اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ‘‘الفضل’’ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط۱۴۔گذشتہ سے پیوستہ) الفضل سے وابستہ خوبصورت یادیں روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم حافظ ملک منور احمد احسان صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ جامعہ احمدیہ سے فراغت کے معاً بعد ۱۹۸۰ء میں میری پہلی تقرری ضلع سیالکوٹ میں ہوئی تو میں اپنے ایک گاؤں میں پہلی بار گیا جہاں صرف دو احمدی تھے۔ ایک تو بڑی عمر کے بزرگ تھے اور دوسرے ایک جوان پرائمر ی سکول ماسٹر مکرم سرور صاحب تھے جو اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ مکرم ماسٹر صاحب کہنے لگے کہ ہائی سکول کے غیر از جماعت ہیڈ ماسٹر میرے دوست ہیں اور اُن کی خواہش ہے کہ الفضل اُن کے نام لگ جائے۔ چنانچہ مَیں نے اخبار الفضل ان کے نام جاری کروادیا۔ ایک دو ہفتوں کے بعد ماسٹر سرور صاحب کا پیغام آیا کہ جب سے آپ ہمارے گاؤں کا چکر لگا کر گئے ہیں تب سے میرا بڑا بھائی میری مخالفت کرنے لگا ہے اور دھمکیاں بھی دے رہا ہے کہ اگر تمہارا مربی اب دوبارہ آیاتو میں اس کی بے عزتی کروں گا اور ماردوں گا۔ نیز انہوں نے یہ بھی لکھا کہ آپ جلد از جلد مجھے ملیں، مَیں بہت پریشان ہوں۔ خط ملنے کے فوراً بعد احتیاط مدّنظر رکھتے ہوئے جب مَیں اُن کے گاؤں پہنچا تو ماسٹر صاحب کسی اَور گاؤں کے سکول میں گئے ہوئے تھے۔لہٰذا میں ہائی سکول کے ہیڈماسٹر صاحب سے ملنے چلاگیا۔انہوں نے آنے کا مقصد پوچھا تو میں نے اشارۃً انہیں بتایا کہ مَیں نے آپ کے نام اخبار الفضل لگوادیا ہے۔ وہاں کچھ افسران بھی موجود تھے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ یہ کونسا اخبار ہے اور مجھ سے تعارف پوچھا۔ میرے تعارف کروانے پر انہوں نے جماعت کے متعلق سوالات شروع کردیے۔ وہاں عجیب الٰہی تصرف ہوا کہ ہمارے احمدی دوست ماسٹر سرور صاحب کے بڑے بھائی جنہوں نے مجھے دھمکیاں دی تھیں وہ بھی اسی سکول میں ماسٹر تھے۔وہ بھی سارا وقت سٹاف روم میں ہی بیٹھے باتیں سنتے رہے۔ اس کے بعد میں ہیڈ ماسٹر صاحب کی مصروفیت کی بِنا پر واپس آگیا۔ الفضل کے حوالے سے دعوت الی اللہ کا ایک ماحول پیدا ہوا تھا جس کی وجہ سے مکرم ماسٹر سرورصاحب کے بڑے بھائی کے خیالات بدل گئے اور اس کے بعد مَیں بِلاخوف و خطر خداتعالیٰ کے فضل سے ساڑھے تین سال اس علاقے میں خدمات بجا لاتا رہا اور کئی دفعہ اس گاؤں میں دورہ پر جاتا رہا۔ اس طرح ماسٹر صاحب کی تربیت کا موقع ملتا رہا۔ پھر کچھ عرصہ بعد وہاں ایک اَور دوست بھی احمدی ہوگئے۔ اس وقت میری رہائش ربوہ میں ہے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی کی بات ہے کہ میرے ذمہ الفضل کا کافی بقایا ہوگیا۔ ایک دن مکرم ماسٹر رحمت علی صاحب ظفر نمائندہ الفضل نے مجھے بتایا کہ میرے ذمہ دو سال کا بقایا ہے۔کہنے لگے کہ آپ ہرماہ تھوڑے تھوڑے پیسے دیتے جائیں اس طرح محسوس بھی نہیں ہوگا، بےشک پچاس روپے ماہانہ ہی دیتے رہیں۔ایک طرف الفضل کے مطالعہ کا شدید شوق اور دوسری طرف بقایا کی وجہ سے الفضل بند ہونے کا خدشہ۔ مکرم ماسٹر صاحب کی یہ بہت بڑی نیکی تھی کہ انہوں نے مجھے بہت آسان راہ دکھا دی۔چنانچہ میں انہیں باقاعدہ پچاس روپے ماہوار دیتا رہا۔کچھ ہی عرصے بعد میرا سارا بقایا ختم ہوگیا۔ اب بھی میں ماہانہ تھوڑا تھوڑا چندہ دیتا رہتا ہوں جس سے کوئی بوجھ بھی محسوس نہیں ہوتا اور الفضل بھی شوق سے پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ‘‘الفضل’’ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم انیس احمد ندیم صاحب صدر و مبلغ انچارج جاپان لکھتے ہیں کہ ایک غیرازجماعت دوست انور صاحب سے ملاقات ہوئی تو دورانِ تعارف خاکسار نے جب احمدیت کے بارے میں بتایا تو موصوف کہنے لگے کہ جماعت احمدیہ کو مَیں بچپن سے جانتا ہوں ،زمانہ طالب علمی میں میرے ایک احمدی دوست کے ہاں رسالہ تشحیذ الاذہان آتا تھا تو مزے مزے کی کہانیاں اور لطائف ہم مل کر پڑھا کرتے تھے۔ پھر ہم جوان ہوئے اور ہوسٹل شفٹ ہوگئے تو یہ سلسلہ الفضل میںتبدیل ہوگیا اور الفضل کا مستقل مطالعہ میرا معمول بن گیا۔ پاکستان میں قانونی پابندیوں کی وجہ سے الفضل نے ایک نئی لغت متعارف کروائی ہے۔ بعض الفاظ اور اصطلاحات تو اصل سے بھی خوبصورت معلوم ہوتی ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے مربیان کو ہدایت فرمائی ہوئی ہے کہ جس علاقہ میں جائیں وہاں کی جماعت کی تاریخ سے واقفیت حاصل کریں۔ خاکسار کو بطور مربی سلسلہ ملتان اور جاپان میں خدمت کی توفیق ملی ہے۔ چنانچہ دونوں جگہ کی تاریخ احمدیت بھی مرتب کی۔ اس تدوین میںبلاشبہ سب سے نمایاں کردار روزنامہ الفضل کا ہی رہا۔ ایک بار میلسی (ملتان) کی جھنڈیر ریسرچ لائبریری میں گیا تو وہاں کی انتظامیہ نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل تک الفضل ہماری لائبریری کی زینت ہوا کرتا تھا اور مکرم چودھری نذیر صاحب سابق امیر جماعت بہاولپور مسلسل کئی سال انہیں الفضل مہیا کرتے رہے ہیں۔ ایک دفعہ ایک غیراز جماعت دوست ملنے آئے تو انہوں نے جب الفضل میں یہ اعلان پڑھا کہ مجھے بازار سے کچھ نقدی، موبائل یا پرس ملا ہے ،جس کا ہو و ہ نشانی وغیرہ بتا کر حاصل کرلیں۔ تو وہ دوست کہنے لگے کہ شاید ربوہ ہی وہ واحد شہر ہو یا الفضل وہ واحد اخبار ہو جس میں اس طرح کے اعلان شائع ہو رہے ہیں ۔ گویا یہ اہلِ ربوہ کی دیانت کا ایک اعتراف ہے جس کا برملا اظہار ان اعلانات سے ہوتا ہے۔ الفضل کے ساتھ میرا تعلق اور لگاؤ بچپن سے ہی رہا ہے۔ سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں یہ خزانہ کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ والد صاحب اور نانا جان الفضل کے مستقل قارئین میں سے تھے جس کے اثرات اور گھریلو ماحول کا اثر تھا کہ یہ دلچسپی نسلوں میں بھی منتقل ہوئی۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جن گھروں میں الفضل آتا ہےیا انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے پڑھا جاتا ہے تو ایسے گھروں کا تربیتی معیار اور جماعت سے تعلق ایسے گھروں سے نسبتاً بہتر ہوتا ہے جہاں الفضل نہیں پڑھا جاتا۔ جاپان کے سابق مبلغ مکرم مغفور احمد منیب صاحب نے بتایا کہ ۱۹۸۰ء کے اوائل میں جب کہ وہ یوکوہاماشہر میں مقیم تھے اور زبان سیکھنے کے لیے ایک سکول میں داخلہ لے رکھا تھا تو اُن ایام میں الفضل کے ہفتہ وار بنڈل کے علاوہ ایسا کوئی ذریعہ نہ تھا جس سے پاکستان کے حالات سے آگاہی ہوسکتی ۔ چنانچہ ڈاکیے کا شدّت سے انتظار ہوتا اور بعض دفعہ تو اُس دن سکول سے چھٹی کو بھی جی چاہتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ڈاکیا آکر چلا جائے اور انتظار مزید لمبا ہو جائے ۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم خواجہ منظورصادق صاحب بیان کرتے ہیں کہ میری عمر اس وقت ۷۰ برس ہے اور مَیں گذشتہ تقریباً ۵۵ سال سے الفضل کا باقاعدہ قاری اور خریدار ہوں۔ ہم ہجرت کے بعد گر مولہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ میں آباد ہوئے جہاں جماعتی انتظام کے تحت ایک الفضل آتا تھاجو شیخوپورہ سے ڈاکیا دیگر ڈاک کے ساتھ سائیکل پر لاتا تھا، یہاں ڈاک خانے کا کام مقامی پرائمری سکول کا ایک ٹیچرجزوقتی طور پر سرانجام دیتا تھا۔ڈاک بعد دوپہر تقریباًتین بجے آتی تھی اور مَیںالفضل کے انتظار میں سکول ماسٹر کے پاس ڈاکیے کے لیے گھنٹوں چشم براہ رہتا تھا۔ ڈاک میں اگر کسی روز الفضل نہ ملتاتو مجھے بےحد مایوسی ہوتی جبکہ الفضل ملنے پر خوشی کی کوئی انتہا نہ ہوتی اور گھر لے جا کر جب تک اسے اول تا آخر پڑھ نہ لیتا اس وقت تک کسی اَور کے ہاتھوں میں اس کے جانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ شاید الفضل سے یہی عقیدت و محبت ہی تھی جو مجھے بعدازاں شعبہ صحافت میں لے کر آئی۔یونیورسٹی کی تعلیم سے فراغت کے بعد۱۹۶۷ء سے تاحال خاکسار کو مختلف قومی روزناموں میں سب ایڈیٹر سے لے کر ایڈیٹر تک کے اہم عہدوں پر کام کرنے کی توفیق ملی مگر دن رات کی مصروفیات کے باوجود الفضل ہمیشہ میری متاع عزیز رہا۔ یہ سچ ہے کہ میں نے الفضل سے بہت کچھ سیکھا ۔ الفضل میں میرا پہلا مضمون اُس وقت چھپا جب مَیں میٹرک کا طالب علم تھا۔ اس مضمون کا عنوان تھا ‘‘عربوں نے ایرانیوں سے کیا سیکھا’’۔ یہ ایک مختصر سا تحقیقی مضمون تھا مگر اس کی اشاعت سے میری ایسی ہمت بندھی کہ اس کے بعد مَیں نےالفضل کے علاوہ کبھی کسی اَور اخبار یا جریدے کو اپنی کوئی تحریر برائے اشاعت نہیں بھیجی اور نہ کبھی اس کی خواہش رہی۔ خاکسار کو چند سال قبل ‘‘تاریخ احمدیت راولپنڈی’’ کی تدوین کے سلسلہ میں کچھ خدمت کی توفیق ملی تو اس کے لیے مجھے بارہا ربوہ جانے اور خلافت لائبریری میں گھنٹوں الفضل کی پرانی فائلوں کی ورق گردانی کرنے کا موقع ملا اور مجھے یہ اقرار کرنے میں کوئی باک نہیں کہ الفضل نے اس اہم کام کی انجام دہی میں میری سب سے زیادہ مدد کی۔ آج بھی الفضل کا مطالعہ میرا معمول ہے، میرے گھر دیگر قومی اخبارات بھی آتے ہیں مگر جو تسکین الفضل پڑھ کر ہوتی ہے وہ دوسرے اخبارات میں کہاں! یہ ایسا روحانی مائدہ ہے جو اپنی اور اہل و عیال کی گھر بیٹھے تربیت کا ایک آسان اور مستقل ذریعہ ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں شاید ہی کوئی اخبار ایک صدی سے زائد عرصے سے چل رہا ہو، یہ اعزاز صرف الفضل کو حاصل ہے جو مخالفین اور معاندین کی ریشہ دوانیوں، سازشوں ، شرارتوں اور کئی خوفناک آندھیوں اور طوفانوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے قائم و دائم ہے۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرمہ تنویرالاسلام صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں ڈاکٹر عبدالعزیز اخوند کی بیٹی ہوں جن کو دین سے ایک خاص قسم کا لگائو تھا۔ ہوش سنبھالا تو دینی کتب کے ساتھ الفضل کا ہونا لازمی بات تھی۔ ابا جان نے ایک بار پوچھا: الفضل پڑھتی ہو؟ مَیں نے کہا کبھی کبھی ۔کہنے لگے: پہلا صفحہ لازمی پڑھ لیا کرو۔ پھر پہلا صفحہ پڑھتے پڑھتے الفضل سارا ہی پڑھنے لگی۔ شادی ہوئی تو ابا نے کہا الفضل ضرور لگوانا۔الفضل گھر میں آیا تو سمجھو گھر میں فضل آنے لگے گا۔ الفضل لگوا لیا۔اب تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ الفضل میری زندگی کا ایک حصہ ہے۔ اکثر ایسے سوال کا جواب بھی مجھے مل جاتا جو کسی سے نہ پوچھ سکوں۔ اب جبکہ بوڑھی ہو گئی ہوں تو اپنے بچوں کو اپنے ابا کی بات کہتی ہوں کہ بیٹا الفضل کا پہلا صفحہ ضرور پڑھ لیا کرو۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل اخبار کی تاریخ کے حوالے سے مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب کا منظوم کلام شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: رہا خلیفہ اوّلؓ کی سرپرستی میں بنا یہ اُن کی خلافت کا اِک نشاں الفضل جناب فضل عمر نے اسے کیا جاری ہے ان کی سعی مسلسل کا رازداں الفضل لگائے اس نے مضامینِ تازہ کے انبار ہے اہلِ حق کے لیے ایک ارمغاں الفضل مٹا ہے اور نہ مٹے گا نشانِ صدق و صفا بہ بانگ دہل سنائے گا داستاں الفضل خزاں کا دَور الٰہی نہ اس پہ آئے کبھی رہے سدا یہ گلستانِ بےخزاں الفضل الٰہی دَورِ خلافت سدا رہے قائم ہر ایک دَور میں ہو اس کا ترجماں الفضل مزید پڑھیں: الفضل ڈائجسٹ