https://youtu.be/6sURmlu1E1E جو شخص میرے ہاتھ سے جام پیئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہر گز نہیں مرے گا(حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ وہ اپنے برگزیدہ لوگوں کی سچائی مختلف زاویوں سے دنیا کو کھول کر دکھا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی انبیاء دنیا میں آئے ہیں سب کی صداقت اور سچائی کے لیے انواع و اقسام اور کثیر الجہت نشان اللہ تعالیٰ نے دکھائے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں مختلف طبائع کے لوگ ہوتے ہیں۔ مثلاً فلسفہ کا علم رکھنے والے انبیاء کی صداقت کو اپنے فلسفیانہ رنگ میں دیکھیں گے، تاریخ دان تاریخ کی چھاننی سے اس صداقت کو پرکھنے کی کوشش کرے گا، ایک سائنسدان سائنسی علم کی کسوٹی پر اس صداقت کو پرکھنے کی کوشش کرے گا اور ایک عام انسان کسی اور زاویے سے اس کو دیکھے گا۔ وعلی ھذا القیاس۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اسی بات کو یوں بیان فرماتا ہے کہ سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۔ (حٰمٓ السجدۃ:۵۴)پس ہم ضرور انہیں آفاق (تمام اطراف عالم )میں بھی اور خود ان کی جانوں (اور خاندانوں) میں بھی اپنے نشانات دکھائیں گے یہاں تک کہ اُن پر خوب کھل جائے کہ وہ حق ہے۔ اس آیت سے خوب ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات انواع و اقسام کے ہوتے ہیں تاکہ لوگ ان کو دیکھ کر ہدایت پاجائیں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ظہور پذیر ہوا۔ تورات کے ماننے والوں نے آپ کی صداقت تورات میں پائی۔ ستاروں کا علم رکھنے والوں نے ستاروں کی چالیں دیکھ کر آپ کی صداقت کو پہچان لیا۔ ورقہ بن نوفل نے پرانے انبیاء کی تاریخ دیکھ کر آپ کی بات کو سچ پایا۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ کے ساتھ گزرا ہوا زمانہ اور آپ کی نیکی و طہارت کو صداقت کی دلیل ٹھہرایا۔ اسی طرح مختلف صحابہ نے مختلف معیاروں کی بنا پر نبی کریم ﷺ کی صداقت کو پہچانا۔ اللہ تعالیٰ کا یہی دستور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بھی کارفرما رہا۔ احادیث نبویہ میں رسول اللہ ﷺ نے آنے والے مسیح و مہدی کی مختلف نشانیاں بیان فرمائی ہیں تاکہ ہر کوئی اپنی اپنی سہولت کو دیکھ کر ان نشانیوں کے مطابق آنے والے کو پہچان سکے۔ انہی نشانیوں میں سے مہدی کی ایک یہ نشانی بھی بیان فرمائی تھی کہ اس کے زمانہ میں عمریں لمبی کی جائیں گی۔ حضرت علیؓ سے مروی یہ روایت مختلف کتب میں بیان ہوئی ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ وَتُطَوَّلُ الْأَعْمَارُ وَتُؤَدَّى الْأَمَانَةُ وَتُهْلَكُ الْأَشْرَارُ…(لوامع الأنوار البھيّة وسواطع الأسرار الأثرية لشرح الدرة المضية في عقد الفرقة المرضية، للإمام محمد السفاريني الحنبلي، جلد ۲، صفحہ: ۷۶، الطبعة ۱۹۸۲ء)یعنی امام مہدی کے زمانہ میں عمریں لمبی کی جائیں گی اور امانتیں ادا کی جائیں گی اور شریر لوگ ہلاک کیے جائیں گے۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ وتطول الأعمار، وتؤدى الأمانة، وتحمل الأشجار، وتتضاعف البركات، وتهلك الأشرار، وتبقى الأخيار، ولا يبقى من يبغض أهل البيت، عليهم السلام۔ (عقد الدرر في أخبار المنتظر، يوسف بن يحيى بن علي المقدسي الشافعي السلمي، ۱؍۲۶۸، المكتبة المنار، اردن، الطبعة الثانية ۱۹۸۹ء)یعنی امام مہدی کے زمانہ میں عمریں لمبی کی جائیں گی اور امانتیں ادا کی جائیں گی اور درخت کثرت سے پھل دیں گے اور برکات کئی گنا بڑھا دی جائیں گی اور شریر لوگ ہلاک کیے جائیں گے اور نیک لوگ باقی رہیں گے اور کوئی ایسا شخص نہ رہے گا جو اہل بیت سے بغض رکھتا ہو۔ ان احادیث میں بیان ہوئی سب پیشگوئیاں موجودہ زمانہ میں اپنے اپنے رنگ میں پوری ہوئی ہیں۔ لیکن جس پیشگوئی کا ذکر خاص کر خاکسار اپنے اس مضمون میں کرنا چاہتا ہے وہ تُطَوَّلُ الْأَعْمَارُ ہے یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں عمریں لمبی کر دی جائیں گی۔ اس پیشگوئی کو کئی انداز سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک سے زائد زاویوں سے اگر صرف ان الفاظ کا ہی جائزہ لیں تو یہ صداقت حضرت مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام کی بہت بڑی دلیل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احادیث میں موجود روایات کی بنا پر اپنی صداقت کی ہزاروں نشانیوں میں سے اس ایک نشانی کا ذکر یوں فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: احادیث میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں عمریں لمبی ہوجائیں گی اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ موت کا دروازہ بالکل بند ہو جائے گا اور کوئی شخص نہیں مرے گا بلکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مالی ، جانی نصرت میں اس کے مخلص احباب ہوں گے اور خدمتِ دین میں لگے ہوئے ہوں گے ان کی عمریں دراز کر دی جائیں گی اس واسطے کہ وہ لوگ نفع رساں وجود ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۔ یہ امر قانونِ قدرت کےموافق ہے کہ عمریں دراز کردی جائیں گی ۔ اس زمانہ کو جو دراز کیا ہے یہ بھی اس کی رحمت ہے اور اس میں کوئی خاص مصلحت ہے۔ (الحکم جلد ۷ نمبر ۳۰ مورخہ ۱۷؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰ بحوالہ ملفوظات جلد ۵صفحہ ۲۲۳، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) ایک اور جگہ اس بات کا ذکر یوں فرمایا: حدیثوں میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت عمریں بڑھادی جاویں گی۔ اس کے معنی یہی مجھے سمجھائے گئے ہیں کہ جو لوگ خادمِ دین ہوں گے ان کی عمریں بڑھائی جاویں گی۔ جو خادم نہیں ہو سکتا وہ بڈھے بیل کی مانند ہے کہ مالک جب چاہے اسے ذبح کر ڈالے اور جو سچے دل سے خادم ہے وہ خدا کا عزیز ٹھہرتا ہے اور اس کی جان لینے میں خدا تعالیٰ کو تردد ہوتا ہے اس لیے فرمایا : وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۔ (الحکم جلد ۶ نمبر ۳۱ مورخہ ۳۱ ؍ اگست ۱۹۰۲ ء صفحہ ۸۔ ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۱۶۶، ۱۶۷، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) نیز فرمایا: میں تو بڑی آرزو رکھتا ہوں اور دعائیں کرتا ہوں کہ میرے دوستوں کی عمریں لمبی ہوں،تا کہ اس حدیث کی خبر پوری ہو جائے جس میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانے میں چالیس برس موت دنیا سے اٹھ جائے گی،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں جو نَافِعُ النَّاس اور کام کے آدمی ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت بخشے گا۔ (ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۲۷۸، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) اس حدیث کے ایک معنی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بیان فرمائے ہیں جیسا کہ مندرجہ بالا اقتباسات سے ثابت ہے وہ یہ کہ مسیح موعود اور اس کے اصحاب جو نافع الناس وجود ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کی عمروں میں غیرمعمولی اضافہ کردے گا۔ چنانچہ اس کا سب سے بڑا ثبوت تو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی حیاتِ مبارکہ ہے۔ باجوود اس کے کہ آپؑ کو ذیابیطس اور دورانِ سر کی بیماری لمبا عرصہ رہی ، اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی عمر میں غیر معمولی برکت عطا فرمائی اور اپنے الہام کے مطابق طویل عمر آپ علیہ السلام کو عطا کی۔ نہ صرف یہ کہ بیماریوں کے باوجود آپؑ اپنا کام آخری دم تک کرتے رہے بلکہ واللّٰہ یعصمک من الناس کے وعدہ کے مطابق شریروں کے شر، مخالفوں کے اقدام قتل کی کوششوں سے بھی آپؑ کو محفوظ رکھا۔ اسی طرح آپؑ کے اصحاب کو بھی اللہ تعالیٰ نے طویل عمروں سے نوازا۔ اس پیشگوئی کو اگر ایک دوسرے رنگ سے دیکھیں تو یہ پیشگوئی دراصل ان اصحاب احمدؓ پر بھی پوری ہوتی نظر آتی ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے نتیجہ میں لمبی عمریں پائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کی ایسی بیسیوں مثالیں جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں موجود ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور دواؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یقینی موت سے شفا دی اور خارق عادت لمبی عمر عطا فرمائی۔ حیدر آباد کے عبد الرحیم کا واقعہ ، سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب کا شفایاب ہونا اور ’آثار زندگی ‘کا الہام، نواب محمد علی خان صاحب کے لڑکے کا بیماری سے شفا پا جانے جیسے لا تعداد واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔ کیسے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کو قبول کرتے ہوئے ان اصحاب کو لمبی عمریں عطا فرمائی۔ آج بھی خلفاء مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے واقعات موجود ہیں کہ کیسے مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ، ان کے خلفاء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنوں اور غیروں کی زندگیوں میں برکت ڈالتا ہے۔ وہ بیماریاں جن کو ڈاکٹر اور ماہرین اپنے علم اورتجربہ کی بنا پر لاعلاج قرار دے دیتے ہیں اللہ تعالیٰ خلفاء مسیح موعود کی دعاؤں کے طفیل ان کو شفا بھی دیتا ہے اور لمبی عمریں بھی عطا کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنی دعاؤں کی قبولیت کے انہی نشانات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: وہ دعائیں جن کا اُوپر ذکر ہوا معمولی امور کے متعلق نہیں ہیں بلکہ ایک حصہ ان میں سے ان بیماروں کی شفا کے بارے میں ہے جن کی بیماری درحقیقت شدّتِ عوارض کی وجہ سے موت کے مشابہ تھی مگر خدا نے میری دُعا سے اُن کو اچھا کیا اور بعض دعائیں اُن لوگوں کے متعلق ہیں جو اولاد ہونے سے نومید ہوگئے تھے مگر خدا نے میر ی دُعا سے اُن کو اولاد دی۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد۲۳صفحہ۳۳۲) حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ میرا مذہب یہ ہے کہ کوئی بیماری لاعلاج نہیں ۔ ہر ایک بیماری کا علاج ہوسکتا ہے جس مرض کو طبیب لاعلاج کہتا ہے اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ طبیب اس کے علاج سے آگاہ نہیں ہے۔ ہمارے تجربہ میں یہ بات آچکی ہے کہ بہت سی بیماریوں کو اطباء اور ڈاکٹروں نے لاعلاج بیان کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے شفا پانے کے واسطے بیمار کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نکال دی بعض بیمار بالکل مایوس ہوجاتے ہیں۔ یہ غلطی ہے۔ خدا تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے اس کے ہاتھ میں سب شفا ہے۔ (ملفوظات جلد۸صفحہ ۲۹۹، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) تُطَوَّلُ الْأَعْمَارُ کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے آج کل کی طب اور سائنس کی نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ خاکسار نے اس بارے میں تھوڑی سی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک بہت بڑی پیشگوئی تھی جو میڈیکل سائنس کی ترقی کے ذریعہ آج مسیح موعود علیہ السلام کے دورِ مبارک میں پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی اس علامت کو جھٹلانا کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ احادیث میں تُطَوّلُ الْأَعْمَارُ کے الفاظ ہیں۔ یعنی عمریں لمبی کی جائیں گی۔ اور یہ عمومی رنگ میں بیان ہوا ہے۔ یعنی ہر کس و نا کس کو اس سے فائدہ ہوگا۔ گویا دوسرے لفظوں میں جیسے کسوف و خسوف وغیرہ کے نشان ساری دنیا نے دیکھے ایسے ہی ہر شخص یہ دیکھ لے گا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں لوگوں کی عمریں بڑھا دی جائیں گی۔ اور واقعةً ایسا ہی ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں میڈیکل سائنس نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ لوگوں کی عمروں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اور ہر آنے والا دن نئی ترقیات لے کر آتا ہے۔ ہر آنے والے دن میڈیکل سائنس ترقی میں ایک قدم آگے رکھتی ہے۔ ہر روز بیماریوں کے نئے سے نئے علاج سامنے آرہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دورِ بابرکات میں میڈیکل سائنس اس قابل ہوئی کہ بیماری کی تشخیص کے نئے سے نئے ذرائع سامنے آنے لگے اور علاج معالجے میں سہولت ہونے سے لوگوں کو بیماریوں سے شفا ہونے لگی اور عمریں بڑھنے لگیں ورنہ اس سے قبل تو اکثر لوگ بیماریوں کی تشخیص نہ ہونے سے ہی اس دنیائے فانی سے کوچ کر جاتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے قبل بہت سی ایسی بیماریاں تھیں جن کو لاعلاج تصور کیا جاتا تھا۔ مثلاًتپ دق یا ٹی بی کی بیماری اُس زمانہ میں تقریباً لا علاج تھی۔ اگر کوئی شخص اس بیماری میں مبتلا ہو جاتا تھا تو سمجھا جاتا تھا کہ اب آہستہ آہستہ یہ شخص اپنی موت کی طرف گامزن ہے۔ اس کا کوئی مکمل علاج موجود نہ تھا۔ لیکن بعد ازاں اس بیماری کی دوائیاں ایجاد ہوئیں حتٰی کہ آج کے زمانہ میں اس بیماری کا مکمل علاج موجود ہے اور کوئی اس کو جان لیوا بیماری شمار نہیں کرتا۔ یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ ایسی سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ آج کل کے دور میں اکٹھے کیے ہوئے اعداد و شمار سے بآسانی معلومات لی جا سکتی ہیں کہ کیسے لوگوں کی عمریں بڑھ گئی ہیں۔ اور یہ فعل صرف ہندوستان تک محدود نہیں رہا بلکہ ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کے زمانہ کی اس پیشگوئی کو روز روشن کی طرح پورا کر کے دکھلا دیا ہے حتی کہ افریقہ کا غیر ترقی یافتہ علاقہ بھی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا مصداق ہے۔ اس مضمون میں خاکسار اعدادوشمار سے یہ بات ثابت کرے گا کہ کیسے یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے قبل اور پھر اس کے بعد کے اعدادو شمار کا جائزہ لیتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم یہ دیکھیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ سے قبل لوگوں کی اوسط عمر کیا تھی اور بعد میں کیا ہو گئی اور آج کیا ہے تو حیران کن نتائج سامنے آتے ہیں۔ انگریزی میں اس کو life expectancy کہتے ہیں۔ اوسط عمر سے مراد کسی ملک، خطے یا گروہ کے لوگوں کی اوسط عمر ہے جو ان کی اوسط متوقع عمر کو ظاہر کرتی ہے۔ اوسط عمر کا تعین کرنے کے لیے پیدائش کے اعداد و شمار، موت کی شرح اور زندگی کے دیگر اہم عوامل کا تجزیہ کیا جاتا ہے ۔ ۱۸۵۰ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ سے قبل ہندوستان میں اوسط عمر۲۵ سے ۲۷؍سال تھی۔ یعنی ایک شخص جو اس زمانہ میں پیدا ہوتا تھا ، اس زمانہ کے حالات اور اس علاقہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور بیماریوں کو سامنے رکھا جائے تو وہ شخص عموماً ۲۵؍سے ۲۷؍سال کی عمر پاتا تھا۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ ہر بندہ اتنے سال میں فوت ہو جاتا تھا بلکہ یہ مراد ہے کہ بہت سے لوگ لمبی عمر بھی پاتے تھے، لیکن بہت سے بچے بچپن میں ہی فوت ہو جاتے تھے۔ ان سب عوامل کو مدنظر رکھ کر یہ دیکھا گیا کہ اوسط عمر ۲۵ سے ۲۷؍سال بنتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بعد اوسط عمر میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ ۱۹۴۰ء میں ہندوستان کی اوسط عمر ۳۰ سے ۳۲؍سال تھی۔ ۱۹۹۰ء میں ۵۸؍سے ۶۰؍سال اور ۲۰۲۳ء میں ۷۲؍سال تک پہنچ چکی ہے۔ https://ourworldindata.org/grapher/life-expectancy?country=IND&tab=chart یورپ میں ۱۸۵۰ء میں اوسط عمر ۴۳؍سال تھی۔ ۱۸۹۰ء کی دہائی میں ۵۱؍سال ہو گئی۔ ۱۹۵۰ء میں یہ ۶۰ سے ۶۶؍سال ہو گئی۔ ۲۰۰۲ء میں ۷۷.۶ سال اور ۲۰۲۳ءمیں ۷۸ سے ۸۴؍سال کے درمیان ہے۔ https://ec.europa.eu/eurostat/statistics-explained/index.php?title=Mortality_and_life_expectancy_statistics https://www.ined.fr/en/everything_about_population/data/europe-developed-countries/life-expectancy/?utm_source=chatgpt.com امریکہ میں اوسط عمر ۱۸۵۰ء میں ۴۰ سے ۴۳؍سال تھی۔ ۱۹۰۰ءمیں ۴۷؍سال ہو گئی۔ ۱۹۷۵ء میں ۷۲؍سال اور ۲۰۲۳ء میں یہ بڑھ کر ۷۸.۴ سال ہو گئی۔ https://ourworldindata.org/grapher/life-expectancy?country=~USA https://www.milbank.org/wp-content/uploads/mq/volume-35/issue-02/35-2-An-Estimate-of-the-Expectation-of-Life-in-the-United-States-in-1850.pdf?utm_source=chatgpt.com افریقہ میں ۱۸۰۰ کی صدی میں اوسط عمر ۲۶؍سال تھی۔ ۱۹۵۰ء میں ۳۷؍سال۔ ۱۹۹۰ء میں ۵۱؍سال اور ۲۰۲۳ء میں بڑھ کر یہ ۶۱ سے ۶۴؍سال ہو چکی ہے۔ https://www.macrotrends.net/global-metrics/countries/afr/africa/life-expectancy حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد عمریں کیسے لمبی ہوگئیں اس کو دوسرے پہلو سے دیکھیں تو وہ پہلے سے بھی حیران کن ہے۔ یعنی بچوں کی عمروں میں اضافہ۔ انگریزی میں اس کو IMR یا Infant Mortality Rate کہتے ہیں۔ یعنی ایسے بچے جو ایک سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی وفات پا جاتے تھے۔ اس کا تعیّن عموماً ایسے کیا جاتا ہے کہ ۱۰۰۰ میں سے کتنے بچے ایسے ہوتے تھے جو پیدا تو زندہ ہوئے تھے لیکن ایک سال کی عمر کو پہنچے بغیر فوت ہو جاتے تھے۔ ہندوستان میں ۱۹۰۰ء کی صدی کے آغاز میں ایک ہزار میں سے تقریباً ۲۰۰ بچے ایسے ہوتے تھے جو ایک سال کی عمر کو پہنچے بغیر ہی فوت ہو جاتے تھے۔ گویا ۲۰؍فیصد بچے۔ لیکن آج ان کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔ صرف ۱۰۰ میں سے ۳ بچے ایسے ہوتے ہیں جو ایک سال کی عمر کو پہنچے بغیر فوت ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح برطانیہ میں ۱۹۰۰ء میں ایسے بچوں کی تعداد ۱۵؍فیصد تھی جو اَب کم ہو کر ایک فیصد سے بھی نیچے ۰.۴فیصد رہ گئی ہے۔ ۱۸۸۵ءمیں آسٹریلیا میں ایسے بچوں کی تعداد ۱۲؍فیصد تھی۔ ۱۹۵۵ء میں یہ تعداد صفر اعشاریہ۳؍فیصد ہو گئی اور اب یہ تعداد ۲فیصد ہے۔ افریقہ کے معلوم اعدادو شمار کے مطابق ۱۹۵۰ء میں ایسے فوت ہونے والے بچوں کی تعداد ۳۲؍فیصد تھی جو اَب کم ہو کر ۶ فیصد پر آ گئی ہے۔ غرض امریکہ کے ترقی یافتہ ممالک سے لے کر افریقہ کے پسماندہ ممالک تک کسی بھی ملک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ایسے بچوں کی تعداد میں نمایاں حد تک کمی ہوئی ہے۔ https://www.statista.com/statistics/1042623/australia-all-time-infant-mortality-rate https://www.statista.com/statistics/1072803/child-mortality-rate-africa-historical ایک سال سے کم عمر کے بچوں کے علاوہ ایسے اعدادو شمار کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو چھوٹے بچوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی ایسے بچے جو بچپن میں ہی فوت ہو جاتے تھے اور ۵سال کی عمر کو بھی نہیں پہنچتے تھے۔ اس کو انگریزی میں Child Mortality Rate کہتے ہیں۔ اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ۱۸۸۰ء میں تقریباً ۵۰؍فیصد بچے ایسے تھے جو پانچ سال کی عمر سے بھی قبل فوت ہو جاتے تھے۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چار بچے بھی چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ لیکن اب ہندوستان میں ہی ایسے بچوں کی تعداد ۴ فیصد سے بھی کم ہے۔ یہی حال باقی دنیا کا بھی تھا۔ عرب ممالک میں سے مصر میں ۱۸۹۵ء میں ایسے فوت ہونے والے بچوں کی تعداد ۴۰؍فیصد سے زائد تھی جو اب کم ہو کر ۲ فیصد پر آچکی ہے۔ کینیڈا میں یہ تعداد ۳۰؍فیصد کے قریب تھی جو اب کم ہو کر ایک فیصد سے کم ہو گئی ہے۔ ۱۸۵۰ء میں برطانیہ میں ایسے بچوں کی تعداد ۲۵ فیصد کے قریب تھی جو اب کم ہو کر آدھے فیصد سے بھی کم ہے۔ https://www.statista.com/statistics/1041861/india-all-time-child-mortality-rate https://www.statista.com/statistics/1041714/united-kingdom-all-time-child-mortality-rate https://www.statista.com/statistics/1072403/child-mortality-rate-egypt-historical عمروں کے لمبا کیے جانے کی پیشگوئی کے پورا ہونے کو ایک اور طریق یعنی شرح اموات سے بھی جانچا جا سکتا ہے جسے انگریزی میں Crude Death Rate کہتے ہیں۔ شرح اموات کسی ملک یا علاقے کی کل آبادی میں فوت ہونے والے افراد کی تعداد کو ظاہر کرتی ہے۔ اور عموماً ایک ہزار افراد کے سالانہ حساب سے بیان کی جاتی ہے۔ اس زاویے سے جائزہ لیں تو ہندوستان میں ۱۹۰۱ء میں شرح اموات ۴۸؍تھی۔ یعنی ایک سال میں ہزار میں سے ۴۸؍افراد فوت ہوتے تھے۔ جبکہ ۲۰۲۰ء میں یہ کم ہو کر ۶ افراد تک آ گئی ہے۔ اسی طرح ہر ملک میں مرنے والے افراد میں سالانہ کمی ہوئی ہے۔ اگر پوری دنیا کا مجموعی جائزہ لیں تو ۱۹۵۰ء میں ایک سال میں ہزار میں سے۲۰ افراد فوت ہوتے تھے اور ۲۰۲۳ء میں یہ تعداد کم ہو کر ۷ رہ گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں بلا شک و شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی زندگیاں طویل ہونے لگ گئی ہیں۔ https://oxfordre.com/publichealth/display/10.1093/acrefore/9780190632366.001.0001/acrefore-9780190632366-e-223?p=emailAkm5Bp3KbGapQ&d=/10.1093/acrefore/9780190632366.001.0001/acrefore-9780190632366-e-223 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کرنے شروع کر دیے کہ لوگوں کی عمریں طویل ہونے لگ گئیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ پیش رفت میڈیکل سائنس میں ہوئی۔ کیونکہ اس سے قبل ایسی طبی سہولیات موجود نہ تھیں جو بیماریوں کی شفایابی کا باعث بنیں بلکہ ایسے آلات بھی موجود نہ تھے جن سے بیماریوں کی تشخیص ہو سکے۔ اس پیشگوئی کو اس زاویے سے بھی دیکھیں تو یہ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دلیل بن کر ہمارے سامنے اُبھرتی ہے۔ بیماریوں میں سب سے پہلے تشخیص کا مرحلہ ہوتا ہے۔ اگر وہ ہی درست نہ ہوتو شفا پا جانا کسی معجزے سے کم نہیں۔ آج کل تشخیص کے لیے سب سے کار آمد طریقہ خون کا ٹیسٹ ہے۔ ۱۹۰۱ء میں Karl Landsteiner اور اس کے ساتھیوں نے یہ تھیوری پیش کی کہ انسانی خون مختلف ہوتا ہے اور اس سے بیماریوں کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ آخر ان پر تجربات شروع ہوئے اور ۱۹۳۰ء کی دہائی میں عام لوگوں کے خون کے ذریعہ بیماریوں کی تشخیص کا آغاز ہوا۔ اس کام پر اس سائنسدان کو نوبیل انعام بھی دیا گیا۔ اور آج کسی بھی بیماری کی تشخیص کا پہلا مرحلہ ہی خون کا ٹیسٹ سمجھا جاتا ہے۔ گویا لوگوں کی عمریں طویل کرنے اور بیماریوں سے شفایابی کے انقلابی دور کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے ہی شروع ہوا۔ اسی طرح بیماریوں کی تشخیص میں سنگ میل رکھنے والی ایجاد X-rays بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک جرمن سائنسدان Wilhelm Conrad Röntgen نے ۱۸۹۵ء میں دریافت کیں۔ اور اس کے بعد ہسپتالوں میں بیماریوں کی تشخیص کے لیے X-raysکا آغاز ہوا۔ اسی طرح ۱۸۸۰ء کی دہائی میں الٹرا ساؤنڈ کی دریافت ہوئی جو ۱۹۵۰ء کی دہائی میں حاملہ عورتوں کے مسائل کی تشخیص میں اہم پیش رفت ثابت ہوئی۔ گویا زندگی کے وجود میں آنے سے قبل ہی انسانی جان کو مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کا حل دریافت کرنے کی کوششوں کا آغاز ہو گیا۔ وہ سفر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے آغاز کے زمانہ میں بیماریوں کی تشخیص میں استعمال ہونے والی چیزوں کی ایجاد سے شروع ہوا تھا آج آپ کے ہی دور میں AI میں داخل ہوچکا ہے۔ جہاں بیماریوں کے شروع ہونے سے پہلے ہی ان کو دریافت کرنے، ان کے بنیادی مسائل تک جا پہنچنے اور ان کے حل کے لیے کوششوں کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ ہر روز سینکڑوں ڈاکٹر اور سائنسدان اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کیسے انسانی زندگی کو طول دیا جائے۔ کیسے انسان پر حملہ آور بیماریوں کو شکست دی جائے۔ کیسے انسان زیادہ سے زیادہ لمبی زندگی گزار سکے۔ اگر یہ رسول اللہﷺ کی حدیث کی صداقت اور زمانہ مسیح موعود کا اعلان نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ ان سارے اعداد و شمار کی بنیاد پر ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ زمانہ مسیح و مہدی کے بارے میں موجود پیشگوئی پوری آب و تاب سے چمک رہی ہے اور سارے زمانہ کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ جاء المسیح جاء المسیح۔ یہ سب ایجادات و ترقیات دراصل مسیح و مہدی کی آمد اور وقت کی دلیل ہیں۔ دنیا کا ہر خطہ، ہر قوم، ہر ملک ، ہر خاندان اپنی تاریخ پر نظر ڈالے تو معلوم ہوگا کہ ان سب کی عمروں میں طوالت آ گئی ہے۔ میڈیکل سائنس کی ترقی اور دوسری ایجادات نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی گواہی دی ہے۔ ہر آنے والا دن اس پیشگوئی کو پہلے سے زیادہ شان سے پورا کرتا نظر آ رہا ہے۔الغرض آپؑ کی صداقت کی سینکڑوں نشانیوں میں سے ایک نشانی عمروں کا طویل ہونا بھی ہے۔ ؎ صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں اِک نشاں کافی ہے گر دِل میں ہے خوفِ کردگار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کیا سچ فرمایا تھا کہ ’’جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہرگز نہیں مرے گا۔‘‘(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۱۰۴) سرّ عیشِ جاوداں خواہی بیا ہم زمین، ھم آسمان خواہی، بیا اگر تو ہمیشہ کی عیش کا راز معلوم کرنا چاہتا ہے تو میرے پاس آ، تو دنیا کا خواہاں ہو یا آخرت کا میرے پاس آ۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: وَبِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ کی پُر معارف تفسیر