شاورما مشرق وسطیٰ کا مقبول ترین کھانا سمجھا جاتا ہے۔در اصل اس کی ابتداعثمانی سلطنت کے دور میں تُرکی سے ہوئی۔ شاورما کا لفظ ترکی زبان کے لفظ Cevirme اور Donmek سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب گھومنا ہے ۔ شاورما کے لیے گوشت کو عمودی سلاخ پر گھمایا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ آگ پر بھونا جاتا ہے۔ تقریباً ۱۶۰۰ ء سال پہلے گوشت کو اُفقی شعلے پر پکایا جاتا تھا۔ انیسویں صدی میں ایک ترکی خانساماں نے اسے عمودی سلاخ پر پکانے کا طریق اختیار کیا ۔ جس سے گوشت کے اندر قدرتی نمی کو قائم رکھا جا سکتا تھا ۔ جس سے شاورما مزیدار بنتا تھا۔ پکانے کے اس جدید انداز کوDoner ڈونر کباب کا نام دیا گیا۔ عثمانیہ دور میں ڈونر کباب کا ترکی سے باہر بھی چرچا ہونے لگا۔ مشرق وسطیٰ میں اس کی بہت پذیرائی ہوئی۔ فلسطین ، شام اور لبنان کے لوگوں نے اسے ہر طرف متعارف کروا دیا ۔ شاورما بنانے کے لیے گائے، بکری ، ٹرکی اور مرغی کا گوشت استعمال کیا جاتا ہے۔ ویت نام میں سوٴر کا گوشت بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ شاورما کے لیے گوشت کو چربی، دہی یا دودھ، پیاز، نمک، کالی اور سرخ مرچ لگا کر کافی گھنٹوں تک رکھا جاتا ہے اور پھر بھونا جاتا ہے۔ پھر اس کو باریک باریک کاٹ کر تازہ سلاد، لہسن سے تیار کردہ کریم ، تہینی ، سُمک ،کھیرا اور سِرکے، کے اندر بنائے گئے سلاد کو شامل کر کے Pita بریڈ یا عربی خبز میں لپیٹ کر سینڈوچ بنا لیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ فرینچ فرائیز (Chips) بھی کھائے جاتے ہیں۔ آج کل شاورما ہر جگہ میسّر ہے۔ لندن میں ڈونر کباب شاپ ۱۹۶۶ء میں کھلی۔ جبکہ جرمنی اور آسٹریا میں ۱۹۷۰ء میں اس کا آغاز ہوا۔ یورپ کے دیگر ممالک میں بھی یہ مقبول ترین کھانا ہے ۔ جن میں فِن لینڈ، بیلجیم ، فرانس وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ میکسیکو، امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی بہت مقبول ہے۔۱۹۶۰ء میں استنبول میں یہ بادشاہوں، وزرائے اعظم اور دیگر اہم شخصیات کو بھی کھانے کے لیے پیش کیا جاتا تھا۔ترکی میں اس کی بے شمار قسمیں ہیں ۔ اس کو پلاؤ کے اوپر ڈال کر بھی کھایا جاتا ہے۔ آذربائیجان میں یہ بہت مقبول فاسٹ فوڈ ہے ۔ شاورما یا ڈونر کباب سے لطف اندوز ہونے والوں کو تُرکی کا شکرگزار ہونا پڑے گا۔ جہاں سے یہ سفر کرتا ہوا آج پوری دنیا میں پھیل گیا ہے ۔ مزید پڑھیں: شیش تاؤک (لبنانی سیخ کباب)