https://youtu.be/gUnQbfbsWck ۱۹۲۹۔۱۹۳۰ء کی بات ہےکہ گوجرہ شہر ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ایک معروف سادات فیملی کے چشم و چراغ نیک سیرت سید چراغ شاہ صاحب نے احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔ آپ کی اہلیہ محترمہ چراغ بی بی صاحبہ تھیں۔صاحب علم تھیں، بچیوں کو پڑھاتی تھیں اور استانی صاحبہ کے نام سے مشہور تھیں۔سعید روح تھیں۔باپ کی اتباع و پیروی میں افراد خاندان آغوش احمدیت میں آگئے۔ آپ کے بڑے بیٹے سید محمد عبداللہ شاہ صاحب تھے۔یہ دیندار اور تقویٰ شعار تھے۔اِن کی زوجہ محترمہ فضل نور بیگم صاحبہ نیک خُو تھیں اورخواب کے ذریعہ احمدیت سے مشرف ہوئیں۔ محترم سید محمد عبداللہ شاہ صاحب کی منجملہ اولاد کے سید محمود احمد شاہ صاحب مرحوم کا ذیل میں ذکر خیر ہے۔ سید محمود احمد شاہ صاحب ۴؍نومبر ۱۹۳۷ء کو پیدا ہوئے۔ میٹرک پاس کیا۔ طب کے شعبہ سے وابستہ تھےاور میڈیکل پریکٹیشنر آف کیٹگری سی(c) کے تھے۔ عمر کا اکثر حصہ فیصل آباد میں بسر ہوا۔ آخری برسوں میں گھٹنوں کی تکلیف شروع ہوئی۔چلنے میں دشواری تھی۔بتدریج مرض میں اضافہ ہونے لگا۔علاج معالجہ میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔پیری وصد عیب کے مصداق اور عوارض لاحق ہوگئے۔ بلڈپریشر، ذیابیطس اور ایک آپریشن کے بعدمثانہ میں انفیکشن ہو گئی۔ تکلیف بڑھی، ہسپتال لے جایا گیا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ بالآخر اجل مسمّٰی کا وقت آپہنچا۔۲۳؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کی شب روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون آپ نیک سیرت انسان تھے۔خاکسار سے تعلق برادرنسبتی تھا۔ محترمہ امۃالشافی صاحبہ مرحومہ اِن کی چھوٹی ہمشیرہ میری اہلیہ تھیں۔گھر قریب تھے اور آناجانا معمول تھا۔ اِن کو قریب سے دیکھا۔حدیث مبارکہ کے مطابق کردار کی پہلی گواہی مرد کی بیوی ہے۔جیسا کہ خَیْرُ کُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھلِہٖ ہے۔محترمہ سعیدہ صاحبہ، بھابھی صاحبہ کبھی بھی خاوند کے بارے میں حرف شکایت و گلہ لبوں پہ نہ لائیں۔اِن کے ہاں امۃالشافی صاحبہ مرحومہ بارہ برس شادی سے قبل رہیں۔حسن معاشرت کا ذکر ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں سے نوازا۔ آپ نے دونوں بیٹوں کو دینی و دنیوی تعلیم سے آراستہ کیا۔دینی تربیت اور اطاعت نظام جماعت اور خلافت سے دل بستگی اولاد کی طبیعت ثانیہ بن گئی۔ ایک بیٹے سید ندیم احمد صاحب ریاض کےصدر جماعت تھے جو وہیں اچانک بیمار ہوکر فوت ہوئے۔ جواں سال تھے۔موصی تھے۔بہشتی مقبرہ دارالفضل میں تدفین ہوئی۔ الیکٹریکل انجینئر تھے۔ان کی اولاد کینیڈا میں مقیم ہے اور خدمت دین کے جذبہ سے سرشارہے۔ دوسرا بیٹا ڈاکٹر سید کلیم احمدصاحب ہیں۔