https://youtu.be/viZHXDJBr0s بزرگانِ سلسلہ کے ساتھ گزرے چند یادگار اور بابرکت لمحات بر صغیر پاک و ہند کے بعد شاید انگلستان میں بسنے والے احمدی سب سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ اُن کواللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرامؓ، چار خلفائے احمدیت اور جماعت کے بزرگان کو سات سمندر پار اس دُور دیش میں بھی نہ صرف قریب سے دیکھنے کے مواقع ملتے رہے ہیں بلکہ ان کی قربت کے یادگار لمحے بھی میسر آتے رہے ہیں۔ انگلستان کی سر زمین کی یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بزرگ صحابیؓ بھی مدفون ہیں۔ یہاں کے احمدیوں کو ۱۹۸۴ء کی ہجرت کے بعد تو ہروقت خلیفۂ وقت کو اپنی آنکھوں سے قریب سے دیکھنے اور ان سے مسلسل راہنمائی اور تربیت حاصل کرنے کی سعادت بھی مل رہی ہے نیز وہ براہِ راست حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قربت، برکات اور دعائوں سے خوب جھولیاں بھر رہے ہیں۔ ہجرت کے بعد لندن میں بسنے والے احمدیوں کو تو خلیفۂ وقت کی موجودگی کی برکت سے ہر سال بہت سے بزرگانِ جماعت کوبھی قریب سے دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے لیکن ہم جو لندن سے قریباََ اڑھائی سو میل دُور یارکشائر کے رہنے والے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہماری بھی سُن لی ہے اور ہمیں بھی خلیفۂ وقت کی شفقت سے ہمارے اپنے شہر میں بزرگان دین کی قربت کے ایسے انمول لمحات میّسر آتے ہیں جن کا ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ خاکسار اپنے آپ کو انتہائی خوش قسمت سمجھتاہے کہ گذشتہ چالیس سال میں اکثر بزرگان سے ملنے، اُن کی صحبت میں رہنے اور قربت کے انمول لمحے میسر آتے رہے اسی طرح بعض اَور افراد بھی تھے جن کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعداور خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں خوب خدمت دین کی توفیق ملی اور اس مقبول خدمت دین کے نتیجہ میں وہ بھی آسمان احمدیت کے چمکتے دمکتے ستارے بن گئے۔خاکسار کو مختلف مواقع پر ان دوستوں اور بھائیوں کے ساتھ ملنے اور کام کرنے کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ ان سے ملاقاتوں کامختصر احوال تحریر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس مضمون میں خاکسار چند وفات یافتہ بزرگان اور دوستوں کے ساتھ گذرے ہوئے ان چندیادگارلمحات کا ذکراور اپنے ذاتی مشاہدات بیان کرنے کی کوشش اس دعا کے ساتھ کرنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بہت بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں ان کو اعلیٰ ترین مقام سے نوازے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔آمین ثم آمین۔ حضرت چودھری سر محمدظفر اللہ خان صاحبؓ حضرت چودھری محمدظفر اللہ خان صاحبؓ انگلستان میں اپنے قیام کے دوران کئی بار یارکشائر تشریف لائے اور احبابِ جماعت کو ان سے ملنے کا موقع ملتا رہا۔ان کے یہاں آنے سے جماعتوں کومختلف پروگراموں میں اور احباب جماعت کو اپنے گھروں میں حضرت چودھری صاحبؓ کو دعوت دینے کاموقع ملتا اور حضرت چودھری صاحبؓ کی تقاریر اور باتیںبراہ راست سننے کا بھی موقع مل جاتا۔ ٭…خاکسار کی شادی کے موقع پر ہم نے حضرت چودھری صاحبؓ کو بھی شرکت کی دعوت بھجوائی۔ ہماری خوش قسمتی کہ حضرت چودھری صاحبؓ نے ہماری دعوت قبول فرمالی اور خاکسار کے والد صاحب کو فون کر کے فرمایا کہ میں لندن سے ولیمہ کی دعوت میں شامل ہونے کے لیے آپ کی دعوت پر بریڈفورڈ آئوں گا، آپ کو علم ہے کہ میں خود کار ڈرائیو نہیں کرتا اس لیے میرے ساتھ میرا ایک عزیز انور کاہلوںہوگا جو کار ڈرائیو کرے گا، اسی طرح ان دنوں میرا داماد اور بھتیجا حمید نصراللہ خان بھی لندن میں ہے وہ بھی میرے ساتھ ہوگا۔آپ سے ان دو افراد اکی اجازت لینی ہے۔ خاکسار کے والد صاحب نے فرمایا کہ چودھری صاحب آپ کو اجازت لینے کی ضرورت نہیں، آپ بڑی خوشی سے اپنے ساتھ ان کو بھی لے کر آئیں، یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہو گی۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے فرمایا آپ نے کارڈ پرایک بجے کا وقت لکھا ہوا ہے مجھے امید ہے کہ آپ سوا ایک بجے تک پروگرام شروع کردیں گے۔ خاکسار کے والد صاحب نے عرض کی کہ ہم ٹھیک ایک بجے پروگرام شروع کر دیں گے۔اس طرح خاکسار کی دعوت ولیمہ میں حضرت چودھری صاحبؓ اور آپ کے دو عزیزبھی شامل ہوئے جو کہ ہمارے لیے بہت بڑی خوش قسمتی کی بات تھی۔ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی موجودگی کی وجہ سے پروگرام بھی ٹھیک وقت پر شروع کیا گیا۔ الحمد للہ۔ ٭… آپؓ جب آخری باریارکشائر تشریف لائے تو خاکسار نے فون کر کے آپؓ کو کھانے کی دعوت دی اور چونکہ حضرت چودھری صاحب کو سرسوں کا ساگ پسند تھا خاکسار نے عرض کی کہ میری بیگم ساگ پکا لے گی۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے دعوت قبول فرمالی لیکن بعد میں فون کر کے فرمایا کہ چونکہ میرے پائوں میں سوجن ہے اس لیے آپ سب بچوں سمیت مکرم ڈاکٹر سعید خان صاحب کے گھر ساگ لے آئیں، ہم اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھا لیں گے۔ ہم مقررہ دن مکرمی ڈاکٹر صاحب کے گھر چلے گئے اور ساری دوپہر حضرت چودھری صاحبؓ کے ساتھ گزارنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت خاکسار کا ایک بیٹا عزیزم ہادی عمر چار سال اور بیٹی عزیزہ عطیہ جس کی عمر دو سال تھی ہمارے ساتھ گئے۔ جب کھانا میز پر لگ گیا تو سب نے کھانا کھایا اور جیسے جیسے فارغ ہوتے گئے، میز سے اٹھتے گئے لیکن حضرت چودھری صاحبؓ کھانا کھانے کے بعد بھی دیر تک وہیں بیٹھے رہے۔ہم سب حیران تھے کہ اس کی کیا وجہ ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ ہمارا بیٹا عزیزم ہادی آرام آرام سے کھاناکھا رہا تھا اورحضرت چودھری صاحبؓ اس وقت تک میز سے نہ اٹھے جب تک بچے نے کھانا نہیں کھا لیا۔ ٭… ایک دفعہ خاکسار نے حضرت چودھری صاحبؓ کو خط لکھا اور ‘‘ حضرت چودھری صاحب ’’ لکھ کرمخاطب کیا۔ اس کے جواب میں حضرت چودھری صاحبؓ کا جواب آیا جس میں آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ ‘‘ آپ کاپیار بھرا خط ملا جس میں آپ نے مجھے ‘‘حضرت ’’ لکھ کر مخاطب کیا ہے۔اس پر میں ساری رات استغفار کرتا رہا۔میراآپ کے ساتھ ایک پیار کا تعلق ہے،اگر آپ مجھے صرف ظفر اللہ خان لکھ کر مخاطب کرلیا کریں تو میں اس پر بہت خوش ہوں گا۔اللہ اللہ! کس قدر عجز تھا ہمارے حضرت چودھری صاحبؓ میں۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے۔ آمین۔ ٭… ہم نے اپریل ۱۹۷۹ء میں بریڈفورڈ کے ایک ہائی سکول میں مجلس خدام الاحمدیہ کا اجتماع منعقد کیا جس میں ملک بھر سے مجالس کو شمولیت کی دعوت دی۔ خاکسار اُن دنوں قائد مجلس تھا۔ حضرت چودھری صاحبؓ کو فون کر کے دعوت دی جو آپؓ نے منظور فرمالی۔