https://youtu.be/UBqaPh8CHX0 (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍مئی۲۰۰۶ء) ہمارے سفر کی پہلی منزل سنگاپور تھی۔ یہاں چھوٹی سی جماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص رکھنے والی جماعت ہے۔ یہاں کیونکہ بعض ایسی پابندیاں ہیں جن کی وجہ سے باہر سے کسی جانے والے کیلئے حکومتی اداروں سے تقریر وغیرہ کرنے کی اجازت لئے بغیر کوئی پبلک گیدرنگ (Public Gathering) میں تقریر نہیں ہو سکتی اس لئے وہاں جلسہ تو نہیں ہوا لیکن جو چند دن ہم وہاں ٹھہرے اس میں جلسے کا ہی سماں تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے، شہر بھی ہے ملک بھی ہے، ملائیشیا کے ساتھ لگتا ہے۔ سمندر سے ایک کلومیٹر کا فاصلہ ہے اس پر ملائیشیا سے جوڑنے کے لئے پل بنا ہوا ہے۔ اس لئے ملائیشیا سے بھی کافی لوگ وہاں آ گئے تھے اور ملائیشیا میں بھی کیونکہ جماعت پر پابندی ہے وہاں جایا تو نہیں جا سکتا تھا لیکن آنے والوں کے چہروں سے جو حسرت تھی کہ آپ ہمارے ملک میں حالات کی وجہ سے نہیں آ سکتے وہ ایک جذباتی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ بہرحال پہلے مَیں سنگا پور کے بارے میں مختصر بتا دوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ سنگا پور کی جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے۔ چند ایک پاکستانی گھروں کے علاوہ تمام مقامی احمدی ہیں اور جس طرح سے انہوں نے اپنے کام کو سنبھالا ہوا ہے ان کے جماعت اور خلافت سے اخلاص و وفا کا جو تعلق ظاہر ہوتا ہے وہ ہر ایک کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی د لیل نظر آتا ہے۔ وہاں اس ملک میں انہوں نے ایک خوبصورت چھو ٹی سی مسجد بنائی ہوئی ہے، چھوٹی تو نہیں خیر، ہمارے اس لحاظ (مسجدبیت الفتوح) سے چھوٹی ہے لیکن کافی بڑی مسجد ہے، دو منزلہ ہے اس میں دفاتر بھی ہیں، لائبریری وغیرہ بھی ہے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ وہاں گئے تھے تو آپ نے اس کا افتتاح فرمایا تھا۔ اب وہاں اسی پلاٹ میں جگہ تھی جہاں مَیں مشن ہاؤ س کا سنگ بنیاد رکھ کے آیا ہوں۔ ملائیشیا کا تو میں نے ذکر کیا ہے کہ بعض پابندیاں ہیں اور مخالفت ہے جس کی وجہ سے وہاں کی خاصی تعداد ملاقات کے لئے سنگاپور آ گئی تھی، ان کی عاملہ بھی آ گئی تھی، ان سے بھی میٹنگ وغیرہ ہوتی رہی۔ انڈونیشیا میں بھی آجکل جوحالات ہیں جیسا کہ آپ سب کو علم ہے کہ جماعت کی مخالفت زوروں پر ہے اور فی الوقت وہاں جانا بھی مشکل ہے۔ وہاں سے بھی کافی تعداد میں انڈونیشین احمدی آئے ہوئے تھے اور اس بات پر ان کی بھی جذباتی کیفیت ہو جاتی تھی کہ آپ فی الحال وہاں دورہ نہیں کر سکتے۔ انڈونیشین طبعاً جذباتی بھی ہیں لیکن اخلاص و وفا میں بہت بڑھے ہوئے بھی ہیں۔ جب مَیں نے خطبے میں ان کے موجودہ حالات کا ذکر کیا اور صبر کی تلقین کی تو بلا استثناء ہرایک جوان، بوڑھا، مرد، عورت سخت جذباتی ہو گئے تھے، اس کا نظارہ آپ نے شاید ایم ٹی اے پر کچھ حد تک دیکھا ہو گا، ایم ٹی اے کا کیمرا پوری طرح ہر چیز کی تصویرنہیں لے سکتا۔ مَیں عموماً اپنے جذبات پر کنٹرول رکھتا ہوں لیکن میرے سامنے جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان کی حالت دیکھ کر بڑی مشکل سے اپنے پر قابو پا رہا تھا۔ یہ نظارے ہمیں آج صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیاری جماعت میں نظر آتے ہیں جو دینی تعلق اور اخوت کی وجہ سے ایک دوسرے سے اس حد تک منسلک ہیں کہ جذبات پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ سب آج مسیح محمدی کی قوت قدسی کا اثر ہے جو اس نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پائی ہے کہ ہر ملک میں مختلف قومیتوں اور قبیلوں سے تعلق رکھنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے بعد خلافت سے سچی وفا کا تعلق رکھنے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوت کا اور کس نے پایا؟ اس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے۔ وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ ؓ نے دیکھا۔ وہ خداتعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیساکہ صحابہ ؓ نے اٹھایا۔ وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے حاصل کی۔ بہتیرے اُن میں سے ہیں کہ نمازمیں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے۔ بہتیرے اُن میں ایسے ہیں جن کو سچی خوابیں آتی ہیں اور الہام الٰہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوتے تھے۔ بہتیرے ان میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خداتعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے۔ ان میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یاد رکھتے اور دلوں کے نرم اور سچی تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی۔ وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو پاک کر رہا ہے۔ اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے ان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے، جیسا کہ صحابہؓ کو کھینچتا تھا۔ غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ کے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں اور ضرور تھا کہ خداتعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا‘‘۔ (ایام الصلح, روحانی خزائن جلد 14صفحہ306-307) پس یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا یہ ہمیں آج دنیائے احمدیت کی ہر قوم میں نظر آتا ہے۔ مَیں انڈونیشینز کا ذکر کر رہا تھا، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ان کے سینوں کو اللہ تعالیٰ ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور ہر جگہ یہی نظارے دیکھنے میں آئے۔ مَیں سنگاپور کے خطبے کا ذکر کر رہا تھا، اس خطبے کے بعد یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے تھے اور اس بات پرقائم تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی حالت بدلے گا اور وہ مزید تائیدات کے نظارے دیکھیں گے، ان شاء اللہ۔ مزید پڑھیں: حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا