اللہ تعالیٰ نے حضرت ِ انسان کو زبان کی قوت اور بیان کی صلاحیت عطا فرماکر تمام مخلوقات سے ممتاز کردیا ہے۔اس سے بڑھ کر فضل واحسان یہ ہوا کہ اُسے الہام وکلام کا شرف عطا فرمادیا تاکہ اُسے عمدہ کلام وبیان کا سلیقہ آجائے۔گفتگو یا بات چیت دنیا میں تعلقاتِ عامہ کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے افکار، خیالات اور اعتقادات دوسروں تک پہنچاتاہے یعنی یہ افراد یا فریقین کے درمیان تبادلہ خیال کا اہم ذریعہ ہے۔عمدہ اور متوازن گفتگو کے لیے ضروری ہے کہ دورانِ گفتگو فریقین ایک دوسرے کے جذبات اوراحساسات کا خیال رکھیں۔ اپنی باتوں یا روّیہ سے کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ کریں۔ایک دوسرے کے دلائل اور خیالات کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ خوشگوار ماحول بنا رہے۔حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کی گفتار سے ہی اُس کے کردار اور حسنِ اخلاق کو پرکھا جاسکتا ہے گویا گفتگو کسی انسان کے تعارف کا اہم ذریعہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایک شخص ارسطو کے پا س آیا اور کافی دیر خاموش بیٹھا رہا۔ ارسطو نے اس سے کہا کہ تُو میرے ساتھ کچھ گفتگو کر تاکہ میں تجھے جان سکوں۔اسی حقیقت کو ایک فارسی شعر میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ؎ تا مرد سخن نگفتہ باشدعیب وھنرش نَھفتہ باشد یعنی جب تک انسان گفتگو نہیں کرتا اُس کے عیب اور خوبیاں چھپی رہتی ہیں۔ گویا گفتگو کسی انسان کے تعارف کا بہت اہم ذریعہ ہے جس سے اُس کا کردار اور حُسنِ اخلاق شناخت کرنے میں مدد ملتی ہے۔یہ حسنِ اخلاق یا حسنِ گفتار ہی ہے جو انسان کو لوگوں میں مقبول اور ہر دلعزیز بنا دیتے ہیں۔اس کے بالمقابل ایک بداخلاق اور بد تہذیب انسان معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے بلکہ اپنی عاداتِ رذیلہ کے باعث حقیرو ذلیل سمجھا جاتاہے۔ پس گفتگو کرتے وقت اپنی زبان پر کنٹرول رکھنا اور اپنے دہن سے ایسے الفاظ نکالنا جو پسندیدہ ہوں عمدہ خوبی ہے۔ اچھی زبان کے استعمال سے انسان ہرکسی کے دل میں جگہ بنالیتا ہے جبکہ ناپسندیدہ گفتگو اُسے اُن کے دل سے نکال سکتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’پہلے تولو پھر بولو‘۔قرآن کریم نے عمدہ گفتگو کے جو اسلوب سکھلائے ہیں اُن کے مطابق گفتگو حکمت پر مبنی ہونی چاہیے جواچھی نصیحت پر مشتمل ہواور جو بات کی جائے وہ دلیل کے ساتھ کی جائے۔(النحل:۱۲۶) دوران گفتگو لہجہ نرم ہونا چاہیے۔( طٰہٰ:۴۵) اگرچہ سامنے والا تُند خو اور سخت مزاج ہی کیوں نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ زبان کا صحیح استعمال، نرم لہجہ اور موقع ومحل کے مطابق کلام سے بڑے بڑوں کو زیر کیا جاسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایاہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ۔وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (المؤمنون:۲-۴) یقیناً مومن کامیاب ہوگئے۔ وہ جو اپنی نمازوں میں عاجزی کرنے والے ہیں اور جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں۔نظام قدرت نے دنیا کے سب انسانوں کو گفتگو کے لیے ایک جیسے اعضاء عطا کیے ہیں۔اُن کے منہ اور زبان کی ساخت ایک جیسی ہے۔ اُن کی دماغی صلاحیتوں میں بھی کوئی فرق نہیں لیکن اس کے باوجودہر انسان کا لہجہ، تلفظ اور طرزِ گفتگوایک دوسرے سے مختلف ہے۔اُن کے رنگ اور بولیاں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔اللہ تعالیٰ نے رنگوں اور زبانوں کے اس اختلاف کو اپنی قدرت کا نشان قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے:وَمِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَ اَلْوَانِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ (الروم:۲۳) اور اس کے نشانات میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کے اختلاف بھی۔ یقیناًاس میں عالموں کے لیے بہت سے نشانات ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اچھے کلمے اور اچھی گفتگو کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کرتے ہوئے فرمایاہے : اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِتُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا ؕ وَیَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ (ابراھیم:۲۵-۲۶)کیا تو نے غور نہیں کیا کہ کس طرح اللہ نے مثال بیان کی ہے ایک کلمۂ طیّبہ کی ایک شجرۂ طیّبہ سے۔ اس کی جڑ مضبوطی سے پیوستہ ہے اور اس کی چوٹی آسمان میں ہے۔