دنیا بھر میں بے شمار دن اور تہوار منائے جاتے ہیں۔ ہر مذہب اور قومیت کے لوگ سال کے کچھ دنوں کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ اس دن کچھ خاص کام کرتے ہیں۔ کچھ مخصوص کھانے تیار کیے جاتے ہیں۔ عبادات بجا لائی جاتی ہیں۔ خصوصی ملبوسات بنوائے جاتے ہیں ایک ایسا ہی خاص دن ہے جسے شمالی امریکہ میںThanksgiving Day کہا جاتا ہے۔ یعنی شکر گزاری کا دن۔Thanksgiving Day کی ابتدا سترھویں صدی میں شمالی امریکہ میں اُس وقت ہوئی جب یورپ سے آنے والے آباد کاروں نے پہلی بار مقامی لوگوں کی مدد سے اپنی فصلیں کاٹیں۔ اور اس سے ان کو بڑے پیمانے پر فائدہ حاصل ہوا تو اس موقع پر انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا اور ایک بہت بڑی ضیافت کا اہتمام کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایت قومی تہوار میں ڈھل گئی اور اب۱۳ /اکتوبر کو امریکہ اور کینیڈا میں اسے بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کی خصوصیت یہ ہے کہ خاندان اکٹھے ہوتے ہیں۔ کھانے کا اہتمام کرتے ہیں اور اجتماعی طور پر نعمتوں کا شکر بجا لاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو کھانے کی دعوت دی جاتی ہے اور خاندان والے ایک ساتھ بیٹھ کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ان نعمتوں کے لیے جو ان کو حاصل ہوئی ہیں۔اسلام کے تناظر میں دیکھا جائے توThanksgiving کا فلسفہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔ اسلام نے انسان کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ ہر لمحہ خدا کا شکر ادا کرے اور اپنی نعمتوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹے۔ ہماری پانچ وقت کی نمازیں اس شکر گزاری کا عملی نمونہ ہیں اور اس میں پڑھی جانے والی سورت فاتحہ جس کی ابتدا ہی الحمدللہ یعنی شکر گزاری سے ہے۔ ہمارے دین میں تو چھینک آنے پر، کھانا ختم کرنے پر، ہراچھا کام کرنے پر اور ہر بد کام کے بد انجام سے بچنے کے لیے الحمدللہ کہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کتاب رحمان میں فرماتا ہے:وَاِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکُمۡ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَلَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ(ابراہیم:۸)اور جب تمہارے ربّ نے یہ اعلان کیا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔ہمارے لیے تو ہماری زندگی کا ہر ایک لمحہ ہی اس رحمان و رحیم ذات کا شکر اداکرنے میں گذرےتب بھی کم ہے، جس نے ہمیں بن مانگے اتنی نعماء سے نوازا اور مانگنے پر بھی کبھی مایوس نہیں کیا۔ خود بارہا فرمایا کہ مجھ سے مانگومَیں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔ ہماری ایک ایک سانس اس رب کی شکر گزار ہے اس لیےہمیں ایک دن منانے کی حاجت نہیں ہے ہمیں تو ہر روز ہی اپنے معبود حقیقی کی حمد و ثنا میں مصروف رہنا چاہیے۔ہمارے لیے شکر گزاری کا بہترین نمونہ ہمارےنبی کریمﷺ کےاسوہ حسنہ میں ہے۔ایک احمدی اپنے مقصد پیدائش کو پہچانے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے پھر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے۔ اپنے آپ کو اُس اسوہ کے مطابق چلانے کی کوشش کرے جو ہمارے سامنے ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا ہے۔ آپﷺ کی عبادتوں کا یہ حال تھا کہ عبادت کرتے کرتے (روایات میں آتا ہے کہ) آپﷺ کے پاؤں سوج جاتے تھے اور یہ عرض کرنے پر کہ یا رسول اللہ آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ فرماتے، کیا میں خدا تعالیٰ کا عبد شکور نہ بنوں ؟ (صحیح البخاری کتاب التفسیر )مزید روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے دن بھر کے فضلوں کو یاد کرتے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے اور فرماتے کہ تمام حمد اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ جس نے مجھ پر فضل و احسان کیا۔ مجھے عطا فرمایا اور مجھے بہت دیا۔ (مسند احمد بن حنبل، جلد ۲ صفحہ ۴۹۵، مسند عبداللہ بن عمر حدیث ۵۹۸۳، دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۸ء ) ؎ کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاسوہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار( درثمین) بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے بارہا اللہ تعالیٰ کے عبدشکور ہونے کا حق ادا کیا اور اپنی تمام زندگی اپنے خالق حقیقی کا شکر ادا کرتے گزاری اور اپنی جماعت کو بھی اس کی تلقین کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں :’’ تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے…اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو۔ کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا۔ ‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۹، ایڈیشن،۲۰۰۳ء )پس تقویٰ اور شکر گزاری کا آپس میں نہایت گہرا تعلق ہے۔ متقی ہر حال میں عسر ہو یا یسر ہو راضی برضا رہتا ہے۔وہ جس حال میں رکھا جائے اسی پر صبر شکر کرتا ہے۔ جس کے انعام میں اسے مزید نوازا جاتا ہے۔ اگر مومن پر آزمائش بھی آ جائے تب بھی اس کے صبر اور شکر گزاری اور راضی برضا رہنے کے نتیجے میں بہت جلد اس پر فضل الٰہیہوتا ہے اور دکھ سکھ میں مشکل آسانی میں بدل جاتی ہے۔حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:پھر شکر گزاری کے بھی کئی طریقے ہیں۔ اُن طریقوں کو ہمیشہ روزانہ اپنی زندگی میں تلاش کرتا رہے۔ ایک احمدی جو ہے، حقیقی مومن جو ہے وہ شکر گزاری کے ان طریقوں کو تلاش کرتا ہے۔ تو پھر دل میں بھی شکر گزاری کرتا ہے۔ پھر شکر گزاری زبان سے شکریہ ادا کر کے بھی کی جاتی ہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے یا کسی دوسرے کی شکر گزاری بھی کرتا ہے تو زبان سے شکر گزاری ہے۔ اور پھر اپنے عمل اور حرکت و سکون سے بھی شکر گزاری کی جاتی ہے۔ گویا جب انسان شکر گزاری کرنا چاہے تو اس کے تمام اعضاء بھی اس شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں یا انسان کے تمام جسم پر اس شکر گزاری کا اظہار ہونا چاہیے۔ اور اللہ تعالیٰ جب بندوں کا شکر کرتا ہے۔ یہاں شکر گزاری کا جو لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری انسان پر انعامات اور احسانات ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری جب انسان کرتا ہے تو ان باتوں کا اسے خیال رکھنا چاہیے کہ انتہائی عاجزی دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا جائے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ سے پیار کا اظہار کرنا اور اس کے پیار کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کو علم میں لانا۔ ہر فضل جو انسان پر ہوتا ہے اس کو یہ سمجھنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہ علم ہونا چاہیے کہ ہر نعمت جو مجھے ملی ہے وہ اللہ کے فضلوں کی وجہ سے ملی ہے۔ یہ احساس پیدا ہونا چاہیے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ پھر اس کے انعامات اور احسانات کا منہ سے اقرار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا، اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کی حمد سے اس کے ذکر سے تر رکھنا۔ پھر یہ بھی کہ اس کی مہیا کردہ نعمتوں کو اس رنگ میں استعمال کرنا جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے والی ہوں، جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ ان باتوں کے کرنے کے نتیجے میں پھر ایک شکر گزاری حقیقی رنگ میں شکر گزاری بنتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا اس کےنتیجے میں پھر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا یہ ہے کہ وہ اپنے ایسے شکر گزار بندوں کو مزید انعامات اور احسانات سے نوازتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اس طرح شکر گزار ہو گے تولَاَزِیدَنَّکُم میں تمہیں اور دوں گا، اس کو حاصل کرنے والے بنو گے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳ جولائی ۲۰۱۲ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ(پس ہمارے لیے تو ہر دن ہی تھینکس گیونگ کا دن ہے۔ ہمیں بطور احمدی مسلمان اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد رکھنا چاہیے۔ جس نے وقت کے امام کو پہچاننے اور اسے ماننے اور خلافت کی ڈھال کے پیچھے محفوظ رہنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو ہمیشہ اس نعمت کا شکر گزار بنائے رکھے۔ آمین مزید پڑھیں: ’’اپنی وفائوں، اپنی دعاؤں اور اپنے مولا کے حضور اپنے شکرگزاری کے جذبات کے اظہار سے، ا س کےفضلوں کی برستی بارش کو کبھی رکنے نہ دیں…‘‘