جب مشرکہ عورت مسلمان کے گھر میں آئے گی۔یا مسلمان عورت مشرک سے بیاہی جائے گی تو چونکہ میاں بیوی کے تعلقات کا ایک دوسرے پر گہرا اثر ہوتا ہے۔اس لئے ان کے یہ تعلقات انہیں دین سے منحرف کرنے والے ثابت ہوں گے۔ پس مشرک عورتوں یا مردوں سے تعلقات پیدا نہ کرو۔ ورنہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ تمہیں خدائے واحد سے منحرف کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور اس طرح تمہیں جہنّم کی طرف لے جائیں گے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ تمہیں جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔جنت وہ جگہ ہے جہاں دلوں میں سے ہر قسم کا کینہ نکل جائے گا۔مگر مشرک مرد اور مومن عورت یا مشرک عورت اور مومن مرد کبھی ایک نکتہ پر متحد نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ تو حید اور شرک دونوں میں بعد المشرقین ہے۔اور جب ان میں مذہبی عقائد اور تمدن اور تہذیب کے لحاظ سے اتحاد ہی نہیں ہو گا۔تو ان کی اہلی زندگی خوشگوار کس طرح ہو سکتی ہے۔(حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ) آج سے چھتیس سال قبل کا یہ واقعہ مجھے اب بھی کل کی طرح یاد ہے۔ یہ جماعت احمدیہ کے سو سال مکمل ہونے کا سال یعنی ۱۹۸۹ء تھا۔ مجھے یوگنڈا پہنچے ہوئے بمشکل دو ماہ ہی ہوئے تھے۔ جشن تشکر کے حوالے سے جماعتی وفود دارالحکومت کمپالا میں مختلف وزراء، سفراء اور دیگر اہم شخصیات سے مل کر انہیں انہی کی زبان میں قرآن مجید، منتخب احادیث اور دیگر جماعتی لٹریچر پیش کر رہےتھے۔ اسی سلسلے میں ہم یوگنڈا میں فرانس کے سفیر سے ملنے گئے اور انہیں دیگر کتب کے علاوہ قرآن مجید کا ترجمہ بھی پیش کیا۔ انہوں نے ابتدائی گفتگو کے بعد کہا کہ یہ تو فرانس کے سفیر کی حیثیت سے گفتگو تھی اب میں اپنی ذاتی حیثیت سے آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں۔اور انہوں نے یہ سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ اسلام رواداری اور برداشت کا مذہب ہے تو اسلام میں مسلمان عورتوں کو غیر مسلم مردوں سے شادی کرنے کی اجازت کیوں نہیں ؟ اگر یہ اجازت نہیں ہے تو پھر رواداری کہاں رہی ؟دوران گفتگو وہ قرآن مجید کا ترجمہ کھول کر کچھ متعلقہ آیات بھی پڑھتے رہے۔ جماعتی تعلیمات کی روشنی میں انہیں اس کا جواب دیا گیا لیکن ایک نوجوان واقف زندگی کے طور پر میرے لیے یہ بات تعجب کا باعث تھی کہ ان صاحب کے نزدیک رواداری اور برداشت کا لے دے کر ایک یہی معیار تھا کہ مختلف مذاہب کی تعلیمات کی رُو سے مختلف مذاہب کے مردو خواتین کو ایک دوسرے سے شادی بیاہ کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ ورنہ معاشرے میں رواداری اور برداشت قائم نہیں رہ سکتی۔ انسانی تمدّن میں شادی کے ذریعہ گھرانے کی بنیاد رکھنا، اتنا اہم مرحلہ ہے کہ اس سے وابستہ ہر سوال اہم ہوجاتا ہے۔ اور مختلف ذہنوں میں اس حوالے سے مختلف سوال اور اعتراضات جنم لیتے رہتے ہیں۔ رامائن کی ابتدا پوری دنیا میں انسانی تمدّن کی بنیادی اکائی گھرا نہ ہوتا ہے۔ایک مرد اور ایک عورت شادی کرکے اپنے گھرانے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ان کی اولاد ہوتی ہے وہ بڑی ہوتی ہے۔ پھر اپنے پائوں پر کھڑی ہو کر یہ اولاد بھی شادی کرتی ہے اور یوں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی کئی اہم مذہبی کتب میں جب انسانی تاریخ بیان کی جاتی ہے تو اس کے شروع میں بھی اس بندھن کا ذکر نمایاں طور پر کیا جاتا ہے۔ہندو مذہب کی اہم تاریخی کتاب ’رامائن ‘ کے آغاز میں ہی یہ منظر کشی کی گئی ہے کہ ریاست متھلا کے حکمران جنک کی ایک ہی بیٹی ’سیتا‘ تھی۔ اس بادشاہ کے پاس دیوتا ’رودر کی لوہے کی کمان تھی۔ا سے کوئی طاقتور شخص اٹھا بھی نہیں سکتا تھا۔ بادشاہ جنک نے یہ شرط لگائی تھی کہ میری بیٹی ’سیتا‘ کی شادی اسی شخص سے ہوگی جو اس کمان کو چلا کر دکھائے گا۔ بہت سے شہزادوں نے یہ کمان چلانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ’رامائن ‘ کے مطابق ایودھیا کے بادشاہ دسرتھ کے بیٹے حضرت رام اپنے استاد وشوامتر اور بھائی لکشمن کے ساتھ متھلا کے بادشاہ جنک کے پاس پہنچے اور یہ کمان دیکھنے کی خواہش کی۔ بادشاہ جنک ان کا مطلب سمجھ گیا۔ یہ کمان ایک صندوق میں بند تھی اور اس صندوق کو آٹھ پہیوں والی رتھ میں لایا گیا۔ اس کہانی کے مطابق حضرت رام نے اجازت لینے کے بعد اس صندوق کو کھولا اور اس کمان کو اس طرح اٹھایا جیسے وہ کوئی پھولوں کی مالا ہو۔ اور اس زور اور کامیابی سے تانت کھینچی کہ بجلی کڑکنے کی آواز آئی اور آسمان سے پھول برسنے لگے۔ اور جنک نے پکار کر کہا کہ میری پیاری بیٹی کی شادی اسی شہزادے سے کی جائے گی۔اور اس طرح حضرت رام اور سیتا شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ بائبل میں انسانی معاشرے کا آغاز اسی طرح بائبل میں تاریخ انسانی کی ابتدا کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے آدم (علیہ االسلام ) کو رہنے کے لیے باغ عدن عطا کیا تو ’’خداوند خدا نے کہا کہ آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ میں اس کے لیے ایک مددگار اس کی مانند بنائوں گا۔