(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍ستمبر۲۰۱۰ء) اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالے سے بات کروں گا کہ کیا کیا باتیں اور طریق ہیں جن کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور جن کو اختیار کر کے، جن پر توجہ دے کر ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پا سکتے ہیں اور ان لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جن کو محسنین کا گروہ بنا کر اللہ تعالیٰ نے ایک خوشخبری دی ہے کہ مَیں محسنین کے ساتھ ہوں۔ یعنی مَیں ان لوگوں کے ساتھ ہوں جو نیک اعمال بجا لانے والے ہیں۔ نیکیوں پر قائم رہنے والے ہیں۔ میرے راستوں کی تلاش کرنے والے ہیں۔ اس کی تفصیل جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے ہم دیکھیں گے کہ اب کس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے راستوں کو پا کر ہمیشہ اس گروہ میں شامل رہ سکتے ہیں جن کے ساتھ خدا تعالیٰ ہمیشہ رہتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو قرآنِ کریم کی مختلف آیات سے اور ان آیات کی روشنی میں وضاحت فرمائی ہے۔ لیکن اس وقت جیسا کہ مَیں نے کہا اس خاص آیت [العنکبوت: 70] کے حوالے سے بات کروں گا جس کی آپ نے مختلف جگہوں پر تفصیل بیان فرمائی ہے۔ ہر انسان کی استعدادیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ اس کی سوچیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ جہاں تک استعدادوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی استعدادیں اور طاقتیں معیار کے حساب سے مختلف رکھی ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا لیکن حکم یہ ہے کہ جو بھی استعدادیں ہیں ان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی تلاش اور جستجو کرو۔ اگر یہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اپنی طرف آنے کے راستے دکھائے گا۔ لیکن اگر انسانی سوچ ان استعدادوں کے انتہائی استعمال میں روک بن جائے، نفس مختلف بہانے تلاش کرنے لگے، تھوڑی سی کوشش کو جَہَد کا نام دے دیا جائے تو اس سے انسان اللہ تعالیٰ کو حاصل نہیں کر سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ‘‘بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ جو شخص نہایت لاپرواہی سے سستی کر رہا ہے وہ ایسا ہی خدا کے فیض سے مستفید ہو جائے جیسے وہ شخص کہ جو تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص سے اس کو ڈھونڈھتا ہے’’۔ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلدنمبر1صفحہ نمبر566حاشیہ نمبر11) پس خالص ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی تلاش کرنے والے ہی اللہ تعالیٰ کو پا سکتے ہیں۔ یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے مختلف درجے ہیں جو ایک جُہد مسلسل سے اللہ تعالیٰ کی توجہ کو جذب کر کے انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان بالغیب اور اس کی طاقتوں اور صفات پر کامل ایمان اس مسلسل کوشش کی طرف انسان کو مائل کرتا ہے۔ اگر صرف عقل کے ترازو سے اللہ تعالیٰ کی پہچان کی کوشش ہو گی تو اللہ تعالیٰ نظر نہیں آ سکتا۔ وہ اپنی طرف آنے کے راستے نہیں دکھائے گا۔ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے اس کے راستوں کی تلاش کے لئے پہلی کوشش بندے نے کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پہچان کے لئے بھی بندے کو اندھیرے میں نہیں رکھا کہ کس طرح راستے تلاش کرنے ہیں؟ سب سے اوّل اس زمانہ کے لئے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کے قیامت تک کے زمانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم کو ہمارے سامنے رکھا ہے۔ اس میں سے راستے تلاش کرو۔ اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ انبیاء کے ذریعہ انسان کو راستوں کی نشاندہی کرتا رہا ہے۔ اور پھر انبیاء کے ذریعے سے نشانات اور عجائبات دکھا کر اپنی ہستی کا ثبوت بھی پیش کرتا ہے تا کہ ان چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کے راستوں کی پہچان ہو سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو ہمارے راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اس کو اپنی راہ دکھلا دیں گے یہ تو وعدہ ہے اور ادھر یہ دعا ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم۔ سو انسان کو چاہئے کہ اس کو مدنظر رکھ کر نماز میں بالحاح دعا کرے اور تمنا رکھے کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہو جاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بے بصیرت اور اندھا اٹھایا جاوے’’۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 38 ,39مطبوعہ انوار احمدیہ پریس قادیان) اخلاص اور وفا کا تعلق۔پس یہ دعا جو سورۃ فاتحہ میں ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم پڑھتے ہیں اس پر غور کریں اور نہایت درد سے اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم کی ہدایت چاہیں تو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے۔ اپنی طرف آنے کے راستے دکھاتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور فرستادے نشانات کے ساتھ آتے ہیں تا کہ انسانوں کو توجہ دلائیں کہ اللہ تعالیٰ کے راستوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کا قرب پا سکو۔ اور ظاہر ہے ایک عقلمند انسان جب کسی کام کو کسی کے توجہ دلانے پر کرتا ہے اور اس سے فائدہ بھی اٹھا لیتا ہے۔ تو لا محالہ اس توجہ دلانے والے کا بھی شکر گزار ہو کر اس سے بھی تعلق پیدا کرتا ہے اور کرنا چاہئے۔ یہی عقل کا تقاضا ہے کہ مزید فائدے اٹھائے۔ پس اس نکتہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ جو سمجھتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا انبیاء اور اللہ تعالیٰ کے فرستادے اللہ تعالیٰ کے راستوں کی طرف نشاندہی کرتے ہیں تو وہ اس بات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ ایک عقل مند انسان ان کے ساتھ جڑ کر اخلاص اور وفا کا تعلق پیدا کرے۔ اس زمانے کے لئے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح و مہدی کے آنے کی خبر بھی دی ہے تو جس نے پھر خدا تعالیٰ سے بندے کے تعلق کو قائم کروانا تھا اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور دعا بھی مسلمانوں کے سامنے موجود ہے اور اکثر پڑھتے بھی ہیں۔ تو کس قدر ضروری ہے کہ اس سے تعلق جوڑ کر اللہ تعالیٰ کے راستوں کو پانے کا تجربہ تو کریں۔ بجائے اس کے کہ بغیر سوچے سمجھے انکار کرتے چلے جائیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تو ایک جگہ لکھا ہے کہ کئی دفعہ مَیں تو غیر مسلموں کو بھی کہہ چکا ہوں کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا ہمیں سکھائی گئی ہے، تم یہ پڑھو۔ یہ تو تم نہیں پڑھ سکتے لیکن خالی الذہن ہو کر یہ دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھا راستہ دکھائے تو اللہ تعالیٰ رہنمائی فرمائے گا۔ اور آپ نے فرمایا کہ کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ اس سے ان پر اسلام کی سچائی کھل گئی۔ (ماخوذ از تفسیرکبیر جلد اول صفحہ 35) یہ اور بات ہے کہ بعض غیر مسلم خوفزدہ ہو کر یا اپنے مفاد کی وجہ سے انہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا۔ لیکن سچائی بہر حال ظاہر ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں کو تو خاص طور پر اس نسخہ کو آزمانا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کی بجائے اس کی نہ صرف رضا حاصل کرنے والے بنیں بلکہ نئے سے نئے راستوں کو بھی پائیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے ہیں۔ اور یہی چیز ہمارے لئے بھی ضروری ہے۔ ہم جو احمدی ہیں، ہم جنہوں نے اس زمانے کے امام کو قبول کیا ہے کہ صرف بیعت کر کے بیٹھ نہ جائیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تلاش اور قرب کے لئے جہدِ مسلسل کرتے چلے جائیں اور خاص طور پر ان چند دنوں میں بہت توجہ دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ‘‘اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اور اگر تم صالح ہو تو وہ اپنی طرف جھکنے والوں کے واسطے غفور ہے’’۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 450 ایڈیشن۱۹۸۸ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍ستمبر2025ء