https://youtu.be/FjBJ8bFyYE0 بزرگانِ سلسلہ کے ساتھ گزرے چند یادگار اور بابرکت لمحات حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادہ ڈاکٹرمرزا منوراحمد صاحب سے خاکسار کا تعارف تو ربوہ میںزمانہ طالبعلمی سے ہی تھا۔ آپ کے چھوٹے صاحبزادے محترمی صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور خاکسار کلاس فیلو اور قریبی دوست بھی تھے۔ اس طرح اکثر آپ کی کوٹھی جانا رہتا تھا۔ وہاں اکثر محترمی میاں صاحب اور محترمہ بیگم صاحبہ سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ آپ ہمیشہ بہت ہی شفقت سے پیش آتے۔ اسی طرح خاکسار کے چچا محترمی ملک عبدالرب صاحب کا محترمی صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب مرحوم سے بہت قریبی دوستی کا تعلق تھا۔ خاکسار کو اپنی دادی جان کے ساتھ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اکثر گھروں میں ساگ اور اچار دینے کے لیے جانے کا موقع ملتا تھا۔ان مواقع پر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگوں کی شفقت اور دعائیں مل جاتی تھیںاور تعارف بھی ہوجاتا تھا۔ صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب کے ساتھ(جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء) ٭…ایک دفعہ خاکسار کا سکول میں محترمی صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سے کسی بات پر جھگڑا ہوگیااور کچھ عرصہ بات چیت بھی بند رہی۔ محترمہ بیگم صاحبہ نے محسوس کیاکہ باری آجکل آتا نہیں ہے، میاں مظفر سے دریافت کیا تو انہوں نے جواب نہ دیا۔ پھر محترمی جمیل صاحب سے دریافت فرمایا جن کی پرورش حضرت میاں صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ نے کی تھی اور وہ کوٹھی میں ہی رہتے تھے اور ہمارے کلاس فیلو تھے۔ محترمی بیگم صاحبہ نے جمیل کو حکم دیا کہ جائو باری کو بلا کرلائو، وہ دارالرحمت غربی آیا اور خاکسار کو اپنے ساتھ کوٹھی لے گیا۔ حضرت بیگم صاحبہ نے دریافت فرمایا کہ کیا ہوا ہے؟ خاکسار کو کچھ جھجک بھی تھی اور کچھ میاں مظفر صاحب کے اَور ناراض ہونے کا خوف بھی تھا، بات کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن حضرت بیگم صاحبہ نہ مانیں، آپ نے میاں مظفر صاحب کو ان کے کمرے سے بلوایااور ہم دونوں کی صلح کروا کر حکم دیا کہ اب گلے ملو۔ اس طرح حضرت بیگم صاحبہ کی شفقت سے یہ لمبی ناراضگی دُور ہو گئی۔ اس روز بیگم صاحبہ نے خاکسار کو پینے کے لیے شربت دیا جو اتنا مزیدار تھا کہ سوچنے سے بھی اس کی مٹھاس منہ میں آجاتی ہے۔ ٭…ہم نے جب انگلستان پہنچ کر بریڈفورڈ کو اپنا گھر بنایا تو پتا چلا کہ حضرت میاں صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ کی اکلوتی بیٹی محترمی صاحبزادی امۃالحئی صاحبہ اپنے خاوند محترمی ڈاکٹر حامداللہ خان صاحب کے ساتھ یارکشائر میں ہی باٹلے میں رہائش پذیر ہیں۔چنانچہ اُن کا ہمارے گھر آنا جانا شروع ہو گیا جو ہمارے لیے بہت ہی خوشی کی بات تھی۔ اب جب بھی حضرت میاں صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ اپنی بیٹی کے پاس تشریف لاتے تو ہمیں آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوجاتا۔ آپ دونوں بہت ہی شفیق اور دعاگو وجود تھے۔ جب بھی آپ سے ملاقات ہوتی،آپ ڈھیروں دعائیں دیتے اور قیمتی نصائح بھی فرماتے۔ خاکسار کو کئی بار آپ دونوں کو لندن اور بعض دوسرے مقامات پر اپنی کار میں لے جانے کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ آپ کو ہمیشہ ذکر الٰہی میں مصروف پایا۔آپ اکثر نصائح فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعودؓ کے گھروں کی مثالیں دیتے اور دلچسپ واقعات بھی سناتے۔ اکثر سفروں میں آپ خلفاء کے ساتھ گزرے ہوئے وقتوں کے ایمان افروز واقعات بھی سناتے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ایک دفعہ خاکسار کو حکم ملا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ کو ہارٹلے پول محترمی ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب اور محترمہ ساجدہ خان صاحبہ کے گھرسے لے کر لیک ڈسٹرکٹ کی سیر کروا کرباٹلے لے کر جانا ہے جہاں محترمی ڈاکٹر حامداللہ خان صاحب اور محترمہ صاحبزادی امۃالحئی بیگم صاحبہ رہائش پذیر تھے۔ صبح سات بجے کا وقت طے ہوا۔ بریڈفورڈ سے ہارٹلے پول چونکہ قریباََ ڈیڑھ گھنٹے کا سفر ہے اس لیے خاکسار نماز فجرکے بعد چائے وغیرہ پی کر پانچ بجے کے بعد گھر سے روانہ ہو گیا اور وقت مقررہ پر ہارٹلے پول محترمی ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچ گیا جہاںمحترمی ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے بڑے پیار سے استقبال کیا۔ خاکسار نے عرض کی کہ اگر تیار ہیں تو چلتے ہیں۔محترمی ڈاکٹر صاحب نے اصرار کیا کہ نہیں چائے پی کر نکلنا۔ حضرت میاں صاحب نے فرمایا یہ فجر کے وقت سے گھر سے نکلا ہو گا اور آگے بھی لمبا سفر ہے،اس کو ناشتہ دیں۔ خاکسار نے بہت کوشش کی کہ ان کو تکلیف نہ ہو اور ناشتہ نہ بنانا پڑے لیکن حضرت میاں صاحب نہیں مانے اور خاکسار کو ناشتہ کرنا پڑا۔ ناشتہ کرتے ہوئے محترمی ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب تو میزبان کی حیثیت سے حسبِ معمول خوب خیا ل رکھ رہے تھے لیکن حضرت میاں صاحب خود اٹھا اٹھا کر چیزیں خاکسار کے آگے رکھتے اور فرماتے یہ بھی کھائو۔ یہ حضرت میاں صاحب کی شفقت اور مہمان نوازی کا ایک ایسا پیارارنگ تھا جو خاکسار نے ہمیشہ ان میں قادیان قیام کے دوران بھی دیکھا۔ حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ٭… ناشتے کے بعد روانگی سے قبل محترمی ڈاکٹر صاحب نے خاکسار کو راستے سمجھائے کیونکہ یہ راستہ خاکسار کے لیے اس وقت نیا تھا۔ دوران سفر حضرت میاں صاحب خاکسار کا بہت خیال رکھتے۔اس سفر میں حضرت میاں صاحب، حضرت بیگم صاحبہ اور آپ کی دو بیٹیاں بھی شامل تھیں۔ ٭… حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی شخصیت بہت ہی شفیق،پیار کرنے والی اور ہمدرد تھی۔خاکسار نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ سے ذاتی اورقادیان کے حالات سے متعلق سوالات پوچھنے شروع کر دیے، آپ ہر بات کا جواب بہت تفصیل سے دیتے۔آپ کے اندر علم کا ایک خزانہ بھرا ہوا تھا۔ آپ تاریخ اسلام سے بہت دلچسپ واقعات سناتے، ہندوستان کے بادشاہوں کے واقعات اور تاریخ احمدیت سے ایمان افروز واقعات سناتے۔ اکثر تا ریخ میں سے دلچسپ مگر سبق آموزلطائف بھی بیان فرماتے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ٭… آپ کو بےشمار احمدی خاندانوں کا شجرۂ نسب معلوم تھا اور کسی احمدی کا اگر ذکر ہوتا تو آپ فوراََ ان کے آباؤاجداد کے حالات اور واقعات بھی بتادیتے حتیٰ کہ قادیان اور گردونواح کے سکھوں اور ہندوئوں کے آباؤاجداد کا بھی خاصاعلم تھا۔ ٭… آپ ہر سفر کے دوران خصوصی طور پر قادیان سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کا خاص خیال رکھتے اور ان کے رشتہ داروں کو ملنے کی ضرور کوشش فرماتے۔ مکرم منور نوری صاحب اور پرتاب سنگھ باجوہ کے ساتھ(جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۵ء) ٭… یوکے میں اسلام آباد ابھی نیا نیا لیا تھا اور جلسہ سالانہ کی تیاریاں پورے زوروں پر تھیں۔ حضرت میاں صاحب یوکے پہنچ چکے تھے اور اسلام آباد دیکھنے کے لیے آئے ہوئے تھے اور اکیلے ہی چل پھر کر مختلف جگہوں کو دیکھ رہے تھے۔ خاکسار ان دنوں نائب افسر خدمت خلق تھا اور جلسے سے ایک ہفتہ پہلے وقار عمل کی غرض سے اسلام آباد پہنچ کر کام کر رہا تھا۔ ہم ایک جگہ کھود کر لکڑی کا ایک ٹکڑا لگانے کی کوشش کررہے تھے۔ خاکسار اکیلا ہی آری لے کر اس ٹکڑے کو کاٹنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک حضرت میاں صاحب وہاں پہنچ گئے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا کر رہے ہو؟ خاکسارنے بتایا کہ اس لکڑی کو کاٹ کر یہاں لگانا ہے۔ حضرت میاں صاحب فوراََ خاکسار کے ساتھ لکڑی کو پکڑ کر مدد کرنے لگے۔ خاکسار نے باربار درخواست کی کہ آپ بزرگ ہیں، آپ چھوڑ دیں، میرے ساتھی ابھی آجائیں گے اور میری مدد کریں گے لیکن وہ نہیں مانے اور فرمانے لگے کہ میں لکڑی کو پکڑتا ہوں تم اس کو کاٹو۔ ٭… ایک دفعہ قادیان میں خاکسار اور مکرم منور نوری صاحب مرحوم حضرت میاں صاحب سے دارالمسیح میں ملنے گئے۔ محترمی نوری صاحب سے حضرت میاں صاحب بہت شفقت فرماتے تھے۔ انہوں نے حضرت میاں صاحب سے عرض کی کہ کسی دن شکار کا پروگرام بناتے ہیں کیونکہ باری بھی شکار کا شوقین ہے، باتوں باتوں میں شاعری کا ذکر چل نکلا تو نوری صاحب نے کہا کہ باری کو شاعری سے بھی دلچسپی ہے، حضرت میاں صاحب نے بڑی خوبصورت مسکراہٹ دیتے ہوئے فرمایا نوری صاحب آپ تو ہر لفظ ’’ش‘‘ سے باری کی دلچسپی بتارہے ہیں، شکار بھی، شاعری بھی، پھر تو ان کو ’’شادی‘‘ سے بھی بڑی دلچسپی ہو گی۔ ٭ …جب کبھی ہمیں قادیان جانے کا اعزاز حاصل ہوتا تو ہم حضرت میاں صاحب سے ملنے دارالمسیح جاتے، حضرت میاں صاحب بڑے پیار اور شفقت سے ہمیں اور بچوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرکات دکھاتے اور ہر تبرک کے تعلق میں کوئی تاریخی واقعہ بھی بیان فرماتے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں بلند ترین مقام عطا فرمائے۔ آمین محترمی پروفیسرڈاکٹر عبدالسلام صاحب محترمی جناب پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اس دَور کے سب سے بڑے مسلمان سائنسدان تھے جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۹۷۹ء میں فزکس میں نوبیل انعام دیا گیا۔ آپ کا شمار دنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ دنیا آپ کی ریسرچ اور سائنسی دریافتوں سے آپ کی وفات کے بعد بھی آج تک فائدہ اٹھا رہی ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے درجنوں ممالک نے اپنے ممالک کے دوروں کی دعوت دی اور اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا۔ پروفیسرڈاکٹر عبدالسلام صاحب آپ ایک غیور احمدی اور محبِ وطن پاکستانی تھے۔ باوجود انتہائی مخالفت کے آپ نے آخر دم تک اپنے وطن کا نام روشن کرنے اور وطن کی خدمت کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ آپ کی انتھک کوششوں کی برکت سے آج بھی بے شمار مسلمان اور دوسرے طلبہ اٹلی میں آپ کے قائم کردہ سینٹر میں اور دوسری جگہوں پر سائنس میں اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں اور ریسرچ کا کام بھی کر رہے ہیں۔ ٭… خاکسار کی آپ سے پہلی ملاقات کالج کے زمانہ میں ربوہ میں اس وقت ہوئی جب آپ ڈگری کالج کے افتتاح کے موقع پر ربوہ تشریف لائے۔ آپ سے ملنے کا ہر طالبعلم کو شوق تھا۔ آپ نے بڑی شفقت سے ہر ایک کو ملاقات کا شرف دیا اور بڑی محبت سے بات چیت کی۔ مکرم محمود احمد صاحب بنگالی کے ساتھ پروفیسرڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے ساتھ(ربوہ،دسمبر۱۹۸۳ء) ٭… جلسہ سالانہ ربوہ۱۹۸۳ء کے موقع پر خاکسار کی ڈیوٹی محترمی محمود احمد صاحب بنگالی صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ساتھ تھی۔ ہمارے ساتھ ایک خادم بابر سندھی بھی تھے جو اپنی جیپ چلایا کرتے تھے۔ ہم اکثر دن کے وقت حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے قافلے کے آگے چلتے تھے اور شام کو محترمی صدر صاحب کے حکم کے مطابق دوسری ڈیوٹیاں کرتے تھے۔ ایک دن محترمی صدر صاحب نے حکم دیا کہ آج شام آپ نے صدرانجمن احمدیہ کے گیسٹ ہائوس میں جانا ہے، وہاں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا قیام ہے۔اُن سے وقت لیا ہوا ہے۔ان کا انٹرویو ریکارڈ کرنا ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ ہم وقت مقررہ پر گیسٹ ہائوس پہنچ گئے۔ محترمی ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بھی وقت پر پہنچ گئے۔کچھ دیر کے لیے اپنی رہائش گاہ میں گئے۔پھر باہر آ ئے، آپ کے ساتھ آپ کا چھوٹا بیٹا بھی تھا جو اس وقت شاید دس گیارہ سال کا ہو گا۔ آپ ہم سے پوچھنے لگے کہ آپ لوگوںکے پاس کتنا وقت ہے؟ ہم نے عرض کی کہ آپ کے لیے ہمارے پاس تو بہت وقت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں آج سارا دن بہت مصروف رہا ہوں اور اس بچے کو وقت نہیں دے سکا۔ اس کی ضد ہے کہ میں اس کے ساتھ شطرنج کھیلوں، مجھے تھوڑا سا وقت دیں تاکہ میں اس کے ساتھ کچھ دیر کھیل سکوں۔ چنانچہ آپ واپس اپنی رہائش گاہ میں چلے گئے اور کافی دیر تک اپنے بیٹے کے ساتھ شطرنج کھیلنے کے بعد باہر تشریف لائے۔ یہ ہمارے لیے بڑا سبق تھا کہ آپ باوجود اپنی بےانتہا مصروفیات کے اپنے بیٹے کی خواہشات کا کس طرح خیال رکھ رہے تھے۔ خاکسار کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اُس شام نہ صرف آپ کے ساتھ وقت گذارنے کا شرف حاصل ہوا، آپ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اس عظیم انسان کے ساتھ چند تصاویر بنوانے کا بھی موقع مل گیا۔الحمد للہ۔یہ یادگار تصاویر آج بھی خاکسار کی فوٹو البم کی زینت ہیں۔ ٭…بعد میں آپ سے اکثر لندن میں ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ آپ ہمیشہ بہت ہی شفقت سے پیش آتے اور ربوہ کی ملاقات کا ذکر فرماتے۔ محترمی صاحبزادہ مرزا منیر احمدصاحب محترمی صاحبزادہ مرزامنیر احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے،صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے صاحبزادے اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے سمدھی تھے۔ حضورؒ کی ہجرت کے بعد آپ قریباََ ہر سال لندن تشریف لاتے اور کچھ عرصہ یہاں قیام فرماتے، جلسہ سالانہ میں شمولیت فرماتے۔ آپ بہت ہی سادہ اور نفیس طبیعت کے مالک تھے۔ لندن قیام کے دوران آپ سے اکثر ملاقات کا شرف حاصل ہوتا۔ آپ بڑی خوبصورتی سے پنجابی میں بات کرتے۔ اکثر آپ ہمارے پاس کچھ دیر کے لیے بیٹھ جاتے اور ہماری حوصلہ افزائی فرماتے۔ اسلام آباد میں جلسہ سالانہ کے ایام میں بھی آپ ضرور کچھ وقت نکال کر ہمارے پاس تشریف لاتے اور ہمارے لیے یہ بات انتہائی خوشی کا باعث ہوتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے صاحبزادے اور حضرت خلیفۃالمسیح کے سمدھی نہایت شفقت سے ہم خدام کے پاس تشریف فرما ہوتے ہیں۔ حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ سبز پگڑی والے آپ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی ہدایت پر یوکے جلسہ سالانہ پرانگلستان تشریف لائے اور مختلف جماعتوں میں جا کر احباب جماعت کو ملاقات کا شرف عطا فرمایا۔ خاکسار کی یہ خوش قسمتی ہے کہ آپ ہمارے گھر بھی تشریف لائے اور کچھ دیر تشریف فرما رہے۔خاکسار ان کو برمنگھم چھوڑنے کے لیے گیا۔ حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ ٭… خاکسار نے خاص طور پریہ بات دیکھی کہ آپ کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی محبت اور عقیدت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ٭… آپ کو ہر وقت یہ فکر رہتی تھی کہ کہیں نماز کا وقت نہ گزر جائے۔یہاں تک کہ سفر کا پروگرام بھی اِس طرح تیار کرنے کا فرماتے کہ نمازکہیں آرام سے اداکر کے سفر پر روانہ ہو سکیں۔ سارا وقت ذکر الٰہی میں گذارتے۔ سبحان اللہ۔ مسیح پاک علیہ السلام اور آپؑ کے صحابہؓ کی صحبت نے کیا نیک اثر چھوڑا ہواتھا۔ حضرت مرزا عبدالحق صاحب بریڈفورڈ جماعت میں محترمی جناب مولانا نسیم احمد صاحب باجوہ جتنا عرصہ بطور مربی سلسلہ خدمات سرانجام دیتے رہے ان کی وجہ سے حضرت مرزا عبدالحق صاحب ضرور بریڈفورڈ تشریف لاتے اور چند دن یہاں گذارتے۔آپ کی ذات بھی ہمارے لیے ایک نشان تھی، باوجود پیرانہ سالی کے آپ ہر وقت بڑے سرگرم رہتے اور عبادات کا خاص طور پر بڑا خیال رکھتے، عبادات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آنے دیتے۔ ٭… ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ ایک دفعہ آپ ہمارے گھر ٹھہرے۔ ایک دن ہم ان کے کمرہ میں اس خیال سے کہ بزرگ ہیں شاید تیار ہونے کے لیے ان کو کچھ وقت درکار ہو ذرا تاخیر سے گئے تو دیکھا کہ ہمارے چھوٹے بیٹے کو ساتھ کھڑا کرکے نماز شروع کرچکے تھے۔ نماز کے بعد فرمانے لگے کہ پچاس سال سے زائد عرصے سے میں نے کبھی بھی اکیلے نماز نہیں پڑھی۔اسی لیے اپنے ڈرائیور کو ساتھ ہوائی جہاز کے سفروں میں بھی رکھتا ہوں تاکہ میری نماز باجماعت ہوجائے۔ سبحان اللہ حضرت مرزا عبدالحق صاحب ٭… ایک دفعہ خاکسار نے بی بی سی ٹیلیویژن پر ان کا انٹرویو کروایا۔رپورٹر بریڈفورڈ آئی اور درخواست کی کہ ہم سٹی سینٹر چلتے ہیں جہاں بریڈفورڈ کی تاریخی عمارات ہیں۔وہاں فلم بنائیں گے۔حضرت مرزا صاحب چل پڑے۔وہاں پہنچ کر رپورٹر نے آپ سے درخواست کی کہ آپ کچھ دُور چلیں تاکہ میں کچھ فلم ریکارڈ کر لوں۔ حضرت مرزا صاحب اتنا تیز چلے کہ ہم آپ کے ساتھ نہ رہ سکے۔اس سے رپورٹر اتنا متاثر ہوئی کہ اس نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ نوّے سال سے زیادہ عمر کے باوجود یہ اب بھی اتنی چستی سے چلتے ہیں۔ آپ نے اس کو بتایا کہ آپ چند سال پہلے تک سرگودھا میں اپنے گھر کے لان میں باقاعدہ روزانہ ٹینس کھیلتے تھے اورصبح کے وقت روزانہ چند میل پیدل چلتے ہیں۔رپورٹر نے کہا کہ آپ نے تو ہم جوانوں کو شرمندہ کر دیا ہے۔ بی بی سی ٹیلیویژن انٹرویو میں جب رپورٹر نے آپ سے سوال کیا کہ آپ کی لمبی زندگی کا راز کیا ہے؟آپ کا جواب تھا آدھی رات کے بعد کی ورزش،اس نے حیران ہو کر پوچھا آپ آدھی رات کے بعد ورزش کرتے ہیں۔آپ نے فرمایا میں روزانہ آدھی رات کے بعد اُٹھ کر اپنے اللہ کے حضور جھک کرعبادت کرتا ہوں، نماز تہجد ادا کرتا ہوں جو کئی گھنٹوں تک کی ہوتی ہے، یہی میری ورزش ہے اور یہی میری لمبی عمر کا راز ہے۔ آپ کے انٹر ویوکے دوران بریڈفورڈ شہر میں بہت سے انگریز اور ایشیائی افراد آپ کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔انٹرویو کے بعد بعض مسلمان خواتین آپ کے پاس آکر آپ کے ہاتھ چوم کر کہنے لگیں، باباجی ہمارے لیے ضرور دعا کریں۔ یہ نظارہ ٹی وی پر رپورٹ کے دوران بھی دکھایا گیا۔ ٭… ایک دفعہ احبابِ جماعت سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ ایک دفعہ آپ امریکہ میں علیل ہو گئے تو ڈاکٹروں کو ایک چھوٹا سا آپریشن کرنا پڑا۔ آپریشن کے بعد ڈاکٹروں نے بڑی حیرانی سے ان کو بتایا کہ باوجود اتنی عمر کے آپ کے پیٹ کے اندرتمام Organs اسی طرح ہیں جیسے ایک چھوٹے بچے کے ہوتے ہیں۔ ٭… آپ کھانے میں ہر چیز تھوڑی سی مقدار میں چکھتے ضرور تھے۔مثلاََ اگر سیخ کباب بنے ہیں تو آدھا کباب کھائیں گے۔فرماتے تھے یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں ان کو ضرور چکھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ٭… آپ بتاتے تھے کہ ساری عمر آپ نے روزانہ خدمتِ دین اور عبادات کو اپنے دنیاوی کاموں پر ترجیح دی ہے۔ جب آپ وکالت کی پریکٹس کرتے تھے تو روزانہ چند گھنٹے وکالت کرنے کے بعد اپنے دینی فرائض میں مصروف ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی ان کو کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی۔سبحان اللہ۔ (ڈاکٹر عبدالباری ملک ایم بی ای۔ بریڈفورڈ یوکے) ٭…٭… (جاری ہے)…٭…٭