اس وقت دنیا مختصر ہو کر گلوبل فیملی کی سی شکل اختیار کر چکی ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی سرگرمی وقوع پذیر ہو رہی ہو تو چند ہی لمحات میں وہ سرگرمی ایک خبر بن کر اگلے کونے تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی بدولت اب ہر مذہب، ہر ملک کی تہذیب ان کے تہوار سب اچھائیاں،برائیاں دوسرے ممالک تک بآسانی پہنچ جاتی ہیں۔ اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ان چیزوں کو جو مقبول ہوں یا ٹرینڈنگ Trending میں آرہی ہوں،اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان سے کیا فائدے یا کس قدر بھیانک نقصانات پہنچ سکتے ہیں۔ ایسے ہی عوام میں مقبولیت پانے والا ایک تہوار ہیلووین Halloweenہےجس کی مقبولیت مغربی ممالک سے نکل کر اب مشرق تک اور دوسرے مذاہب سے لے کر مسلمانوں اور احمدی مسلمانوں تک بھی پہنچ چکی ہے۔ اس کی تاریخ جو ڈھونڈنے پر خاکسار کو ملی وہ کچھ اس طرح ہے کہ یہ ایک تہوار ہے جس کا تعلق دو ہزار سال پہلے کے Celtic لوگوں کی مذہبی و ثقافتی روایات سے نکلتا ہے۔ یہ لوگ دو ہزار سال پہلے انگلینڈ اور یورپ میں پھیلے ہوئے تھے۔ ۳۱/ اکتوبر کو وہ فصلوں کی کٹائی کے موسم کا اختتام ایک تہوار کی صورت میں منایا کرتے تھے۔ اس تہوار کا نام سامحین تھا۔ اس رات کوCeltic لوگوں کا نیا سال بھی شروع ہوتا تھا۔ ان کے نزدیک پرانے سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز کا یہ درمیانی وقت بہت نازک ہوتا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس وقت مرے ہوئے لوگوں کی روحیں زمین پہ واپس آتی ہیں۔ اس رات وہ لوگ گروہوں کی شکل میں آگ کے الاؤ جلاتے تھے تاکہ مردہ لوگوں کی اِن روحوں کو عالم ارواح میں واپس بھیجا جا سکے وہ روحیں انہیں زمین پہ آکر کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ لیکن جب عیسائی چرچوں کا اثر ورسوخ ان علاقوں میں بڑھا تو ساتویں صدی میں انہوں نے اس تہوار کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اس سے اگلے دن یعنی یکم نومبر کوAll Saints Day کا نام دے دیا۔ اس طرح سے ان پرانے کیلٹک لوگوں کی مذہبی و ثقافتی روایات کو عیسائیت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ اس طرح یہ ان کے مذہبی شہداء اور اچھے مذہبی لوگوں کو یاد کرنے کا دن بن گیا۔اس وقت آل سینٹس ڈےکو ھالوماس کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس میں ہالوسے مراد مقدس ہے اورماس کو سادہ زبان میں چرچ والی سروسز (عبادات) کہا جا سکتا ہے۔اس طرح اس دن سے پہلے والی شام کوHallowmas کہا جانے لگا۔امریکہ میں اس دن کا آغاز تب ہوا جب آئرلینڈ کے باسی ۱۸۴۰ء میں امریکہ میں آباد ہوئے۔ وہ اپنے ساتھ اس فیسٹول پہ پہننے والے خاص کپڑے اور چہرے پہ پہننے والے ماسک لے کے آئے تھے۔ اس دن وہ ہمسایوں اور دوسرے لوگوں کو تنگ کرتے اور ماسک پہنتے کہ پہچانے نہ جا سکیں۔ ہیلووین (Halloween) امریکا میں منایا جانے والا ایک ایسا تہوار ہے جس میں گلی کوچوں، بازاروں، سیرگاہوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر بڑے بڑے پیٹھے کدو نظر آتے ہیں جن پر خوفناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں اور ان کے اندر موم بتیاں جل رہی ہوتی ہیں۔ کئی گھروں کے باہر ڈراؤنے ڈھانچے اور اسی طرح کی دیگر خوفناک چیزیں سجائی جاتی ہیں۔ کاروباری مراکز میں بھی یہ مناظر اکتوبر شروع ہوتے ہی نظر آنے لگتے ہیں۔