٭… آنحضورﷺنے راشن پر برکت کی دعا کی جس کے نتیجے میں راشن میں اتنی برکت پڑی کہ سب نے کھایا اور سیر ہوگئے اور پھر بھی راشن بچ گیا ٭… اس سفر کے دوران کئی قسم کے معجزات بھی ظاہر ہوئے جن میں بارش کے برسنے، کھانے پینے کے راشن میں زیادتی اورخالی کنوؤں میں پانی بھر جانے جیسے معجزات شامل ہیں ٭… سانحہ ربوہ کے زخمیوں، پاکستان اور بنگلہ دیش کے احمدیوں نیز مظلومینِ فلسطین کے لیے دعاؤں کی تحریک خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۱؍اکتوبر۲۰۲۵ء بمطابق ۳۱؍اخاء۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۳۱؍اکتوبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: غزوہ تبوک کا آج کل ذکر ہورہا ہے۔ آنحضرتﷺ اس غزوے کے لیے روانہ ہوئے تو اس بارے میں تاریخ ہمیں مزید بتاتی ہے کہ اسلامی لشکرمختلف پڑاؤ کرتا ہوا سفر کرتا رہا اور اس سفر کے دوران مستقل طور پر نمازِ ظہرو عصر اور مغرب و عشاء جمع کرکے ادا کی جاتی رہیں۔ اس سفر میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓکو نماز کی امامت کی توفیق ملی۔ اسی طرح اس سفر کے دوران آنحضرتﷺ اور لشکرِ اسلام قومِ ثمود کے کھنڈرات کے قریب سے بھی گزرا۔ اس علاقے کا نام حجرہے اور یہ مدینے سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں آتا ہے، آج کل اسے مدائنِ صالح کہتے ہیں۔ آپؐ نے اس جگہ کا پانی استعمال کرنے اور وضو کرنے سےبھی منع فرمایا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ ان لوگوں کی بستیوں میں داخل نہ ہو جنہوں نے ظلم کیا مگر یہ کہ تم رو رہے ہو۔ مبادا تمہیں وہ مصیبت پہنچے جو انہیں پہنچی ہے۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ آنحضورﷺ نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور سواری تیز کرلی۔ اسی سفر کے دوران آنحضرتﷺ کی اونٹنی قصواءگم ہونے کا واقعہ بھی پیش آیا۔ آنحضورﷺ نے اس موقعے پرفرمایا کہ اعتراض کرنے والا شخص کہتا ہے کہ محمد (ﷺ) خود کو نبی کہتا ہے مگر یہ تک نہیں جانتا کہ اس کی گُم شدہ اونٹنی کہاں ہے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! مَیں نہیں جانتا ماسوا اس کے جس کا علم مجھے خدا نے دیا ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ مجھے خدا نے اونٹنی کے بارے میں بتا دیا ہے وہ فلاں فلاں گھاٹی میں ہے۔ اس سفر کے دوران زادِ راہ یعنی راشن بھی ختم ہوگیا تھا۔ راستے میں لوگوں کو بھوک لگی تو انہوں نے آنحضورﷺ سے اپنے پانی لانے کے اونٹوں کو ذبح کرنے کی اجازت چاہی جو آنحضورﷺنے مرحمت فرما دی۔ مگر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اس طرح تو سواریاں کم ہوجائیں گی، آپؐ ایسا کریں کہ لوگوں کا باقی ماندہ راشن منگوائیں اور اس پر برکت کی دعا کریں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آنحضورﷺنے راشن پر برکت کی دعا کی جس کے نتیجے میں راشن میں اتنی برکت پڑی کہ سب نے کھایا اور سیر ہوگئے اور پھر بھی راشن بچ گیا۔ اس سفر کے دوران کئی واقعات پیش آئے جن سے مختلف نتائج اور راہ نمائی کی باتیں پتا چلتی ہیں۔ مثلاً دو آدمیوں کی لڑائی ہوئی ایک نے دوسرے کا ہاتھ چبا لیا اور جب دوسرے شخص نے ہاتھ کھینچنا چاہا تو پہلے شخص کے دانت ٹوٹ گئے۔ پہلے شخص نے اپنے ٹوٹنے والے دانت پر دیت کا مطالبہ کیا جسے آنحضورﷺ نے یہ فرما کر ردّ کردیا کہ کیا وہ شخص اپنا ہاتھ تیرے منہ میں رہنے دیتا تاکہ تو اسے چبا جاتا گویا اس کا ہاتھ کسی اونٹ کے منہ میں ہے۔ پس! دیت کاحق دار قرار دینے کا فیصلہ بھی حقائق اور شواہد پر منحصر ہوا کرتا ہے۔ اسی طرح اس سفر کے دوران ایک کھجور کے باغ کے پاس سے گزر ہوا تو آپؐ نے بعض صحابہؓ سے فرمایاکہ اندازہ لگاؤ کہ اس باغ میں کھجور کا کتنا پھل ہوگا؟ سب نے اندازہ لگایا، آنحضورﷺ نے بھی اندازہ لگایا، باغ کی مالک خاتون پاس ہی کھڑی تھی۔ اسے کہا گیا کہ جب پھل اترے تو اس کا وزن یاد رکھنا۔ واپسی پر اس خاتون سے باغ سے حاصل ہونے والے پھل کا جب پوچھا گیا تو اس نے بعینہٖ وہی وزن بتایا جو آنحضورﷺ نے اندازہ قائم فرمایا تھا۔ پھر اس سفر کے دوران آنحضورﷺنے ایک دن فرمایا کہ آج رات بہت شدید آندھی اور طوفان آئے گا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا اور بہت شدت کی آندھی آئی۔ اس سفر کے دوران کئی قسم کے معجزات بھی ظاہر ہوئے جن میں بارش کے برسنے، کھانے پینے کے راشن میں زیادتی اورخالی کنوؤں میں پانی بھر جانے جیسے معجزات شامل ہیں۔ غزوہ تبوک میں پہرہ داری کے حوالےسے مذکور ہے کہ آنحضورﷺ نےحفاظتِ خاص پر حضرت عباد بن بشرؓ کو مقرر فرمایا جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ لشکر کے ارد گرد چکر لگاتے تھے۔ ایک روز انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! ہم رات کو چکر لگاتے ہوئے تکبیر کی آواز سنتے ہیں۔ کیا آپؐ نے ہمارے علاوہ بھی کسی کو پہرے پر مقرر فرمایا ہوا ہے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ نہیں! مَیں نے توتمہارے سِوا کسی کو مقرر نہیں کیا مگر ہوسکتا ہے کہ بعض مسلمان ازخود رضاکارانہ طور پر نکلتے ہوں۔ اس پر حضرت سلکان بن سلامہ ؓکھڑے ہوئے جن کی ڈیوٹی نہیں لگائی گئی تھی مگر حبِ رسولﷺ میں ازخود یہ کام کر رہے تھے۔ انہوں نےعرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! مَیں اپنے دس گھڑ سواروں کے ساتھ نکلتا ہوں اور ان ڈیوٹی دینے والوں کی حفاظت کرتا ہوں۔ اس پر آنحضرتﷺ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ راہِ خدا میں حفاظت کرنے والوں کی حفاظت کرنے والوں پر رحم کرے۔ لوگوں میں سے یا جانوروں میں سے تم نے جس جس کی حفاظت کی ہے ، ہر جان اور جانور کے بدلے تمہیں ایک ایک قیراط اجر ملے گا۔ تبوک کے سفر کے دوران لوگوں کا یہ حال تھا کہ ہر پڑاؤ کے دوران کچھ نہ کچھ لوگ پیچھے رہ جاتے تھے۔ صحابہؓ بتاتے کہ حضورؐ! آج فلاں پیچھے رہ گیا ہے ۔اس پر آپؐ فرماتے کہ اسے چھوڑو! اگر اس میں کوئی بھلائی ہوگی تو اللہ اسے تم سے ملا دے گااور اگر اس کے سوا کوئی بات ہوگی تو اللہ تمہیں اس سے چھٹکارہ دلا دے گا۔ اسی طرح کی اطلاع ایک دفعہ حضرت ابو ذرؓ کے متعلق دی گئی تو آپؐ نے وہی ارشاد فرمایا کہ اسے چھوڑو! اگر اس میں کوئی بھلائی ہوگی تو اللہ اسے تم سے ملا دے گااور اگر اس کے سوا کوئی بات ہوگی تو اللہ تمہیں اس سے چھٹکارہ دلا دے گا۔ حضرت ابو ذرؓ کا اونٹ بالکل سست ہوگیا تھا بالآخر انہوں نے اپنے اونٹ کو چھوڑ دیا اور سامان سر پر اٹھا کر آنحضورﷺ کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ چند روز کے بعدایک پڑاؤ پر لوگوں نے دیکھا کہ کوئی شخص اکیلا چلا آرہا ہے تو لوگوں نے آنحضرتﷺ کو اطلاع دی۔ آپؐ نے فرمایا کہ کاش! یہ ابوذر ہو۔ جب وہ قریب پہنچے تو لوگوں نے بتایا کہ وہ شخص ابوذر ہی ہیں۔ اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ ابوذر پر رحم فرمائے وہ اکیلا ہی چلا ہے، اکیلا ہی فوت ہوگا اور اکیلا ہی اٹھایا جائے گا۔ حضرت ابوذرؓ کے متعلق آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد حرف بہ حرف پورا ہوا۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ کے دَورِ خلافت میں وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینے سے باہر ایک دُور مقام پر منتقل ہوگئے تھے، جب ان کی وفات کا وقت نزدیک آیا تو ان کی بیوی پریشان ہوئیں۔ اس پر حضرت ابو ذرؓ نے فرمایا کہ پریشان نہ ہو۔ مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ تم میں سے ایک شخص جنگل بیابان میں فوت ہوگا اور اس کی نمازِ جنازہ میں اہلِ ایمان کی ایک جماعت شریک ہوگی۔ ساتھ ہی حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ جب آنحضرتﷺ نے یہ فرمایا تھا تو اس وقت جتنے لوگ وہاں موجود تھے وہ سب فوت ہوچکے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی جنگل بیابان میں فوت نہیں ہوا۔ مَیں ہی وہ شخص ہوں۔ پس تم پریشان نہ ہو۔ جب مَیں فوت ہوجاؤں تو مجھے غسل دے کر مدینے جانے والے راستے پر رکھ دینا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ، ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہاں سے عبداللہ بن مسعودؓ اپنے ساتھیوں سمیت گزرے وہ عراق سے عمرے کی نیّت سے جارہے تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ حضرت ابو ذرؓ کا جنازہ ہے تو وہ رونے لگے اور انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے سچ فرمایا تھا کہ ابو ذر اکیلا ہی چلتا ہے اور اکیلا ہی فوت ہوگا۔ پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں کےساتھ حضرت ابوذرؓ کا جنازہ پڑھا اور انہیں وہیں دفن کیا۔ حضورِانور نے خطبے کے آخر میں سانحہ ربوہ کے زخمیوں، پاکستان اور بنگلہ دیش کے احمدیوں نیز مظلومینِ فلسطین کے لیے دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ ربوہ کی مسجد پر حملے کے واقعے میں جو زخمی ہوئےتھے ان کے لیے دعا کریں کہ زیادہ زخمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے اور جلد کامل صحت عطا فرمائے۔ پاکستان میں مخالفین کے ہر منصوبے کو ناکام کرے۔ ربوہ میں ختمِ نبوت کے نام پر مخالفین کا جلسہ ہو رہا ہے ، مولویوں نے جو گند اور غلاظت بولنی ہے بول رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں۔ وہاں بھی مخالفین کے بڑے بد ارادے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ وہاں بھی ہر احمدی کو محفوظ رکھے۔ فلسطینیوں کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور ظالموں سے نجات دے۔جنگ بندی جو کہی جارہی ہے وہ تو صرف نام کی ہے۔ گذشتہ دو دنوں میں جو واقعات ہوئے ہیں انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ یہ جنگ بندی جو کہی جارہی تھی محض نام کی جنگ بندی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان مظلوموں کو ظلم سے بچائے اور ظالموں کی پکڑ کرے۔ ٭…٭…٭