…اور خدا وند خدا نے آدم پر گہری نیند بھیجی اور وہ سو گیا اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک کو نکال لیا اور اس کی جگہ گوشت بھر دیا۔ اور خدا وند خدا اس پسلی سے جو اُس نے آدم میں سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر اسے آدم کے پاس لایا۔ اور آدم نے کہا یہ تو میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اس لیے وہ ناری کہلائے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی ہے۔ اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے ملا رہے گا۔‘‘ (پیدائش باب ۲) قرآن مجید میں جنتی معاشرہ کی ابتدا قرآن مجید میں انسانی تمدّن کے آغاز کے ذکر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وَقُلۡنَا یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَزَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ وَکُلَا مِنۡہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئۡتُمَا ۪ وَلَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ۔(البقرۃ:۳۶) ترجمہ: اور ہم نے کہا اے آدم !تو اور تیری زوجہ جنت میں سکون اختیار کرو اور تم دونوں اس میں جہاں سے چاہو با فراغت کھائو مگر اس مخصوص درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہو جائو گے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں یہ لطیف نکتہ تحریر فرماتے ہیں: ’’ چونکہ اس آیت میں سب سے پہلے خلیفۃ اللہ کا ذکر ہے ضروری معلوم ہوتا ہے اس جگہ آدم کے تمدّن کا بھی ذکر کر دیا جائے جس کے قیام کے لیے آدم کو مبعوث کیا گیا تھا اور جو اس کی خلافت کا اصل مقصد تھا۔قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم نے اپنی خلافت کو جس تمدّن کے قیام سے ظاہر کیا وہ مندرجہ ذیل اصول پر مبنی تھا۔ ۱۔ آدم کی جماعت کا فرض مقرر کیا گیا تھاکہ وہ شادی کریں جیسا کہ یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَزَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ کے حکم سے معلوم ہوتا ہے۔آدم سے پہلے چونکہ شریعت نازل نہ ہوئی تھی۔ شادی کا خاص دستور بشر میں نہ تھا۔ آدم کے ذریعہ سے شادی کا حکم جاری ہوا۔بائبل نے اس واقعہ کو مسخ کرکے بیان کیا ہے مگر اس کا یہ بیان کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ آدم کے لیے ایک بیوی تیار کرے (پیدائش باب ۲) اس تحقیق کی روشنی میں کہ آدم سے پہلے بشر موجود تھے اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ گو آدم سے پہلے بشر تھے مگر کوئی باقاعدہ نکاح کا طریق رائج نہیں تھا اور بیوی بنانے کا اصل مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات کے متعلق احکام بتائے گئے۔ (تفسیر کبیر جلد اول صفحہ ۳۰۴۔ایڈیشن۲۰۰۴ء) جیسا کہ اوپر کے حوالے سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓنے بیان فرما یا ہے کہ جب نسل انسانی ترقی کرتی ہوئی اس درجہ تک پہنچی کہ حضرت آدم علیہ السلام نے وحی کے ذریعہ نازل ہونے والے احکامات کی روشنی میں تمدّن اور معاشرت کے اصول نافذ فرمائے تو ان میں سے ایک پہلا حکم اور اصول شادی کا اصول تھا۔ اس سے پہلے انسانوں میں شادی کے معین احکامات اور دستور موجود نہیں تھے۔ کمیونسٹ نظریات یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ محققین بھی جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اپنے اپنے رنگ میں جب نسل انسانی کی تدریجی ترقی کا جائزہ لیتے ہیں تو شادی کے دستور کے ارتقا کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر فریڈرک اینجلز (Frederick Engels)نے جن کا شمار کمیونزم کے بانیوں میں ہوتا ہے ایک کتاب The origin of the marriage, private property and the state لکھی۔ اس کتاب کے شروع کے ابواب میں انہوں نے اپنے رنگ میں اور اپنے خیالات کے مطابق شادی کے رواج کے ارتقا کا جائزہ لیا۔ اس کتاب میں تاریخی ماخذ کا ذکر تو کیا لیکن ایسے بہت سے دنیا سے کٹے ہوئے قبائل کے رواجوں کا ذکر بھی کیا جو کہ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں بھی ابھی تہذیب کے ارتقا میں باقی دنیا سے بہت پیچھے کے دور میں رہ رہے تھے۔گویا یہ قبائل اس دور میں ہزاروں سال قبل کے رواجوں کا منظر پیش کر رہے تھے۔ان سے اتفاق کیا جائے یا اختلاف، فریڈرک اینجلز نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نسل انسانی اپنی ابتدائی وحشی حالت میں قبائل میں تو بٹی ہوئی تھی لیکن یہ قبائل ابھی وحشیانہ حالت میں زندگی گذار رہے تھے۔ سارے قبیلہ کےمرد سارے قبیلہ کی عورتوں کے خاوند ہوتے تھے اور کئی صورتوں میں محرم رشتوں کا لحاظ بھی نہیں رکھا جاتا تھا۔اینجلز نے اپنی کتاب میں یہ مثالیں دی ہیں کہ جس دور میں یہ کتاب لکھی گئی، اس دور میں بھی الاسکا اور چلی کے بعض اصلی باشندوں اور ہند چینی کے بعض پسماندہ قبائل میں یہ رسم پائی جاتی تھی۔ اور ہزاروں سال قبل یونان، روم، ناروے اور فارس کی کہانیوں میں بھی اسی وحشیانہ حالت کا ذکر ملتا ہے۔ پھر قبائل میں عمروں کے اعتبار سے مختلف گروہ بننے لگے اور ایک معین گروہ کے سارے مرد اور عورت ایک دوسرے کے خاوند اور بیوی ہوتے تھے اور سارے بچے اپنے قبیلے کے تمام اشخاص کو اپنے والدین ہی سمجھتے تھے۔ اس کے بعد Pairing Family کا رواج آیا۔ اس میں کم از کم ایک مدت کے لیے ایک مرد اور عورت ایک دوسرے کے خاوند اور بیوی سمجھے جاتے تھے لیکن یہ رشتہ اتنا مستحکم نہیں ہوتا تھا اور بآسانی ختم کر کے یہ مرد اور عورت کسی اور کا انتخاب کر سکتے تھے اور بچے زیادہ تر ماں کی طرف منسوب ہوتے تھے۔ یہ مرحلہ اس وقت آیا جب انسان وحشیانہ حالت سے ترقی کر کے کم از کم بربریت کی سطح پر پہنچ رہا تھا۔ اور انیسویں صدی میں بھی بعض دنیا سے کٹے ہوئے قبائل میں یہی طریقہ رائج تھا۔ اس کے بعد اینجلز کے مطابق Monogamyکا دور آیا یعنی اب انسان ان تعلقات میں بہائم کی طرح نہیں رہا بلکہ مرد اور عورت باقاعدہ رشتہ ازدواج میں منسلک سمجھے جانے لگے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اینجلز جیسے کمیونزم کے بانی کے نزدیک جب نسل انسانی نے باقاعدہ جوڑوں کی صورت میں رہنا شروع کیا تو اس وقت سے زمین اور دوسری اشیاء میں نجی ملکیت کا تصوّر شروع ہوا ورنہ اس سے قبل سارے قبیلہ کی ملکیت مشترکہ سمجھی جاتی تھی۔ اور جب نجی ملکیت کا تصوّر شروع ہوا تو ایک طویل تصوّر کے بعد انسانی معاشرے میں ریاست کا تصوّر پیدا ہوا۔ نہ صرف یہ بلکہ اینجلز نے یہ نظریہ بھی پیش کیا کہ جب monogamy (یک زوجگی ) شروع ہوئی یعنی مرد اور عورت نے ایک جوڑے کی صورت میں قبیلہ سے علیحدہ گھر بسانا شروع کیا تو اس کے نتیجہ میں عورت کی محکومیت کا آغاز شروع ہوا۔ بہر حال یہ ان کا خیال تھا۔ تحقیق کی روشنی میں اس کتاب میں درج خیالات کو قبول یا رد کیا جا سکتا ہے۔(Frederick Engels (1909). THE ORIGIN OF THE FAMILY PRIVATE PROPERTY AND THE STATE. Charles H. Kerr & Company. P 27-111) اس مثال کو پیش کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ جب نسل انسانی نے باقاعدہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر خاوند بیوی کی حیثیت سے اپنے گھرانے آباد کرنے شروع کیے اور وہ وحشیانہ دور ختم ہوا جب کہ سارا قبیلہ ایک گھرانے کی طرح رہتا تھا۔ ہرمرد اور ہر عورت ایک دوسرے کے خاوند اور بیوی کی حیثیت رکھتے تھے یا کم از کم ایک عمر کے مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے تو یہ انسانی معاشرے کی وہ اہم تبدیلی تھی جس نے اس معاشرے کو مکمل طرح بدلنا شروع کردیا اور اسی کلیدی تبدیلی نے انسانی تہذیب کو جنم دیا جس کی تاریخ سے ہم واقف ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تفسیر کی روشنی میں ہم یہ جائزہ لے چکے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہونے والے احکامات کے نتیجہ میں ازدواجی عمل کی حدود قیود متعین ہونی شروع ہوئیں جس نے انسانی معاشرے کو بہائم سے علیحدہ کرکے تہذیب کے راستہ پر ڈال دیا۔ کمیونسٹ مفکر فریڈرک اینجلز اگر اس عمل کو استحصال یا عورت کی محکومیت سمجھتے تھے تو اس کے متعلق پڑھنے والے خود اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ظاہر ہے یہ ایک ابتدا تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی شریعتوں نے انسانی تہذیب کے باقی حصوں کی طرح نکاح یا شادی کے قوانین پیش کیے اور حرام اور حلال کا فرق بیان کیا گیا۔ ایک مذہبی شخص اسے انسانی ترقی کا اہم سنگ میل قرار دے گا اور کئی دہریہ حضرات اسے مذہب کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں سمجھتے ہیں۔ ہندو مت میں شادیوں کے قوانین اس مرحلہ پر باقی تمام تفاصیل کو چھوڑتے ہوئے ہم ایک اہم سوال کا جائزہ لیتے ہیںکہ مختلف مذاہب کی تعلیمات اس بارے میں مردوں اور عورتوں کی کیا راہنمائی کرتی ہیں کہ اپنے رفیق حیات کے انتخاب کے وقت کن چیزوں کو اہمیت دی جائے؟ ہم جانتے ہیں کہ اسلام سے قبل مختلف مذاہب کی تعلیمات وقت کے ساتھ انسانی دست برد کی وجہ سے تبدیل ہو کر اس زمانہ تک پہنچی ہیں۔ لیکن یہ تعلیمات اس وقت جس حالت میں ہیں اسی طرح انہیں پیش کیا جائے گا۔ ہندو مت کے قوانین کی کتاب منودھرم شاستر میں یہ ہدایات درج ہیں کہ کس سے شادی کی جائے اور کس سے نہ کی جائے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہندو مت میں انسانوں کو چار ذاتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سب سے اعلیٰ ذات برہمن ہے، پھر کھتری، پھر ویش اور سب سے ادنیٰ اور مظلوم ذات شودروں کو قرار دیا گیا تھا۔ اس میں دوسرے قوانین کے علاوہ یہ بھی درج ہے کہ شودر عورت صرف شودر مرد سے شادی کر سکتی ہے۔ اگر کسی ویش کی اپنی ذات کی ایک بیوی ہے تو پھر وہ شودر عورت سے دوسری شادی کر سکتا ہے۔ اگر کسی کھتری کی ایک کھتری ذات کی بیوی ہے تو وہ ایک ویش عورت اور ایک شودر عورت سے شادی کر سکتا ہے۔ اگر ایک برہمن کی پہلی بیوی برہمن ہے تو وہ ایک کھتری اور ایک ویش اور ایک شودر عورت سے شادی کر سکتا ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ قدیم زمانوں میں بھی اس بات کا نام و نشان نہیں ملتا کہ کوئی شودر عورت کسی برہمن یا کھتری کی پہلی بیوی بنی ہو۔اور جو اعلیٰ ذات کے مرد شودر عورتوں سےشادی کرتے ہیں وہ اپنے خاندانوں اور اولادوں کو شودر بنا دیتے ہیں۔جو برہمن کسی شودر عورت سے شادی کرتا ہےجہنم میں جائے گا۔ (The Sacred Books of the East, edited by Max Muller, published by Oxford at the Calrendon press 1886, p 77-79) یہ حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ منودھرم شاستر میں شریک حیات کے انتخاب کے لیے ذات کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ شادی کے بارے میں بائبل کے قوانین اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ بائبل کے پرانے عہد نامہ میں اس بارے میں کیا ہدایات دی گئی ہیں۔استثنا کاباب ۷ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے: ’’۱۔ جب خداوند تیرا خدا تجھ کو اُس ملک میں جس پر قبضہ کرنے کے لیے تُو جا رہا ہے پہنچا دے اور تیرے آگے سے اُن بہت سی قوموں کو یعنی حتیوں اور جرجاسیوں اور کنعانیوں اور فرزیوں اور حویوں اور یبوسیوں کو جو ساتوں قومیں تجھ سے بڑی اور زور آور ہیں نکال دے۔ ۲۔ اور جب خداوند تیرا خدا اُن کو تیرے آگے شکست دلائے اور تُو اُن کو مار لے تو تُو اُن کو بالکل نابود کر ڈالنا۔ تُو اُن سے کوئی عہد نہ باندھنا اور نہ اُن پر رحم کرنا۔ ۳۔ تُو اُن سے بیاہ شادی بھی نہ کرنا۔ نہ اُن کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا اور نہ اپنے بیٹوں کے لیے اُن کی بیٹیاں لینا۔ ۴۔ کیونکہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کردیں گے تاکہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں۔ یوں خداوند کا غضب تُم پر بھڑکے گا اور وہ تجھ کو جلد ہلاک کردے گا۔ ۵۔ بلکہ تُم اُن سے یہ سلوک کرنا کہ اُن کے مذبحوں کو ڈھا دینا۔ اُن کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا اور اُن کی یسیرتوں کو کاٹ ڈالنا اور اُن کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلا دینا۔ ۶۔ کیونکہ تُو خداوند اپنے خدا کے لیے ایک مقدس قوم ہے۔ خداوند تیرے خدا نے تجھ کو روئے زمین کی اور سب قوموں میں سے چُن لیا ہے تاکہ اُس کی خاص اُمت ٹھہرے۔‘‘ یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ توریت میں جو کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس کتاب ہےاس بات کی ممانعت ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگ غیر اقوام میں شادی کریں۔ اور اس کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر تم نے ان اقوام میں شادیاں کیں تو یہ لوگ تمہیں خدائے واحد کی عبادت سے برگشتہ کرکے ان قبائل کے معبود کی عبادت پر آمادہ کر یں گے۔بائبل میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے غیر اقوام میں شادی کرنا اتنا بڑا گناہ تھا کہ اس گناہ کا علاج یہی تھا ایسے خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا جائے۔چنانچہ کتاب ’عزرا‘ میں وہ واقعہ لکھا ہے جب نبی عزرا کو یہ اطلاع دی گئی کہ بنی اسرائیل کے کئی لوگوں نے دوسری اقوام میں شادیاں کی ہوئی ہیں۔ ’’ کچھ دیر بعد قوم کے راہنما میرے پاس آئے اور کہنے لگے، “قوم کے عام لوگوں، اماموں اور لاویوں نے اپنے آپ کو ملک کی دیگر قوموں سے الگ نہیں رکھا، گو یہ گھنونے رسم و رواج کے پیروکار ہیں۔ اُن کی عورتوں سے شادی کر کے اُنہوں نے اپنے بیٹوں کی بھی شادی اُن کی بیٹیوں سے کرائی ہے۔ یوں اللہ کی مُقدّس قوم کنعانیوں، حِتّیوں، فرِزّیوں، یبوسیوں، عمونیوں، موآبیوں، مصریوں اور اموریوں سے آلودہ ہو گئی ہے۔ اور بزرگوں اور افسروں نے اِس بےوفائی میں پہل کی ہے۔ یہ سن کر مَیں نے رنجیدہ ہو کر اپنے کپڑوں کو پھاڑ لیا اور سر اور داڑھی کے بال نوچ نوچ کر ننگے فرش پر بیٹھ گیا۔ وہاں مَیں شام کی قربانی تک بےحس و حرکت بیٹھا رہا۔ اِتنے میں بہت سے لوگ میرے ارد گرد جمع ہو گئے۔ وہ جلاوطنی سے واپس آئے ہوئے لوگوں کی بےوفائی کے باعث تھرتھرا رہے تھے، کیونکہ وہ اسرائیل کے خدا کے جواب سے نہایت خوف زدہ تھے۔ شام کی قربانی کے وقت مَیں وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا جہاں مَیں توبہ کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہی پھٹے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے مَیں گھٹنے ٹیک کر جھک گیا اور اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اُٹھائے ہوئے رب اپنے خدا سے دعا کرنے لگا، اے میرے خدا، مَیں نہایت شرمندہ ہوں۔ اپنا منہ تیری طرف اُٹھانے کی مجھ میں جرأت نہیں رہی۔ کیونکہ ہمارے گناہوں کا اِتنا بڑا ڈھیر لگ گیا ہے کہ وہ ہم سے اونچا ہے، بلکہ ہمارا قصور آسمان تک پہنچ گیا ہے۔‘‘(عزرا باب ۹) اس کے بعد یہ تفصیلی ذکر ہے کہ پھر ایسی تمام بیویوں کو اپنے خاوندوں سے علیحدہ کردیا گیا جو کہ غیر اقوام سے بیاہی گئی تھیں۔یہاں پر یہ ذکر کہیں پر نہیں کہ ان میں سے بنی اسرائیل کی غیر اقوام سے بیاہی جانے والی بیویاں جو کہ بنی اسرائیل کا مذہب اپنا چکی تھیں، ان سے کوئی مختلف سلوک کیا گیا تھا۔اور نہ ہی استثناء کے اوپر درج کیے گئے حوالے میں یہ ذکر ہے کہ اگر غیر اقوام کی عورتیں ایمان لے آئیں تو تم ان سے شادی کرسکتے ہو۔ یا اگر بنی اسرائیل کی کوئی عورت ایمان نہیں لاتی تو تم ان سے شادی بیاہ نہیں کر سکتے۔ ان حوالوں سے یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ہندو مت کے مقدس قوانین میں اور بائبل میں رفیق حیات کے انتخاب کے لیے ذات اور نسل کو اہمیت دی گئی ہے اور یہی معیار قائم کیا گیا ہے۔ قرآن مجید کی راہنمائی اس کے بعد اس حوالے سے اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تَنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکٰتِ حَتّٰی یُؤۡمِنَّ ؕ وَلَاَمَۃٌ مُّؤۡمِنَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکَۃٍ وَّلَوۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ ۚ وَلَا تُنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤۡمِنُوۡا ؕ وَلَعَبۡدٌ مُّؤۡمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکٍ وَّلَوۡ اَعۡجَبَکُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ یَدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ ۚۖ وَاللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلَی الۡجَنَّۃِ وَالۡمَغۡفِرَۃِ بِاِذۡنِہٖ ۚ وَیُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ۔(البقرۃ:۲۲۲)ترجمہ: اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ یقینا ًایک مومن لونڈی، ایک (آزاد) مشرکہ سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں کیسی ہی پسند آئے۔ اور مشرک مردوں سے (اپنی لڑکیوں کو) نہ بیاہا کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ اور یقینا ََ ایک مومن غلام، ایک (آزاد) مشرک سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں کیسا ہی پسند آئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے ( تمہیں ) جنت کی طرف اور بخشش کی طرف بلا رہا ہے۔ اور وہ لوگوں کے لیے اپنے نشانات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ اس آیت کریمہ سے ظاہر ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک خاوند یا بیوی کے انتخاب کے لیے خدائے واحد پر ایمان لانا سب سے ضروری معیار بیان کیا گیا ہے نہ کہ نسل و نسب کی بنیاد۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں : پھر فرماتا ہے کہ ہم نے یہ حکم اس لیے دیا ہے کہ یہ لوگ آگ کی طرف بلاتے ہیں۔یعنی جب مشرکہ عورت مسلمان کے گھر میں آئے گی۔یا مسلمان عورت مشرک سے بیاہی جائے گی تو چونکہ میاں بیوی کے تعلقات کا ایک دوسرے پر گہرا اثر ہوتا ہے۔اس لیے ان کے یہ تعلقات انہیں دین سے منحرف کرنے والے ثابت ہوں گے۔ پس مشرک عورتوں یا مردوں سے تعلقات پیدا نہ کرو۔ ورنہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ تمہیں خدائے واحد سے منحرف کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور اس طرح تمہیں جہنّم کی طرف لے جائیں گے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ تمہیں جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔جنت وہ جگہ ہے جہاں دلوں میں سے ہر قسم کا کینہ نکل جائے گا۔مگر مشرک مرد اور مومن عورت یا مشرک عورت اور مومن مرد کبھی ایک نکتہ پر متحد نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ تو حید اور شرک دونوں میں بعد المشرقین ہے۔اور جب ان میں مذہبی عقائد اور تمدّن اور تہذیب کے لحاظ سے اتحاد ہی نہیں ہو گا۔تو ان کی اہلی زندگی خوشگوار کس طرح ہو سکتی ہے۔(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۵۰۰۔ ایڈیشن۲۰۰۴ء) حضرت مسیح موعودؑ کا اشتہار جب جماعت احمدیہ کے قیام کو نو سال گزر گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار شائع فرمایا۔ اس اشتہار کا عنوان ’’ اپنی جماعت کے لیے ضروری اشتہار‘‘ تھا۔ ۷؍جون ۱۸۹۸ء کے تحریر فرمودہ اس اشتہار کی ابتدائی عبارت یہ تھی: ’’چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم اس کی بزرگ عنایات سے ہماری جماعت کی تعداد میں بہت ترقی ہو رہی ہے اور اب ہزاروں تک اس کی نوبت پہنچ گئی اور عنقریب بفضلہ تعالیٰ لاکھوں تک پہنچنے والی ہے اس لیے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ان کے باہمی اتحاد کے بڑھانے کے لیے اور نیز ان کو اہل اقارب کے بداثر اور بدنتائج سے بچانے کے لیے لڑکیوں اور لڑکوں کے نکاحوں کے بارے میں کوئی احسن انتظام کیا جائے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جو لوگ مخالف مولویوں کے زیر سایہ ہو کر تعصب اور عناد اور بخل اور عداوت کے پورے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان سے ہماری جماعت کے نئے رشتے غیرممکن ہوگئے ہیں جب تک کہ وہ توبہ کر کے اسی جماعت میں داخل نہ ہوںاور اب یہ جماعت کسی بات میں ان کی محتاج نہیں۔ مال میں دولت میں علم میں فضیلت میں خاندان میں پرہیز گاری میں خدا ترسی میں سبقت رکھنے والے اس جماعت میں بکثرت موجود ہیں اور ہر ایک اسلامی قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت نئے تعلق پیدا کرے جو ہمیں کافر کہتے ہیں اور ہمارا نام دجال رکھتے یا خود تو نہیں مگر ایسے لوگوں کے ثنا خوان اور تابع ہیں۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ۴۳۷۔ ایڈیشن۲۰۱۸ء) اس مضمون میں یہ بحث نہیں کی جا رہی ہے کہ اس سلسلہ میں فقہی مسائل کی تفصیل یا حکمت کیا ہے لیکن اس اشتہار میں بیان کردہ مضمون کی روح واضح ہے کہ جس طرح رشتہ اور شادی کے وقت لڑکے اور لڑکی میں طبیعتوں کی ہم آہنگی دیکھی جاتی ہے اسی طرح عقائد کی ہم آہنگی دیکھنی بھی ضروری ہے۔ اگر دونوں کے عقائد میں انتہائی فاصلہ ہوگا تو وہ خوش و خرم زندگی نہیں گذار سکیں گے۔ یا کم از کم ایک فریق دوسرے فریق پر اثر انداز ہو کر اسے اپنے عقائد سے دور لے جائے گا۔ اس دور میں ایک ایسا طبقہ بھی سرگرم ہے جو کہ ان خیالات کو دقیانوسی اور پرانے زمانے کی باتیں قرار دے کر یہ دعویٰ کرے گا کہ مختلف مذاہب کے درمیان شادی بیاہ سے مختلف مذاہب میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور معاشرے میں برداشت کا مادہ بڑھتا ہے۔ اس بحث کے حوالے سے دیگر تفصیلات ترک کر کے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس دور میں جب کہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ ایسی شادیاں ہو رہی ہیں جن میں خاوند اور بیوی کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے، تحقیقات کیا ظاہر کرتی ہیں کہ ایسی شادیوں کے کیا نتائج نکل رہے ہیں ؟ اب عمرانیات کے بہت سے ماہرین نے کئی ایسی تحقیقات کر کے انہیں شائع کیا ہے جن میں ایسی شادیوں کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ گوکہ مذہبی عقائد کی بنیاد کوئی سائنسی تحقیق نہیں ہوتی لیکن اپنے محدود دائرہ میں ایسی تحقیقات کی اپنی ایک اہمیت ضرور ہے۔ بین المذاہب شادیوں کی شرح اور اثرات سب سے پہلے یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ موضوع اہم کیوں ہے؟ کیا معاشرہ میں اتنی بین المذاہب شادیاں ہو رہی ہیں کہ ایسی شادیوں کا سائنسی طرز پر جائزہ لینا ضروری ہو۔ پیوریسرچ انسٹیٹیوٹ (Pew Research Institute) نے فروری ۲۰۲۵ء میں ایک جائزہ شائع کیا جس کے مطابق امریکہ میں اس وقت ۲۶؍فیصد جوڑے ایسے ہیں جن میں خاوند اور بیوی کا تعلق مختلف عقائد سے ہے۔ اس جائزہ میں اگر خاوند اور بیوی کا تعلق عیسائیت کے مختلف فرقوں سے ہو تو انہیں مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والا شمار کیا گیا تھا۔اسی تجزیہ سے یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ اگر خاوند اور بیوی کا تعلق ایک عقیدہ سے ہے تو ایسے جوڑوں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو کہ کم از کم ہفتہ میں ایک مرتبہ ایک دوسرے سے مذہبی معاملات پر گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن اگر خاوند اور بیوی کا تعلق مختلف مسالک سے ہے تو ان میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہوتی جس میں یہ جوڑے ایک دوسرے سے کم از کم ایک مرتبہ مذہبی معاملات پر گفتگو کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو لوگ اپنے ہم عقیدہ سے شادی کرتے ہیں ان میں مذہبی رجحانات زیادہ دیکھے گئے اور جو ایسے رفیق حیات کا انتخاب کرتے ہیں جس کا تعلق ان کے عقیدہ اور مذہب سے نہ ہو ان میں کم تعداد میں لوگ مذہبی رجحانات رکھتے تھے۔مثال کے طور پر ان یہودیوں میں جن کی شادی ایک یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے سے ہی ہوئی تھی ۲۹؍فیصد انتہائی مذہبی رجحانات رکھتے تھے اور ان یہودیوں میں جن کی شادی کسی دوسرے مذہب کے شخص سے ہوئی تھی صرف چار فیصد انتہائی مذہبی رجحانات رکھتے تھے۔ لیکن اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مذہبی رجحانات رکھنے والے بالعموم اپنے ہم مذہب سے ہی شادی کرنا پسند کرتے ہیں۔ (Smith, Gregory, Alan Cooperman, Becka Alper, Besheer Mohamed, Chip Rotolo, Patricia Tevington, Justin Nortey, Asta Kallo, Jeff Diamant, and Dalia Fahmy. 2025. ”Decline of Christianity in the U.S. Has Slowed, May Have Leveled Off.“ Pew Research Center.) کیلیفورنیا کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر برائن کولسن (Brian Colisson)نے اس موضوع پر ایک مضمون لکھا۔ ان کے مطابق جو لوگ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۸۰ء کے درمیان پیدا ہوئے تھے ان میں سے ۲۰؍فیصد نے ایسے لوگوں سے شادی کی تھی جن کا تعلق ان کے عقیدہ سے نہیں تھا۔ جب اُس کا موازنہ اُن لوگوں سے کریں جو ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائیوں میں پیدا ہوئے تو ان میں سے ۲۷؍فیصد جوڑوں میں خاوندوں اور بیویوں کا تعلق مختلف مسالک سے تھا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ دہائیوں کی نسبت اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ان میں سے ۱۵؍فیصد ایسے تھے جن میں ایک فریق کا تعلق کسی ایک مذہب سے تھا اور دوسرا فریق ایسا تھا جس کا تعلق کسی مذہب سے نہیں تھا۔وہ اپنے تجزیہ میں برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہیں کہ برطانیہ میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق ان لوگوں کی نفسیاتی صحت جواپنے رفیق حیات کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کرتے ہیں جن کا تعلق ان کے مذہب سے نہیں ہوتا ایسے لوگوں کی نسبت خراب ہوتی ہے جن کے رفیق حیات کاتعلق اُن کے مسلک سے ہوتا ہے۔(Brian Collisson. Interfaith Relationships Are Becoming Common. Do They Work? Psychology Today ; posted on October 7, 2022) اسی طرح پیو ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے ۲۰۱۶ء میں امریکہ کے جوڑوں پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جن بچوں کے والدین مختلف عقائد اور مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں ان میں سے ۴۸؍فیصد ماں کا مذہب یا عقیدہ اپناتے ہیں اور ۲۸؍فیصد باپ کا عقیدہ اپناتے ہیں اور ۲۴؍فیصد ماں باپ میں سےکسی کا بھی عقیدہ نہیں اپناتے۔ (Pew Research Center (October 26, 2016). One in five adults were raised in interfaith homes: A closer look at religious mixing in American families.) طلاق کی شرح پر اثرات آج کی دنیا کے مسائل میں ایک بہت بڑا مسئلہ خاوند اور بیوی کے درمیان علیحدگی کا مسئلہ بھی ہے۔ شمالی آئر لینڈ میں دس سال پر محیط بیس ہزار جوڑوں پر تحقیق کی گئی تو علم ہوا کہ اگر عیسائیوں میں بھی ایک فرقےکا شخص اپنے رفیق حیات کے لیے عیسائیت کے کسی دوسرے فرقے کے شخص کا انتخاب کرے تو علیحدگی کے رجحان میں اضافہ ہو تا ہے۔ اگر ایک پروٹسٹنٹ دوسرے پروٹسٹنٹ سے شادی کرے تو دس سال میں ۱۱؍فیصد جوڑوں کی علیحدگی ہوئی تھی۔ایک کیتھولک دوسرے کیتھولک سے شادی کرے تو۱۳؍فیصد کی علیحدگی ہوئی تھی۔ اگر ایک کیتھولک دوسرے پروٹسٹنٹ سے شادی کرے تو ۱۸؍فیصد سے زائد کی اس مدت میں علیحدگی ہوئی۔ اور اگر ان دونوں فرقوں کا کوئی شخص کسی اور مذہب کے شخص سے شادی کرے تو ۱۹؍فیصد سے کچھ کم جوڑوں کو علیحدگی کے عمل سے گزرنا پڑا۔ (Wright DM, Rosato M, O’Reilly D. Influence of Heterogamy by Religion on Risk of Marital Dissolution: A Cohort Study of 20,000 Couples. Eur J Popul. 2017;33(1):87-107.) ہم یہ جانتے ہیں کہ دہریت کی لہر کے ساتھ بہت سے جوڑے شادی کی مذہبی رسومات سے گزرنے کی بجائے صرف سول میرج کے ذریعہ شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔امریکہ میں ٹیکساس کی ایک یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جو جوڑے مذہبی رسومات کے ذریعہ اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں ان میں ان جوڑوں کی نسبت جو مذہبی رسومات کو ردّ کر کے صرف سول میرج کے ذریعہ شادی شدہ زندگی کا آغاز کرتے ہیں علیحدگی کی شرح تیس فیصد کم ہوتی ہے۔جب مختلف زاویوں سے جائزہ لیا گیا تو علم ہوا کہ جن جوڑوں میں مذہبی رجحانات اور مذہبی فرائض کی ادائیگی زیادہ ہوتی ہے ان میں طلاق کی شرح کم ہوتی ہے۔اس تحقیق کے مطابق اگر ایک کیتھولک دوسرے کیتھولک سے شادی کرے تو علیحدگی کی شرح کم ہوتی ہے لیکن اگر خاوند اور اہلیہ کا تعلق ایک جیسے دوسرے مسیحی فرقوں سے ہو تو اس سے علیحدگی کی شرح میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں ظاہر ہوئی۔(Vaaler, Margaret L., et al. ”Religious Influences on the Risk of Marital Dissolution.“ Journal of Marriage and Family, vol. 71, no. 4, 2009, pp. 917–34. JSTOR, http://www.jstor.org/stable/27752510. Accessed 6 Oct. 2025.) نفسیاتی اثرات دوسری طرف یوکے کی ایک ماہر نفسیات Kareena McAloney نے برطانیہ کے جوڑوں پر ایک وسیع تحقیق شائع کی، جس کے مطابق جن جوڑوں کا تعلق مختلف مذاہب سے یعنی اسلام، عیسائیت، ہندو مت یا بدھ مت سے ہوتا ہے، یہ جوڑے دوسرے جوڑوں کی نسبت زیادہ ذہنی تنائو کا شکار رہتے ہیں۔ (Kareena McAloney (2013) Inter-faith relationships in Great Britain: prevalence and implications for psychological well-being, Mental Health, Religion & Culture, 16:7, 686-694) مختلف مذاہب سے وابستہ مردوں اور خواتین کے درمیان شادی صرف مغربی دنیا تک محدود نہیں بلکہ اب دنیا کے بعض اور خطوں میں بھی اس کی شرح بڑھ رہی ہے۔ کیرالہ (بھارت ) میں اس موضوع پر تحقیق کی گئی اور اس کی بنیاد بھی یہی تھی کہ اب بین المذاہب شادیوں کا رواج بڑھ رہا ہے، اِس لیے اِس کے نتائج اور اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔اس ریاست میں زیادہ تر تین قسم کی بین المذاہب شادیاں ہو رہی ہیں۔ یعنی ہندو اور مسلمان کے درمیان، ہندو اور عیسائی کے درمیان اور عیسائی اور مسلمان کے درمیان۔گو یہ ریسرچ پیپر بین المذاہب شادیوں کی تائید میں لکھا گیا تھا لیکن اس میں معین اعداد و شمار اور سائنسی تجزیہ پیش کرنے سے احتراز کرتے ہوئے بغیر اعداد و شمار کے کچھ واقعات اور مصنفین کے اخذ کردہ نتائج ہی بیان کیے گئے ہیں۔ اس تحقیق میں بھی سابقہ تحقیقات کے حوالے سے یہ نتائج پیش کیے گئے کہ ایسی شادیوں میں تنائو کی کیفیت اس لیے زیادہ پیدا ہوتی ہے کیونکہ دونوں ماں اور باپ یہ کوشش کرتے ہیں کہ بچوں کی پرورش اپنے عقائد کے مطابق کریں۔ اور ایسا اس صورت میں بھی ہوتا ہے جب ماں باپ مذہبی رجحانات کے نہ ہوں۔اور اگر ایسے والدین اپنے بچوں کو مذہبی تعلیمات کی بجائے زیادہ تر صرف اخلاقیات سکھانے پر زور دیں تو بھی بچوں کی شخصیت کے اندر اندرونی تقسیم پیدا ہوتی ہے۔ اور تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایسے جوڑوں کے بچوں میں جذباتی اور نفسیاتی مسائل زیادہ موجود ہوتے ہیں۔اور انہیں معاشرے میں تعلقات پیدا کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور وہ اپنے والدین سے بھی کم مطمئن ہوتے ہیں۔اس ریسرچ پیپر میں دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی تحقیقات کا مندرجہ بالا خلاصہ مع حوالوں کےبیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد کیرالہ میں کی جانے والی تحقیق کا یہ نتیجہ بیان کیا گیا ہے کہ کئی بین المذاہب شادیوں میں بیویاں اپنے خاوندوں کا مذہب اپنا لیتی ہیں۔ اور کئی صورتوں میں مائوں اور بچوں کا مذہب زبردستی تبدیل کرایا جاتا ہے۔اور ایسی صورت میں ان لوگوں کو شناخت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔اس تحقیق کے مطابق جن کا مذہب دبائو کے تحت تبدیل نہیں کرایا جاتا ان کی نفسیاتی حالت زیادہ بہتر ہوتی ہے۔اور وہ دونوں مذاہب کی رسومات میں شامل ہوتے ہیں۔ (Dr. Shani SS, et.al (2024). Children Of Interreligious Married Couples, Educational Administration: Theory and Practice, 30(4) 11434-11444) ان ترک اشخاص پر تحقیق کی گئی جنہوں نے دوسرے مذاہب کے اشخاص سے شادی کی تھی تو با وجود اس کے کہ ایسے جوڑے یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان میں کوئی خاص فرق نہیں ہے اور وہ بچوں کو کسی ایک مذہب کی بجائے اخلاقی اقدار کی تعلیم دیتے ہیں، اس کے باوجود ان کے بچے ذہنی طور پر اندرونی تقسیم کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی شخصیت اپنے اندر متضاد پہلو رکھتی ہے۔(Kurttekin, F. (2019). Religious education of children in interfaith marriages. Journal of Beliefs & Values, 41(3), 272–283) اس موضوع پر کچھ اہم کتب یہ موضوع اتنا اہم بن چکا ہے کہ بین المذاہب شادیوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ اس موضوع پر ایک اہم کتاب امریکی مصنفہ Naomi Schaefer Riley نے Till Faith Do Us Partکے نام سے لکھی ہے۔ اس میں یہ تحقیق پیش کی گئی ہے کہ جب ایک یہودی مرد اور عورت کی شادی ہوتی ہے تو امریکہ میں ایسے جوڑوں میں علیحدگی کی شرح ۱۶؍فیصد ہوتی ہے اور جب دونوں میں سے صرف ایک فریق یہودی مذہب کا ہوتا ہے تو علیحدگی کی شرح بڑھ کر ۳۵؍فیصد ہوجاتی ہے۔معاشرے میں ایسے لوگ بھی کافی تعداد میں ہوتے ہیں جو کہ کسی مذہب سے وابستہ نہیں ہوتے۔ ان میں دہریہ اور لاادری (Agnostic) وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ان کی تحقیق کے مطابق جب کسی جوڑے میں دونوں کسی مذہب سے وابستہ نہ ہوں تو ان میں علیحدگی کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ اور جب کسی ایک فریق کا تعلق کسی بھی مذہب سے اور ایک فریق لامذہب ہو تو بھی علیحدگی کی شرح کم ہو جاتی ہے۔ اسی کتاب میں کئی سابقہ تحقیقات کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ۱۹۶۴ء میں ایک کتاب Intermarriage: Interfaith, Interracial, Interethnic میں ماہر معاشیات البرٹ گارڈن (Albert I. Gordon) نے یہ تحقیق بیان کی کہ جب مختلف مذاہب کے مرد اور عورت شادی کریں تو علیحدگی کی شرح میں تین گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ایک اور ماہر معاشیات Evelyn Lehrerنے۱۹۹۳ء میں یہ تحقیق شائع کی کہ اگر عیسائیت کے دو بڑے فرقوں کے مرد اور خاتون شادی کریں تو پانچ میں سے ایک شادی کا انجام طلاق پر ہوتا ہے۔ اور ایک کیتھولک شخص ایک Evengelic سے شادی کرے تو تین میں سے ایک شادی کا انجام طلاق پر ہوتا ہے۔لیکن اگر ایک عیسائی شخص ایک یہودی سے شادی کرے تو چالیس فیصد کا انجام علیحدگی پر ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ محققین نے یہ جائزہ لیا کہ جن شادیوں کا انجام علیحدگی پر ہوا، اگر اُن کو علیحدہ کر دیں اور جو شادیاں قائم ہیں ان کا جائزہ لیں تو ان میں سے وہ جوڑے جن کا تعلق ایک ہی مذہب سے ہواُن جوڑوں کی نسبت جن کا تعلق مختلف مذاہب سے ہوکچھ زیادہ پر مسرت ازدواجی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔لیکن اِس معاملے میں یہودی مذہب سے وابستہ جوڑے ایک استثنا ہیں۔ ایسے یہودی جوڑے جن میں دونوں کا تعلق یہودی مذہب سے اور شادی قائم رہ گئی ہے، نسبتاً زیادہ پر مسرّت زندگی نہیں گزار رہے ہوتے۔لیکن یہ فرق اتنا کم ہے کہ اعداد و شمار کی سائنس کے اعتبار سے خاطر خواہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ (Riley, N.S.(2013). Till Faith Do Us Part. (First Edition). Oxford University Press. P 103-104) یہ اس دور میں کی جانے والی چند تحقیقات ہیں جو کہ اس بارے میں کامیابی اور ناکامی کے عمومی رجحان کو واضح کر دیتی ہیں۔ ہر طبقہ فکر اپنی اپنی سوچ کے مطابق رائے رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق رکھتا ہے لیکن اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ یہ نظریہ کہ اپنے ہم مذہب سے ہی شادی کی جائے محض ایک دقیانوسی ڈھکوسلہ ہے اور اگر مختلف مذاہب کے اشخاص آپس میں شادیاں کریں تو اس سے ایک عالمی ہم آہنگی اور بھائی چارہ پیدا ہوگا، ان تحقیقات کی روشنی میں غلط نظر آتا ہے۔یقینی طور پر کوئی ایسی تحقیقات بھی پیش کر سکتا ہے جن میں مندرجہ بالا تحقیقات اور اعداد و شمار سے مختلف نتائج پیش کیے گئے ہیں لیکن اکثر تحقیقات کم و بیش یہی منظر پیش کر رہی ہیں جن کا حوالہ دیا گیا ہے۔اگر ایسی شادیاں گھر میں ہی امن قائم نہیں کر سکتیں تو ان کے نتیجے میں عالمی امن کس طرح فروغ پا سکتا ہے؟ اگر مذہبی قوانین کو پیش نظر نہ بھی رکھا جائے تو کم از کم نفسیات اور اعدادو شمار کے اعتبار سے یہ تجزیہ تو کیا جا سکتا ہے کہ ایسی شادیوں سے کیا نتائج پیدا ہو رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: وہ چھری لہراتا ہوا سیدھا میری طرف آیا