۳۱/ اکتوبر کی شام کوتو مخصوص ملبوسات میں ملبوس بچے اور ان کے ساتھ والدین بھی گھر گھر جاکر دستک دیتے ہیں اور trick or treat کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں کوئی چاکلیٹ کینڈی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ اور تاریخ کے مطالعہ سے یہی پتا چلتا ہے کہ پہلے پہل کچھ شرارتی لوگ حقیقتا ًجس گھر سے انہیں کچھ نہیں ملتا تھا ان کوعملی طور پر سزائیں بھی دیا کرتے اور ان کے گھر کو یا ان کو نقصان پہنچا کر جایا کرتے تھے۔۱۹۵۰ء کے لگ بھگ ہیلووین کی حیثیت مذہبی تہوار کی بجائے ایک ثقافتی تہوار کی بن گئی جس میں دنیا کے دوسرے حصوں سے آنے والے تارکینِ وطن بھی اپنے اپنے انداز میں حصہ لینے لگے۔ رفتہ رفتہ کاروباری شعبے نے بھی ہیلووین سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے نت نئے ملبوسات اور دوسری چیزیں مارکیٹ میں لانا اور ان کی سائنسی بنیادوں پر مارکیٹنگ شروع کردی۔ یہاں تک کہ اب ہیلووین اربوں ڈالر کے کاروبار کا ایک بہت بڑا ثقافتی تہوار بن چکا ہے۔ اور اب خود اس تہوار کو منانے والے اس کی تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ یہ سراسر، اسراف ہے۔ نیز اس کےنتیجے میں جرائم کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے اس دن جرائم پیشہ لوگ مختلف بہروپ دھار کر چہروں کو چھپا کر اپنے مذموم ارادے پورے کرتے دکھائی دیتے ہیں اسی لیے آپ میں سے اکثر افراد نے خاص کر جو مغربی ممالک میں رہائش پذیر ہیں اس بات کا ذاتی مشاہدہ کیا ہوگا کہ اس دن پولیس معمول سے زیادہ متحرک نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے اسکول سے بھی ہر سال کسی نہ کسی ایسے واقعہ کی اطلاع ملتی ہے کہ فلاں علاقے میں جو کینڈیز یا چاکلیٹس تقسیم کی گئیں ان میں کوئی خطرناک ڈرگ شامل کی گئی جس سے بچوں کی صحت متاثر ہوئی۔مذہبی نکتہ نظر سے اس تہوار کے نقصاناتاسلام میں کسی ایسے تہوار کےمنانے یا اس کا حصہ بننے سے روکا گیا ہے جس کی بنیاد کسی غیر اسلامی جاہلانہ مذہبی روایت پر ہو۔ ایسا کرنا ان لوگوں کے پیچھے چلنے کے مترادف ہوگا جس سے ہمارے پیارے آقاﷺ نے نہ صرف روکا بلکہ اپنی امت کو ان کی پیروی کرنے کے نتیجے میں ہونے والے خطرات سے بھی آگاہ کیا۔ ایسے تمام افعال اور رسوم و رواج جو کسی خاص تہذیب، مذہب یا نظریے سے تعلق رکھتے ہوں اور ان سے منسوب ہوں ان کو اپنانا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں۔ کیونکہ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے: جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔ (ابوداؤد)حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اس ضمن میں جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ بہر حال اس برائی کا جو آج کل مغرب میں ان دنوں میں بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے اور آئندہ چند دنوں میں منائی جانے والی ہے، اُس کا مَیں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ Halloween کی ایک رسم ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ احمدی بھی بغیر سوچے سمجھے اپنے بچوں کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں، حالانکہ اگر اس کو گہرائی میں جا کر دیکھیں تو یہ عیسائیت میں آئی ہوئی ایک ایسی بدعت ہے جو شرک کے قریب کر دیتی ہے۔ چڑیلیں اور جِنّ اور شیطانی عمل، ان کو تو بائبل نے بھی روکا ہوا ہے۔ لیکن عیسائیت میں یہ راہ پا گئی ہیں کیونکہ عمل نہیں رہا۔ عموماً اس کو funسمجھا جاتا ہے کہ بس جی بچوں کا شوق ہے پورا کر لیا۔ تو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر وہ کام چاہے وہ fun ہی سمجھا جائے جس کی بنیاد شرک یا کسی بھی قسم کے نقصان کی صورت میں ہو اس سے احمدیوں کو بچنا چاہئے۔ مجھے اس بات پر توجہ پیدا ہوئی جب ہماری ریسرچ ٹیم کی ایک انچارج نے بتایا کہ ان کی بیٹی نے ان سے کہا کہ Halloween پر وہ اور توکچھ نہیں کرے گی لیکن اتنی اجازت دے دیں کہ وہ لباس وغیرہ پہن کر، خاص costume پہن کے ذرا پِھر لے۔ چھوٹی بچی ہے۔ انہوں نے اسے منع کر دیا۔ اور پھرجب ریسرچ کی اور اس کے بارہ میں مزید تحقیق کی تو بعض عجیب قسم کے حقائق سامنے آئے۔ تو مَیں نے انہیں کہا کہ مجھے بھی کچھ (حوالے) دے دیں۔ چنانچہ جو مَیں نے دیکھے ان کا خلاصہ مَیں بیان کرتا ہوں۔ کیونکہ اکثر بچے بچیاں مجھے سوال کرتے رہتے ہیں۔ خطوط میں پوچھتے رہتے ہیں کہ Halloween میں شامل ہونے کا کیا نقصان ہے؟ ہمارے ماں باپ ہمیں شامل نہیں ہونے دیتے۔ جبکہ بعض دوسرے احمدی خاندانوں کے بچے اپنے والدین کی اجازت سے اس میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو بہر حال ان کو جو کچھ میرے علم میں تھا اس کے مطابق مَیں جواب تو یہی دیتا رہتا تھا کہ یہ ایک غلط اور مکروہ قسم کا کام ہے اور مَیں انہیں روک دیتا تھا۔ لیکن اب جو اس کی تاریخ سامنے آئی ہے تو ضروری ہے کہ احمدی بچے اس سے بچیں۔ عیسائیت میں یا کہہ لیں مغرب میں، یہ رسم یا یہ بدعت ایک آئرش اِزم کی وجہ سے آئی ہے۔ پرانے زمانے کے جو pagan تھے ان میں پرانی بد مذہبی کے زمانے کی رائج ہے۔ اس کی بنیاد شیطانی اور چڑیلوں کے نظریات پر ہے۔ اور مذہب اور گھروں کے تقدس کو یہ سارا نظریہ جو ہے یہ پامال کرتا ہے۔ چاہے جتنا بھی کہیں کہ یہ Fun ہے لیکن بنیاد اس کی غلط ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اس میں شرک بھی شامل ہے۔ کیونکہ اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ زندوں اور مردوں کے درمیان جو حدود ہیں وہ 31؍اکتوبر کو ختم ہو جاتی ہیں۔ اور مردے زندوں کے لئے اس دن باہر نکل کے خطرناک ہو جاتے ہیں۔ اور زندوں کے لئے مسائل کھڑے کر دیتے ہیں۔ بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اور اسی طرح کی اوٹ پٹانگ باتیں مشہور ہیں۔ اور پھر اس سے بچنے کے لئے جو ان کے نام نہاد جادوگر ہوتے ہیں ان جادوگروں کو بلایا جاتاہے جو جانوروں اور فصلوں کی ان سے لے کر ایک خاص طریقے سے قربانی کرتے ہیں۔ bonfireبھی اسی نظریہ میں شامل ہے تا کہ ان مُردہ روحوں کو ان حرکتوں سے باز رکھا جائے۔ ان مُردوں کوخوفزدہ کر کے یا بعض قربانیاں دے کران کو خوش کر کے باز رکھا جائے۔ اور پھر یہ ہے کہ پھراگر ڈرانا ہے تو اس کے لیے costumeاور خاص قسم کے لباس وغیرہ بنائے گئے ہیں، ماسک وغیرہ پہنے جاتے ہیں۔ بہر حال بعد میں جیسا کہ مَیں نے کہا، جب عیسائیت پھیلی تو انہوں نے بھی اس رسم کو اپنا لیا۔ اور یہ بھی ان کے تہوار کے طور پر اس میں شامل کر لی گئی۔ کیتھولکس خاص طور پر (یہ رسم) زیادہ کرتے ہیں۔ اب یہ رسم عیسائیت کی وجہ سے اور پھر میڈیا کی وجہ سے، آپس کے تعلقات کی وجہ سے تقریباً تمام دنیا میں خاص طورپرمغرب میں، امریکہ میں، کینیڈامیں، یہاں UK میں، جاپان میں، نیوزی لینڈ میں، آسٹریلیاوغیرہ میں، یورپ کے بعض ملکوں میں پھیل چکی ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ چھُپی ہوئی برائی ہے۔ جسے مغرب میں رہنے والے مسلمان بھی اختیار کر رہے ہیں۔ بچے مختلف لباس پہن کر گھر گھر جاتے ہیں۔ گھر والوں سے کچھ وصول کیا جاتا ہے تا کہ روحوں کو سکون پہنچایا جائے۔ گھر والے اگر ان مختلف قسم کے لباس پہنے ہوئے بچوں کو کچھ دے دیں تو مطلب یہ ہے کہ اب مُردے اس گھر کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ یہ ایک شرک ہے۔ بے شک آپ یہی کہیں کہ funہے، ایک تفریح ہے لیکن جو پیچھے نظریات ہیں وہ مشرکانہ ہیں۔ اور پھر یہ کہ ویسے بھی یہ ایک احمدی بچے کے وقار کے خلاف بات ہے کہ عجیب و غریب قسم کا حلیہ بنایا جائے۔ اور پھر گھروں میں فقیروں کی طرح مانگتے پھریں۔ چاہے وہ یہی کہیں کہ ہم مانگنے جا رہے تھے یا چاکلیٹ لینے جا رہے تھے لیکن یہ مانگنا بھی غلط ہے۔ احمدی کا ایک وقار ہونا چاہیے اور اس وقار کو ہمیں بچپن سے ہی ذہنوں میں قائم کرنا چاہیے۔ اور پھر یہ چیزیں جو ہیں مذہب سے بھی دُور لے جاتی ہیں۔ بہر حال جب یہ منایا جاتا ہے تو پیغام اس میں یہ ہے کہ چڑیلوں کا وجود، بدروحوں کا وجود، شیطان کی پوجا، مافوق الفطرت چیزوں پر عارضی طور پر جو یقین ہے وہ funکے لیے کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انتہائی غلط نظریہ ہے۔ پس یہ سب شیطانی چیزیں ہیں۔ اس سے ہمارے بچوں کو نہ صرف پرہیز کرنا چاہیے بلکہ سختی سے بچنا چاہئے۔ ماضی قریب تک دیہاتوں کے رہنے والے جو لوگ تھے وہ بچوں کو جو اس طرح ان کے دروازے پر مانگنے جایا کرتے تھے اس خیال سے بھی کچھ دے دیتے تھے کہ مُردہ روحیں ہمیں نقصان نہ پہنچائیں۔ بہر حال چونکہ بچے اور ان کے بعض بڑے بھی بچوں کی طرف سے پوچھتے رہتے ہیں۔ اس لیے مَیں بتا رہا ہوں کہ یہ ایک بد رسم ہے اور ایسی رسم ہے جو شرک کی طرف لے جانے والی ہے۔ پھر اس کی وجہ سے بچوں میں funکے نام پر، تفریح کے نام پر غلط حرکتیں کرنے کی جرأت پیدا ہوتی ہے۔ ماں باپ ہمسایوں سے بداخلاقی سے پیش آتے ہیں۔ ماں باپ سے بھی اور ہمسایوں سے بھی اور اپنے ماحول سے بھی، اپنے بڑوں سے بھی بداخلاقی سے پیش آنے کا رجحان بھی اس وجہ سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بھی ایک سروے ہے۔ حتٰی کہ دوسرے جرائم بھی اس لیے بڑھ رہے ہیں۔ اس قسم کی حرکتوں سے ان میں جرأت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ مغرب میں ہر برائی کو بچوں کے حقوق اور funکے نام پر تحفظات مل جاتے ہیں، اجازت مل جاتی ہے اور مل رہی ہے لیکن اب خود ہی یہ لوگ اس کے خلاف آوازیں بھی اٹھانے لگ گئے ہیں۔ کیونکہ اس سے اخلاق برباد ہو رہے ہیں۔ پھر Halloween کے خلاف کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے بچوں میں تفریح کے نام پر دوسروں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی برائی جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ بڑھ رہی ہے اور جرائم بھی اس وجہ سے بڑھ رہے ہیں۔ ایک تو فلموں نے غلط تربیت کی ہے۔ پھر اگر عملی طور پر ایسی حرکتیں کرنے لگ جائیں اور ان کو تفریح کے نام پر بڑے encourage کرنا شروع کر دیں تو پورے معاشرے میں پھربگاڑ ہی پیدا ہو گا اور کیا ہو سکتا ہے؟ اور پھر ہمارے لئے سب سے بڑی بات جیسا کہ مَیں نے کہا مُردوں کو خدا کے مقابل پر کھڑا کر کے ان کے کسی بھی غلط عمل سے محفوظ کرنے کا شیطانی طریق اختیار کیا گیا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل پر کھڑا کر کے ایک شرک قائم کیا جا رہا ہے یا بچوں کوتحفے تحائف دے کے ان کی روحوں کو خوش کیا جا رہا ہے۔ یا جادوگروں کے ذریعہ سے جادوکر کے ڈرایا جا رہا ہے۔ بہر حال یہ نہایت لغو اور بیہودہ تصور ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ۲۹؍اکتوبر ۲۰۱۰ء )غرض کہ اس تہوارکو منانے کا صرف اورصرف نقصان ہے فائدہ کچھ بھی نہیں ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اس کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے مزیدفرماتے ہیں:” ایک مصنف ہیں ڈاکٹر گریس کیٹر مین، ایم ڈی، وہ اپنی کتاب You and your child’s problemsمیں لکھتے ہیں کہ A tragic, by-product of fear in the lives of children as early as preadolescence is the interest and involvement in super natural occult phenomena یعنی بچوں کی زندگی میں جوانی میں قدم رکھنے سے پہلے، اس عمر سے پہلے یا اس دوران میں خوف کی انتہائی مایوس کن حالت جو لا شعوری طورپر پیدا ہو رہی ہے وہ مافوق الفطرت چیزوں میں دلچسپی اور ملوث ہونے کی وجہ سے ہے۔اب Halloween کی وجہ سے جو بعض باتیں پیدا ہو رہی ہیں ان میں یہ باتیں صرف یہاں تک نہیں رکتیں کہ costumeپہنے اور گھروں میں مانگنے چلے گئے بلکہ بعض بڑے بچے پھر زبردستی گھرو الوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اور دوسری باتوں میں، جرموں میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔ اور نتیجۃًپھر جہاں وہ معاشرے کو، ماحول کو ڈسٹرب کر رہے ہوتے ہیں اور نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں وہاں ماں باپ کے لیے بھی دردِ سر بن جاتے ہیں اور اپنی زندگی بھی برباد کر لیتے ہیں۔ اس لیے مَیں پھر احمدیوں سے کہتا ہوں کہ ان باتوں سے بہت زیادہ بچنے کی ضرورت ہے۔ احمدی بچوں اور بڑوں کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھائیں۔ جو ہمارا مقصد ہے اس کو پہچانیں۔ وہ باتیں کریں جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔مغربی معاشرے کا اثر اتنا اپنے اوپر نہ طاری کریں کہ بُرے بھلے کی تمیز ختم ہو جائے۔ خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس کی ذات کی بڑائی کو بھی بھول جائیں اور مخفی شر ک میں مبتلا ہو جائیں اور اس کی وجہ سے پھر ظاہری شرک بھی ہونے لگ جاتے ہیں۔بعض برائیاں غیر محسوس طریق پر انسان کو اپنے دامن میں گرفتار کرلیتی ہیں۔ ان میں سے ایک شرک بھی ہے۔ بعض ظاہری شرک نہ سہی شرک خفی میں مبتلا ہیں۔ ایک احمدی مسلمان کا فر ض ہے کہ اپنی حالتوں میں اور اپنے عملوں میں تبدیلی پیدا کریں۔ اپنی عبادتوں کو ایسا بنائیں کہ خداتعالیٰ کی توحید ہماری عبادتوں میں بھی نظر آنے لگے۔“ (خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ ۲۹؍اکتوبر ۲۰۱۰ء )اتنے واضح احکامات کے بعد کسی احمدی کے پاس یہ گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اس طرح کےلغو تہوار کا حصہ بنے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃالمومنون میں مومنین کی جو صفات بیان کی ہیں اُن میں ایک یہ بھی ہے:الَّذِینَ ھُم عَنِ اللَّغوِ مُعرِضُونَ(المومنون:۴) جو لغو سے اعراض کرتےہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔”یعنی مومن وہ ہیں جو لغو کاموں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں اور لغو تعلقات سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔“(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ۱۹۷)اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو شیطان کےحملوں سےبچائےرکھےاور ایسی برائیوں سے،جو ہمیں خدا تعالی ٰسے دُور لے جانے والی ہوں ان سےہمارےدلوں میں کراہت پیدا کر دے۔ہم نیکی کو سنوار کر ادا کرنے والے ہوں اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرنے والے ہوں۔آمین مزید پڑھیں: Halloweenکی رسم میں کسی احمدی کو شامل ہونے کی اجازت نہیں