https://youtu.be/05DiBgF0Ago یہ آج سے چھیالیس سال پہلے کی بات ہے یعنی ۱۹۷۹ء کی۔ جماعت ہائے احمدیہ تنزانیہ کا جلسہ سالانہ بمقام (Mkongo (Rufiji، مورخہ ۲۸ تا ۳۰؍ستمبر کو منعقد ہوا۔ یہ گاؤں دارالسلام سے جنوب مشرق کی جانب قریباً ۱۷۰ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں بڑی مخلص جماعت ہے۔ سواحیلی زبان کے اچھے احمدی ادیب اور شعراء اس علاقے کے ہیں۔ دارالسلام جماعت نے اس جلسہ میں شرکت کے لیے آنے جانے کے لیے دو بسیں کرائے پر لیں۔ اور ہم ایک روز قبل ۲۷؍ستمبر کو وہاں پہنچ گئے۔دو بسیں جنوبی صوبہ جات مٹوارا اورلِنڈی سے آئیں۔ یہ گاؤں دراصل ایک نیا گاؤں تھاجس کی ساری آبادی وہاں سے کچھ کلومیٹر آگے بمقام Rusende کی تھی، جسے حکومت نے وہاں کی غیر صحت مند آب و ہوا کی وجہ سے Mkongo منتقل ہونے کا حکم دیا تھا۔ Rusende میں خاکسار نے ۱۹۶۲ء میں ایک ہفتہ گزارا تھا۔ وہاں اس قدر مچھر تھاکہ الامان والحفیظ۔ میرے لیے احباب جماعت نے دن کے وقت بھی مچھر دانی لگا دی کہ اس میں بیٹھ کر اُن سے گفتگو کر وں۔ لیکن یہ امر خاکسار کے لیے مناسب نہ تھا۔ وہاں سے منتقل ہونے کا حکومت کا فیصلہ بہت اچھا لگا۔ Mkongo میں ایک بہت بڑا ہال (کمیونٹی سینٹر )تھا جس کے ایک سرے پر عارضی partition کر کے گاؤں کا تھانہ قائم کیا گیا تھا۔ یہ بڑا ہال جس کی چھت لوہے کی چادروں (corrugated sheets) کی تھی، اس کے دائیں طرف مستورات کے لیے عارضی partition کر دی گئی تھی۔ باقی ہال کے دائیں بائیں مردوں کے لیے چٹائیاں بچھائی گئی تھیں۔ اور درمیان میں رستہ رکھا گیا تھا جو ہال میں قائم تھانے سے لے کر جلسہ سالانہ کے سٹیج تک سیدھا چلا آتا تھا۔ سٹیج حسبِ دستوروسیع تھا،سٹیج پر جماعت کے صدر وغیرہ کے ساتھ گاؤں کے بعض معززین جو غیر احمدی تھے تشریف رکھتے تھے۔ تلاوت اور نظم کے بعد جلسے کا افتتاح خاکسار نے کیا۔ اس جلسہ کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا پیغام موصول ہوا تھا جس کا سواحیلی ترجمہ خاکسار نے پڑھ کر سنایا۔ افتتاح کے بعد پہلی تقریر مکرم شیخ ابو طالب صاحب کی ہورہی تھی کہ ایک شخص تھانے کی طرف سے نکل کر چُھری لہراتا ہوا درمیانی رستے پر سیدھا سٹیج کی طرف خاکسار پر حملہ کرنے کے لیے بھاگتا ہوا آیا۔ اس اچانک واردات کی وجہ سے بھگدڑ سی مچ گئی، سٹیج والے تمام احباب اِدھر اُدھر گئے، پنڈال میں سے بھی کئی باہر چلے گئے جو باقی تھے وہ کھڑے تھے اور نظم و ضبط کافور تھا۔ بھگدڑ کی وجہ سے مائیک کی تاریں وغیرہ بھی disconnect ہو گئیں۔ اب سٹیج پر صرف خاکسار موجود تھا یا پھر چُھری لہراتا ہوا وہ شخص۔ میزخاصی بڑی تھی۔ میز کے سامنے کی طرف وہ شخص چُھری بلند کیے غصے میں کھڑا تھا، اور میز کی دوسری جانب خاکسار۔ خاکسارنے اس شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بغیر آنکھیں جھپکے اس کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنا شروع کیا۔ میز بڑی ہونے کی وجہ سے وہ چُھری سے حملہ تو خاکسار پر نہیں کرسکتا تھا، سوائے اس کے کہ چُھری مجھ پر پھینکتا۔ کچھ دیر گھور کر دیکھنے کی کیفیت کے بعد، وہ شخص میز کی چوڑائی کی جانب آگیا، چُھری بدستور بلند کیے ہوئے۔ خاکسار بھی دو قدم لے کر میز کی دوسری چوڑائی کی طرف ہو گیا اور اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تیز نظر سے دیکھتا رہا۔ اب اُس کے اور خاکسار کے درمیان فاصلہ اور زیادہ ہو گیاتھا۔یہ کیفیت کچھ لمحات تک رہی۔ پھریکایک اس شخص نے سٹیج سے اتر کر قریب ہی موجود ہمارے مبلغ مکرم محمد اشرف اسحاق صاحب پر چُھری کا وار کر دیا، جسے ساتھ موجود جماعت نیوالاکے صدر مکرم ابراہیم Chilembwe نے چُھری کا پھل پکڑ کر ناکام کردیا۔مگر صدر صاحب کی انگلیاں شدید زخمی ہو گئیں۔ اب موجود احباب اس شخص پر پِل پڑے۔ خاکسار سٹیج پر ہی تھا اور احباب سے کہا کہ اسے مارنا پیٹنا نہیں مگر یہ جانے نہ پائے۔ اسے قابو کر لیں۔ پھر اسے اسی ہال میں قائم تھانے کے حوالے کر دیا۔ مکرم صدر صاحب کو فوری فرسٹ ایڈ دی گئی۔ انگلیاں بری طرح زخمی ہو چکی تھیں۔ اب خاکسار نے بلند آواز سے کہا کہ لاؤڈ سپیکرز کے انچارج صاحب کہاں ہیں۔ فوراً آئیں اور سسٹم بحال کریں تا کہ خاکسار احباب کی راہنمائی کر سکے۔ وہ آگئے او رسسٹم بحال کر دیا۔ خاکسار نے اعلان کیا کہ سب دوست، اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں اور جو باہر چلے گئے ہیں وہ بھی آ جائیں۔جلسہ ہوگا۔ جلد ہی احباب اندر آ گئے اور سب اپنی اپنی جگہوں پر تشریف فرما ہوئے۔ سٹیج والے احمدی احباب بھی آگئے مگر دیگر غیر احمدی وغیرہ غیر حاضر رہے۔ مکرم شیخ ابو طالب صاحب کی تقریر درمیان میں کٹ گئی تھی۔ اب انہوں نے اپنی تقریر مکمل کرنی تھی۔ مگر اس سے قبل خاکسار نے مختصر خطاب میں احباب سے کہا کہ خاطر جمع رکھیں، ایسی باتیں بلکہ اس سے بھی بڑی باتیں الٰہی جماعتوں کے ساتھ ہو جاتی ہیں مگر الٰہی جماعتیں گھبراتی نہیں، ثابت قدم رہتی ہیں۔ خاکسار نے کہا کہ اس واقعہ سے ہمیں ایک بڑا سبق ملا ہے وہ یہ کہ سیکیورٹی کا شعبہ کسی بھی جلسہ سالانہ میں نہیں رکھا گیا۔ اس کی ظاہر وجہ تو یہ ہے کہ ملک میں مکمل امن و امان ہے، کبھی کسی جلسہ سالانہ میں ایسی بات نہیں ہوئی، مگر آج کے واقعہ نے بتا دیا کہ بے شک ملک میں امن و امان ہے، کبھی کسی جلسہ سالانہ میں ایسی بات کبھی نہیں ہوئی اور بالعموم ڈنڈے وغیرہ لے کر خود حفاظتی کے لیے جلسوں میں کھڑا ہونا ملک میں پسند بھی نہیں کیا جاتا لیکن اب یہ ہمیں کرنا ہی ہوگا۔ لہٰذا اس وقت سے شعبہ سیکیورٹی قائم کیا جاتا ہے اور مکرم عبدالوہاب صابر صاحب کو اس کا انچارج مقرر کیا جاتا ہے۔ خاکسار نے ہدایت کی کہ آئندہ جلسہ ہائے سالانہ پر آنے والے احباب چھڑی لے کر آیا کریں۔ عام اسلحہ کے لیے تو لائسنس ہو تے ہیں مگر چھڑی وغیرہ رکھنے کا کوئی لائسنس نہیں اور ہو سکے تو ابھی جو چھڑی وغیرہ مہیا کر سکتے ہیں وہ اس کا انتظام کر لیں اور خاکسار کو بھی ایک چھڑی لا دیں۔ منٹوں میں کئی احباب کے ہاتھ میں ڈنڈے اور چھڑیاں تھیں۔ خاکسار کو بھی چھڑی لا کر دے دی گئی۔ کچھ خدام کو ڈنڈے چھڑیاں لے کر ڈیوٹی دینے کے لیے مکرم عبدالوہاب صابر صاحب نے مقرر کر دیا۔مستورات کی طرف زیادہ انتظام تھا۔ (نوٹ:اُس ایک نوجوان کو قابو کرنا احباب کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔ وہ تو خاکسار کی طرف متوجہ تھا، احباب اسے پیچھے سے دھکا دے کر آسانی سے سٹیج سے گرا سکتے تھے۔ مگر اُس وقت لوگ اچانک واردات سے بوکھلا گئے تھے۔) اب مکرم شیخ ابو طالب صاحب کو تقریر مکمل کرنے کے لیے کہا گیا اور انہوں نے تقریر مکمل کی۔ جلسہ پورے وقار سے جاری تھا۔ماحول میں بازار تھا، مارکیٹ تھی۔ ان لوگوں کا خیال جو بعد میں معلوم ہوا یہ تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم جلسہ وغیرہ کرنے کی بجائے واپس گھروں کو چلے جائیں گے۔ مگر دس پندرہ منٹ کے وقفے کے بعد جب جلسہ شروع ہو گیا اور انہوں نے دیکھا کہ خدام ڈنڈے لیے ڈیوٹی دے رہے ہیں،تو سخت حیران ہوئے کہ یہ لوگ کس مٹی سے بنے ہیں؟ جلسے کے دوران تھانے سے ایک کارندہ رجسٹر لےکر خاکسار کے پاس آیا کہ آج کے واقعے کیFIR آپ کی طرف سے لکھی ہے اس پر دستخط کر دیں۔ عاجز نے پڑھا تو لکھا تھا کہ آج ہمارے جلسے میں ایک پاگل شخص چُھری لے کر حملہ آور ہوا۔ جسے پکڑ کر پولیس کے سپرد کر دیا گیا۔ خاکسار نے کہا کہ یہ FIR درست نہیں۔ وہ شخص پاگل نہیں تھا بلکہ قصداً نقصان پہنچانے کے لیے آیا تھا۔ خاکسار اس پر دستخط نہیں کرے گا۔ ہم اس سلسلے میں کارروائی کریں گے۔ جلسے کی پہلی نشست کے اختتام کے بعد احباب مسجد احمدیہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں سب ٹھہرے ہوئے تھے۔ رستے میں دکاندار ہمیں دیکھ کر بہت متاثر تھے۔ کھانے اور نمازوں کے بعد دوسری نشست کے لیے پھر ہم جلسہ گاہ میں آ موجود ہوئے۔ خدام نے اپنی ڈیوٹیاں سنبھال لیں اور جلسہ نہایت کامیابی سے جاری رہا۔ دوسری نشست کے بعد احباب واپس اپنی فرودگاہ –مسجد احمدیہ – آئے نماز مغرب و عشاء کے بعد کھانا ہوا۔ اب سب نے رات مسجد میں گزارنی تھی۔ خاکسار نے محسوس کیا کہ بعض احباب بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔وہ اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم پر کوئی شب خون نہ مارے۔ خاکسار نے انہیں تسلی دی کہ اب سیکیورٹی کا شعبہ قائم ہے آپ سب آرام سے سوئیں اور مکرم عبد الوہاب صابر صاحب کو ہدایت کی کہ چند خدام کو رات پہرے پر رکھیں۔ ضرورت پر ڈیوٹیاں بدل بھی سکتے ہیں۔ اور اگر کسی خطرے کے آثار نظر آئیں تو احباب کو بیدار نہیں کرنا بلکہ خاکسار کو صورتِ حال سے فوری آگاہ کرنا پھرجو حسب حالات تدبیر کی جائے گی اس پر عمل ہوگا۔ ساتھ دعائیں بھی کرتے رہیں۔ اللہ فضل فرمائے گا۔ احباب ان سب انتظامات کے باوجود بے چین سے تھے اور لیٹتے نہ تھے۔ عاجز نے کہا کہ خاکسار احباب کو ہدایت دیتا ہے کہ لیٹ جائیں۔ نیند نہ بھی آئےتو آنکھیں بند کر لیں اور پھر واقعی سب dreamland میں چلے گئے۔ خاکسار بھی اپنی قیام گاہ میں چلا آیا۔ دعائیں جاری رہیں۔ خدا کے فضل سے رات امن سے گزری۔فجر کی اذان ہوئی۔ نماز ادا ہوئی بعد میں خاکسار نے درس دیا۔ اب سب نہایت خوش اور مطمئن تھے۔ ناشتے کے بعد دوسرے دن کے پروگرام کے لیے ہم جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ سیکیورٹی والوں نے اپنی ڈیوٹیاں سنبھال لیں۔ جلسہ کی کارروائی تلاوت قرآن کریم اور نظم (بزبان سواحیلی) سے شروع ہوئی۔ پہلی تقریر ہو رہی تھی کہ خاکسار کو پیغام ملا کہ باہر پولیس کا بڑا افسر کھڑا ہے، وہ عاجز سے ملنا چاہتا ہے۔ خاکسار نے کہا کہ انہیں عزت کے ساتھ اندر لے آئیں۔ وہ اندر خاکسار کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ میں آپ سے اور سامعین سے مختصر بات کرنا چاہتا ہوں۔ خاکسار نے کہا، ٹھیک ہے۔ ابھی تقریر ہو رہی ہے۔ آپ سٹیج پر تشریف رکھیں۔ اس تقریر کے بعد آپ خطاب فرمائیں۔ وہ بیٹھ گئے۔ تقریر ختم ہونے کے بعد خاکسار نے انہیں خطاب کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے تقریر میں کہا کہ میں اس علاقے کے چند گاؤں کے تھانوں کا انچارج ہوں میں قریب کے ایک دوسرے گاؤں میں رہتا ہوں۔ ان تھانوں کا وقتاً فوقتاً دورہ کرتا ہوں۔ مگر ہر روز رات کو سونے سے پہلے اِن تمام تھانوں کو فون کر کے رپورٹ لیتاہوں کہ آج کوئی غیر معمولی واقعہ تو نہیں ہوا۔ چنانچہ گذشتہ رات بھی فون کیے۔ اِس گاؤں کے تھانے کو بھی فون کیا تو مجھے بتایا گیا کہ دن امن و امان سے گزرا ہے کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں ہوا۔ آج صبح جب میں یہاں آیا تو دیکھا کہ نوجوان ڈنڈے لیے کھڑے ہیں۔ میں نے اردگرد دکانداروں سے پوچھا تو انہوں نے کل والے واقعہ کا بتایا کہ اس طرح ایک شخص چُھری لے کر ان پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس پر خاکسار تھانے گیا (جو ہمارے ہال کے ایک کونے میں تھا) اور کل کی رپورٹ رجسٹر سے دیکھی (جس پر عاجز نے دستخط نہیں کیے تھے) تو میں نے انچارج تھانہ سے پوچھا کہ مجھے تو تم نے یہ رپورٹ دی تھی کہ دن امن سے گزرا کوئی قابلِ ذکر واقعہ نہیں ہوا۔ مگر یہاں تو چُھری سے حملہ ہوا تھا۔ میں نے پوچھا وہ مجرم کہاں ہے؟ انہوں نے کہا پاگل تھا ہم نے چھوڑ دیا ہے، اس پر میں نے سختی سے کہا اُسے اِسی وقت میرے پاس حاضر کرو ورنہ تمہارے خلاف سخت action لیا جائے گا۔ اس پر وہ اُس شخص کو لے آئے۔ اِس وقت وہ ہماری custody میں ہے۔ اس پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے گا۔ اور قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ پھر موصوف نے خاکسار سے درخواست کی کہ ان ڈنڈابردار خدام کو بٹھا دیں کہ یہ ہمارے لیے نہایت بے عزتی کا موجب ہے، کہ ہم آپ کی حفاظت نہیں کر سکتے اس لیے آپ کو خود اپنی حفاظت کرنی پڑی ہے۔ اور کہا کہ ہماری حکومت تو وہ ہے جس نے یوگنڈا سے عیدی امین کو بھی بھگا دیا تھا۔ یہ چھریوں والے کیا چیز ہیں۔ غرض اس موضوع پر کافی کہا۔ موصوف کے خطاب کے بعد خاکسار نے مختصر خطاب کیا اور موصوف کے اچھے جذبات کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ حکومت کی طرف سے سیکیورٹی کے ساتھ خدام کو بھی ایک حد تک اپنی سیکیورٹی کا خیال رکھنا مفید ہے۔ خاکسار اتنا کردیتا ہے کہ سیکیورٹی والے خدام کی تعداد کچھ زیادہ ہے اِن میں سے بعض کو بٹھا دیتا ہوں اور ساتھ ہی اشارے سے بعض خدام کو بٹھا دیا۔ اور بعض ڈیوٹی پر ڈنڈوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ موصوف اس پر راضی تھے۔ پھر وہ رخصت ہوئے۔ جلسہ جاری رہا۔ پروگرام کے مطابق تقریریں ہوئیں۔ اچانک باہر سے دو تین عرب نوجوان پنڈال میں داخل ہوئے اور درخواست کی کہ اُنہیں ان کے چند سوالات کے جواب دیے جائیں۔ خاکسار نے عرض کی کہ جلسہ تو پروگرام کے مطابق جاری رہے گا۔ آپ بعد میں خاکسار سے مل کر استفسارات کر لیں۔ وہ اٹھ کر چلے گئے گویا ناراض ہوگئےہوں۔ دوسرے دن کی پہلی نشست بخوبی ختم ہوگئی۔ تو ہم نے مشورہ سے طے کیا کہ دوسری نشست میں سوال و جواب کا وقفہ پروگرام میں رکھ دیا جائے۔ اور ہر جلسہ سالانہ میں لازماً یہ وقفہ رکھا جائے۔ چنانچہ وہ وقفہ پروگرام میں adjust کیا گیا اور اس کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہر جلسہ سالانہ میں یہ وقفہ رکھا جاتا رہا۔ کھانے اور نمازوں کے بعد دوسرے دن کی دوسری نشست شروع ہوئی۔ سوالات کے وقفے میں وہی عرب نوجوان آ موجود ہوئے۔ جوابات کے لیے تمام مرکزی اور مقامی مبلغین سٹیج پر تھے۔ عرب نوجوان نے اپنی طرف سے نہایت وزنی سوال کیا جو درحقیقت نہایت معمولی تھا۔ اُس نے کہا کہ ہم غیر احمدی نماز میں سورت فاتحہ کے بعد آمین (یعنی آ کو بہت لمبا کرکے) کہتے ہیں مگر احمدی حضرات بغیر لمبا کیے محض آمین کہتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس سوال کا جواب خاکسار نے دیا اور کہا کہ آپ عرب ہیں اس لیے آپ کے لیے اِس بات کا سمجھنا بالکل آسان ہے۔ عربی قواعد کے لحاظ سے حروفِ مدّہ کے بعد اگر حرف ساکن ہو یا مشدّد تو وہاں مدّ فرعی آتی ہے۔ مگر آمین میں حرف مدّ کے بعد میم پر شدّ نہیں نہ سکون، بلکہ زیر ہے۔ تو یہاں عربی زبان سے ناواقف ہی مد ڈال کر آواز لمبی کرے گا۔ اور اگر ایسا کرے بھی تو خود بخود میم پر شدّ آ جائے گی اور لفظ آمِّیْن بن جائے گا۔ جس کا معنی ہے ’’قصد کرنے والے‘‘ جبکہ آمین کا معنی ہے اے اللہ میری دعا قبول فرما۔ کہنے لگے ہمیں سمجھ آ گئی ہے اور اٹھ کر چلے گئے۔ مبلغین اورمعلمین نے اس وقفے میں سوالات کے تسلی بخش جواب دیے۔ دوسرے دن کی کارروائی کامیابی سے ختم ہو ئی پھر تیسرے دن کی بھی۔ سہ روزہ جلسہ شان سے اختتام پذیر ہوا اور سب واپس گھروں کو تشریف لے گئے۔جلسہ پر حاضری ایک ہزار تھی۔ پانچ افراد نے بیعت کرکے جماعت احمدیہ میں شمولیت کی سعادت حاصل کی۔ الحمدللہ اُس چُھری والے شخص پر مقدمہ چلا۔ اس کے لیے کئی پیشیاں ہوئیں۔ جن میں ہماری جماعت نیوالا کے صدر مکرم ابراہیم Chilembwe صاحب کو دور سے آنا پڑتا تھا۔ لمبے عرصے بعد پھر جماعت کی طرف سے اُس شخص کو معاف کر دیا گیا۔