https://youtu.be/52jLz0YYGjQ ٭…میرا خدا سے اچھا تعلق نہیں ہے کہ مجھ پر دنیا کے دروازے بند ہو گئے ہیں، حالانکہ میں فرائض اور نوافل میں دعا کرنے پر بڑا کاربند ہوں۔٭…بعض لوگ کہتے ہیں کہ دعا کے لیے امیر المومنین سے کہو۔ یہ بہت اچھی بات ہے اور مجھے اس سے انکار نہیں۔ مگر کیا خداتعالیٰ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب نہیں،یا دعا کے معاملہ کو میں سمجھ نہیں سکا؟٭…کیا دین ہمیں دینی اور دنیاوی امور میں عقل کا استعمال نہیں سکھاتا، کیا بعض احمدی بھائیوں کے لیے اپنی رائے پر ضد کرنا جائز ہے؟٭…صحیحین میں کچھ احادیث ازدواجی تعلقات کے متعلق ملتی ہیں۔ کیا یہ کہنا درست ہے کہ یہ مستند نہیں ہیں؟٭…ایک حدیث ہے کہ مرض الموت میں رسول اللہ ﷺ نے لکھنے کے لیے کچھ منگوایا تا کہ مسلمان آپ کے بعد گمراہ نہ ہو جائیں مگر بعض صحابہؓ نے اس پر اعتراض کیا۔ اس حدیث کی کیا سند ہے اور حضرت عمر بن الخطابؓ کا اس میں کیا کردار ہے؟٭…دمشق میں سفید میناروں کا کیا مطلب ہے؟٭…مردوں کے ستر کے لیے کیا حکم ہے؟ سوال: شام سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ کیا میرا خدا سے اچھا تعلق نہیں ہے کہ مجھ پر دنیا کے دروازے بند ہو گئے ہیں، حالانکہ میں فرائض اور نوافل میں دعا کرنے پر بڑا کاربند ہوں۔ نمبر (۲)میں نے پڑھا ہے کہ دعا کے لیے خلافت سے جڑے رہنا چاہیے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ دعا کے لیے امیر المومنین سے کہو۔ یہ بہت اچھی بات ہے اور مجھے اس سے انکار نہیں۔ مگر کیا خدا تعالیٰ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب نہیں،یا دعا کے معاملہ کو میں سمجھ نہیں سکا؟ نمبر (۳)کیا دین ہمیں دینی اور دنیاوی امور میں عقل کا استعمال نہیں سکھاتا؟ کیا بعض احمدی بھائیوں کے لیے اپنی رائے پر ضد کرنا جائز ہے، بعض اوقات جب تکرار زیادہ ہو جاتی ہے تو میں باہم محبت کو برقرار رکھنے کے لیے بحث کو چھوڑ دیتا ہوں۔ یہ تکرار زیادہ تر بعض احادیث کی صحت کے بارے میں ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کے علاوہ کوئی کتاب بھی تحریف سے پاک نہیں ہے۔ نمبر(۴)صحیحین میں کچھ احادیث ازدواجی تعلقات کے متعلق ملتی ہیں۔ کیا یہ کہنا درست ہے کہ یہ مستند نہیں ہیں؟ یا کیا حضرت عائشہؓ نے انہیں رسول اللہ ﷺ کے معاملات سے سیکھ کر خود بیان کیا ہے۔ نیز ایک حدیث ہے کہ مرض الموت میں رسول اللہ ﷺ نے لکھنے کے لیے کچھ منگوایا تا کہ مسلمان آپ کے بعد گمراہ نہ ہو جائیں مگر بعض صحابہ نے اس پر اعتراض کیا۔ اس حدیث کی کیا سند ہے اور حضرت عمر بن الخطابؓ کا اس میں کیا کردار ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۴؍نومبر ۲۰۲۳ء میں ان سوالات کے بارے میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: آپ کے پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہےچاہے تو بندہ کی دعا سنے اور چاہے تو نہ سنے اور جب چاہے سب دعائیں ایک دفعہ ہی قبول کر لے۔ بندہ کا کام تو مانگتے جانا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’جولوگ بےصبری کرتے ہیں وہ شیطان کے قبضہ میں آجاتے ہیں۔ سو متقی کو بے صبری کے ساتھ بھی جنگ ہے۔ بوستان میں ایک عابد کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب کبھی وہ عبادت کرتا تو ہاتف یہی آواز دیتا کہ تو مرد و دو مخذول ہے۔ ایک دفعہ ایک مرید نے یہ آواز سن لی اور کہا کہ اب تو فیصلہ ہو گیا اب ٹکریں مارنے سے کیا فائدہ ہوگا ؟ وہ بہت رویا اور کہا کہ میں اس جناب کو چھوڑ کر کہاں جاؤں۔ اگر ملعون ہوں تو ملعون ہی سہی۔ غنیمت ہے کہ مجھ کو ملعون تو کہا جاتا ہے۔ ابھی یہ باتیں مرید سے ہو ہی رہی تھیں کہ آواز آئی کہ تو مقبول ہے۔ سو یہ سب صدق وصبر کا نتیجہ تھا جو متقی میں ہونا شرط ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۲۱۔ ایڈیشن۲۰۲۲ء) اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا:’’دعاؤں کے لیے تاثیرات ہیں اور ضرور ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک جگہ حضرت ابوالحسن خرقانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تیس برس میں نے بعض دعائیں کیں جن کا کچھ بھی اثر نہ ہوا اور گمان گزرا کہ قبول نہیں ہوئیں۔ آخر تیس برس کے بعد وہ تمام مقاصد میسر آگئے اور معلوم ہوا کہ تمام دعائیں قبول ہو گئیں ہیں۔ جب دیر سے دعا قبول ہوتی ہے تو عمر زیادہ کی جاتی ہے۔ ‘‘(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۲۳۴ ، مکتوب نمبر ۳۵ بنام حضرت نواب محمد علی خانصاحب، جدید ایڈیشن مطبوعہ ۲۲ اپریل ۲۰۰۸ء) ۲۔آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں تحریر ہے کہ دعا کی قبولیت کے لیے کثرت سے درود پڑھا کریں۔ یہ بھی ضروری ہے، لیکن سمجھ کر۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہےکہ وَابْتَغُوْٓا إِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ۔ (المائدۃ:۳۶) یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور میں قرب حاصل کرنے کے لیے وسیلہ ڈھونڈو۔ اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے آنحضور ﷺکی ذات اقدس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریمؐ کے مل نہیں سکتیں جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے: وَابْتَغُوْٓا إِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ۔(المائدۃ:۳۶)تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو سقے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھٰذَا بِمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۳۱ حاشیہ) باقی خلیفۂ وقت کو اپنی دعاؤں کے لیے شامل کرنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی مرضی ہے۔ اپنے قریبیوں کو بھی انسان دعا کے لیے کہہ دیتا ہے۔ خود آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو فرمایا کہ دعاؤں سے میری مدد کرو۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ بَاب فَضْلِ السُّجُودِ وَالْحَثِّ عَلَيْهِ) حالانکہ آپ کو تو اس کی ضرورت نہیں تھی، آپ تو خود وسیلہ ہیں۔ ۳۔آپ کے تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ایک حد تک علمی بحث جس کے ساتھ دلائل ہوں اور ذاتی انا نہ ہو، کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن بحث برائے بحث نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس سے معاملات سلجھنے کی بجائے زیادہ الجھ جاتے ہیں۔ آپ ٹھیک کرتے ہیں کہ ایسی مجلس سے اٹھ جاتے ہیں جس میں یہ صورتحال پیدا ہو۔ ۴۔ آپ کے چوتھے سوال کے جواب میں تحریر ہے کہ آنحضورﷺنے اپنے متبعین کی زندگی کے ہر معاملہ میں خواہ وہ چھوٹا معاملہ تھا یا بڑا، راہنمائی فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ کھانے پینے، سونے جاگنے، پیشاب پاخانہ کرنے اور طہارت و صفائی سے متعلق بھی ضروری امور سے ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اسی طرح آپﷺنے ازدواجی تعلقات کے بارے میں بھی ہماری راہنمائی فرمائی ہے۔ ایسی احادیث کچھ تو حضورﷺکے ارشادات پر مبنی ہیں اور کچھ احادیث ازواج مطہرات کے مشاہدات پر مبنی ہیں جنہیں انہوں نے آنحضورﷺکی ذات اقدس میں ملاحظہ کرکے ہمارے علم کے لیے بیان کیا تا کہ ہم بھی ان معاملات میں حضورﷺکے اسوہ کو اختیار کر سکیں۔ چنانچہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ بَاب الْغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ یعنی صاع وغیرہ سے نہانا، کی تشریح میں لکھتے ہیں: یہاں اس باب کا مقصد یہ مسئلہ نہیں، بلکہ وہ مضمون ہے جو اس باب کی پہلی دو روایتوں میں ہے اور وہ یہ کہ صحابہؓ کو آنحضرتﷺکی اتباع کا کمال شوق تھا۔ جس کا اصل سبب یہ آیت تھی: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ۔(آل عمران:۳۲)یعنی کہو اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تم سے محبت رکھے گا۔ اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہم ہر بات میں نبیﷺ کو قُدْوَہ اور امام یقین کرتے تھے اور انہیں اس بات کا ہمیشہ خیال رہتا کہ ان کا ہر عمل آنحضرتﷺکے اسوۂ حسنہ کے مطابق ہو، اس لیے وہ مسائل کی تحقیق کرتے۔ (شرح صحیح بخاری جلد اوّل صفحہ۳۴۰) باقی جہاں تک حدیث قرطاس کا تعلق ہے تو حضرت امام بخاریؒ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں مختلف ابواب کے تحت درج کیا ہے۔ اور یہ حدیث اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین مدت سے موضوع بحث و نزاع رہی ہے۔شیعہ کہتے ہیں کہ یہ وصیت حضرت علیؓ کے حق خلافت سے متعلق تھی، جو حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر کہ کیا ہمارے لیے کتاب اللہ کافی نہیں، نبی کریمﷺ کو لکھنے نہیں دی۔ لیکن یہ محض ایک فرضی خیال ہے، اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ حضورﷺکو اپنے آخری وقت میں بھی اس بات کی فکر تھی کہ کہیں میری امت میرے بعدبھول کر راہ حق سے گمراہ نہ ہو جائے، اس لیے آپ انہیں کتاب اللہ پر مضبوطی سے قائم رہنے کی مزید تلقین فرمانا چاہتے تھے۔ لیکن جب حضورﷺکی بیماری کی تکلیف کو دیکھ کر حضرت عمرؓ نے یہ عرض کیا کہ حضور! ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو ہمارے لیے کافی ہے تو چونکہ آپؐ جانتے تھے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کی طرف سے اس وعدہ کے ساتھ نازل شدہ آخری صحیفہ ہے کہ ہم نے اس میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔(الانعام:۳۹) اور یہ ہر بات کو خوب واضح کر کے بیان کرتی ہے۔(النحل:۹۰) تو آپ ﷺ کو حضرت عمر ؓ کی بات سے اطمینان ہو گیا کیونکہ آپؐ کتاب اللہ کو ہی حرز جان بنانے کی نصیحت کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے آپ نے حضرت عمرؓ کی بات سننے کے بعد کاغذ، قلم منگوانے کا اعادہ نہیں فرمایا۔ پھر جیسا کہ بعض اور احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپؐ اس واقعہ کے بعد بھی چند دن زندہ رہے اور اُن دنوں میں آپ نے کئی اور ضروری امور سرانجام دیے۔ مگر کاغذ قلم والی بات کو نہیں دہرایا۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ جن احکام کے لکھوانے کی آپؐ نے ضرورت سمجھی تھی وہ چونکہ کتاب اللہ میں موجود تھے، نیز آپؐ کتاب اللہ سے ہی چمٹے رہنے کی تاکید فرمانا چاہتے تھے ، لہٰذا ان دونوں چیزوں کو حضرت عمرؓ کی بات سے پورا ہوتے دیکھ کر آپ کو اطمینان ہو گیا اور آپ نے حضرت عمرؓ کی تائید کرتے ہوئے خاموشی اختیار فرمائی۔ اس موقع پر چونکہ صحابہؓ کا آپس میں کچھ اختلاف ہو گیا تھا اور ایک شور کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی، جس پر حضورﷺ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور لوگوں کو وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا کہ میرے پاس شور نہ کرو۔ (بدری صحابہ کے سلسلۂ خطبات میں حضرت عمرؓ کے حوالے سے میں یہ واقعہ بیان کر چکا ہوں) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ جو اس وقت چھوٹی عمر کے تھے، وہ بعد میں جب یہ واقعہ بیان کیا کرتے تھے تو کہا کرتے تھے کہ آنحضور ﷺ کو جو لکھنے سے روکا گیا، یہ ایک بڑا نقصان تھا۔ لیکن انہوں نے بھی یہ کبھی نہیں کہا کہ حضور ﷺ حضرت علیؓ کی خلافت کی وصیت لکھوانا چاہتے تھے بلکہ انہیں افسوس اس بات پر تھا کہ حضور ﷺ جو کچھ بھی لکھوانا چاہتے تھے، اسے لکھ لینا چاہیے تھا۔ سوال:کینیڈا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ دمشق میں سفید میناروں کا کیا مطلب ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۴؍نومبر ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضورانور نے فرمایا: جواب: یہ صحیح مسلم میں درج ایک لمبی حدیث کا حصہ ہے، جو حضرت نواس بن سمعانؓ سے مروی ہے اور اس حدیث میں آنحضور ﷺ نے دجال ، اس کی نشانیوں ، اس کے خروج کے مقام کا ذکر کیا ہے اور اس سے بچنے کا طریق بھی بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح عیسیٰ بن مریم کے نزول، ان کی نشانیوں اور ان کے ہاتھوں دجال کے قتل کا ذکر فرمایا ہے۔ علاوہ ازیں یاجوج ماجوج اور اس کی ہلاکت کا بھی ذکر کیا ہے۔ اسی دوران حضور ﷺ نے إِذْ بَعَثَ اللّٰهُ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ کے الفاظ میں حضرت عیسیٰ بن مریم کے دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس دو زرد رنگ کی چادریں پہنے ہوئے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے نازل ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے مبعوث ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔ پس یہ حدیث جس میں استعارہ کے رنگ میں آخری زمانہ کے بارے میں بہت سی خبریں دی گئی ہیں، جن میں خاص طور پر شیطان کے کارندوں دجال اور یاجوج ماجوج کے ظاہر ہونے اور ان بلاؤں کے مقابلہ کے لیے مسیح محمدی کے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ مبعوث ہونے کی پیش خبریاں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’مسلم کی حدیث کا یہ لفظ کہ مسیح دمشق کے شرقی منارہ کی طرف اترے گا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ مسیح موعود کا سکونت گاہ ہو گا بلکہ غایت درجہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی وقت اس کی کارروائی دمشق تک پہنچے گی اور یہ بھی اس صورت میں کہ دمشق کے لفظ سے حقیقت میں دمشق ہی مراد ہو اور اگر ایسا سمجھا بھی جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ اب تو دمشق سے مکہ معظمہ تک ریل بھی تیار ہو رہی ہے اور ہر ایک انسان بیس دن تک دمشق میں پہنچ سکتا ہے۔ اور عربی میں نزیل مسافر کو کہتے ہیں لیکن یہ فیصلہ شدہ امر ہے کہ اس حدیث کے یہی معنے ہیں کہ مسیح موعود آنے والا دمشق کے شرقی طرف ظاہر ہو گا اور قادیان دمشق سے شرقی طرف ہے۔ حدیث کا منشاء یہ ہے کہ جیسے دجال مشرق میں ظاہر ہو گا ایسا ہی مسیح موعود بھی مشرق میں ہی ظاہر ہو گا۔‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد۱۷صفحہ ۱۶۵ حاشیہ) پھرفرمایا:’’حدیث سے ثابت ہے کہ دجال کا ظہور مشرق سے ہوگا اور نواب مولوی صدیق حسن خانصاحب حجج الکرامہ میں منظور کر چکے ہیں کہ فتنہ دجالیہ کے لیے جو مشرق مقرر کیا گیا ہے وہ ہندوستان ہےاس لیے ماننا پڑا کہ انوارِمسیحیہ کے ظہور کا مشرق بھی ہندوستان ہی ہے کیونکہ جہاں بیمار ہو وہیں طبیب آنا چاہیے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد۱۷صفحہ ۱۶۷،۱۶۶) سوال: یوکے سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ عورتوں کے ستر کے بارے میں تو اسلامی ہدایات واضح ہیں۔ مردوں کے ستر کے لیے کیا حکم ہے؟میں نے دیکھا ہے کہ مرد اپنے جسم اور مسلز کی نمائش کرتے ہیں، اگرچہ وہ کہتے ہیں کہ ناف سے گھٹنوں کے درمیان کا حصہ انہوں نے ڈھکا ہوا ہے۔لیکن پھر بھی یہ چیز اسلامی حیا کے حکم کے خلاف ہے کیونکہ عورتیں انہیں غلط نظر سے دیکھتی ہیں۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۶؍نومبر ۲۰۲۳ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: پردہ کے حکم سے پہلے اسلام نے غض بصر کا حکم دیا ہے اور یہ حکم مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ہے۔ جیسا کہ فرمایا:۔ تو مومنوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں…اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ (النور:۳۲،۳۱) پس غض بصر کا حکم مرد و عورت دونوں ہی کے لیے ہے۔ جب دونوں ایک دوسرے کو نہیں دیکھیں گے تو بُرے خیالات بھی پیدا نہیں ہوں گے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’جب ظاہری آنکھ لے جانا جائز نہیں تو باطنی آنکھ سے ان کے حالات کی تفتیش کیونکر جائز ہو…ہم نے بہت سے ایسے انسان دیکھے ہیں کہ ایک ہی نگاہ میں ہلاک ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں سے کہہ دو۔ نگاہیں نیچی رکھیں۔ میں تو اسی لیے برقع کا دشمن ہوں۔ کیونکہ برقع والی آنکھ نیچی نہیں ہوتی۔ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اگر کسی حسین پر پہلی نظر پڑ جائے۔ تو تم دوبارہ اس پر ہر گزنظر نہ ڈالو۔ اس سے تمہارے قلب میں ایک نور پیدا ہو گا۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ ۲۱۳) پس جب ظاہر ی آنکھ سے مرد و عورت کے لیے ایک دوسرے کو دیکھنا جائز نہیں توایک دوسرے کے بارے میں بُرے خیالات ذہنوں میں لانا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ اس لیے غض بصر کا حکم مرد و عورت دونوں ہی کے لیے ہے۔ باقی اگر کپڑے میسر نہ ہوں تو مرد کے لیے کم سے کم ستر ناف سے لے کر گھٹنوں کے درمیان کے حصہ کا ہے جسے ڈھانپنا ضروری ہے۔ مختلف قسم کی کھیلوں اور جسم اور مسلز کی نمائش کے پروگراموں کو جن میں مردوں کے جسم کا کچھ حصہ ننگا ہوتا ہے، پاکیزہ اور نیک عورتوں کو انہیں دیکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔بالکل اسی طرح جس طرح نیک مردوں کو عورتوں کے ایسے پروگرام دیکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، جن کے نتیجہ میں بُرے خیالات دل میں پیدا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’(اسلامی پردہ سے) مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے۔ بالآخر یاد رہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غض بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پرہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہیے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لیے اس تمدنی زندگی میں غض بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آ جائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا۔ یہی وہ خلق ہے جس کو احصان اور عفت کہتے ہیں۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۴۴) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: عُمروں کا بڑھایا جانا