کیا اچھا کہا ہے سعدی نے ؎ کس نیاید بخانۂ درویش کہ خراج بوم و باغ گذار جس قدر انسان کشمکش سے بچا ہوا ہو اس قدر اس کی مُرادیں پوری ہوتی ہیں۔کشمکش والے کے سینہ میں آگ ہوتی ہے اور وہ مصیبت میں پڑا ہوا ہوتا ہے۔اس دنیا کی زندگی میں یہی آرام ہے کہ کشمکش سے نجات ہو۔کہتے ہیں کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا۔راستہ میں ایک فقیر بیٹھا تھا جس نے بمشکل اپنا ستر ہی ڈھانکا ہوا تھا۔اُس نے اُس سے پوچھا کہ سائیں جی کیا حال ہے؟ فقیر نے اسے جواب دیا کہ جس کی ساری مُرادیں پوری ہو گئی ہوں اس کا حال کیسا ہوتا ہے؟ اُسے تعجب ہوا کہ تمہاری ساری مُرادیں کس طرح حاصل ہو گئیں ہیں۔فقیر نے کہا جب ساری مُرادیں ترک کر دیں تو گویا سب حاصل ہو گئیں۔حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ سب حاصل کرنا چاہتا ہے تو تکلیف ہی ہوتی ہے۔لیکن جب قناعت کر کے سب کوچھوڑ دے تو گویا سب کچھ ملنا ہوتا ہے۔نجات اور مکتی یہی ہے کہ لذّت ہو دکھ نہ ہو۔دُکھ والی زندگی تو نہ اس جہان کی اچھی ہوتی ہے اور نہ اُس جہان کی۔جو لوگ محنت کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں وہ گویا اپنی کھال آپ اتارتے ہیں۔اس لیے کہ یہ زندگی تو بہرحال ختم ہو جائے گی۔کیونکہ یہ برف کے ٹکڑہ کی طرح ہے خواہ اس کو کیسے ہی صندوقوں اور کپڑوں میں لپیٹ کر رکھو لیکن وہ پگھلتی ہی جاتی ہے۔اسی طرح پر خواہ زندگی کے قائم رکھنے کی کچھ بھی تدبیریں کی جاویں لیکن یہ سچی بات ہے کہ وہ ختم ہوتی جاتی ہیں اور روز بروز کچھ نہ کچھ فرق آتا ہی جاتا ہے۔ (ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۱۶، ۲۱۷، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے