اسلام کی تعلیم دائمی، غیرمبدل اور ہر زمانہ کے لیے اسی طرح قابل عمل ہے جس طرح یہ آنحضورﷺ کے عہد مبارک میں قابل عمل تھی۔ کیونکہ اس تعلیم کو نازل کرنے والی ہستی روز اوّل سے قیامت تک، کائنات میں ہونے والے تمام تغیر و تبدل اور حالات و واقعات سے بخوبی واقف ہے۔ اور اسی ہستی نے اس تعلیم کی حفاظت کی بھی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ پرانے وقتوں میں تو اسلام کی تعلیم قابل عمل تھی لیکن اب چونکہ عورتیں ملازمت کرنے لگ گئی ہیں اور گھریلو ذمہ داریاں اٹھانے لگ گئی ہیں، اس لیے اب اسلام کی اس تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت پیدا ہو گئی ہے۔ ایک لغو اور نامناسب بات ہے۔ جہاں تک عورتوں کے صاحب جائیداد ہونے یا گھریلو ذمہ داریاں اٹھانے کی بات ہے تو یہ صرف اِس زمانہ سے ہی مخصوص نہیں۔ بلکہ پرانے زمانہ اور آنحضورﷺ کے عہد مبارک میں بھی عورتیں بڑی بڑی مالدار تھیں اور اپنے خاوندوں اور بچوں پر اپنے مال خرچ کیا کرتی تھیں، لیکن انہوں نے ایسا کبھی سوال نہیں اٹھایا کہ چونکہ ہم اپنے خاوندوں اور بچوں پر خرچ کرتی ہیں، اس لیے والدین کے ترکہ میں سے ہمیں مردوں کی طرح برابر کا حصہ ملنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک مالدار خاتون تھیں جنہوں نے شادی کے بعد اپنا سارا مال و دولت حضورﷺ کے سپرد کر دیا تھا۔ (تفسیر کبیر از علامہ فخرالدین الرازی زیر آیت نمبر۹ سورۃ الضحیٰ وَوَجَدَكَ عَآئِلًا فَأَغْنٰى)… یہ بات کہ چونکہ اب عورتیں ملازمت کرنے لگی ہیں، اس لیے گھریلو اخراجات کی ذمہ داری خاوند کی بجائے عورت کے سپرد ہو گئی ہے،بھی غلط بات ہے۔ اسلام کے نزدیک بیوی خواہ صاحب جائیداد ہو یا ملازمت کرتی ہو، بیوی بچوں کی رہائش، لباس اور خوراک وغیرہ کی ذمہ داری خاوند ہی پر عائد ہوتی ہے جسے وہ اپنی استطاعت کے مطابق ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ بیوی کی جائیداد یا اس کی آمد پر خاوند کا کوئی حق نہیں۔ ہاں خاوند کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ اپنے بیوی بچوں کے نان و نفقہ کا مناسب طور پر انتظام کر رہا ہو تو اس کی بیوی اس کی اجازت سے ہی ملازمت کر سکتی ہے۔ اگر خاوند بیوی کی ملازمت پر راضی نہ ہو تو اسلام نے خاوند کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ملازمت کرنے سے روک سکتا ہے۔لیکن اگر بیوی اپنے خاوند کی اجازت اور مرضی سے ملازمت کرتی ہے تو بیوی کی تمام تر آمد پر بیوی کا ہی حق ہو گا، خاوند کو اس کی آمد پر کسی قسم کا تصرف حاصل نہیں ہوگا۔ اسلام نے میاں بیوی کے حقوق و فرائض کا ہر موقع پر خیال رکھا ہے۔ چنانچہ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کی تقسیم میں گھر سے باہر کی تمام تر ذمہ داریوں کی ادائیگی اور بیوی بچوں کے نان و نفقہ کی فراہمی وغیرہ اللہ تعالیٰ نے خاوند کے سپرد کی ہے اور گھریلو ذمہ داریاں (جن میں گھرکے مال کی حفاظت، خاوند کی ضروریات کی فراہمی اور بچوں کی پرورش وغیرہ شامل ہیں) اللہ تعالیٰ نے بیوی کو سونپی ہیں… (بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۶۴، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۸؍نومبر ۲۰۲۳ء) مزید پڑھیں: قناعت تمہیں شکرگزار بندہ بنا دے گی