https://youtu.be/ayQtB5AG8KM (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍نومبر۲۰۲۳ء) گنی بساؤ افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے محمود صاحب ہیں جو موٹر سائیکل مکینک ہیں۔ ان کو مشنری صاحب نے چندہ تحریکِ جدید کی تحریک کی تو انہوں نے اپنی جیب میں جتنی بھی رقم تھی سب نکالی جو کہ دس ہزار فرانک سیفا تھی۔ گھر میں بیٹھے تھے کہ اسی وقت ان کی بہو بھی آئی۔ انہوں نے گھر میں کھانا پکانے کے لیے پیسے مانگے۔ محمود صاحب وہ ساری رقم تحریکِ جدید چندہ میں ادا کرنے کی نیت کر چکے تھے اور ساری رقم چندے میں ادا کر دی اور بہو کو کہا کہ آپ صبر کریں۔ اس وقت بہو واپس چلی گئی۔ محمود جرگہ صاحب کہتے ہیں کہ ابھی وہ اس پریشانی میں تھے کہ بہو کو کس طرح خرچ دیں کہ گورنمنٹ کے ایک دفتر سے فون آیا کہ آپ دفتر آ جائیں۔ جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا کہ آپ نے گذشتہ سال ہماری موٹر سائیکلوں کی مرمت کی تھی جس کی رقم ہم نے آپ کو ادا نہیں کی تھی اور ایک لاکھ نوے ہزار فرانک سیفا کا چیک ان کو دیا۔ چیک وصول کرنے کے بعد محمود صاحب فوراً اپنے گھر آئے۔ اپنی بہو اور باقی گھر والوں کو بلا کر کہا کہ دیکھو! اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی برکتیں۔ جس رقم کی مجھے امید بھی نہیں تھی وہ میرے ربّ نے مجھے دلوا دی۔ فجی کے مبلغ لکھتے ہیں: ناندی کے ایک دوست اشفاق صاحب ہیں۔ کہتے ہیں انہوں نے سفر کے دوران میرا تحریکِ جدید کا جو پچھلا خطبہ تھا وہ سنا اور جو میں نے واقعات بیان کیے تھے وہ سنے۔ کہتے ہیں کہ ان واقعات کا ان پر بڑا اثر ہوا اور دورانِ سفر گاڑی چلاتے ہوئے سیکرٹری تحریکِ جدید کو فون کیا کہ میرا تحریکِ جدید کا چندہ دوگنا کر دیں۔ یہ بزنس کرتے ہیں۔ اس کے بعد بزنس کی سالانہ مالی رپورٹ تیار ہوئی تو اس سال ان کا منافع بھی دوگنا تھا۔ جس پر وہ بیان کرتے ہیں کہ میرا یقین ہے کہ یہ دوگنا منافع ہماری محنت اور کوششوں سے نہیں ملا بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ چندے کو دوگنا کرنے سے ملا ہے۔ ماسکو کے مبلغ لکھتے ہیں کہ رسلان کِکِیْیُو صاحب قرغیزستان سے ہیں۔ چودہ سال سے یہ ماسکو میں مقیم ہیں۔ کہتے ہیں پہلے بھی یہ مالی قربانی کی طرف توجہ کرتے تھے۔ تقریباً ایک سال قبل انہوں نے جب مالی قربانیوںکامیرا یہ خطبہ سنا تو کہتے ہیں کہ سن کے مجھے بڑا مزہ آیا اور اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوتا ہوں جو قربانیاں کرنے والے ہیں اور بلاناغہ روزانہ کی آمد کا دس فیصد حصہ چندے کی آمد میں بھجوانا شروع کر دیا۔ کچھ صدقہ میں تھا اور باقی چندے میں۔کہتے ہیں کہ یہی طریق ایک سال سے انہوں نے قائم رکھا ہوا ہے۔ مبلغ کی جب دوسری جگہ بدلی ہوئی تو اس وقت ان صاحب کا، یہ روسی نژاد ہیں، قرغیزستان کے ہیں، پہلا سوال یہ تھا کہ کیا اب بھی میں اپنا چندہ جس طرح میں ادا کرتا تھا اس طرح جاری رکھ سکوں گا۔ تو یہ انقلاب ہے جو مسیح موعود علیہ السلام نے لوگوں میں پیدا کیا ہے۔ ایک فکر ہے چندہ دینے کی۔ تنزانیہ کے امیر صاحب لکھتے ہیں وہاں کی ایک جماعت میں ایک شخص محمد ثانی صاحب ہیں۔ وہاں نوکری کررہے تھے کہ اس کمپنی کو جہاں نوکری کرتے تھے مالی نقصان ہوگیا اس وجہ سے مالک نے کہہ دیا کہ تمام کارکنان کی تنخواہوں میں سے کٹوتی ہوگی۔ اس پر انہیں بہت دکھ ہوا۔ چندہ تحریکِ جدید کی ادائیگی کا آخری مہینہ تھا۔ معلم نے جب ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنی مشکلات کا اظہار تک نہیں کیا کہ کیا مشکل ہے بلکہ اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے اپنا وعدہ مکمل کردیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگلے ہی دن ان کے مالک کا فون آیا کہ ان کی تنخواہ میں سے کٹوتی نہیں ہوگی۔ چنانچہ دیگر ساتھیوں کی تنخواہوں میں کٹوتی ہوئی لیکن ان کی تنخواہ مکمل وصول ہوئی۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت جو چندہ تحریکِ جدید کا ادا کر دیا تھا یہ اس کی وجہ سے ہے۔ ملاوی ایک ملک ہے وہاں کی ماگوچی (Mangochi) ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھنے والی ایک بزرگ خاتون ہیں۔ کھیتی باڑی کرتی ہیں۔ اسی پہ ان کا گزارہ ہے۔ انہوں نے تحریکِ جدید کا وعدہ لکھوایا لیکن ادا نہیں کر سکیں۔ سال کے اختتام پر جب یاددہانی کروائی گئی کہ اگر کسی کا وعدہ نامکمل ہے تو ادائیگی کر دیں تو کہتی ہیں انہوں نے کام کی بہت کوشش کی اور دعا بھی کی کہ کام مل جائے تاکہ وہ اپنی آمد سے وعدہ مکمل کر سکیں۔ کوشش کے باوجود انہیں کام نہیں مل سکا۔ ایک دن وہ مسجد میں نماز عصر ادا کر کے واپس گھر پہنچیں تو انہیں خبر ملی کہ ان کے پوتے نے انہیں پینتالیس ہزار کواچے جو وہاں کی کرنسی ہے تحفةً بھجوائی ہے۔ چنانچہ ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے فوراً معلم کے پاس جا کے اپنے وعدہ کی ادائیگی کی اور باربار وہ اللہ کا شکر ادا کر رہی تھیں کہ انہیں اپنا وعدہ مکمل کرنے کی توفیق ملی۔ اب غریب لوگ بھی ایک فکر کے ساتھ چندے کی ادائیگی کرتے ہیں۔ تنزانیہ کے امیر صاحب کہتے ہیں شیانگا کی ایک جماعت ہے۔ وہاں مریم صاحبہ ایک خاتون ہیں۔ کہتی ہیں کہ مجھے معلم کا فون آیا۔ انہوں نے تحریکِ جدید کے بقایا کی طرف توجہ دلائی۔ کہتی ہیں گھر کے استعمال کے لیے اس وقت میرے پاس صرف دس ہزار شلنگ تھے وہ میں نے چندے میں ادا کر دیے۔ پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک لاکھ شلنگ لوٹا دیے اور وہ بھی کہتی ہیں کہ یہ سب چندے کی برکات ہیں۔ گنی بساؤ سے ایک نومبائع عثمان صاحب ہیں۔ اُن کی زندگی میں بہت ساری معاشی مشکلات تھیں۔ جو بھی کاروبار کرتے کامیابی نہیں ملتی تھی۔ اس پریشانی میں وہ رات کو سوئے تو کہتے ہیں مجھے آواز آئی کہ عثمان اپنا چندہ باقاعدگی سے ادا کیا کرو۔ صبح ہوتے ہی عثمان صاحب مشنری کے پاس آئے اور اپنی خواب سنائی۔ جس پر مشنری نے انہیں تحریکِ جدید اور دیگر چندہ جات کے بارے میں بتایا جس پر عثمان صاحب نے فوراً تحریکِ جدید کا چندہ ادا کیا۔ اپنے تمام چندہ جات کی فہرست بنائی اور باقاعدگی سے اپنے چندے ادا کرنے شروع کر دیے۔ عثمان صاحب کہتے ہیں کہ جب سے انہوں نے اپنے تمام چندے باقاعدگی سے ادا کرنے شروع کیے ہیں تب سے اللہ تعالیٰ نے ان کے ہر کاروبار میں برکت عطا فرمائی ہے اور تمام گھریلو پریشانیاں بھی دُور ہوگئی ہیں۔ اب یہ ان کا پختہ یقین ہے کہ یہ سب تحریکِ جدید اور باقی چندوں کی ادائیگی کی برکات ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا سلوک ہے اور کس طرح نومبائعین کو بھی یاددہانی کرواتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو تو اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ صرف نوازنے کے لیے یہ کرتا ہے۔ آسٹریلیا سے مربی کامران صاحب ہیں۔ کہتے ہیں ایک خادم نے قریباً دس سال سے چندہ نہیں دیا تھا۔ میں اس کے ساتھ بیٹھا اور اس کو مالی قربانی کی برکات کے متعلق بتایا۔ اِس کے بعد اس نے اپنا چندہ دینا شروع کردیا اور ساتھ ہی تحریکِ جدید اور وقف جدید کا چندہ ادا کر دیا۔ کہتے ہیں کچھ دن گزرے تھے کہ اس کا فون آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے کام میں پروموشن ہوگئی ہے جس کی مجھے بالکل بھی امید نہیں تھی اور کہنے لگا کہ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کی وجہ سے ہے اور جو دس سال سے سست تھا کہنے لگا کہ اب میں کبھی چندوں میں سستی نہیں کروں گا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: تحریک جدید کی مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات