https://youtu.be/0n_S2VyHtsk تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام(قسط ۷۲) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص، پُرعزم اور پُرجوش صحابی حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ سلسلہ ا حمدیہ کے ابتدائی مؤرخ اور اوّلین صحافی تھےاوران کا قلم ہمیشہ رواں دواں رہتا تھا، وہ تبلیغ دین، اشاعت حق، اصلاح خلق اور خدمت اسلام کا ہر اہم ذریعہ بروئے کار لانے کے عملی طورپر قائل تھے۔ اسی ضمن میں انہوں نے اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایما او رمنشا کو ملحوظ رکھ کرمذکورہ بالا مختصر سا رسالہ یعنی موتیوں کی لڑی تیار کرکے شائع کیا تھا تا احمدی مستورات استفادہ کرسکیں۔ یہ رسالہ عام طور پر بہت زیادہ پسند کیا گیا اور احباب جماعت کی فرمائش تھی کہ مزید حصص بھی سامنے آئیں تو یہ سلسلہ تین حصوں تک جاری رہا۔ افادیت کے پیش نظر اس کتاب کے حصہ اوّل کے متعدد ایڈیشنز شائع ہوچکے ہیں،حصہ اوّل کا پانچواں ایڈیشن مارچ ۱۹۵۷ء میں احمدیہ کتابستان ربوہ نے افادہ عام کے لیے شائع کیا۔ کاتب کی خوبصورت لکھائی میں ۹۲ صفحات کی یہ کتاب تب ملک فضل حسین صاحب نے ضیاء الاسلام پریس ربوہ سے چھپوائی۔ سلک مروارید کے حصہ اوّل کے ایڈیشن اول کے عرض حال میں مصنف نے لکھا کہ’’یہ مختصر سا رسالہ بظاہر ایک قصہ کے طرز اور پیرایہ میں لکھا گیا ہے۔ لیکن چونکہ اس میں حقائق اور صحیح واقعات کا تذکرہ ہے، اس لئے میں نے ہرگز پسند نہ کیا کہ اس کو عام ناولوں اور قصوں کا رنگ چڑھاؤں۔ علاوہ بریں یہ رسالہ عورتوں کے لئے لکھا گیا ہے اس لئے یہ اور بھی ضروری امر تھا کہ میں تمام امور سے جو آج کل کے بیہودہ اور لغو قصوں کے لوازمات میں سے ہیں، اس کو پاک صاف رکھوں۔ پس خیالی اور فرضی امو رکا تذکرہ اس میں ہرگز نہیں ہے، اسی وجہ سے اگر کچھ پھیکا بھی ہو تو اعتراض کی بات نہیں ہے۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی اور یہ رسالہ مقبول ہوا تو میں اس سلسلہ میں ایسے ہی قصوں کے پیرایہ میں تربیت اولاد، امور خانہ داری، زنانہ مشنریوں کے ہتھکنڈوں سے آگاہ کرنے کےلئے ان شاء اللہ تعالیٰ بعض رسائل قوم کی خدمت کے لئے پیش کر سکوں گا۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ بہمہ وجوہ یہ رسالہ کامل نہ کہا جائے گا۔ لیکن مجھ کو حد سے زیادہ خوشی ہے کہ میں نے اپنے سید و مولیٰ حضرت مسیح موعودؑ کی پاک خواہش کے پورا کرنے میں اپنی استعداد کے موافق قدم مارنے کی کوشش کی ہے۔ اور خدا کا شکر ہے کہ اسی پاک خواہش کے نتیجہ میں یہ مختصر رسالہ تیار ہوگیا۔ جس کو میں قوم کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ‘‘ ہندوستان کے شہر سہارنپورمیں مقیم بتائے گئے ان دلچسپ کرداروں پر مشتمل اس رسالہ کے پہلے حصہ کا باب اول ’’نئی گنتی ‘‘یوں شروع ہوتا ہے: ’’جاڑے کا موسم ہے بی بی علم النساء بیگم ابھی مغرب کی نماز پڑھ کر وظیفہ کر رہی ہیں۔ ان کے بیٹے مرزا دانش دورے پر تھے۔ مثل مشہور ہے ’’مول سے بیاج پیارا‘‘ اس لئے اپنے ننھے منے پوتے اصغر کو بہت چاہتی تھیں۔ اصغر کی ایک بہن بھی تھی جس کا نام کلثوم تھا۔ بھائی بہن کا کوئی ڈیڑھ برس کا فرق تھا یعنی اصغر ابھی کوئی پونے پانچ برس کا ہوگا اور کلثوم کوئی سوا چھ ایک کی۔ کلثوم تو دادی سے ذرا ڈرا بھی کرتی تھی۔ کیونکہ اسی سے قرآن شریف پڑھا کرتی تھی۔ مگر یہ میاں مٹھو جس کو مدرسہ میں داخل کیا گیا تھا جب کبھی اس کے پاس آبیٹھتا تو کیا مجال جو دم بھر کے لئے چپ رہے۔ علم النساء بیگم کوئی عام دادیوں کی طرح نہ تھیں۔ بلکہ بڑی سمجھدار اور دوراندیش تھیں۔ اکثر باتوں ہی باتوں میں بہت کچھ سکھلاجاتی تھیں۔ یہی اصغر جب کبھی ان کے پاس آجاتا تو ایک آدھ نئی بات بتلا کر رہتیں۔ ساری نماز۔ آخری سورتیں۔ حضرت آدمؑ کے بہشت سے نکلنے کا قصہ۔ حضرت نوح ؑکے طوفان کا حال۔ حضرت ابراہیمؑ کی مہمان نوازی۔ حضرت اسماعیلؑ کی قربانی۔ حضرت یونسؑ کی داستان۔ حضرت یوسفؑ کا قصہ۔ حضرت موسیٰؑ کا ذکر۔ حضرت عیسیٰؑ کا واقعہ۔ حضرت محمدﷺ کی سوانح عمری اور اخلاق فاضلہ۔ اماموں کی سرگزشت اور جس قدر عمدہ اور مشہور باتیں تھیں کہانیوں کے پیرایہ میں دونوں بچوں کو یاد کرا رکھی تھیں۔‘‘ الغرض یہ دلچسپ کتاب جاری رہتی ہے اور مختلف النوع بحثوں اور علمی دلائل کو آسان پیرایہ میں بتاکر کہانی کے کرداروں کی زبانی احمدیہ علم الکلام کے بنیادی امور سے روشناس کرواتے ہوئے مصنف نے آخر ی صفحات میں بتایا کہ مسیح آخر الزمان علیہ السلام کی موعود آمد کی تمام پیش گوئیاں پورا ہونے پر جب کہانی کی ایک کردار ’’سلیمہ‘‘ مطمئن ہوجاتی ہے تو’’ فہمیدہ‘‘جو مقدم الذکر علم النساء بیگم کی بہواور کلثوم اور اصغر کی والدہ ہے،سلیمہ کو دس شرائط بیعت سے آگاہ کرتی ہے۔مزید لکھا کہ ’’فہمیدہ جوں جوں شرائط سناتی جاتی تھی سلیمہ کے دل پر ایک حقانیت کی چوٹ سی لگتی جاتی تھی۔ اور بےاختیار بول اٹھی۔…‘‘ (صفحہ ۸۹) اور یوں کہانی کے ایک اور کردار دانش بھائی کے آنے پر سلیمہ بیعت کا خط لکھ دیتی ہے اور اسے قادیان سے بیعت قبول ہونے کا خط آجاتا ہے۔ مصنف سلک مروارید کے حصہ اول کے آخر پر لکھتے ہیں کہ ’’اب وہ (سلیمہ) جو سہارنپور گئی تو اس کے اخلاق اور عادات کی خوبصورتی اور چمکتی ہوئی تبدیلی کا جو اثر ہوا وہ ہم دوسرے وقت سنائیں گے۔‘‘ سلک مروارید کے سلسلہ کا حصہ دوم ۹۲ صفحات پر مشتمل تھا اور دسمبر ۱۹۱۸ء میں مطبع انوار احمدیہ پریس قادیان سے چھپوایا گیا۔ ۱۹۱۸ء والا ایڈیشن جو طبع سوم تھا، ۴۰۰ کی تعداد میں شائع ہوا، جو اس کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ حصہ دوم کے پیش لفظ میں حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’… میں نہایت خوشی سے ظاہر کرتا ہوں کہ اس رسالہ کو عام طو رپر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی اشاعت میں مفید تسلیم کیا گیا۔ اور اکثر احباب نے مجھے اس کے دوسرے حصہ کی اشاعت پر متوجہ کیا مگر میں اپنی مصروفیات کہوں یا سستی کی وجہ سے اب تک دوسرے حصہ کی طرف توجہ نہ کرسکا۔ لیکن اب توفیق مل جانے پر میں اس قابل ہوگیا ہوں کہ دوسرا حصہ قوم کے سامنے پیش کروں۔ اگر یہ حصہ بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیااور مفید ثابت ہوا۔ تو میں سمجھونگا کہ میری محنت ٹھکانے لگی اور کیا عجب کہ فرصت اور موقع ملنے پر اس سلسلہ میں کچھ اور بھی لکھوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ رسالہ بطریق کہانی لکھا گیا ہے۔ لیکن اس کہانی کے ذریعہ اسلام کی عظمت اور سلسلہ عالیہ کی صداقت کو دکھا یا گیا ہے۔ اگر ہمارے گھروں میں بیہودہ اور بے معنی کہانیوں کی بجائے ایسی مفید کہانیوں کا سلسلہ جاری کیا جاوے۔ تو میں یقینا ًکہہ سکتا ہوں کہ ہمارے بچے اس سے پہلے کہ مدرسہ میں داخل ہوں بہت سی باتوں سے باخبر ہوجائیں۔ اس رسالہ کے ذریعہ سے مخالفین مذہب کے ساتھ گفتگو کرنے کا طریق بھی سکھانا مدنظر رکھا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس میں بیہودہ گوئی اور جذبات کو اپیل کرنے والے نظارے (جو آج کل کے لٹریچر کا جزو اعظم قرار دیئے گئے ہیں) نہیں ہیں۔ عین ممکن ہے یہ رسالہ پھیکا نظر آئے۔ مگر مجھے بحمداللہ یقین ہے کہ نیک دل اور خدا ترس لوگ اس کو پسند کریں گے۔ خدا کرے کہ جس غرض کے لئے یہ رسالہ لکھا گیا ہے وہ اس سے پوری ہو۔ آمین‘‘ اور سلک مروارید کے حصہ دوم کے باب اول کا آغاز کچھ یوں ہے کہ ’’دارالامان سے خط آئے ہوئے ایک ہفتہ سے زائد عرصہ گزر گیا ہے۔ سلیمہ محسوس کرتی ہے کہ اقرار بیعت کے دن سے اس کی حالت میں کچھ تبدیلی ہوچکی ہے۔ نمازوں میں رقت اور دعاؤں میں قبولیت کے آثار پیدا ہونے لگے ہیں۔ قرآن مجید کے ساتھ جو محبت اور اس کی تلاوت میں جو لذت اور تدبر کرنے کی عادت اب پیدا ہورہی ہے پہلے ہرگز نہ تھی۔ اس مجلس اور کنبہ میں (جو اب احمدی خاندان کہلاتا ہے) رہ کر اس کی طبیعت بہت خوش تھی۔ لیکن خدا تعالیٰ کا کچھ قانون اور آئین ہے جو شخص اس کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور اس کی طرف آتا ہے ضرور ہے کہ وہ اپنے صدق و وفا کے امتحان میں ڈالا جاوے…‘‘ سلک مروارید کا حصہ سوم بھی قریباً اسی قدر ضخامت پر مبنی تھا جس میں بطور خاص عیسائی مشن کی طرف سے مامور خواتین کے کردار کا خوب جائزہ لیا گیا ہے جو مسلمان گھرانوں میں اندر گھس کر مسلمان عورتوں سے بات چیت کرتیں اور چھپ کر گہرے وار کرنے میں مہارت رکھتیں، یہ عیسائی مشنری عورتیں مسلم معاشرے کی جڑیں کاٹنے جیساکام کرتیں اور مسلمان عورتوں کی ظاہری اور دینی تعلیم سے بے اعتنائی اور کمزوری کا خوب فائدہ اٹھایا کرتی تھیں۔ اس حصہ سوم میں امرتسر کی ایک عیسائی خاتون سکینہ اور ایک پادری کی بیوی جولیا وغیرہ کے کرداروں کا اضافہ ہوجا تا ہے۔ یوں یہ موتیوں کی لڑی یعنی سلک مروارید جو ایک مذہبی ناول کی صنف میں عمدہ کاوش ہے، اپنے دلائل اور انداز کی وجہ سے اپنے زمانہ میں خوب مقبول ٹھہرا۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے ایک موقع پر استعارات کو سمجھنے کی بجائے حقیقت قرار دینے والے کے ضمن میں ایک مثال دیتے ہوئے اس کتاب ’’سلک مروارید ‘‘ کا بھی ذکر فرمایا کہ بعض دفعہ لوگ استعارات کو سمجھنے کی بجائے حقیقت قرار دیتے ہیں۔فرمایا: ’’ہمارے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے ’’سِلکِ مروارید‘‘ نام سے ایک ناول لکھا ہے جس میں قصہ کے طور پر ایک عورت کا ذکر کیا ہے جو بڑی بڑی بحثیں کرتی اور مولویوں کا ناطقہ بند کر دیتی تھی۔ ہماری کاٹھگڑھ کی جماعت کے ایک دوست تھے انہوں نے یہ کتاب پڑھی تو ایک دفعہ جب کہ جلسہ سالانہ کے ایام تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا زمانہ تھا، دوستوں نے اُن سے پوچھا کہ کیوں بھئی! جلسہ پر چلو گے؟ انہوں نے کہا اب کے تو کہیں اَور جانے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے پوچھا کہاں جاؤ گے؟ تو پہلے تو انہوں نے نہ بتایا مگر آخر اصرار پر کہا کہ اِس دفعہ میرا ارادہ سہارنپور جانے کا ہے کیونکہ وہاں ایک بڑی بزرگ اور عاملہ عورت رہتی ہیں جن کا ذکر ’’سِلکِ مروارید‘‘ میں ہے اُن کی زیارت کا شوق ہے۔ (شیخ یعقوب علی صاحب نے ناول میں لکھا تھا کہ وہ سہارنپور کی ہیں) انہوں نے کہا۔ نیک بخت! وہ تو شیخ صاحب نے ایک ناول لکھا ہے جس میں فرضی طور پر سہارنپور کی ایک عورت کا ذکر کیا ہے یہ تو نہیں کہ سہارنپور میں واقعہ میں کوئی ایسی عورت رہتی ہے۔ وہ کہنے لگا۔ اچھا! تم شیخ یعقوب علی صاحب کو جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابی ہیں جھوٹا سمجھتے ہو۔ وہ کہنے لگے کہ اِس میں جھوٹا سمجھنے کی کیا بات ہے؟ وہ تو ایک قصہ ہے اور قصوں میں بات اسی طرح بیان کی جاتی ہے۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ پہلے تو اُسے ہماری بات پر یقین نہ آیا مگر جب ہم نے بار بار اُسے یقین دلایا تو کہنے لگا۔ اچھا! یہ بات ہے؟ مجھے قادیان پہنچنے دو۔ میں جاتے ہی حضرت صاحبؑ سے کہوں گا کہ ایسے جھوٹے شخص کو ایک منٹ کے لیے بھی جماعت میں نہ رہنے دیں فوراً خارج کر دیں۔ میں تو پیسے جمع کر کر کے تھک گیا اور میرا پختہ ارادہ تھا کہ سہارنپور جاؤں گامگر اب معلوم ہواکہ یہ سب جھوٹ تھا۔ اب اس بیچارے کے لیے یہی سمجھنا مشکل ہو گیا کہ ایسی عورت کوئی نہیں یہ ایک فرضی قصہ ہے جو اس لیے بنایا گیا ہے کہ تا وہ لوگ جو قصے پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ اس رنگ میں احمدیت کے مسائل سے واقف ہو جائیں۔‘‘ (فضائل القرآن نمبر ۶۔انوارالعلوم جلد ۱۴صفحہ۴۰۰۔۴۰۱)