آپؓ اجتماع کے افتتاحی اور اختتامی اجلاسوں میںدو دن شامل ہوئے۔ اختتامی اجلاس کے پروگرام کے آخرمیں دعا نہیں لکھا ہواتھا، حضرت چودھری صاحب نے اجتماع کے اختتام کا اعلان فرمایا، خاکسار نے عرض کی کہ آپ دعا کروا دیں،حضرت چودھری صاحبؓ نے فرمایا کہ پروگرام میں دعا تو نہیں لکھی ہوئی۔ خاکسار نے غلطی کی معافی مانگی تو حضرت چودھری صاحب نے دعا کروادی،اس بات سے ہمیں یہ سبق مل گیا کہ پروگرام میں ہر وہ چیز درج ہونی چاہیے جو مہمانِ خصوصی سے کروانی ہو۔ حضرت صاحبزادہ مرزامنصور احمد صاحب اور حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ شروع شروع میں اکثر بزرگان کو لیک ڈسٹرکٹ کی سیر کروانے کی ذمہ داری خاکسار کی ہوتی تھی۔ ان میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگان بھی شامل تھے۔ حضرت صاحبزادہ مرزامنصور احمد صاحب اور حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کو خاکسار کو دو مواقع پر لیک ڈسٹرکٹ کی سیر کروانے کاشرف حاصل ہوا۔ خاکسار کے دل میں حضرت میاں صاحب کا بہت رعب اور دبدبہ تھا۔اس لیے پہلی بار ڈرتے ڈرتے چلاگیا لیکن جو لطف اس سفر میں آیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ حضرت میاں صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ کے دلوں میں اپنے خدام کی شفقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔حضرت میاں صاحب خاکسار کے ساتھ پنجابی میں بات فرماتے اورسارا سفر اپنی دلچسپ باتوں سے خوب ہنساتے بھی اور بہت علمی باتیں بھی فرماتے۔ جن سے شاید کسی تقریب میں فیضیاب ہونا بہت مشکل ہوتا۔ حضرت بیگم صاحبہ بہت ہی دعاگواور شفیق بزرگ خاتون تھیںجن کے دل میں ہمدردی اور شفقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔خاکسار نے دیکھا کہ حضرت میاں صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ دورانِ سفر دعائوں سے اپنی زبان تر رکھتے اورنمازوں کو سفر کے دوران بھی وقت پربڑے اہتمام سے ادا کرتے۔ان کی نمازوں اور دعاکرنے کے تو رنگ ہی اَور تھے۔ ٭… پہلے سفر کے موقع پر نارتھ یارکشائر کے ایک خوبصورت قصبہ Cross Hills میں سے گزرتے ہوئے حضرت میاں صاحب کی نظر ایک ایسے سٹور پر پڑ گئی جو زرعی مشینری فروخت کرتے تھے۔ حضرت میاں صاحب نے وہاں گاڑی روکنے کا فرمایا۔ خاکسار نے گاڑی روکی تو حضرت میاں صاحب جلدی سے کار سے نکل کر سٹور کی طرف چل پڑے۔خاکسار گاڑی بند کر کے جانے لگا تو حضرت بیگم صاحبہ نے تسلی دی اور فرمایا باری !گھبرانا نہیں،میاں صاحب کو ان چیزوں کا بہت شوق ہے۔ خاکسار بھی جب سٹور میں پہنچا تو حضرت میاں صاحب سٹور کے مینیجر سے فصلوں کی کٹائی والی نئی مشینوں کی معلومات حاصل کر رہے تھے۔ آپ کے سوالوں سے مینیجر بڑا متاثر ہوا اور پوچھنے لگا آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں۔حضرت میاں صاحب نے بتایا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں تو مینیجر مجھے کہنے لگا کہ مجھے یقین نہیں آرہا کہ پاکستان سے آنے والے شخص کو جدید مشینری کی اتنی وسیع معلومات ہیں۔ ٭… ایک سفر میں محترمہ صاحبزادی امۃالقدوس بیگم صاحبہ بھی ساتھ تھیں۔ سارا راستہ حضرت میاں منصور صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ کو صرف یہ فکر تھی کہ خاکسار کو کھانے پینے کی کوئی طلب تو نہیں ہے۔جب ہم لیک ڈسٹرکٹ میں جھیل Windermere سے جھیلUllswater کی طرف جا رہے تھے تو حضرت میاں صاحب نے محترمہ صاحبزادی امۃالقدوس بیگم صاحبہ کو فرمایا قوسی! باری کو کچھ کھانے پینے کو دو، ورنہ یہ کہے گا کہ میاں منصور نے مجھے بھوکا مروادیا ہے۔ حضرت میاں صاحب کے حکم پر خاکسار نے جھیلBrothers Water کے کنارے گاڑی روکی جہاں لیک ڈسٹرکٹ کا بہت ہی حسین نظارہ تھا۔ حضرت بیگم صاحبہ خودکھانا ڈال کر مجھے دینے لگیں۔ خاکسار نے عرض کی کہ بیگم صاحبہ یہ تو زیادتی ہے، آپ کی خدمت کے لیے تو مَیں حاضر ہوں۔حضرت بیگم صاحبہ نے فرمایا تم جو ہمیں سیرکروارہے ہو یہی ہماری بہت بڑی خدمت ہے۔ ٭… لیک ڈسٹرکٹ میں جھیل Windermere سے جھیل Ullswater جاتے ہوئے پہاڑیوں پر بہت خوبصورت نظارے ہیں۔کہیں جھیلیں ہیں تو کہیں آبشاریں۔ کہیں آپ اونچائی پر ہیںاوربادل آپ سے نیچے نظر آتے ہیں تو کہیں دُور بارش کا خوبصورت نظارہ نظر آرہاہوتا ہے۔ حضرت میاں صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ کو میں نے ہربار دیکھا کہ ایسے خوبصورت نظاروں کو دیکھ کر خوب اللہ تعالیٰ کی حمد فرماتے اور مسلسل سبحان اللہ کا ورد فرماتےرہتے۔ ٭…لیک ڈسٹرکٹ کا بلندترین مقام Kirkstone Passکے مقام پر ہے جہاں ایک کیفے بھی ہے اورکار پارک سے پہاڑوں پر کوہ پیما چڑھتے نظر آتے ہیں۔ ایک دفعہ ہم یہاںرکے تو حضرت میاں صاحب نے دریافت فرمایا کہ اس کیفے میں کیاملتا ہے؟ خاکسار نے عرض کی کہ یہاں چائے،کافی، ٹھنڈے مشروبات اور کھانے کی اشیاء ملتی ہیں۔خاکسار نے عرض کی کہ کیفے سے گرم گرم مشروب لے کر آتا ہوں لیکن حضرت میاں صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ مانتے نہیں تھے،خاکسار کے اصرار پر آپ ازراہِ شفقت مان گئے اور خاکسار نے وہاں سے چائے اور کافی خرید کر پیش کی۔ خاکسار کی حوصلہ افزائی کی خاطر حضرت میاں صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ بہت تعریف کرنے لگے کہ مشروبات بہت مزیدار ہیں۔ الحمد للہ۔ ٭… جھیلWindermere کے کنارے پر ایک خوبصورت قصبہ Bowness ہے جہاں بہت سے کاروباری مراکز ہیںاور اکثر خوب رونقیں لگی رہتی ہیں۔ یہاں حضرت میاں صاحب کی اجازت سے گاڑی روکی تاکہ کچھ دیر چل پھر کر جھیل کا نظارہ کر سکیں۔ یہاں جھیل پر بے شمار طرح طرح کی رنگ برنگی کشتیاںاور چھوٹے جہاز کرائے پر بھی مل جاتے ہیں۔ اسی طرح تیراکی اور Surfing کے شوقین افراد کے لیے انتظامات ہیں۔ یہاں حضرت میاں صاحب کی نظر ایک دکان پر پڑی جہاںکشتیاں اور سمندری کھیلوںکا سامان ملتا تھا۔ حضرت میاں صاحب اُس دکان میں چلے گئے، خاکسار بھی حضرت بیگم صاحبہ کے ساتھ اُن کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ حضرت میاں صاحب نے سٹور میںساری کشتیوں کے متعلق معلومات لیں،ایک کشتی کے پاس جاکرحضرت بیگم صاحبہ سے فرمانے لگے اس طرح کی کشتی ہمارے ربوہ میںدریائے چناب میں بڑی کام آسکتی ہے۔ ٭… آپ کے یوکے کے آخری سفر کے دوران بھی خاکسار کو حضرت میاں صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ کو لیک ڈسٹرکٹ لے کر جانے کا اعزازحاصل ہوا۔ واپسی پر خاکسار نے عرض کی کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ آپ اور حضرت بیگم صاحبہ تھوڑی دیر کے لیے ہمارے گھر تشریف لائیں۔ وہاں چائے بھی پی لیںگے اور ہمیں برکت بھی مل جائے گی۔ حضرت میاں صاحب نے حضرت بیگم صاحبہ کو فرمایا سنا ہے باری کیا کہہ رہا ہے، ہمیں اپنے گھر جانے کی دعوت دے رہا ہے۔ حضرت بیگم صاحبہ نے انتہائی شفقت سے فرمایا کہ چلیں ضرورچلتے ہیں۔خاکسار ان کو اپنے گھر لے گیا۔ تھوڑی دیر وہاں رُک کر چائے پی اور ہمیں ان بزرگوں کی موجودگی سے برکتیں حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ ٭… ان دنوں حضرت میاں صاحب کو گھٹنوں یا ٹانگوں میں تکلیف تھی۔ ہمارے گھر خاکسار نے اُن سے درخواست کی کہ صوفہ پر تشریف رکھیں، فرمانے لگے مَیں تو کرسی پر بیٹھوں گا، یوکے میںتم لوگوں کا یہ بڑا مسئلہ ہے کہ یہاں صوفے بہت نیچے بناتے ہیں جن پر ایک دفعہ بیٹھ جائو تو اٹھنے کی ہمت ہی نہیں رہتی۔ ٭… ایک دفعہ خاکسار ربوہ گیا ہوا تھا۔ خاکسار حضرت میاں صاحب کو سلام کرنے اور ملنے کے لیے آپ کے دفتر میں حاضر ہوا۔ جب خاکسار نے حضرت بیگم صاحبہ کا حال پوچھا تو حضرت میاں صاحب نے فرمایا شام کو کوٹھی میں آ جانا، بیگم صاحبہ سے مل بھی لینا اور خود حال بھی پوچھ لینا۔ اسی شام خاکسارحضرت میاں صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ کو سلام کرنے کے لیے ان کی کوٹھی پر چلا گیا۔ جب حضرت میاں صاحب کواطلاع دی گئی تو خود ہی بڑی شفقت سے باہر تشریف لے آئے اور خاکسار کو اپنے ہم راہ گھر کے سٹنگ روم میں لے گئے۔ فرمایا کہ میں بی بی کو بتا دوں کہ تم ہمیں ملنے آئے ہو، حضرت بیگم صاحبہ پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر بڑے پیار سے خاکسار کا اور بیوی بچوں کا حال پوچھنے لگیں اور فرمایا اچھا کیا تم ہمیں ملنے کے لیے گھر آگئے ہو،اگر دفتر سے ہی مل کر چلے جاتے تو صرف میاں صاحب سے ہی ملتے۔ حضرت بیگم صاحبہ خاکسار کی دادی جان مرحومہ کا ذکر اور ان کے ہاتھ سے بنائے ہوئے ساگ اور اچار کا ذکربھی بڑے پیار سے فرماتی رہیں۔ حضرت میاں صاحب نے اصرار فرمایا کہ اب آئے ہو تو ضرور کچھ کھا کر جانا۔ حضرت بیگم صاحبہ نے فرمایا کہ ان کو وہ چیز کھلاتے ہیں جو ان کو انگلستان میں نہیں ملتی۔ چنانچہ آپ نے حضرت میر مسعود احمد صاحب کے گھر سے جو ہمسائے میں ہی تھا بڑے پیار سے بھینس کی تازہ بوہلی منگواکر خاکسار کو پینے کے لیے دی۔ اب یہ تو ایک خاص سوغات تھی جو واقعی انگلستان میں کہاں ملتی ہے۔ خاکسار کو یہ بہت عرصہ کے بعد ملی تھی اور جس پیار اور شفقت سے ملی تھی اس کی مٹھاس نے تو اس کو اور زیادہ لذیذ کردیا تھا۔ خاکسار نے بڑے مزے لے کر پی اور حضرت میاں صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ کا شکریہ ادا کیا۔ ٭… باتوں باتوں میں حضرت میاں صاحب نے دریافت فرمایا کہ تمہارا کیا پروگرام ہے؟ خاکسار نے عرض کی کہ رشتہ داروں سے ملنے کے لیے ڈسکہ بھی جانا ہے۔ آپ نے پوچھا ڈسکہ کیسے جائو گے؟خاکسار نے عرض کی بس پر یا اگر کوئی گاڑی کرایہ پر مل گئی تو اُس میں جائیں گے۔ آپ نے فرمایا کل میرے دفتر آنا۔ خاکسار دوسری صبح پھر دفتر میں حاضر ہو گیا۔ حضرت میاں صاحب نے دریافت فرمایا کہ کُل کتنے آدمی ہو۔ خاکسار کے جواب عرض کرنے پر حضرت میاں صاحب نے ڈرائیور کو بلوایا اور انتہائی شفقت سے ایک بڑی وین ہمیں ڈسکہ جانے کے لیے دے دی۔ خاکسار کا دل حضرت میاں صاحب کے اس احسان پر آپ اور حضرت بیگم صاحبہ کے لیے دعائوں سے بھر گیا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ حضرت میاں صاحب اور حضرت بیگم صاحبہ کو جنت الفردوس میں کروٹ کروٹ بلند سے بلند ترمقام عطافرماتا چلا جائے۔آمین۔ (باقی آئندہ بدھ کو ان شاء اللہ) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: اسلام کی پیش کردہ سچی توحید جس کو مسیح موعودؑ نے دوبارہ قائم فرمایا- مسیح موعودؑ اور قیامِ توحید