https://youtu.be/8AibW-ft9w8 صبر، استقامت اور ایمان کی روشن مثال حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اصحابِ بدر کے ضمن میں خطباتِ جمعہ میں متعددبار حضرت خُبیب بن عَدِیؓ کا ذکر آیا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپؓ کی اسیری اور شہادت کے واقعات کا دلسوز تذکرہ فرمایا۔ حضرت خبیبؓ کے شہادت سے قبل کے دواشعار ان کے خدا تعالیٰ پر ایمان ، بہادری ، عزم اور شجاعت پر دال ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت خبیبؓ کی اسیری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ‘‘حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کےبارےمیں لکھا ہے کہ ‘‘رؤسائے قریش کی قلبی عداوت کے سامنے رحم وانصاف کا جذبہ خارج از سوال تھا۔ چنانچہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ بنو الحارث کے لوگ اور دوسرے رؤساء قریش خبیب کو قتل کرنے اوراس کے قتل پر جشن منانے کے لئے اسے ایک کھلے میدان میں لے گئے۔ خبیب نے شہادت کی بُو پائی تو قریش سے الحاح کے ساتھ کہا کہ مرنے سے پہلے مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ قریش نے جو غالباً اسلامی نماز کے منظر کو بھی اس تماشہ کاحصہ بنانا چاہتے تھے اجازت دے دی اور خبیب نے بڑی توجہ اورحضورِقلب کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی اور پھر نماز سے فارغ ہوکر قریش سے کہاکہ‘‘میرا دل چاہتا تھا کہ مَیں اپنی نماز کو اَور لمبا کروں، لیکن پھرمجھے یہ خیال آیا کہ کہیں تم لوگ یہ نہ سمجھو کہ مَیں موت کو پیچھے ڈالنے کے لئے نماز کو لمبا کر رہا ہوں۔’’اور پھر خبیب یہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے جھک گئے وَمَا اَنْ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلٰی اَیِّ شِقٍّ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ وَ ذَالِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَاء یُبَارِکْ عَلٰی اَوْصَالِ شلْوٍ مُمَزَّعِ یعنی ‘‘جبکہ مَیں اسلام کی راہ میں اورمسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے یہ پرواہ نہیں ہے کہ مَیں کس پہلو پرقتل ہوکر گروں۔ یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔’’ غالباً ابھی خبیب کی زبان پران اشعار کے آخری الفاظ گونج ہی رہے تھے کہ عقبہ بن حارث نے آگے بڑھ کر وار کیا اور یہ عاشقِ رسولؐ خاک پر تھا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ قریش نے خبیب کوایک درخت کی شاخ سے لٹکا دیا تھا اورپھر نیزوں کی چوکیں دے دے کر قتل کیا۔’’(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ۵۱۵) حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ‘‘جب ان کے قتل کا وقت آن پہنچا توخبیبؓ نے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ قریش نے ان کی یہ بات مان لی اور خبیبؓ نے سب کے سامنے اِس دنیا میں آخری بار اپنے اللہ کی عبادت کی۔ جب وہ نماز ختم کر چکے تو انہوں نے کہا کہ مَیں اپنی نماز جاری رکھنا چاہتا تھا مگر اس خیال سے ختم کر دی ہے کہ کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ مَیں مرنے سے ڈرتا ہوں۔ پھر آرام سے اپنا سر قاتل کے سامنے رکھ دیااور ایسا کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے۔ وَ لَسْتُ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلٰی اَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ وَ ذٰلِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَأْ یُبَارِک عَلٰی اَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعٖ یعنی جبکہ مَیں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے پرواہ نہیں ہے کہ مَیں کس پہلو پر قتل ہو کر گروں۔ یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔ خبیبؓ نے ابھی یہ شعر ختم نہ کئے تھے کہ جلاد کی تلوار ان کی گردن پر پڑی اور ان کا سر خاک پر آگرا۔’’ (دیباچہ تفسیر القرآن ،انوار العلوم جلد ۲۰صفحہ۲۶۲)(خطبہ جمعہ فرمودہ۳۱؍ مئی ۲۰۲۴ء) یہاں پہلے مصرعے کے آغاز میں کچھ اختلاف ہے۔ لیکن مفہوم ایک ہی ہے۔ حضرت خبیبؓ کے یہ دو معروف اشعار روایت میں درج ہیں۔ سیرت کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خبیبؓ نے شہادت سے قبل متعدد اشعار کہے۔ یہ اشعار صنفِ حماسة میں آتے ہیں اور صرف ایک بہادر و جری شخص ہی اس طرح کہہ سکتا ہے۔ یہ کلام نہ صرف پختہ ایمان و صبر کی اعلیٰ مثال ہے بلکہ شہادت کے جذبے اور اخلاص کا بھی حسین اظہار ہے۔ ابن اسحاق اپنی کتاب السيرة النبوية میں یہ اشعار یوں درج کرتے ہیں کہ وَکَانَ مِمَّا قِیْلَ فِی ذٰلِکَ مِنَ الشِّعْرِ، قَوْلُ خُبَیْبِ بْنِ عَدِی، حِیْنَ بَلَغَہُ اَنَّ الْقَوْمَ قَدِ اجْتَمَعُوْا لَصُلْبِہِ ‘‘اور اس موقع پر جو کلام کہا گیا، وہ خُبَیب بن عدیؓ کا قول ہے، جب انہیں خبر ملی کہ قوم اس کو سولی دینے کے لیے جمع ہو گئی ہے۔’’ لَقَدْ جَمَعَ الْأَحْزَابُ حَوْلِي وَأَلَّبُوْا قَبَائِلَھُمْ وَاستَجْمَعُوْا کُلَّ مَجْمَعِ کئی لشکر میرے ارد گرد جمع ہوچکے اور انہوں نے اپنے قبائل کو بھی بھڑکا کراکٹھا کیا اور (بھی ) جس کسی کو جمع کرسکتے تھے جمع کرلیا۔ وَ کُلُّھُمْ مُبْدِی الْعَدَاوَۃَ جَاھِدٌ عَلَيَّ لِأَنِّي فِيْ وِثَائِقٍ بِمَضَیَّعِ وہ سب کے سب میرے خلاف تگ ودو کرتے ہوئے مجھ سے دشمنی کا اظہار کررہے ہیں، کیونکہ میں بندھنوں میں جکڑا اسیر، بے بس ہوں۔ وَقَدْ جَمَعُوْا اَبْنَاءَھُمْ وَنِسَاءَھُمْ وَقُرِّبْتُ مِنْ جِذْعٍ طَوِیْلٍ مُّمَنَّعِ اور انہوں نے اپنے بچوں اور عورتوں کو بھی جمع کر لیا اور مجھے بھی ایک مضبوط، اونچے تنے والے درخت کے قریب کردیا گیا۔ إلَى اللّٰهِ أَشْكُوْ غُرْبَتِيْ ثُمَّ كُرْبَتِيْ وَمَا أَرْصَدَ الْأَحْزَابُ لِي عِنْدَ مَصْرَعِي اللہ ہی کے حضور میں فریاد کرتا ہوں اپنی تکلیف اور غریب الوطنی کا اور ان لشکروں کا جو میرے قتل کا تماشہ دیکھنے کے لیے جمع ہوگئے ہیں۔ فَذَا الْعَرْشِ، صَبِّرْنِي عَلَى مَا يُرَادُ بِيْ فَقَدْ بَضَعُوْا لَحْمِیْ وَقَدْ یَاسَ مَطْمَعِیْ پس اے عرش والے (خدا) !مجھے صبر و حوصلہ دے اس پر جو میرے بارے میں ارادہ ہے، ورنہ یہ لوگ تو میرا گوشت تک کاٹ چکے تھے اور میری امید تک ختم ہوچلی تھی۔ وَ ذَالِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ اور میری یہ قربانی ذات باری تعالیٰ کی خاطر ہے، اگر وہ چاہے تو جدا جدا کیے ہوئے اعضاء کے جوڑوں میں برکت ڈال دے۔ وَقَدْ خَیَّرُوْنِیَ الْکُفْرَ وَالْمَوْتُ دُوْنَہٗ وَقَدْ هَمَلَتْ عَيْنَايَ مِنْ غَيْرِ مَجْزَعِ انہوں نے مجھے کفر اختیار کرنے کی پیشکش کی اور اس کے مقابل موت کی۔ اور میری آنکھیں بغیر جزع فزع کے بہ رہی ہیں۔ وَمَا بِیْ حَذَارُ الْمَوتِ، اِنِّی لَمَيِّتٌ وَلٰکِنْ حَذَارِیْ جَحْمُ نَارٍ مُلَفَّعُ مجھے موت کا کوئی ڈر نہیں حالانکہ میں تو مرنے والا ہی ہوں، لیکن میرے ڈر کی وجہ شعلے اٹھاتی آگ کی تپش اور حرارت ہے۔ فَوَ اللّٰهِ مَا أَرْجُوْ إذَا مِتُّ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ جَنْبٍ كَانَ فِي اللّٰهِ مَصْرَعِيْ اور جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اللہ کے نام پرمیں کس پہلو کے بل قتل کیا جاتا ہوں۔ فَلَسْتُ بِمُبْدٍ لِلْعَدُوِّ تَخَشُّعًا وَ لَا جَزَعًا إنِّي إلَى اللّٰهِ مَرْجِعِي میں دشمن کے سامنے جھکنے میں پہل نہ کروں گا، نہ جزع فزع کروں گا، کیونکہ بالآخر میری بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔(السيرة النبوية لابن إسحاق صفحہ۳۷۵۔۳۷۶، دارالکتب العلمیة بیروت لبنان ) ابن ہشام نے بھی ان اشعار کو بعینہ ٖنقل کیا ہے۔ کیا ہی اعلیٰ طرزِ بیان ہے! موت کو سامنے کھڑا دیکھ کر ایسی شجاعت کا مظاہرہ خداتعالیٰ پر یقین و ایمان کے بغیر ناممکن ہے۔ حضرت خُبَیبؓ کے یہ اشعار اسلامی تاریخ میں صبر، استقامت اور ایمان کی روشن مثال ہیں۔ وہ بطور شاعر ان اشعار میں کوئی خارجی مبالغہ نہیں کرتے بلکہ اپنی حالتِ اسیری، کفار کی تیاری اور انجامِ شہادت کو حقیقت کے ساتھ بیان کررہے ہیں۔ ان اشعار میں ایمانی جوش اور عقیدے کی پختگی بھی نمایاں ہے۔ آپؓ کے کلام میں تین پہلو خاص طور پر جھلکتے ہیں:آپؓ کا ایمان و توکل یعنی وہ دشمنوں کے اجتماع اور بےبسی کے باوجود اللہ کی مدد اور نصرت پر اعتماد جھلکتا ہے۔ پھر دوسرا شہادت کا شعور ہے وہ موت کے مقابل شہادت کو دائمی کامیابی قرار دیتے ہیں اور کفر کو اختیار کرنے سے انکار کرتے ہیں۔تیسرا ادبی حسن کا پہلو ہے۔ ان اشعار میں الفاظ کی سادگی کے ساتھ گہرے معانی ہیں۔ جِذْعٍ طَوِیْلٍ (اونچے تنے والا درخت) اور بَضَعُوْا لَحْمِیْ(گوشت کاٹ ڈالا گیا) جیسے استعاراتی الفاظ کلام کو تصویری قوت عطا کرتے ہیں۔ یوں یہ اشعار صرف مرثیہ یا شکایت نہیں بلکہ شہادت کا منشور ہیں جو بعد کے ہر دور کے مسلمان مجاہد کے لیے حوصلہ و عزم کا پیغام بنے۔ حضرت خُبَیب بن عدیؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسان بن ثابتؓ نے بھی مرثیہ کہا ۔ مَـا بَـالُ عَـيْـنِـكَ لَا تَرْقَا مَدَامِعُهَا سَحًّا عَلَى الصَّدْرِ مِثْلَ الْلُؤْلُؤِ القَلِقِ کیوں تیری آنکھ کے آنسو نہیں تھمتے، وہ سینے پر ایسے بہ رہے ہیں جیسے چمکتے ہوئے موتی۔ عَلَى خُبَيْبٍ فِي الفِتْیَانِ قَدْ عَلِمُوْا لَا فَشْلٍ حِيْنَ تَلْقَاهُ وَلَا نَزِقِ خُبَیب پر، جو جوانوں کا سردار تھا،سب جانتے تھے کہ جب اس کا سامنا ہوتا تو نہ کمزوری دکھاتا تھا، نہ ہی بے وقوفی۔ فَاذْهَبْ خُبَيْبُ جَزَاكَ اللّٰهُ طَيِّبَةً وَجَنَّةَ الْخُلْدِ عِنْدَ الْحُوْرِ فِي الرُّفُقِ پس جا خُبَیب! اللہ تجھے اچھی جزا دے اور جنتُ الفردوس میں حوروں کے ساتھ نرمی و راحت میں رکھے۔ مَاذَا تَقُوْلُوْنَ: إِنْ قَالَ النَّبِيُّ لَكُمْ حِيْنَ الْمَلَائِكَةُ الْأَبْرَارُ فِي الْأُفُقِ کیا کہو گے اگر نبی ﷺ تم سے پوچھیں،جب سعادت مند فرشتے آسمان پر ہوں گے؟ فِیْمَ قَتَلْتُمْ شَهِيْدَ اللّٰهِ فِيْ رَجُلٍ طَاغٍ قَدْ أَوْعَثَ فِي الْبُلْدَانِ وَالرِّفْقِ یہ کس لیے تم نے اللہ کے اس شہید کو قتل کیا جو شہروں میں بھلائی اور نرمی پھیلایا کرتا تھا؟(السيرة النبوية لابن إسحاق صفحہ ۳۷۶، دار الکتب العلمیة بیروت لبنان ) حضرت حسانؓ مسلمانوں کے ترجمان شاعر تھے۔ ان کی زبان و قلم اسلام کے لیے ابلاغی ہتھیار تھے۔ جب بھی مسلمان کسی سانحے سے دوچار ہوتے یا دشمنوں کی طرف سے طعن و تشنیع آتی تو حسانؓ اپنے اشعار کے ذریعے اس کا جواب دیتے اور مسلمانوں کے حوصلے بلند کرتے۔چنانچہ حضرت خُبَیبؓ کی شہادت پر یہ اشعار کہے گئے، جنہیں بعد میں قافلے والے (یعنی مسلمان لشکر و جماعتیں) پڑھتے پھرتے تھے تاکہ واقعے کی یاد تازہ رہے اور ایمان و غیرت کو تقویت ملے۔ یہ اشعار صرف مرثیہ نہیں بلکہ دستاویزِ وفا و شہادت بھی ہیں، جو بتاتے ہیں کہ ایک سچے مسلمان کا اپنی جان قربان کرنا حق کی خاطر سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: گفتگو کا سلیقہ