خود اپنی اصلاح کریں، سب سے بڑی بات یہ ہے، اپنا اللہ سے تعلق پیدا کریں۔ اپنی نمازوں اور عبادتوں کا معیار اُونچا کریں۔ اپنے علم کا معیار اُونچا کریں۔قرآنِ شریف پڑھیں، جماعتی لٹریچر پڑھیں اور پھر اس پر عمل کریں۔ پڑھنا صرف پڑھنے کے لیے نہ ہو بلکہ عمل کرنے کے لیے ہو مورخہ ۴؍اکتوبر ۲۰۲۵ء، بروز ہفتہ، امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ جرمنی کےNRW Mitteریجن کی صدرات کے ایک گیارہ (۱۱) رکنی وفد کو شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے جرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِ انورمجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ سب سے پہلے ریجنل صدر صاحبہ کو حضورِ انورکی خدمتِ اقدس میں وفد کا تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، جس کے بعد تمام شرکائےمجلس کو ذاتی تعارف پیش کرنے اور اپنی مفوّضہ جماعتی ذمہ داریوں کی تفصیل بیان کرنے کا بھی موقع ملا۔ دورانِ تعارف جب ایک شریکِ مجلس کی جانب سے اپنا تعارف بطور سابق صدر پیش کیا گیا تو یہ سماعت فرما کر حضورِانورنے موجودہ صدر صاحبہ کی عدم شرکت کی بابت استفسار فرمایا، جس پر عرض کیا گیا کہ وہ حال ہی میں منتخب ہوئی ہیں اور انہیں ویزا سے متعلق کچھ مشکلات کا سامنا تھا۔ بعد ازاں دورانِ ملاقات شرکا مجلس کو حضور انور سے مختلف سوالات پیش کرنے نیز اُن کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ حضورِ انورکی خدمت اقدس میں پیش کیا جانے والا پہلا سوال عمومی نوعیت کا تھا جس میں راہنمائی طلب کی گئی کہ ہم دورانِ سال اپنی ذمہ داری کیسے احسن رنگ میں ادا کر سکتے ہیں؟ اس پر حضورِ انور نے راہنمائی فرمائی کہ دستورِ اساسی میں لکھا ہوا ہے کیا ذمہ داریاں ہیں، لائحہ عمل بھی ہے، اس میں لکھا ہے کہ کیا کچھ کرنا ہے۔ پھر حضورِ انورنے توجہ دلائی کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ خود اپنی اصلاح کریں، سب سے بڑی بات یہ ہے، اپنا اللہ سے تعلق پیدا کریں۔ اپنی نمازوں اور عبادتوں کا معیار اُونچا کریں۔ اپنے علم کا معیار اُونچا کریں۔ قرآنِ شریف پڑھیں، جماعتی لٹریچر پڑھیں اور پھر اُس پر عمل کریں۔ پڑھنا صرف پڑھنے کے لیے نہ ہو بلکہ عمل کرنے کے لیے ہو۔ اسی طرح مزید توجہ دلائی کہ پھر لجنہ کی ممبرات سے پیار کا سلوک کرتے ہوئے اُن کو سمجھائیں کہ یہ یہ ہماری ذمہ داریاں ہیں، یہ ہم نے کام کرنے ہیں، اگر کوئی بے پردہ ہے تو اس کو پیار سے پردے کی اہمیت سمجھائیں۔ جو ویسے نظام جماعت سے تعلق میں کمزور ہیںان کو پیار سے سمجھائیں اور آہستہ آہستہ ان کو قریب لائیں۔ تو پیار اور محبّت سے سارے کام کریں۔ حضورِ انورنے تاکید فرمائی کہ ہر ایک جو عہدیدار ہے وہ active ہو، صدرات کی عاملہ کی ہر ایک ممبر active ہو، صرف عہدہ لے کے اس بات پر خوش نہ ہو جائیں بلکہ اس کو فضلِ الٰہی سمجھیں اور شکرانے کے طور پر زیادہ بڑھ کے کام کریں۔ ایک شریکِ مجلس نے سوال کیا کہ لجنہ اور ناصرات کس طرح اپنے آپ کو Artificial Intelligenceکے نقصان دہ استعمال سے محفوظ رکھ سکتی ہیں؟ اس پر حضورِ انورنے یاد دلایا کہ یہ کوئی نئی بات تو نہیں، مَیں تو بڑے عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ اے آئی (AI)کا استعمال غلط ہو رہا ہے۔ حضورِ انورنے اے آئی کو صحیح طریق پر استعمال کرنے کے حوالے سے توجہ دلائی کہ اس کے لیے آپ اپنی لجنہ ممبرات کو awareness دیں اور اُن کو بتائیں کہ یہ یہ اس کے نقصانات ہیں اور ہر ایک ناصرات کی ممبر جو گیارہ سال سے پندرہ سال تک کی ہے اس کو بتائیں کہ اس کے کیا نقصان اور کیا فائدے ہیں اور اس سے ہمیں کتنا بچنا چاہیے۔ اسی حوالے سے حضورِ انورنے ہدایت فرمائی کہ آج کل بہت سارے جو ٹیکنیکل فیلڈز میں ہیں، ان کے quote نکالیں، وہ پڑھی لکھی لڑکیوں کو دیں اور ان کو بتائیں کہ دیکھو! جو لوگ Artificial Intelligence بزنس میں ہیں، یہ ان کےquotes ہیں، اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اس سے بچنا چاہیے۔ یہ گورنمنٹ کے منسٹر ز اور یہ دنیا کے مختلف لوگوں کے quotes ہیں کہ اِس کے کیا نقصانات ہیں۔ تو تھوڑی سی ریسرچ کریں۔ آخر میں حضورِ انورنے اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ مَیں مختلف وقتوں میں بتاتا بھی رہا ہوں اور اس کیawareness جب ہو جائے گی، باقاعدہ ہر مہینے ان کو بتاتے رہیں کہ لغویات سے کس طرح بچنا ہے۔ حضورِ انورنے صدرات کو ہدایت فرمائی کہ صدرات لجنہ اور ناصرات کی ہر ممبر کو message بھیجیں۔ قرآن، حدیث، مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات، خلفاء کے اقتباسات سے تھوڑے تھوڑے چار چار پانچ پانچ لائنوں کے passage میسیج ہوں کہ کس طرح ہم نے ان چیزوں سے بچ کے رہنا ہے۔ وہ Artificial Intelligence ہو یا کوئی بھی سوشل میڈیا کا غلط کام ہو، اس سے ہم نے کس طرح بچنا ہے۔ سو! ان باتوں میں تو مَیں عرصے سے کہہ رہا ہوں اور AI کے بارے میں تو مَیں ہمیشہ سے بول رہا ہوں۔ اس سے فائدہ بھی اُٹھایا جا سکتا ہے لیکن آپ نے دیکھنا ہے کہ اپنی لجنہ کی ممبرات کو اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے کس طرح گائیڈ کرنا ہے۔ان کے لیے باقاعدہ جو اس ٹیکنیکل فیلڈ میں ہو، اس سے مدد لیں اور مہینے میں ایک یا دو مہینے بعد ایک کلاس لے کے ان کو بتایا کریں کہ کیا کیا اس کے نقصان اور فائدے ہیں، ان دو مہینوں میں دنیا نے کیا اس سے فائدہ اور کیا نقصان اٹھایا۔ تو یہ ساری چیزیں دیکھنی چاہئیں۔ ایک شریکِ مجلس نے دریافت کیا کہ وہ کون سے علمی مضامین ہیں، جن میں لجنہ کی طالبات کے لیے پی ایچ ڈی کرنا زیادہ موزوں ہوگا؟ اس پرحضورِ انورنے راہنمائی عطا فرمائی کہ منطقی طور پر پی ایچ ڈی اُسی مضمون میں کی جاتی ہے جس میں پہلے بیچلرز یا ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی گئی ہو، مثلاً اگر کسی نے جغرافیہ میں ماسٹرز کیا ہے تو وہ بایو کیمسٹری میں پی ایچ ڈی نہیں کر سکتی۔ حضورِ انورنے مزید فرمایا کہ مضمون کا انتخاب طالبہ کی اپنی دلچسپی کے مطابق ہونا چاہیے، کیونکہ علم کا بنیادی مقصد علم میں اضافہ کرنا ہے اور یہ کسی بھی شعبے میں ممکن ہے۔ بعد ازاں حضورِ انورکے دریافت فرمانے پر سائل نے عرض کیا کہ انہوں نے سوشیالوجی میں ماسٹرز کیا ہواہے۔ جس پرحضورِ انورنے نصیحت فرمائی کہ وہ اپنی پی ایچ ڈی بھی اسی مضمون میں کریں اور ایسا تحقیقی موضوع منتخب کریں جو موجودہ معاشرتی مسائل مثلاً خاندانی مشکلات، تجارتی تنازعات یا نسلی و لسانی جھگڑوں سے متعلق ہو۔ مزید برآں حضورِ انور نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ اپنی تحقیق کے دوران ان مسائل کا جائزہ قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہؐ کی تعلیمات کی روشنی میں لینا چاہیے تاکہ یہ واضح ہو کہ اسلام ان جدید معاشرتی چیلنجز کا حل کس طرح سے پیش کرتا ہے۔ حضورِ انورنے آخر میں نصیحت فرمائی کہ وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطابات اور تحریرات میں موجود اس نوعیت کے وسیع لٹریچر سے بھی استفادہ کریں، کیونکہ ان میں معاشرتی اور اخلاقی مسائل کے متعلق نہایت بصیرت افروز راہنمائی موجود ہے۔ ایک لجنہ ممبر نے حضورِ انورکی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ جب اصلاحی کمیٹی کی میٹنگ ہوتی ہے تو سیکرٹری صاحب تربیت کہتے ہیں کہ مساجد میں نمازوں کی حاضری بہت کم ہے، صدر صاحبہ آپ ہماری مدد کریں، لیکن جب لجنہ اپنے خاوندوں کو توجہ دلاتی ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ تمہارا کام نہیں ہے۔ پیارے آقا! اس سلسلے میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔ اس پر حضورِانور نے جلسہ ہائے سالانہ یوکے اورجرمنی کے لجنہ سے خطابات اور لجنہ اماء الله یوکے کے نیشنل اجتماع سے خطاب کے حوالے سے یاد دلایا کہ ان میں مَیں نے یہی باتیں بتائی ہیں کہ عورتوں کا کام ہے کہ وہ خاوندوں کی بھی ٹریننگ کریں۔ حضورِانورنے فرمایا کہ حوالے نکال کے دکھا دیں کہ اگرہمارا کام نہیں ہے، تو پھر مجھے خلیفۂ وقت نے تو یہ باتیں کی ہیں، کوئی ایسا issue ہے ہی نہیں کہ جس کو مَیں نے نہ کہا ہو، recently کہہ چکا ہوں، تینوں جگہ کہہ چکا ہوں، خاوندوں کو بھی مَیں کہہ رہا ہوں، صرف عورتوں کو ہی نہیں کہہ رہا کہ اپنی اصلاح کریں۔ ا نصار اللہ کے اجتماع میں مَیں نے کہا، مردوں کو بھی کہہ رہا ہوں، خدام کو بھی کہہ رہا ہوں، عورتوں کو بھی کہہ رہا ہوں کہ ٹریننگ دیں، ان کا تو کہنا کام ہے، تو یہ توجہ دلانے کی ضرورت ہے، حوالے نکال کے پیش کرتی رہیں۔ سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں حضورِ انورنے ایک نہایت خوبصورت طرزِ استدلال کی جانب راہنمائی فرمائی کہ اسے کہو کہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ کوئی نیک بات جو ہے وہ عورت نہیں کہہ سکتی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین عائشہ رضی الله عنہا سے سیکھو، عورت سے سیکھو، عورتیں دین پڑھایا کرتی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ فرماتے ہیں کہ مرد عورت کو دینی کام میں توجہ دلائے اور عورت مرد کو توجہ دلائے اور جو توجہ دلائے گا اس کو ثواب ملے گا۔ عبادت کی طرف توجہ دلانے کا بھی جس طرح ہے کہ عورت اور مرد سوئے ہوں، فجر کی نماز کا وقت ہو، تو ان کو چھینٹا مار کے جگاؤ، تو عورت کو مرد جگائے اور مرد کو عورت جگائے۔ حضورِ انورنے جواب کے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ یہ حدیثوں میں آیا ہوا ہے، مرد کیوں کہتے ہیں کہ یہ تمہارا کام نہیں۔ کہو کہ آپ نے دین پڑھا ہی نہیں ہوا، ہماراکام نہیں تو پھر کس کا کام ہے؟ نیز واضح فرمایا کہ مرد بس سستی چھپانے کےلیے بہانے کرتے ہیں۔ ایک لجنہ ممبر نے ذکر کیا کہ بچے گھروں میں موبائل فون پر زیادہ وقت گزارنے لگے ہیں اور اس حوالے سے راہنمائی طلب کی کہ اپنے بچوں کو کس طرح نصیحت کی جائے؟ اس پر حضورِ انورنے انتہائی حکیمانہ انداز میں عملی راہنمائی عطا فرمائی کہ ان کو سمجھائیں کہ مجلس کے آداب ہوتے ہیں۔اسلام تو یہ کہتا ہے کہ جب آپ مجلس میں بیٹھے ہوں تو دوسرے کے کان میں باتیں بھی نہ کرو، کیونکہ اس سے مجلس کے آداب پر اثر پڑتا ہے، دوسروں کو بھی شک پڑتا ہے کہ پتا نہیں کیا بات کر رہے ہو، جو بات کرنی ہے کھل کے کرو تاکہ ساری مجلس سن لے۔ تو اس لیے جب گھر میں بیٹھے ہوں تو اس کمپنی میں اپنے فون چھوڑ کے آیا کرو، ان کو بند کر کے رکھا کرو اور پھر ان کی دلچسپی کی باتیں بھی کیا کریں۔ حضورِ انورنے بچوں کی دلچسپی کا خیال رکھنے کی بابت توجہ دلائی کہ آج کل کا کوئی سیاسی، دنیاوی یا پڑھائی کا ایشو discuss کرنے کی بجائے آپ اسے کہیں کہ فلاں لجنہ ممبر بڑی گپیں مارتی ہے، اس نے جھوٹ بولا، فلاں کام کیا اس نے فلاں کی چغلی کی، تو بچہ کہے گا کہ اس سے مجھےچودہ؍پندرہ سال کی عمر میں کیا فرق پڑتا ہے کہ کسی نے چغلی کی یا نہیں کی۔ تو بچوں کےinterest کی باتیں بھی کیا کریں، جب بچوں کے interest کی باتیں کریں گےتو ان کی مجلس میں دلچسپی پیدا ہوگی۔ اگر توآپ اپنے interest کی باتیں کریں گی تو بچوں کو کیا ہے، وہ پھر کہیں گے کہ اچھا پھر ہم فون سے کھیلتے ہیں۔ پہلے اپنا قصور سمجھیں اور پھراپنی اصلاح کریں۔ ایک شریکِ مجلس نے عرض کیا کہ اگر کوئی لجنہ بہن کئی سال سے اپنے خاوند سے الگ رہ رہی ہوں اور فیصلہ نہ کر پائیں کہ ساتھ رہنا ہے یا علیحدگی اختیار کرنی ہے، تو پیارے حضور ایسی بہنوں کے متعلق آپ کی کیا راہنمائی ہے؟ اس پر حضورِ انورنے فرمایا کہ ان کو جلدی فیصلہ کر لینا چاہیے، جو اتنی دیر تک علیحدہ رہیں گی، تو خاوند نے اس کو معلّقہ کی طرح چھوڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ناپسند فرمایا ہے کہ جس طرح تم کھونٹی میں کپڑاٹانگ دیتے ہو، ٹانگ دیا، تو یہ غلط چیز ہے۔ حضورِ انورنے خُلع یا طلاق کے حوالے سےمعاشرتی دباؤ سے آزاد ہو کر بچوں کی بھلائی اور بہتر تربیت کو مدّنظر رکھتے ہوئے خود دعا کرکے فیصلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ایسی عورت پھر یہ نہ دیکھے کہ بچے ہیں اور بچوں پر کیا اثر پڑے گا یا نہیں پڑے گا۔ یہ دیکھیں کہ بچوں پر منفی اثر علیحدہ رہنے سے زیادہ پڑ رہا ہے اور اگر آپس کی understanding سے علیحدہ رہ رہی ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ اور اگر ویسے ہی بُرائیوں میں پڑے ہوئے چھوڑ دیا ہے اور بیوی کے حقوق ادا نہیں کر رہا اور بیوی صرف اس لیے کہ پتا نہیں معاشرہ کیا کہے گا، مجھے لوگ کیا کہیں گے، بچوں پر کوئی منفی اثر نہ پڑ جائے، اس سے بہتر ہے کہ خود دعا کرکے فیصلہ کر لیں اور علیحدگی اور خُلع وغیرہ لے لینی چاہیے۔ حضورِ انورنے یہ بھی واضح فرمایا کہ اگر خاوند کا قصور ہے تو خُلع میں جو قضا فیصلہ کرتی ہے، وہ بھی پھر عورت کے حق میں کر دیتی ہے، وہ سارے حقوق بھی دلواتی ہے۔ اس لیےبہتر یہی ہے کہ پھر دعا کر کے فیصلہ کر لیں، بجائے اس کے کہ معاشرے یا زمانے سے ڈریں، پھر بچوں کی زیادہ اچھی تربیت ہوگی۔ ایک لجنہ ممبر نے حضورِانور سے اس حوالے سے راہنمائی طلب کی کہ ایسی بہنیں جو پردہ کرنے میں کمزور ہیں، انہیں جب توجہ دلائی جاتی ہے کہ وہ پردہ کریں، تو اُن میں سے کچھ کا جواب یہ ہوتا ہے کہ یہ اُن کا ذاتی مسئلہ ہے کہ وہ پردہ کریں یا نہ کریں۔ اس پر حضورِ انورنے فرمایا کہ ہاں! کہو کہ بالکل تمہارا ذاتی مسئلہ ہے، ہم تمہیں کچھ نہیں کہتے، لیکن ہم تمہیں یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ یہ پردہ کرو، فلاں فلاں رشتہ داروں سے پردہ کرو، اپنے لباس کو درست رکھو اور تمہارا پردے کا معیار کیا ہونا چاہیے۔ اپنی اوڑھنیاں یا برقعہ یا نقاب یا حجاب اس طرح لو۔ حضورِ انورنے احکاماتِ پردہ کی قرآنی تعلیم کی بابت ہدایت فرمائی کہ اس کی تفسیر نکالیں، آپ عاملہ کی صدر ہیں، مختلف جماعتی لٹریچر میں اس کی تفسیریں لکھی ہوئی ہیں، مَیں مختلف موقعوں پر کہہ چکا ہوا ہوں۔کہو کہ اگر یہ تمہارا ذاتی مسئلہ ہے تو پھر خلیفۂ وقت کو بھی تم لوگوں کو نہیں کہنا چاہیے، وہ تو تمہارے لیے کوئی غیر شرعی بات نہیں کرے گا۔ سارے خلفاء نے اس طرف توجہ دلائی ہے۔ سب سے بڑھ کے قرآنِ کریم نے توجہ دلائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی۔ ان سے بڑھ کے کون توجہ دلانے والا ہو سکتا ہے۔ اور جب تک تم اپنے آپ کو احمدی کہتی ہو، اس وقت تک تمہیں توجہ دلانا ہمارا کام ہے اور تمہارا کام قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا ہے جب تک کہ تم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتی ہو۔ اس لیے اس کی کوشش کرو، پیار سے سمجھائیں، quotation اور آیتیں نکال کے ان کو سمجھا دیں۔ قرآنِ شریف میں بڑی واضح آیت ہے، اس کو سامنے رکھ دیں کہ اپنی اوڑھنیوں کو سر پررکھو، سینے سے لپیٹو، چہرے کو اس طرح ڈھانپو، گھونگھٹ اس طرح نکالا ہو۔ قرآنِ شریف میں ساری تفصیل لکھی ہوئی ہے۔ حضورِ انورکی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جانے والا اس ملاقات کا آخری سوال حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کی ازواج کے متعلق قرآنی بیانات کی مماثلت کی بابت تھا، کیونکہ وہ دونوں بانجھ اور عمر رسیدہ تھیں، جبکہ انہیں بیٹے کی خوشخبری دی گئی۔ اس پر حضورانور نے تصدیق فرمائی کہ یہ دونوں واقعات حقیقتاً ایک دوسرے سے مشابہ ہیں اور دونوں اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت کی شان کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح مزید وضاحت فرمائی کہ حضرت زکریا علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا واقعہ قرآنی سیاق و سباق کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی داستان سے بھی گہرا تعلق رکھتا ہے۔ نیز آخر میں سائل کو، جوکہ اُردو پڑھ سکتی تھیں، نصیحت فرمائی کہ وہ ان مخصوص آیات کی تفصیلی تفسیر کے لیے تفسیرِکبیر کا مطالعہ کریں تاکہ گہرےفہم و ادراک کا حصول ممکن ہوسکے۔ ملاقات کے اختتام پر حضورِ انورنے تمام شاملینِ مجلس کو از راہِ شفقت قلم کا تحفہ بطورِ تبرک عطا فرمایا اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔ مزید پڑھیں:امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ ایسٹ ریجن کے ایک وفد کی ملاقات