https://youtu.be/71b1map8n4U بزرگانِ سلسلہ کے ساتھ گزرے چند یادگار اور بابرکت لمحات [تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍اتوبر ۲۰۲۵ء] مکرمی خلیل الرحمٰن صاحب ملک محترمی خلیل الرحمٰن ملک صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت تھے اور بہت ہی پیاری طبیعت کے مالک تھے، آپ ہر شخص کے ساتھ بڑے پیار سے پیش آتے۔ خاکسار کا آپ سے پہلی بار تعارف لندن میں ایک جماعتی تقریب کے دوران ہوا لیکن اِس کے بعد آپ سے ایک قریبی تعلق قائم ہوگیا۔ آپ نے ہمیشہ خاکسار کے ساتھ بہت ہی شفقت کا سلوک فرمایا۔ آپ کوحضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطبات و خطابات کا انگریزی رواں ترجمہ کرنے کا بھی ایک لمبے عرصہ تک اعزاز ملتارہا۔ ایک دفعہ خاکسار کوجرمنی کے جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کے ساتھ ایک ہی کمرے میں چند دن رہنے کا موقع ملا۔ آپ حضورؒ کے خطابات کا انگریزی رواں ترجمہ کرنے کے لیے وہاں تشریف لے گئے تھے۔ روزانہ رات کو اور صبح ناشتے کی میز پر آپ سے بات چیت کا موقع ملتا۔ آپ کی دلچسپ معلوماتی باتوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا۔ آپ دلچسپ لطیفے بھی سناتے۔ ۱۹۹۱ء کے قادیان کے تاریخی جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی آپ سے روزانہ ملاقات ہوتی۔ ایک دن آپ اپنا آبائی گائوں دیکھنے گئے تو واپسی پرہمارے لیے میٹھے گنے بھی لے آئے جو ہم نے آپ کے ساتھ بیٹھ کر خوب مزے لے کر چوسے۔ آپ میں خلافتِ احمدیہ سے محبت اور عقیدت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ نظام جماعت کا بہت احترام کرتے۔ آپ کو یوکے جماعت میں مختلف حیثیتوں میں خدمت دین کی ایک لمبا عرصہ تک توفیق ملتی رہی۔ آپ تربیت کے موضوع پر بڑی خوبصورت گفتگو فرماتے اور ان کی باتیں بہت پُراثرہوتی تھیں۔ مکرمی ہاشم سعید صاحب محترمی ہاشم سعید صاحب ایک مخلص فدائی احمدی اور ایک کامیاب داعی الی اللہ تھے۔ آپ بہت ملنسار اور خوش اخلاق شخصیت کے مالک تھے۔آپ ایک لمبے عرصہ تک لندن میں قیام پذیر رہے۔اسی طرح آپ نے روزگار کے سلسلہ میں سکاٹ لینڈ، روس، سعودی عرب اور بعض دوسرے ممالک میں بھی قیام فرمایا۔ خاکسار کا اُن سے پہلا تعارف تو ان کے لندن میں قیام کے دوران مجلس خدام الا حمدیہ کے اجلاسات اور اجتماعات کے مواقع پر ہوا لیکن جب آپ سکاٹ لینڈ میں رہے ان دنوں خاکسار چونکہ پورے نارتھ کا ریجنل قائد تھا جس میں سکاٹ لینڈ بھی آتا تھااس لیے اکثر جماعتی دوروں کے دوران آپ سے ملاقات ہوتی اور بات چیت کا موقع ملتا۔ آپ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے لیکن طبیعت میں بہت سادگی تھی۔ تبلیغ اسلام کا آپ کو جنون تھا، اکثر اپنے سفروں کے دوران آپ جہاز میں اپنی سیٹ کے سامنے جماعتی لٹریچر کی کاپیاں اور کتب رکھ دیتے جس سے ساتھ بیٹھے مسافروں کو بعض دفعہ دلچسپی پیدا ہوجاتی اور یوں آپ کو سفر کے دوران ہی تبلیغ کا بھی موقع مل جاتا اور تعارف بھی ہو جاتا۔ بعد میں آپ اپنے زیر تبلیغ دوستوں سے باقاعدہ تعلق رکھتے اور تبلیغ جاری رکھتے۔ آپ کے تبلیغ کے اس خوبصورت انداز کے نتیجے میں بہت سے افراد کو اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی۔ مکرمی بشیرالدین سامی صاحب محترمی بشیرالدین صاحب سامی انگلستان کی جماعت کے ایک مخلص اور محنتی کارکن تھے۔آپ ایک لمبے عرصہ تک لندن میں خدمت دین سرانجام دیتے رہے۔ آپ اخبار احمدیہ لندن کی ادارت کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے، اسی طرح جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر ناظم پروگرام و اشاعت بھی رہے۔ آپ نے بہت سی ادبی مجالس کا بھی اہتمام فرمایا اور ان کی نظامت کے فرائض بھی انجام دیے۔آپ لمبے عرصہ تک محترمی مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب مشنری انچارج و امام مسجد فضل لندن کے دفتر میں بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مکرمی کیپٹن محمد حسین چیمہ صاحب محترمی کیپٹن محمدحسین چیمہ صاحب لندن کے ابتدائی احمدی بزرگوں میں سے ایک تھے۔آپ بہت شفیق طبیعت کے مالک تھے اور ہرشخص سے بڑی محبت اور گرمجوشی سے ملتے۔ آپ کو جوانی میں حضرت مصلح موعودؓ کے سیکیورٹی افسر کی حیثیت میں بھی خدمات کا اعزاز حاصل ہوا۔ آپ آخر دم تک خدمت دین میں مصروف رہے، حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی ہجرت کے بعد آپ لندن مسجد میں مختلف فرائض بڑی ذمہ داری سے انجام دیتے رہے۔ صبح وقت پر مسجد میں پہنچ جاتے اور پھر سارا دن خدمات سرانجام دیتے۔ آپ روزانہ اپنی سائیکل پر مسجد آتے۔ آپ نے منہ کے اوپر Mask چڑھایا ہوتا تھا۔ باوجود بڑھاپے کے آپ روزانہ سائیکل پر ہی سفر کرتے۔ ساتھ آپ نے خوب کشمش اور میوے اور مغز رکھے ہوتے تھے جوآپ ہر ملنے والے کو پیش کرتے۔ آپ کی خواہش تھی کہ آپ کی تدفین قادیان دارالامان میں ہو، اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ خواہش اس طرح پوری فرمائی کہ ۱۹۹۱ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کو گرنے سے چوٹیں لگیں جس کی وجہ سے آپ کی طبیعت بگڑتی چلی گئی اور پھر آپ کی وفات بھی قادیان میں ہی ہوئی اور تدفین بھی وہاں پر ہی ہوئی۔ مکرمی ناظم خان غوری صاحب محترمی ناظم خان صاحب غوری سے خاکسار کا تعارف بچپن سے تھا۔ آپ مشرقی افریقہ میں ایک کامیاب پولیس افسر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ احمدی ہونے کی وجہ سے آپ کا ہمارے گھر اکثر آنا جانا ہوتا تھا۔ آپ انتہائی سمارٹ شخصیت کے مالک تھے۔ آپ ہمیشہ بڑی شفقت اور پیار سے پیش آتے۔ تنزانیہ سے آپ اپنی فیملی کے ساتھ لندن آگئے اور یہاں گھر خرید کر قیام پذیر ہو گئے۔ لندن میں آپ نے ملازمت شروع کردی۔ آپ کا مشرقی افریقہ میں بھی اور لندن پہنچنے کے بعد یہاں بھی جماعت کے ساتھ بہت مضبوط تعلق قائم رہا۔ آپ قریباََ روزانہ مسجد آتے۔ خاکسار کی آپ سے لندن میں جب کبھی بھی جماعتی تقریبات کے دوران ملاقات ہوتی آپ بہت ہی شفقت سے پیش آتے اور اپنے بچوں کی طرح پیار کا سلوک فرماتے اور مفید مشوروں سے بھی نوازتے۔ آپ اکثر خاکسار کو بریڈفورڈ فون کر کے بات کرتے اور حال احوال دریافت فرماتے۔ لندن پہنچنے کے بعد آپ نے جہاں جماعت کے ساتھ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا مضبوط تعلق قائم کیا وہاں آپ نے اپنے ماحول میں غیر از جماعت تنظیموں کے ساتھ بھی بڑا مضبوط تعلق قائم کیا اور ان کی مجالس میں اور مشاعروںمیں خود بھی جاکر مثبت کردار ادا کرتے بلکہ ان کو بھی مسجد فضل میں مدعو کرتے اور ان کا جماعت سے تعارف کرواتے۔غیر از جماعت حلقوں میں آپ کا بہت احترام کیا جاتا تھا اور اکثر با اثر افراد ان کی بہت تعریف کرتے۔ آپ کی ان سماجی خدمات کے اعتراف میں ملکہ برطانیہ نے آپ کو ایم بی ای (ممبر آف برٹش ایمپائر) کا خصوصی اعزاز دیا۔ جب خاکسار کو بھی یہی اعزاز ملکہ برطانیہ کی طرف سے دیا گیا تو محترمی غوری صاحب نے خاص طور پر فون کرکے مبارکباد پیش کی، بہت ہی خوشی کا اظہار فرمایا اور بہت دعائیں دیں۔ آپ کو یہ اعزازبھی حاصل ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی غیر از جماعت دوستوں کے ساتھ اکثر مجالس عرفان میں آپ کو ان دوستوں کا تعارف کروانے کا اور سوال پیش کرنے کا موقع ملتا رہا۔ آپ کو جماعت یوکے میں مختلف حیثیتوں میں خدمت دین کی توفیق ملتی رہی۔ خصوصاََ آپ نے ایک ذمہ داری آخر دم تک نبھائی اور وہ ذمہ داری تھی جماعت احمدیہ یوکے کے غریب اور ضرورت مند افرادکی فہرست تیار کرنی اور ان سب کو عید کے مواقع پر اور دوسرے اوقات میں مالی مددجماعتی طور پر بھجوانی۔ خاکسار کی آپ سے آخری ملاقات نومبر۲۰۱۲ء میں ہاؤس آف لارڈز میں ایوارڈز کی ایک خصوصی تقریب کے موقع پر ہوئی۔آپ کافی کمزور نظر آرہے تھے، آپ نے خود اپنی بیماری اور علاج کے متعلق بتایااور دعا کے لیے کہا۔ مکرمی حبیب اللہ جسوال صاحب محترمی حبیب اللہ جسوال صاحب ایک لمبا عرصہ تک کینیا کے شہر کسومو میں رہے۔ آپ سول انجینئر تھے اور کسومو کی مسجد کی تعمیر میں آپ نے نمایا ں کردار ادا کیا۔ کسومو قیام کے دوران اور بعد میں لندن منتقل ہوجانے کے بعد بھی آپ کا اور اور آپ کے گھرانے کا جماعت سے بہت مضبوط تعلق قائم رہا۔ آپ نے لندن میں مسجد فضل کے بالکل قریب Gressenhall Road پر ہی گھر خرید لیا تھا تاکہ مسجد آنے جانے میں آسانی رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی ہجرت کے بعد چونکہ لندن میں جماعتی رہائش گاہیں نہیں تھیں اس لیے شروع میں کچھ عرصہ تک بعض جماعتی مہمانوں نے آپ کے گھر میںقیام فرمایا۔ مکرمی اکرم خان صاحب غوری مکرمی اکرم خان صاحب غوری بھی لمبے عرصہ تک کینیا میں کسومو شہر میں قیام پذیر رہے۔ آپ پیشہ کے لحاظ سے انجینئر تھے۔اس ناطے سے آپ سے خاکسار کی جب بھی ملاقات ہوتی آپ بہت ہی شفقت اور پیار سے پیش آتے۔ آپ نے کسومو کی مسجد کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا۔ کینیا چھوڑنے کے بعد آپ اپنی بیگم اور بیٹی کے ساتھ کچھ عرصہ ربوہ میں دارالصدر میں قیام پذیر رہے جہاں آپ نے اپنا کاروبار بھی کیا۔ لندن منتقل ہونے کے بعد آپ نے ایک لمبا عرصہ مسجد فضل میں دینی خدمات سرانجام دیں۔ لندن میں آپ کو کچھ عرصہ حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے سیکرٹری کے طور پر کام کا بھی موقع ملا۔ آپ حضرت چودھری صاحب کی دفتری امور میںاور ڈاک بھجوانے میں مدد کرتے۔ آپ کوکچھ عرصہ وقف کرکے پیدروآباد،سپین میں خدمات سر انجام دینے کا اعزاز ملا۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ ۱۹۷۸ء میں کسرصلیب کانفرنس کے موقع پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے اپنی بیگم صاحبہ اور بچیوں کے ساتھ آپ کے گھر میں قیام فرمایا۔ مکرمی مبشر باجوہ صاحب مکرمی مبشر باجوہ صاحب جرمنی کی جماعت کے صف اول کے بہادر اور بے لوث خدمت کرنے والے مجاہد تھے۔ آپ ایک ہردلعزیز شخصیت کے مالک اور محنتی شخص تھے۔ آپ بہت محنتی اور فدائی احمدی تھے۔ آپ کی وفات بھی خدمت دین کے دوران ہی ہوئی۔ آپ اپنے بیٹے کے ساتھ لندن ایم ٹی اے کا سامان لینے آئے ہوئے تھے۔ واپسی پر بیلجیم میں کار کے حادثہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کو جرمنی کی جماعت میں کئی مرکزی عہدوں پر کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آپ بہت اخلاص اور محنت سے خدمت سرانجام دیتے اور دوسروں سے کام لیتے۔ حضور کے دورہ جرمنی کے دوران آپ چوبیس گھنٹے حضور کے قریب رہ کر خدمات سرانجام دیتے۔ مکرم مبشر باجوہ صاحب کے ساتھ(مسجد نور، فرینکفرٹ) ۱۹۸۶ء میں حضرت خلیفۃ لمسیح الرابعؒ نے زیورک یونیورسٹی میں لیکچر ارشاد فرمایا۔ یہ لیکچر ایک بہت بڑے ہال میں منعقد کیا گیا تھا۔ خاکسار، ملک اشفاق صاحب، مبارک ساہی صاحب مرحوم اور میجر محمود صاحب ڈیوٹی کر رہے تھے۔ اچانک چند عرب طلبہ نے ہال میں نعرے لگانے شروع کر دیے۔ اس دوران ہمیں تشویش ہوئی کہ حضور ؒکی سیکیورٹی پر چند افراد مامور ہیں۔ ان کو کیسے روکا جائے گا؟ اسی دوران محترمی مبشر باجوہ صاحب جرمنی سے خدام سے بھری ہوئی ویگن لے کر پہنچ گئے اور فوراََ سیکیورٹی کی ڈیو ٹیاں سنبھال لیں۔ آپ میں انتظامی صلاحیتیں کمال کی تھیں۔جماعتی ڈیوٹیوں کے لیے آپ نے خدام کی ایک ٹیم ہمیشہ تیار رکھی ہوتی تھی۔ ۱۹۸۹ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پرناصر باغ میں افسر صاحب جلسہ سالانہ نے حضورؒ سے عرض کیا کہ ضیافت کی ٹیم کو شکوہ ہے کہ ان کا حضورؒ سے مصافحہ نہیں ہوسکا۔ حضورؒ نے فرمایا ان کو بلا لیں۔ جب وہ آ گئے تو خاکسار نے حضور کو اطلاع دی۔ حضورؒ اپنی قیام گاہ سے باہر تشریف لے آئے۔ حضور سے مصافحہ کرنے کے شوق میں وہاں بد نظمی ہوگئی اور ہر شخص آ گے بڑھ کر مصافحہ کرنا چاہتاتھا۔ اس وقت ڈیوٹی پر صرف خاکسار اور ایک اَور دوست موجود تھے۔ حضورؒ نے فرمایا مبشر باجوہ صاحب کو بلوائو وہ تنظیم کے ساتھ سب کو کھڑاکریں تو میں آئوں گا۔ مبشر باجوہ صاحب کو بلوایا گیا۔ آپ نے سب کو ایک قطار میں کھڑاکیا اور کہا کہ یہ شخص قطار کے آخر میں ہوگا۔ جب سب کھڑے ہوگئے تو حضور کو پیغام بھجوایا گیا۔ حضور تشریف لائے تو بڑے منظّم طریقے سے سب نے مصافحہ کا شرف حاصل کیا۔ حضور نے خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا مجھے پتا تھا مبشر یہ کام اچھی طرح سے کروا دے گا۔ مبشر باجوہ صاحب کی شہادت پر حضرت خلیفۃ المسیح الربعؒ نے جلسہ سالانہ جرمنی پر پنجابی زبان میں خوبصورت منظوم کلام تحریر فرمایا جو پڑھ کر سنایا گیا۔ مکرمی منور احمد صاحب نوری مکرمی منور احمد صاحب نوری کا ابتدائی تعلق کراچی کی جماعت سے تھا۔آپ انتہائی مخلص، نڈراور فدائی احمدی تھے۔ لندن آنے کے بعد آپ نے مختلف حیثیتوں میں جماعتی خدمات سرانجام دیں۔ آپ ضیافت ٹیم کے بھی ممبر رہے۔ جلسہ سالانہ کے دفتر میں بھی خدمات سرانجام دیں اور بعد میں آپ جنرل سیکرٹری کے دفتر میں مسجد بیت الفتوح میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ کی آواز میں ایک رعب اور دبدبہ تھا۔ آپ مولانا عبدالمالک خان صاحب کے رشتہ میں بھانجے لگتے تھے اس لیے ان کی طرح ان کی آواز بھی بڑی جوشیلی تھی۔ آپ ٹھیٹھ اردو زبان میں بات کرتے تھے۔ آپ کے ذمہ جو بھی کام لگایا جاتا اس کو آپ بڑی محنت اور دیانتداری سے سرانجام دیتے۔ آپ کو دوسروں سے کام لینے کا بھی سلیقہ تھا۔ آپ نے قادیان میں زمین خرید کر بڑی عالیشان کوٹھی بنوائی اور وہاں جا کر ہر سال موسم سرما کے مہینے گزارتے۔ آپ کے والد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے استاد تھے۔ اس لیے حضرت میاں صاحب آپ سے بہت شفقت کا سلوک فرماتے اور بعض دفعہ آپ دارالمسیح میں ہی قیام فرماتے۔ قادیان قیام کے دوران آپ یوکے سے آنے والے مہمانوں کی بہت خدمت کرتے اور ان کی اپنے گھر دعوت کرتے۔ آپ نے ایک جیپ رکھی ہوئی تھی، اس میں مہمانوں کوسیر کرواتے۔ خاکسار کے ساتھ بھی ان کا بہت محبت کا تعلق تھا۔ ہمیشہ بڑی گرم جوشی سے ملتے اور خوشی کا اظہار کرتے۔ اکثر فون کرکے بھی بات کرتے۔ قادیان قیام کے دوران بھی ان کے ساتھ اکثر وقت گزرتا اور ان کی جیپ میں بٹالہ، گورداسپور اور امرتسر وغیرہ جانے کا موقع ملتا رہا۔ لندن اور قادیان میں ان کا وسیع حلقہ احباب تھا جن سے بڑی گرم جوشی سے ملتے۔ ان کی ایک بیٹی میٹروپولیٹن پولیس میں افسر ہے۔ وہ حجاب پہن کر ڈیوٹی کرتی ہے اس لیے اس کو ’’حجابی پولیس افسر‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی خواہش پوری فرما دی اور قادیان قیام کے دوران ہی آپ بہت شدید بیمار ہو گئے اور جالندھر ہسپتال میں داخل رہے۔ آپ کی وفات بھی وہیں ہوئی اور حضور انور کی منظوری سے تدفین بھی قادیان میں ہی ہوئی۔ مکرمی ناصر جاوید خان صاحب مکرمی ناصر جاوید خان صاحب کا تعلق کراچی سے تھا۔ آپ کے والد صاحب ملک صفدر خان صاحب پاکستان ریڈکراس سوسائٹی کے چیئرمین تھے۔ ناصر جاوید خان صاحب بھی پاکستان کی سول سروس میں اعلیٰ عہدوں پر رہے۔ آپ یو اے ای میں پاکستان کے سفارت خانے میں بطور کمرشل اتاشی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ ایک لمبے عرصہ تک اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان میں بھی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہے۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے حکم پر ربوہ تعلیم کی غرض سے آئے اور ٹی آئی کالج کے ہوسٹل میں رہے۔ حضورؒ ان کا خاص خیال رکھتے تھے۔ آپ تعلیم الاسلام کالج میں خاکسار کے ہم جماعت بھی تھے اور مختلف سوسائٹیوں میں ہم دونوں کو اکٹھے کام کرنے کا شرف حاصل رہا۔آپ یونین کے سیکرٹری بھی رہے۔ آپ نے لندن آنے کے بعد بھی جماعتی خدمات جاری رکھیں۔ آپ نے مسجد بیت الفتوح کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے بڑی محنت کی۔ بعد میں آپ کو مسجد بیت الفتوح میں ایچ آر کا انچارج بنا دیا گیا جہاں آپ نے بڑی محنت سے جماعتی کارکنان کے کاموں کے سلسلہ میں برطانوی حکومت کے قوانین کے مطابق کام کیے۔ آپ ٹی آئی کالج اولڈ سٹوڈنٹس یونین یوکے کے بڑے فعّال ممبر تھے۔ خاکسار کے ساتھ آپ کا پیار اور اخلاص کا تعلق ہمیشہ رہا اور لندن میں ملاقات ہوتی تو بہت گرم جوشی سے ملتے۔ فون پر بھی اکثر بات ہوتی۔ آپ کا خلافت احمدیہ اور نظام جماعت کے ساتھ اخلاص اور وفا کا بہت مضبوط تعلق ہمیشہ قائم رہا۔ مکرمی سرفراز ڈار صاحب ایڈووکیٹ محترمی سرفراز ڈار صاحب کا تعلق سیالکوٹ کی مشہور ڈار فیملی سے تھا۔آپ ایک معروف اور قابل وکیل تھے۔ آپ انتہائی نڈر، بے باک اور دلیر شخصیت کے مالک تھے۔ آپ جماعت کے اکثر مقدمات میں جماعت کے وکیل کے طور پر عدالتوں میں پیش ہوتے۔ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران آپ پر ایک بد بخت غیر احمدی مولوی نے قاتلانہ حملہ بھی کر دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو نئی زندگی عطافرمائی۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ارشاد پر کئی بار لندن بھی تشریف لائے اور یہاں قیام فرمایا۔ لندن قیام کے دوران اور اسلام آباد میں جلسہ سالانہ کے مواقع پر آپ سے ملاقات ہوتی۔ آپ نہایت نفیس طبیعت کے مالک تھے۔ ہمیشہ بڑی گرم جوشی سے ملتے اور بہت دلچسپ باتیں کرتے۔ آپ اپنی وکالت کے دلچسپ تجربات اور واقعات بھی بیان فرماتے۔ مکرمی غلام احمدصاحب چغتائی محترمی غلام احمد صاحب چغتائی ان چند افراد میں سے تھے جنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد اپنے آپ کو دینی خدمات کے لیے پیش کیا۔آپ کی ڈیوٹی ٹیلیفون پر لگائی گئی اور آپ بڑے ادب سے ہر ٹیلیفون کا جواب دیتے اور پیغامات تحریر کرکے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو بھجواتے۔ ابتدا میں آپ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے قریب ایک کونے میں بیٹھتے اور بڑی محنت سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے۔ آپ بہت خوش مزاج اور ملنسار تھے۔ جب بھی ان سے بات ہوتی تو بڑ ے جوش و خروش سے بات کرتے اور احترام سے پیش آتے۔ مکرمی سردار رفیق احمد صاحب محترمی سردار رفیق احمد صاحب ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب کے بیٹے تھے۔ آپ کا سارا خاندان انتہائی مخلص اور خدمت گزار ہے۔آپ کے دادا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ آپ سکھ مذہب چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرکے احمدی مسلمان ہوئے تھے۔ محترم سردار رفیق احمد صاحب نے یوکے آنے کے بعد مرکزی مجلس عاملہ میں مختلف حیثیتوں میں خدمات سرانجام دیں۔ آپ ہر وقت خدمت دین کے لیے تیار رہتے تھے۔ مکرمی مبشر گلزار صاحب محترمی مبشر گلزار صاحب محترم دائود گلزار صاحب کے بیٹے تھے۔ یہ سارا گھرانا ہی انتہائی مخلص اور فدائی احمدی تھا۔ مبشر گلزار صاحب مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے ان چند خدام میں سے تھے جنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد مسجد فضل میں دن رات ڈیوٹیاں دیں۔ آپ ہر وقت کسی بھی خدمت کے لیے تیار رہتے تھے۔ کئی بار رات بھی مسجد کے احاطے میں ہی گزارتے۔ یکم جنوری ۱۹۸۵ء کی صبح جب حضور نماز فجر کے لیے اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے تو حضورؒ نے مبشر گلزار صاحب کو نئے سال کی ڈائری تحفہ دی۔ آپ اس پر بڑے خوش تھے۔ ہم سب نے ان کو مبارکباد دی۔ مکرمی رفیق سفیر صاحب محترمی رفیق سفیر صاحب لندن کے مشہور سفیر خاندان کے فرد تھے۔ یہ سارا خاندان انتہائی مخلص ہے۔ مکرم رفیق سفیر صاحب کے ساتھ (اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ یوکے) رفیق سفیر صاحب بھی مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے ان چند خدام میں سے تھے جنہوں نے حضورؒ کی ہجرت کے بعد دن رات مسجد فضل میں ڈیوٹیاں دیں۔ آپ بھی ہر وقت ہر طرح کی ڈیوٹیوں کے لیے تیار رہتے تھے۔ سیکیورٹی کی ڈیوٹی کے علاوہ آپ باوچی میں بھی اور فون کی ڈیوٹی بھی کرتے تھے۔ آپ نے مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کی مرکزی مجلس عاملہ میں بھی ذمہ داریاں ادا کیں اور بہت محنت کے ساتھ کام کیا۔ آپ کو اردو زبان بہت کم آتی تھی۔ آپ انگریزی زبان میں ہی زیادہ بات کرتے تھے۔ ہم ان کے ساتھ مذاق میں پنجابی میں بات کرتے تو وہ کہتے مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تم کیا کہہ رہے ہو۔ اِن کے علاوہ بھی اور بہت سے بھائی اور بزرگ تھے جنہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد لندن میں خدمات سرانجام دیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر عظیم عطا فرمائے اور ان سب کے درجات بہت بلند فرمائے۔ آمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: چندانمول لمحے(قسط ششم)