وہ ہر گھڑی اپنے ربّ کے حکم سے اپنا پھل دیتا ہے۔ اور اللہ انسانوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔سندھی زبان کی ایک کہاوت کا ترجمہ یہ ہے کہ: زبان ہے تو چھوٹی سی مگر بگڑے تو وہ بِس (زہر) کی گانٹھ بن جاتی ہے۔رسول کریم ﷺ نے ہر اچھی بات کو صدقہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے الْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ صَدَقَۃٌ (صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیرباب۱۲۸: مَنْ أَخَذَ بِالرِّکَابِ وَنَحْوِہِ حدیث:۲۹۸۹) اچھی بات کہنا صدقہ ہے۔ زبان اگرچہ چھوٹی سی اور خفیف وزن چیز ہے مگر اس کو قابو میں رکھنے کا فن ہر کوئی نہیں جانتا۔ حقیقت میں جو انسان زبان کو قابو میں رکھنے کا فن جان لیتاہے وہ ہر جگہ عزت پاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: اچھی بات کہنا خاموشی سے بہتر ہے اور خاموش رہنا بری بات کہنے سے بہترہے۔ (شعب الایمان جلد ۴صفحہ ۲۵۶۔حدیث نمبر۴۹۹۳) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے: ”تقویٰ تمام جوارح انسانی اور عقائد، زبان، اخلاق وغیرہ سے متعلق ہے۔ نازک ترین معاملہ زبان سے ہے۔بسا اوقات تقویٰ کو دُور کرکے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہوجاتا ہے کہ مَیں نے یُوں کہا اورایسا کہا، حالانکہ وہ بات بُری ہوتی ہے۔“(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۲۸۰،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)انسانی کردار کی تعمیر میں گفتگو بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔انسان اپنی گفتگوسے معاملات کو خوش اسلوبی سے حل بھی کر سکتا ہے اور بگاڑ بھی دیتا ہے۔ اگر انسان اپنی زبان کو کنڑول کرنے کا ملکہ حاصل کرلے اور اپنی بات اچھے پیرائے میں بیان کرنا سیکھ لے تو وہ بہت سی الجھنوں اور پریشانیوں سے بچ سکتا ہے۔نبی کریم ﷺ سے نجات کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا:اَمْلِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ وَلِیَسَعْکَ بَیْتُکَ وَابْکِ عَلٰی خَطِیْئَتِکَ (الجامع الکبیر للترمذی أبواب الزھد باب ماجاء فی حِفْظِ اللِّسَانِ حدیث:۲۴۰۶) اپنی زبان قابو میں رکھو، اپنے گھر میں رہو اور اپنی غلطیوں پر آنسو بہایا کرو۔ زبان کی حفاظت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان اپنے لب سی لے اور بات نہ کرے بلکہ زبان کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ اُس کی زبان سے خیر،بھلائی اور نیکی کی باتیں ادا ہوں۔ اُس کی باتیں کسی کی دل آزاری اور تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ اسی لیے ربّ کریم نے ہمیں یہ نصیحت فرمائی ہے: وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا(البقرۃ:۸۴) اور لوگوں سے نیک بات کہا کرو۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو چاہیے کہ بھلی بات کرے یا خاموش رہے اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تووہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہووہ اپنے مہمان سے عزت کے ساتھ پیش آئے۔(صحیح البخاری کتاب الأدب: اِکْرَامُ الضَّیْفِ وَ خِدْمَتُہُ اِیَّاہُ بِنَفْسِہِ حدیث:۶۱۳۸)پس دوران ِگفتگو اچھے اور مناسب الفاظ کاچناؤ جہاں انسان کے مقام ومرتبہ کو بلند کرتے ہیں وہیں غیر مناسب الفاظ اس کی عزت گھٹا دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان کے مقدر میں مسلسل محنت رکھ دی ہے جو محنت کرتا ہے وہ بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے اور اُسے بلندیاں عطا کی جاتی ہیں۔پس بلندیوں کی طرف محو پرواز ہونے کے لیے اپنی زبان کو سدھارنا اور اُس کو حسن کلام کے زیور سے آراستہ کرنا از بس ضروری ہے۔عربی زبان کا ایک مشہور محاورہ ہے: اَلْلِسَانُ مَرْکُوْبٌ ذَلُوْل۔زبان سدھائی ہوئی سواری ہے یعنی اسے درست رکھنااور سیدھی راہ پر چلاناہر انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: بندہ کبھی رضاء الٰہی کی بات منہ سے نکالتا ہے۔ اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا تو اللہ اس کے ذریعہ سے کئی درجہ اس کو بلند کردیتا ہے اور بندہ کبھی اللہ کی ناراضگی کی بات منہ سے نکال بیٹھتا ہے۔ اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اس کے ذریعہ سے جہنم میں جاگرتا ہے۔(صحیح البخاری کتاب الرقاق حِفْظُ اللِّسَانِ حدیث:۶۴۷۸)حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان اُن میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں۔ جوان سے بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے مثلاً گلِہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی بڑا قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا (الحجرات:۱۳) خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے۔ ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طورپر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو یہ سب برے کام ہیں۔“ (ملفوظات جلد ۴صفحہ ۶۵۳-۶۵۴ایڈیشن ۲۰۰۳ء)پنجابی کا ایک مقولہ ہے: ”زبان شیریں ملک گیری“ یعنی اگرانسان کی زبان میٹھی ہوتو وہ دوسروں پر حکومت کر سکتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قدرت نے ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کرتے ہوئے زبان کی صورت میں جوخاص نعمت عطاکی ہے اس کی قدر کی جائے۔ اُسے اچھی باتوں اور اچھے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ ہمارے الفاظ کسی کی دل آزاری کی بجائے دلوں کو جوڑنے اور خوشیاں دینے کا باعث ہوں۔ ہماری گفتگو خوشامد اور خود ستائی سے پاک ہو۔وہ لالچ اور ذاتی مفادات سے ہٹ کر کلمہ خیر پر مشتمل ہونی چاہئے۔کوئی بات منہ سے نکالنے سے پہلے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کو شمار کرنے کے لیے مستعد لکھنے والے مقرر کر رکھے ہیں: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ (قٓ:۱۹) وہ کوئی بات نہیں کہتا مگر اس کے پاس ہی (اس کا) ہمہ وقت مستعد نگران ہوتا ہے۔پس یہ زبان ہی ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرسکتی ہے یا اُسے قربِ الٰہیسے دوری کا سبب بن سکتی ہے۔ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا:یَا مُعَاذُ وَھَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ اَوْ عَلٰی مَنَاخِرِھِمْ اِلَّا حَصَاءِدُ اَلْسِنَتِھِمْ (الجامع الکبیر للترمذی أبواب الایمان باب مَا جَاءَ فِی حُرْمَۃِ الصَّلَاۃِ حدیث:۲۶۱۶) اے معاذ! لوگ اپنی زبانوں ہی کی وجہ سے اپنے چہروں یا نتھنوں کے بل دوزخ میں گرائے جائیں گے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ، وَالْمُؤمِنُ مَنْ أمِنَہُ النَّاسُ عَلَی دِمَاءِھِمْ وَأمْوَالِھِمْ (الجامع الکبیر للترمذی أبواب الایمان مَا جَاءَ فِی أنَّ الْمُسْلِمَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ حدیث:۲۶۲۸) مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جسے لوگ اپنی جانوں اور مال کا امین سمجھیں۔ایک مومن کے سوچنے کا انداز اور اُس کی مسلمان بھائیوں سے ہمدردی اور خیر خواہی کا معیار کیسا ہونے چاہیے۔ اس بابت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہر مسلمان کے لیے ایمان کا باعث اور باعث تقلید ہوسکتا ہے۔ صنابحی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا جبکہ وہ فوت ہونے والے تھے۔ میں رونے لگا تو انہوں نے فرمایا: چپ رہو، کیوں رو رہے ہو۔ اگر مجھ سے تمہارے (ایمان کے متعلق) گواہی طلب کی گئی تو گواہی دوں گا۔ اگر شفاعت کی اجازت دی گئی تو تمہاری شفاعت کروں گااور اگر تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکا تو ضرور پہنچاؤں گا۔ پھر فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہﷺ سے جتنی حدیثیں سنی ہیں ان میں سے ہر وہ حدیث تم سے بیان کردی جس میں تمہارا نفع تھا۔ صرف ایک حدیث ہے جو میں آج تمہیں سنا رہا ہوں اس لیے کہ موت نے مجھے گھیر لیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپؐ نے فرمایا: جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا۔(الجامع الکبیر للترمذی أبواب الایمان مَا جَاءَ فِیْمَنْ یَمُوْتُ وَھُوَ یَشْھَدُ أنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ حدیث:۲۶۳۸) گویا ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان سے ہمدردی اور خیر خواہی کا معیاریہ ہونا چاہیے کہ وہ اس دنیا میں بھی اُن کے لیے اچھا سوچے،اُن کے سامنے پاکیزہ کلمات بیان کرے، اُن کی خیر خواہی کے لیے کوشاں رہے اور آخرت میں بھی اُن کا بھلا چاہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں چوتھی شرط یہ بیان فرمائی ہے کہ چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاًاپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔ (اشتہار تکمیل تبلیغ ۱۲/جنوری ۱۸۸۹ء،مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۲۰۶، سن اشاعت مارچ ۲۰۱۹ء قادیان) مزید پڑھیں: رسول کریمﷺ کا انداز گفتگو