آپ اور اہلیہ محترمہ طیبہ صاحبہ موصی ہیں۔ ایک بیٹی ڈاکٹر سیدہ نعمانہ کلیم صاحبہ ہیں۔دوسری بیٹی عائشہ کلیم صاحبہ میڈیکل کے آخری سال میں ہیں۔ بیٹا معاذ احمد صاحب بھی میڈیکل کے دوسرے سال میں ہے۔موصی اور واقف نو ہے۔ مکرم سید محمود احمد شاہ صاحب نیک خصلت تھے۔ صلہ رحمی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں حتّی المقدور کوشاں رہے۔عفو و درگزر کرنے والے اور دردِدل رکھنے والے انسان تھے۔ آپ کی بہن نے مکان بنانے کا ذکر کیاتو موصوف نے پلاٹ اور تکمیل مکان تک ہر کام میں تعاون کیا۔ آپ ملنسار اور ہنس مکھ انسان تھے۔ لوگوںکو خندہ پیشانی سے ملتے۔ ملاقات میں گرمجوشی ہوتی۔مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ایک بہادر، نڈراور شجاع احمدی تھے۔۱۹۷۴ء کے حالات کا دلیری سے مقابلہ کیا اور بعد کے حالات میں بھی جرأت دکھائی۔ خلافت سے وارفتگی اور اطاعت نظام سے وفاداری دکھائی۔گھر ڈش انٹینا کو خراب نہ ہونے دیتے۔دعا گو وجود تھے۔ کسی کام میں مدد کرتا تو جزاک اللہ ضرور کہتے۔ عبادت گزار تھے۔صاحب فراش ہوئے تب بھی اشاروں سے نمازیں ادا کرتے۔ غرباء و مساکین کا خیال کرنے والے تھے۔کلینک میں مریضوںکی مدد کرتے۔سائل کو خالی نہ جانے دیتے۔ قدرت نے ہاتھ میں شفا رکھی ہوئی تھی۔اکرام ضیف کا اعلیٰ ظرف تھا۔ مہمان کی آمد پر خوش ہوتے۔جو بھی ملنے آتا ، ضرور تواضع کرتے۔ مربیان کرام کا خاص طور پر احترام کرتے۔اکل و شرب کا اہتمام کرتے۔ اپنے چندہ جات باقاعدگی سے اور بروقت ادا کرتے۔ خدمتِ دینیہ میں پیش پیش رہتے تھے۔ زعامت دارالذکر فیصل آباد شہر میں منتظم ایثار تھے۔جب تک صحت رہی، اسی شعبہ کے تحت دیہی علاقوں میں مفت میڈیکل کیمپ کا انعقاد کرتے رہے۔ ان کی زندگی میں جواں سال اور صاحب اولاد بھائی محمد ظفراللہ صاحب ناگہاں طور پر وفات باگئے، والدین کرام،ہمشیرگان ممتاز،طیبہ اور طاہرہ صاحبہ اور بھائی سید انورشاہ صاحب بھی ان کی زندگی میں فوت ہوئے۔ یہ صدمات بہت صبر و حوصلہ سے سہے۔صبر آزما وقت وارد ہوئےتو قضائےالٰہی پر صابر رہے۔ہمیشہ خاتمہ بالخیر کی دعا کرتے تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ بہشتی مقبرہ دارالفضل میں تدفین ہو کیونکہ والدین، بھائی سید محمد ظفر اللہ صاحب اور بیٹے سیدندیم احمد صاحب بھی یہاں آسودۂ خاک تھے۔اللہ تعالیٰ نے خواہش پوری کی اور وہیں آپ کی تدفین ہوئی۔آپ کی وفات پر ابھی ایک سال نہ گزرا تھا کہ آپ کی ہمشیرہ امۃالشافی صاحبہ بھی وفات پاکر اسی قطعہ ۳۰؍میں دفن ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے۔اور لواحقین کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرماتا چلاتا جائے۔آمین (محمد اشرف کاہلوں۔ آسٹریلیا) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: یار کے پاس اُس کا یار گیا