(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍نومبر ۲۰۲۱ء) کینیڈا کی ایک مجلس کی صدر کہتی ہیں کہ سیکرٹری تحریک جدیدنے بجٹ کو پورا کرنے کی تحریک کی تو نادہندگان ممبرات کے بقایا جات کے ٹوٹل جب دریافت کیے گئے تو وہاں کے لحاظ سے وہ 325 ڈالر کی ایک معمولی رقم تھی۔ کہتی ہیں میں نے سوچا کہ میں اپنے پاس سے ہی ادا کر دیتی ہوں لیکن جب میں نے بنک اکاؤنٹ دیکھا تو وہاں تو کوئی رقم نہیں تھی بلکہ مائنس میں اکاؤنٹ تھا۔ تین ڈالر زائد خرچ ہوئے ہوئے تھے لیکن کہتی ہیں اگلے دن جب میں نے اکاؤنٹ چیک کیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میرے اکاؤنٹ میں تین ہزار ڈالر سے بھی کچھ زائد رقم تھی۔ کہتی ہیں کہ یہ وہ رقم تھی جو بہت عرصہ سے pendingتھی اور اس کے ملنے کی بھی کوئی صورت نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب یہ نیت دیکھی کہ میں بقایا ادا کرتی ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اس کی ادائیگی کے سامان پیدا کردیے اور فوری طور پر وہ رقم جو کافی عرصہ سے pendingتھی وہ مل گئی۔ پھر ساؤتھ افریقہ سے ایک دوست شاہین صاحب کہتے ہیں کہ میں نے تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی کی اور اپنے بنک اکاؤنٹ میں موجود آدھی رقم اس مدّ میں دے دی۔ کہتے ہیں یہ کوئی بڑی رقم نہیں تھی مگر ان کو مدنظر یہ تھا کہ تحریک جدید کی ادائیگی کا یہ آخری مہینہ ہے۔ اگر اب چندہ نہ دیا تو پھر موقع ملے یانہ ملے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ ادائیگی کر دی اور کہتے ہیں اسی دن ان کے والد صاحب بھی انہیں ملنے آئے اور انہوں نے کہا کہ انہوں نے کچھ رقم ٹرانسفر کی ہے جو انہیں مل جائے گی اور ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ شاہین صاحب کہتے ہیں جو رقم ان کے والد صاحب سے ملی وہ چندہ تحریک جدید میں دی گئی رقم سے بیس گنا زیادہ تھی۔ چنانچہ انہوں نے والد صاحب سے ملنے والی اس رقم پر پھر چندہ ادا کر دیا اور پھر کہتے ہیں کہ جب میں نے کہا کہ میری آمد بڑھ گئی اور مجھے کہیں سے رقم اللہ تعالیٰ نے دے دی جہاں سے مجھے امیدنہیں تھی پھر جب چندہ ادا کیا تو اسی دن شام کو ان کے کام کی جگہ سے مالکن کا فون آیا کہ تم اگر خواہش رکھتے ہو تو ہم تمہیں دبئی میں ایک نوکری دینا چاہتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے ہاں کر دی اور اس طرح ان کو بیرون ملک میں ایک بہت اچھے روزگار کا بھی بندوبست ہو گیا۔ کہتے ہیں یہ دو واقعات اتفاقی نہیں ہیں بلکہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فضل محض چندہ دینے سے اور قربانی کرنے سے ہوا ہے۔ پھر آسٹریلیا کے مربی صاحب لکھتے ہیں کہ جماعت کے ایک ممبر بتاتے ہیں کہ انہوں نے چندہ دینے کا وعدہ کیا۔ ان کے مالی حالات ٹھیک نہیں تھے۔ وعدے کے مطابق جب چندہ ادا کیا تو دل میں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے توخدا تعالیٰ مجھے سو گنا بڑھا کر دے گا۔ اس طرح بھی بعض سوچ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک پلاٹ خریدا ہوا تھا جس کی ویلیو بڑھنے کی کوئی خاص امیدنہیں تھی لیکن چندے کی ادائیگی کے بعد کہتے ہیں کہ معجزانہ طور پر اس پلاٹ کا منافع سو گنا سے بھی زیادہ بڑھ گیا اور کہتے ہیں اس بات پر میرا پختہ یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مالی قربانی کو قبول کرتے ہوئے یہ فضل فرمایا۔ پھر مبلغ قزاخستان لکھتے ہیں کہ وہاں ایک لوکل مخلص احمدی علی بیگ صاحب ہیں۔ انہوں نے دس ہزار تینگے (Tenge)جو اُن کی کرنسی ہے تحریک جدید وغیرہ میں ادا کیے اور کہتے ہیں اس کے بعد میں کام پر چلا گیا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد کمپنی کے اعلیٰ افسر نے مجھے بلایا اور کہا کہ ہماری کمپنی کو اس دفعہ بہت منافع ہوا ہے۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پوری کمپنی میں سے تین لوگوں کو اچھا کام کرنے پر ایک لاکھ کا بونس دیں گے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس چندے کی وجہ سے دس گنا کر کے مجھے عطا کر دیا اور اس کی مجھے کوئی امیدنہیں تھی۔ پھر برمنگھم یوکے سے بھی ایک صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں میں نے اپنی فیملی کے ساتھ 2016ء میں بیعت کی تھی اور بیعت سے پہلے مالی حالات کافی خراب تھے اور قرض بھی بہت زیادہ تھا۔ جماعت میں آ کے جب اپنی حیثیت کے مطابق چندوں کی ادائیگی شروع کی بلکہ بعض دفعہ حیثیت سے بڑھ کر بعض تحریکات میں حصہ لینا شروع کیا تو کہتے ہیں بیعت کے ابتدائی ایام کا واقعہ ہے کہ میری اہلیہ کو ایک سکول کے پروگرام میں تبلیغی سٹال لگانا تھا، میں نے اپنے کام سے چھٹی لے لی تا کہ بچوں کو سنبھال سکوں۔ اس چھٹی کی وجہ سے سو پاؤنڈ کا نقصان ہونا تھا۔ اس وقت کے مالی حالات اچھے نہیں تھے اور ہمارے لیے یہ بہت بڑی رقم تھی۔ بہرحال کہتے ہیں کہ میں نے سوچ کر کہ اللہ تعالیٰ کے کام کے لیے چھٹی لینی ہے قربانی دینی چاہیے تو میں نے رخصت لے لی لیکن اللہ تعالیٰ نے کچھ اَور سوچ رکھا تھا۔ کہتے ہیں جب میری اہلیہ اپنا کام ختم کر کے گھر پہنچی ہیں تو میرے باس کا فون آیا کہ اگر ہو سکے تو ایک گھنٹے میں کام کی جگہ پہنچ جاؤ کیونکہ ایمرجنسی کام آگیا ہے۔ کہتے ہیں میں نے فوراً روانگی کی۔ اس دن صرف ایک گھنٹہ کام کیا اور پورے دن کے پیسے سو پاؤنڈ مل گئے۔ گھر آ کر میں نے اپنی اہلیہ کو بتایا۔ دونوں نئے نئے احمدی ہوئے تھے۔ کئی روز تک ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام پا کر خوش ہوتے رہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے۔ وکیل المال تحریک جدید قادیان کہتے ہیں: جماعت احمدیہ کرولائی صوبہ کیرالہ، انڈیا کے ایک دوست ہیں، بڑے صاحب حیثیت ہیں۔ اچھے کاروباری ہیں اور تحریک جدید کی ادائیگی میں غیر معمولی جوش بھی رکھتے ہیں۔ ہر سال بڑی خطیر رقم پیش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں اس سال کورونا کے حالات کی وجہ سے مالی وسائل ایسے نہیں تھے کہ بڑی رقم دے سکیں۔ حصہ آمد وغیرہ دوسرے چندوں کی ادائیگی تو کر دی لیکن تحریک جدید کی ادائیگی کے لیے گنجائش نہیں تھی۔ کہنے لگے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ چندے کی ادائیگی کی توفیق عطا فرماتا ہے ابھی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آ رہی لیکن بہرحال توکّل تھا کہ اللہ تعالیٰ ضرور انتظام کر دے گا تو میں ادا کروں گا۔ کہتے ہیں اختتام سے صرف دو دن پہلے دس لاکھ روپے کی بڑی رقم انہوں نے تحریک جدید میں پیش کی۔ کہتے ہیں جمعہ کے دن مربی صاحب نے خطبہ کے دوران چندہ تحریک جدید کی ادائیگی کی طرف پھر توجہ دلائی اور کچھ پرانے واقعات میرے خطبہ میں سے پڑھ کے ان لوگوں کو سنائے۔ بہت متاثر ہوا اور دس لاکھ کے بجائے تقریباً اٹھارہ لاکھ روپے کا چندہ پیش کیا اور اس کے بعد ان کو امید ہے کہ ایک پراجیکٹ جو سرکاری تھا وہ مل جائے گا اور یہ کہتے ہیں اگر وہ مجھے مل گیا تو تحریک جدید میں اَور بڑی رقم بھی ادا کروں گا۔ بہرحال امراء میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں میں ایسا طبقہ ہے جو قربانی کا جذبہ رکھتا ہے اور جو پیسے آتے ہیں تو چھپاتے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