کہتے ہیں کہ ملا نصیر الدین نے سوچا کہ تربوز بیل پر اور سیب درخت پرکیوں لگتا ہے؟ حالانکہ یوں ہونا چاہیے کہ بڑا پھل بڑے درخت پر لگے اور چھوٹا پھل بیل پر۔ ابھی اسی پر غور جاری تھا کہ ملاجی کو نیند نے آ لیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک سیب ان کے سر پر گرا۔وہ ہڑبڑا کر اٹھے۔ تب انہیں عقل آئی اور کہا کہ اے خدا!تیرے کام تُو ہی جانے۔ لیکن خدا کی قدرت دیکھیں اور یقین جانیں کہ تربوز کے برابر ایک پھل واقعی ایسا بھی ہے جو درخت پر لگتا ہے۔ قلاباش(Calabash) کا درخت ایک منفرد اور دلچسپ پودا ہے جو دنیا کے گرم علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ قلاباش نے صدیوں سے دنیا کے مختلف خطّوں میں انسانی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ قدیم آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قلاباش انسانوں کے استعمال میں آنے والے سب سے پہلے پودوں میں سے ایک تھا۔ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کی تہذیبوں میں ہزاروں سال پہلے سے اس کے شواہد ملتے ہیں۔ قدیم مصری معاشرہ، ہندوستانی وادی سندھ اور افریقی قبائل میں یہ پھل کھانے، ذخیرہ کرنے اور مذہبی رسومات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ پھل نہ صرف خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے بلکہ برتن سازی، موسیقی کے آلات، روایتی علاج اور ثقافتی رسومات میں بھی اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ قلاباش کا درخت سائنسی نام Crescentia cujete رکھتا ہے اور یہ Bignoniaceae خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ درمیانے قد کا، سبز پودا ہے جو تقریباً چھ سے دس میٹر تک اونچا ہو سکتا ہے۔ اس کی شاخیں غیر منظم انداز میں پھیلتی ہیں اور پتیاں ہمیشہ سبز، بیضوی اور نرم ہوتی ہیں۔ درخت کے پھول گھنٹی نما اور سبز پیلے رنگ کے ہوتے ہیں جن پر کبھی کبھار جامنی دھبے ہوتے ہیں، اور زیادہ تر رات کے وقت کھلتے ہیں۔ گرم علاقوں کے امریکہ (کیریبین، وسطی اور جنوبی امریکہ) سے تعلق ہے دوسری جانب قلاباش کی بیل ایک قسم بوتل نما کدو (Bottle Gourd) یا Lagenaria siceraria کہلاتی ہے۔ یہ بیل نما پودا گرم علاقوں میں اگتا ہے اور اس کا پھل مختلف اشکال اور جسامت میں پایا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ گول ہوتا ہے، کبھی لمبوترا اور کبھی بوتل کی شکل کا۔ اس کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ جب اس کا چھلکا خشک ہو جائے تو یہ نہایت سخت اور پائیدار ہو جاتا ہے، جسے مختلف برتنوں اور اوزاروں کی شکل دی جا سکتی ہے۔ یہ پانی کی بوتل کا کام بھی دیتا ہے۔ افریقہ اور جنوبی ایشیا اس کے آبائی علاقے ہیں۔ قلاباش کا درخت (Crescentia cujete) اور بوتل کدو؍قلاباش بیل (Lagenaria siceraria) خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ دونوں کا نام اور پھل کی شکل کچھ حد تک مشابہت رکھتے ہیں، لیکن یہ دو مختلف نباتات ہیں اور ان کے استعمال اور خصوصیات میں واضح فرق موجود ہے۔ اب یہ دونوں دنیا کے مختلف حصوں میں پائے جاتے ہیں۔ قلاباش کے درخت کا سب سے اہم حصہ اس کا پھل ہے۔ یہ پھل گول یا بیضوی شکل کا ہوتا ہے اور ۲۵؍سینٹی میٹر تک بڑے ہوسکتے ہیں۔ قلاباش کی نرم اور ہری حالت میں اسے سبزی کے طور پر کھایا جاتا ہے۔ اس میں پانی کی مقدار بہت زیادہ اور کیلوریز کم ہوتی ہیں۔ اسی لیے یہ جسم کو ٹھنڈک اور سکون پہنچاتا ہے۔ اس میں وٹامن سی، وٹامن بی، پوٹاشیم اور فائبر پایا جاتا ہے جو نظامِ ہضم کو بہتر بناتا ہے۔ طبِ یونانی اور آیورویدک طب میں قلاباش کے رس کو دل کی دھڑکن کو قابو میں رکھنے اور معدے کے امراض کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ طبِ مشرقی میں قلاباش کو جگر صاف کرنے والا، دل کو طاقت دینے والا اور ذہنی سکون فراہم کرنے والا پھل کہا گیا ہے۔ اس کا رس ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے، البتہ زیادہ مقدار میں پینے سے نقصان بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بعض اقسام میں قدرتی زہریلے مادّے پائے جاتے ہیں۔ دنیا کے کئی خطوں میں قلاباش صرف پھل نہیں بلکہ ثقافت کا حصہ ہے۔افریقہ میں خشک قلاباش کو پیالے، چمچ، پانی کے برتن اور موسیقی کے ساز (مثلاً کورا اور جیمبی) بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔بھارت اور پاکستان میں اسے کھانے کے علاوہ صوفیانہ موسیقی کے آلات، جیسے ستار اور طنبورہ بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔لاطینی امریکہ میں خشک قلاباش کو ‘‘میٹے’’ نامی مشروب پینے کے لیے کپ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ قلاباش کے سخت چھلکے پر کندہ کاری اور رنگ و روغن کا رواج بھی قدیم ہے۔ فنکار اس پر روایتی نقش و نگار بناتے ہیں اور اسے آرائشی اشیاء میں ڈھال دیتے ہیں۔ آج بھی دنیا بھر میں لوگ اسے دستکاری کی ایک قیمتی شے مانتے ہیں۔ قلاباش ایک ایسا پودا ہے جو زیادہ پانی اور زیادہ زمین کے بغیر بھی نشوونما پاتا ہے۔ کسان اس کی بیل کو گھروں اورکھیتوں کے کناروں اور باغات میں آسانی سے اگا لیتے ہیں۔ اس کے خشک پھل دوبارہ استعمال کے قابل ہوتے ہیں جس سے پلاسٹک اور دھات کے برتنوں کی ضرورت کم ہو جاتی ہے۔ اس طرح یہ ماحول دوست بھی ہے۔ بہت سی ثقافتوں میں قلاباش کو ‘‘زندگی کا برتن’’ (vessel of life) کا نام دیا گیا ہے۔ افریقی دیومالائی کہانیوں میں اسے کائنات کی تخلیق سے جوڑا جاتا ہے۔ چین میں اسے خوش بختی اور بیماریوں سے بچاؤ کی علامت مانا جاتا ہے۔ ہندوستانی روایات میں اسے پاکیزگی اور سادگی کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔آج کل قلاباش نہ صرف خوراک اور برتن سازی میں بلکہ سجاوٹ، آرٹ اور ثقافتی نمائشوں میں بھی اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں ماحول دوست مصنوعات بنانے کے لیے اس کے استعمال کو فروغ دے رہی ہیں۔ قلاباش ایک سادہ مگر کثیر المقاصد پودا ہے جس نے انسانی تہذیب کے آغاز سے لے کر آج کے جدید دور تک اپنی اہمیت برقرار رکھی ہے۔ یہ کھانے کی میز پر سبزی کے طور پر، فنکار کے ہاتھ میں ایک شاہکار کے طور پر اور معاشرتی زندگی میں ثقافت کی علامت کے طور پر موجود ہوتاہے۔ قلاباش ہمیں یہ بتاتا ہے کہ قدرت کی ہر چیز میں حسن، فائدہ اور پائیداری چھپی ہوتی ہے، اس لیے ہمیں اس کا صحیح استعمال کرنا آنا چاہیے۔ آپ اس کے درخت کے نیچے آرام سے سو سکتے ہیں کیونکہ یہ آسانی سے گرتا نہیں ہے۔ ٭…٭…٭