تھے۔ انجمن کے کوارٹرز میں رہتے تھے، ان کے پاس میں جاتا رہاہوں۔ ان کو علم بھی بڑا تھا اور بوڑھے ہو کر بھی ان کی یادداشت بڑی اچھی تھی۔ کمرے میں شیلف لگے ہوئے تھے کتابیں ہی کتابیں پڑی ہیں ان کو پتہ تھا کہ فلاں شیلف میں فلاں کتاب ہے اس کو نکالو۔ جن کے ساتھ میں جاتا تھا وہ ان سے علمی گفتگو کرتے تھے۔ تو یہ چیزیں یاد ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کا بھی صرف جانا اور بیٹھنا اور چھوٹی موٹی باتیں سننا،ان کے ارشادات یا ان کا خطبہ دینا ،ان کی تقریریں کرنا بھی یاد ہے لیکن مجھے تقریریں یاد نہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ میرے دادا [حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ] صحابی تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے ۔ وہ بھی کوشش یہ کرتے تھے کہ ہماری تربیت کی جائے۔ مجھے یا میرے بھائی کو کہتے تھے اخبار،خبریں پڑھ کے سناؤ۔ خود لیٹ جاتے تھے مجھے کہتے تھے قرآن شریف پڑھو اور خود سنتے تھے قرآن شریف۔آپؓ آرام سے ٹیک لگا کے آنکھیں بند کر لیتے تھے تو میں سمجھتا تھا میں پڑھتا جاؤں گا تو ان کو پتہ نہیں لگے گا لیکن آپ پڑھتے ہوئے جہاں غلطی کرتا تھا تو فوراً ٹوک دیتے نہیں! یہ آیت اس طرح نہیں یہ لفظ تم نے اس طرح پڑھنا ہے ۔ سن رہے ہوتے تھے توہمارا داؤ نہیں لگتا تھا۔توایسے بزرگوں سے واسطہ پڑا ہے۔ پھر مولوی محمد حسین صاحبؓ ہیں ۔ان کو میں نے دیکھا ہوا ہے۔ ان کو جوانی میں کیا کافی بڑی عمر تک زندہ رہے ہیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیمار تھے۔ میرا خیال ہے میں گیارہ بارہ سال کا تھا جب ان کی وفات ہوئی ہے۔ تو ان کو میں ایک دفعہ ملنے گیا ۔ بڑی عاجزی تھی ان میں۔ وہ بیمار تھے۔ بچوں سے کیا کہناتھا لیکن کہتے تھے میرے لیے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے یا میرے لیےزندگی آسان کرے ۔ تو اس طرح وہ بزرگ بچوں کو بھی دعا کے لیے کہہ دیا کرتے تھے ۔ اس طرح کی باتیں تھیں۔ ایک اور خادم نے سوال کیا کہ اجتماع اور کھیلوں کے موقع پر بعض اوقات لڑائی اور غلط رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ہم اس کو کیسے کم کر سکتے ہیں؟ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دیکھو ! کئی دفعہ میں بتا چکا ہوں کہ کھیل تو ہوتی ہےلیکن سپورٹس مین سپرٹ ہونی چاہیے۔ ہماری کھیلیں اس لیے تو نہیں ہوتیں کہ کمپٹیشن ہے کہ اس میں کوئی ونر ہے، کوئی لوزر ہے اور زندگی اور موت کا سوال ہے۔ یہ a matter of life and deathتو نہیں ہے۔ تو اس لیے کھیل کو کھیل کی طرح لینا چاہیے اور تربیت کرنی چاہیے۔ یہ تمہاری عاملہ کے ممبر، صدر خدام الاحمدیہ، سیکرٹری تربیت ماں باپ سب کا کام ہے کہ بچوں کی تربیت ایسی ہو کہ ان کو پتہ ہو کہ ہم نے ہر دفعہ کھیلوں کے میدان میں بھی اچھی طرح behave کرنا ہے۔ تو اس لیے بعض دفعہ یہ ہوتا ہے لڑائیاں ہوتی ہیں تو اُن ٹیموں کو یا ان لڑکوں کو ہم ایک سال کے لیے دو سال کے لیے کھیلنے سے بین کر دیتے ہیں ۔ تو یہ تو پھر سزا ہے ناں۔ لیکن اس سے پہلے اگر تربیت اچھی ہو تو یہ واقعہ ہی نہ ہو۔ کوئی اس طرح behave نہ کرے۔ ایک خادم نے عرض کی کہ میرا سوال یہ ہے کہ ہم اپنی اور اپنے بچوں کی اس لحاظ سے کیسے حفاظت کر سکتے ہیں کہ تعلیم حاصل کر کے اور نوکریاں تلاش کر کے ہم دنیاداری کی طرف نہ چلے جائیں اور اللہ کے ذکر سے غافل نہ ہو جائیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خادم کو نصیحت فرمائی کہ آپ کو اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے اور پنج وقتہ نماز ادا کرنی چاہیے ۔ مجھے امید ہے کہ آپ کے والدین نے آپ کو یہ باتیں سب سمجھائی ہوئی ہوں گی کہ یہ اچھی باتیں ہیں اور یہ بری باتیں ہیں۔ تو اسی طرح آپ بھی اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کر سکتے ہیں۔ اُن کے سامنے اپنے نمونے قائم کریں۔ اپنی پنج وقتہ نمازیں ادا کریں۔ اپنے لیے بھی دعا کریں اور اپنے بچوں کے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نیک بنائے اور آپ کو سیدھے راستے پر قائم رکھے۔ بچوں کے لیے بھی یہی دعا مانگیں، اپنے لیے بھی دعا کریں۔ بچوں کے سامنے اپنانمونہ قائم کریں۔ اِس کے علاوہ آپ کو اُن کے ساتھ گفتگو بھی کرنی چاہیے، اگر روزانہ نہیں تو کم از کم ہفتہ وار پوری فیملی کو اکٹھے بیٹھنا چاہیے اور مذہبی باتوں پر بات کرنی چاہیے یا کم از کم ایم ٹی اے سنیں یا درس سنیں یا کوئی کتاب پڑھیں تو ان باتوں کے متعلق گفتگو کیا کریں۔ اس طرح سے انہیں معلوم ہوگا کہ ان کا دین اور مذہب ایک ایسی چیز ہے جسے فوقیت دینی چاہیے۔ پس اگر وہ یہ بات سمجھ جائیں کہ ان کے والدین مذہب یا دین کو ہر چیز پر مقدم رکھ رہے ہیں تو پھر وہ آپ کے نقش قدم پر چلیں گے۔ ایک خادم نے حضرت امیر المومنین سے درخواست کی کہ حضور گذشتہ خلفائے کرام سےاپنی ملاقاتوں کی کچھ یادیں بیان فرمادیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب میں پوری طرح ہوش میں آنا شروع ہوا توخلیفہ ثانیؓ اس وقت بیمار تھے لیکن اس وقت بھی وہ جیسا کہ میں نے بتایا ان کو کہ نصیحت کیا کرتے تھے۔ باقی خلیفة المسیح الثالثؒ نصیحت کرتے تھے۔ ایک دفعہ مجھے یاد ہے کہ میں سٹوڈنٹ تھا میرے ابا نے خلیفہ ثالثؒ کوکہہ دیا کہ یہ پڑھتا کم ہے۔ لگتا ہے سوتا زیادہ ہے۔ اس کو نصیحت کریں۔ تو حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے بڑا ہنس کے مجھے کہا جتنی دیر تمہیں نیند آتی ہے اچھی طرح سویا کرو اس کے بعد بیٹھ کے اچھی طرح پڑھ لیا کرو۔ simple نصیحت، کوئی کچھ نہیں۔ یونیورسٹی میں جب ہم پڑھتے تھے اس وقت ۷۴ء کے فساد ہوئے ۔ انہوں نے احمدی سٹوڈنٹس کو یونیورسٹی سے نکال دیا تھا۔ وائس چانسلر نے کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ کیونکہ دوسرے غیر احمدی ہمیں مار دیں گے۔ وہ لوگ بڑے vicious ہوئے ہوئے تھے ۔ اس وقت خلیفہ ثالثؒ نے مجھے کہا کہ تم یونیورسٹی جاؤ اور دو احمدی لڑکے اور لے جاؤ۔ تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ تو میرے والد صاحب نے کہا کہ بڑی خطرناک بات ہے۔ میں نے کہا اب تو خطرناک ہو یا نا خطرناک ہو خلیفہ ثالثؒ نے کہہ دیا میں نے تو جانا ہی جانا ہے۔ تو ہم چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا ۔مجھے تو انہوں نے(خلیفہ ثالثؒ نے) کہا تھا کہ تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ مجھے تو کچھ نہیں کہا۔ دو احمدی لڑکے تھے۔ وہ جو لڑکے تھے غیر احمدیوں کے قابو آگئے۔ انہوں نے انہیں خوب مارا اور پھر ان کے خلاف کیس بھی ہو گیا۔ مار بھی انہوں نے کھائی ہے کیس بھی ان کے خلاف ہو گیا۔ پولیس نے ان کو اوپر چارج کر کے prison میں ڈال دیا۔ بہرحال اس کے بعد تھوڑی دیر تک وہ prison میں رہے۔ پھر bail ہوئی اور free ہو گئے۔ تو خلیفہ ثالثؒ کی بات میں نے مانی تھی۔ میں نے کچھ نہیں کہا اور وہ بات پوری ہوئی ۔ مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا میں یونیورسٹی سے ہو کے آ گیا۔ وائس چانسلر سے ملنے کی کوشش کی انہوں نے کہا ملنا نہیں لیکن تم چلے جاؤ ہم تمہیں یہاں رہنے کی اجازت نہیں دیتے۔ میں نے آ کے خلیفہ ثالثؒ کوساری بات بتا دی۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے تم نے جو کام کرنا تھا کر لیا۔ اب بیٹھو حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ اور ایک دو مہینے بعدسب ٹھیک ہو گیا۔ اسی طرح خلیفہ رابعؒ کے ساتھ واسطہ رہا۔ کام میں کرتا رہا، واقف زندگی تھا۔ اُس وقت میں گھانا میں تھا اور مجھے وہاں سے ہدایت دیتے رہتے تھے کہ یہ کام کرنا ہے ،یہ کام کرنا ہے اور appreciate بھی کرتے تھے۔ پھرربوہ آ گیا وہاں بھی ایسا ہی رہا۔ بہرحال میں بھی کوشش کرتا تھا کہ پوری طرح اُن کے جو حکم ہیں ان کو فالو کروں اور وہ بھی میری باتوں کو پسند کرتے تھے اور appreciate بھی کرتے تھے۔ میری بھی یہ دعا ہوتی تھی کہ میرے سے کوئی خلیفہ ناراض نہ ہو جائے۔ بس اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی تھیں ۔ باقی باتیں جو لمبی چوڑی ہیں وہ مجھے اس وقت نہ یاد آتی ہیں ،نہ بیان کر سکتا ہوں، نہ وقت ہے۔ ایک اَور خادم نے حضور انور ایدہ اللہ کی خدمت اقدس میں سوال کیا کہ ہم جماعت اور خلافت کے ساتھ کیسے اپنا تعلق مضبوط کر سکتے ہیں اور ان خدام کا بھی جو مسجد کم آتے ہیں؟ حضور انور نے فرمایا کہ ان خدام سے دوستی بناؤ جو مسجد کم آتے ہیں تمہاری دوستی میں آ جائیں گے تمہارے پاس۔ فرمایا مسجد میں کوئی پروگرام ایسے بناؤ جو ان کے اٹریکشن کے بھی ہوں۔ انٹرایکٹو پروگرام ہوں، سوال جواب ہوں، مزے کی باتیں ہوں تو وہ سننے کے لیے آئیں گے ۔ سب سے پہلےاللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق بنانا چاہیے۔ دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں اس کا حق ادا کروں۔ اللہ کا حق ادا کیا کرنا ہے؟وقت پہ نمازیں پڑھنا۔ پانچ نمازیں فرض ہیں۔ یہ نہیں کہ دو نمازیں پڑھیں ،تین پڑھیں ،چار پڑھیں، ایک دو چھوڑ دیں ۔حضورِ انور نے مزید ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ صبح اٹھو، اپنی زندگی کو ریگولیٹ کرو۔ فجر کی نماز پڑھو۔ پھر اس کے بعد دن کے باقی پروگرام شروع کرو۔ اسی طرح کوشش کرو کہ قرآن شریف پڑھنا ہے۔ اس کو پڑھو، سمجھو اور اس پہ عمل کرنے کی کوشش کرو۔ جب یہ چیزیں کرو گے تو تمہارا جماعت سے بھی تعلق پیدا ہوگا کیونکہ جماعت تمہیں کہتی ہے کہ یہ باتیں کرنی چاہئیں۔ اللہ سے تعلق پیدا کرنے سے جماعت سے تعلق بڑھے گا اور جما عت کے تعلق کے لیے تمہیں اللہ سے تعلق بڑھانا پڑے گا اور یہی خلافت کے ساتھ تعلق ہے۔ خلافت کا مقصد بھی یہی ہے کہ لوگوں کو راہنمائی کرے کہ ان کا اللہ سے کس طرح تعلق ہونا چاہیے اور اس کے لیے نصیحتیں کرتے رہتے ہیں۔حضور انور نےخادم سے استفسار فرمایا کہ کبھی خدام الاحمدیہ کے اجتماع پہ میری تقریریں ہیں، جلسوں پہ تقریریں ،سنتے ہو؟ وہ سب نیکی کی بات ہی کہتا ہوں۔اس پر عمل کر لو اور اللہ سے دعا کرو کہ ہمیں عمل کی توفیق ملے تو پھر اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے اور اس کو تم بہتر کر سکتے ہو۔ اسی طرح لوگوں سے جو نہیں آتے، تمہاری age گروپ کے لڑکے ہیں، پیچھے ہٹے ہوئے ہیں ان کو قریب لاؤ، ان کو مسجد میں لاؤ، ان سے سوال جواب کرو، ان کودیکھو کرو تو ان کو پروگراموں میں تھوڑا سا انٹرسٹ پیدا ہو ۔ ایسے پروگرام بنانے چاہئیں جو سب کے انٹرسٹ کے ہوں۔ بعض دفعہ کھیلوں کی وجہ سے ہی لوگ آنا شروع ہو جاتے ہیں، چلو کسی بہانے کچھ نہ کچھ تو مسجد آنا شروع ہوئے ناں پھر آہستہ آہستہ اٹیچ ہوتے جاتے ہیں تو پھر باقی پروگراموں میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ ایک خادم نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ایک نئے شادی شدہ جوڑے جو اپنے پہلے بچے کے منتظر ہیں کے متعلق راہنمائی کی درخواست کی۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ بچوں کی تربیت کے لیے راہنمائی ایک جیسی ہے، چاہے پہلا بچہ ہو یا آخری۔ والدین کو ہمیشہ اپنا نیک اور پاکیزہ نمونہ دکھانا چاہیے۔ تاہم حضورِ انور نے خاوند کے کردار کے بارے میں خاص نصیحت فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا کہ عورت بچے کی پیدائش کے بعد ایک نہایت مشکل مرحلے سے گزرتی ہے، اس لیے خاوند کا فرض ہے کہ اِس دوران اُس کی مدد کرے۔ خاوند کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ انکساری، نرمی، محبت اور ہمدردی کا سلوک کرے۔ خاوند کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ بیوی ہی رات کے وقت دودھ پلانے یا nappyبدلنے کی ساری ذمہ داری اٹھائے بلکہ اسے بیوی کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ آرام کر سکے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر مردوں کو اندازہ ہو جائے کہ عورت کو بچے کی پیدائش کے وقت کتنی شدید تکلیف اور درد سے گزرنا پڑتا ہے، تو وہ اسے ایک بار بھی برداشت نہ کر سکیں۔ اس لیے خاوند کو چاہیے کہ وہ اس دوران اپنی بیوی کی مشکلات میں اضافہ نہ کرے بلکہ محبت، تعاون اور سکون کا تعلق قائم کرے تاکہ وہ کسی بھی قسم کے صدمے یا ذہنی دباؤ (ڈپریشن) سے محفوظ رہ سکے۔ ایک خادم نے راہنمائی کی درخواست کی کہ وہ فل ٹائم کام کرتا ہے اور پارٹ ٹائم تعلیم حاصل کر رہا ہے نیز بطور ناظم تعلیم خدمت انجام دے رہا ہے وہ کس طرح اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکتا ہے؟ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ چونکہ وہ نوجوان اور صحت مند ہے، اس کے اندر اتنی طاقت اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ یہ سب ذمہ داریاں نبھا سکتا ہے۔ اصل بات منظم ہونا اور منصوبہ بندی ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اسے چاہیے کہ روزانہ کام کے بعد باقاعدگی سے چند گھنٹے اپنی تعلیم کے لیے مخصوص کرے اور ہفتے کے آخر (ویک اینڈ) پر اپنے خدام الاحمدیہ کے فرائض کے لیے وقت نکالے۔ حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ایک مفصل شیڈول یا چارٹ بنائے جس میں روزانہ کام، مطالعہ، نیند، عبادت اور خدمت کے لیے اوقات طے ہوں۔ حضور انور نے فرمایا کہ اگر وہ ایک منظم منصوبے پر عمل کرے تو وہ اپنی تمام ذمہ داریاں بخوبی ادا کر سکتا ہے۔ ملاقات کے اختتام پر تمام شاملينِ مجلس کو اپنے محبوب امام کے ساتھ گروپ تصوير بنوا نے اور قلم کا بابرکت تحفہ حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور يوں يہ ملاقات بخير و خوبي انجام پذير ہوئي۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکینِ نیشنل مجلسِ عاملہ لجنہ اماء الله کینیڈا کے ایک وفد کی ملاقات