اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط۱۳۔گذشتہ سے پیوستہ) اسیران راہ مولیٰ کی سرگذشت روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں محترم آغا سیف اللہ صاحب سابق مینیجر روزنامہ الفضل نے مکرم نسیم سیفی صاحب مدیر الفضل کے ساتھ اسیری میں گزارے ہوئے اپنے ایک ماہ کا احوال بیان کیا ہے۔ ۱۹۹۴ء میں روزنامہ الفضل اور ماہنامہ انصاراللہ پر ایک مقدمے کے سلسلے میں پانچ احمدی مکرم مرزا محمدالدین ناز صاحب،مکرم چودھری محمد ابراہیم صاحب،مکرم قاضی منیراحمد صاحب اور ہم دونوں رمضان المبارک کے مقدس ایام میں جیل کی ایک تنگ و غلیظ بیرک میں زیر حراست تھے جس میں خاصی تعداد میں غیر از جماعت افراد کو بھی رکھا گیا تھا۔ ہم فرض نمازوںکے علاوہ ادائیگی نوافل، ذکر الٰہی، قرآن کریم کی تلاوت اور پُرسوز دعائوں میں لگن اختیار کرتے ہوئے فضل خدا کے طلبگار اور تبدیلیٔ ایام ابتلا کے متمنی تھے۔ اگرچہ سیشن جج نے F.I.Rمیں ۲۹۵سی کا اضافہ کرکے ہمیں سزائے موت کے خوف میں مبتلا کرنا چاہا تھا لیکن پوری سچائی سے بیان ہے کہ ہم میں سے کسی کے اعصاب پر بھی یہ خطرہ محیط نہ ہوا تھا۔ قید کوٹھڑی کی تنگی اور تعفّن سے ہم ضرور تنگ تھے چونکہ اس کے عادی نہ تھے۔ صبر و شکیبائی، ہمت و جرأت اور مستقل مزاجی و استقامت کی صفات اپنائے مومنانہ شان بےنیازی کا مظہر ہمارے بزرگ و محترم نسیم سیفی صاحب ہم سب کے لیے عزم صمیم اور ایمان راسخ میں ایک نمونہ تھے۔ بڑھاپے اورضعف جسمانی کے باوجود صدق ایمانی و باطنی روحانی قوت کے سہارے ذہن و فکر کو جلا دیتے ہوئے لحاف لپیٹے بستر میں لیٹے چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر سامنے رکھتے اور دیگر قیدیوں کی خرافات کو نظرانداز کرتے ہوئے اشعار کی آمد کو قطعات کی صورت میں ریکارڈ کرتے جن میں پیش آمدہ حالات کی کیفیت کو پُر معنی اور بعض اوقات ذُومعنی الفاظ کی صورت میں نظم میں ڈھالتے۔ آفرین اور خراج تحسین ہے اس مرد مجاہد کی قوت حوصلہ، برداشت اور صحتِ ایمانی و فکری پر۔ اہل قلم کے نزدیک محترم المقام نسیم سیفی صاحب فن شاعری کی نسبت سے قوت متخیلہ اور مضمون افروزی میں منفرد شخصیت تھے۔ ایسے لطیف احساسات اور طُرفہ صلاحیتوں کے حامل شاعر کا وحشت ناک ماحول میں قیدو بند کی زندگی گزارنا غیرمعمولی اور المناک حادثہ ہے۔ اسی دکھ سے متاثر ہو کر محترم خواجہ سرفراز احمد صاحب ایڈووکیٹ نے ایک بار آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سیفی صاحب! کاش میرے بس میں ہو تو مَیں آپ کی جگہ پر ہوتا اور آپ میری جگہ پر۔ ایک شاعر اور معزز معروف شخصیت جس نے عظیم سیاسی لیڈروں، سماجی راہنمائوں، دانشور فلاسفروں، سرکردہ علماء بلکہ افریقہ کے سربراہان مملکت اور بادشاہوںکو نہایت دلیری اور وقار کے ساتھ پیغام حق پہنچایا ہو اور مختلف ممالک میں اس کی ادبی و علمی اور دینی خدمات کی تعریف و ستائش ہوتی آئی ہو تو ایسے سعید وجود کا ایامِ اسیری کو پُرسکون اور معتدل انداز میں گزارلینا ایک خارق عادت وقوعہ ہی سمجھا جائے گا۔ اللہ کریم ان کے صبر و دینی حمیت کا اجر عظیم عطا فرمائے اور ان کا ذکر خیر ان کی خدمات و ایثار و قربانی کے لحاظ سے ہمیشہ جماعت احمدیہ میں زندہ و تابندہ رہے۔آمین ………٭………٭………٭……… الفضل سے وابستہ خوبصورت یادیں مکرم مولانا فضل الٰہی انوری صاحب (سابق مبلغ افریقہ و یورپ) لکھتے ہیں خاکسار۱۹۲۷ء میں بھیرہ (ضلع شاہ پور۔ حال سرگودھا) میں پیدا ہوا۔ یہیں خاکسار کے ننہال تھے لیکن پرلے درجہ کے جاہل اور اَن پڑھ۔ اس کے برعکس والد محترم ماسٹر امام علی صاحب حضورپوری ثم بھیروی، محکمہ تعلیم میںمدرس تھے۔میرے تایا محترم ماسٹر محمد زمان صاحب (مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) ہمارے خاندان میں پہلے احمدی ہوئے۔ اگرچہ وہ جوانی میں ہی فوت ہو گئے مگر ان کی وجہ سے گھرمیں احمدیت کا چرچا ہوتا رہتا تھا۔ مگر ابا جان نے بہت بعد میں یعنی اندازاً ۱۹۳۰ء میں احمدیت قبول کی۔اُس وقت خاکسار موضع سالم کے مڈل سکول کی دوسری یا تیسری جماعت میں پڑھتا تھا جہاں ابا جان بطور سیکنڈماسٹر ملازم تھے۔سکول میں اباجان کے علاوہ دوتین اَور مدرس بھی احمدی تھے جن کے ساتھ جمعہ کی نماز باجماعت ادا ہوتی تھی۔ غیراحمدی ٹیچرز کے ساتھ مذہبی بحث بھی جاری رہتی۔ اعتراضات کا جواب تلاش کرنے کے لیے اباجان اخبار الفضل منگوایا کرتے۔ جبکہ دوسرے ٹیچر اخبار زمیندار منگوایا کرتے جس کا مرغوب مشغلہ احمدیت پر نت نئے اعتراضات شائع کرنا تھا۔ جب بھی کسی اخبار میں احمدیت پر کوئی اعتراض شائع ہوتا تو کچھ دنوں کے بعد اس کا جواب الفضل میں شائع ہو جاتا۔ علاوہ ازیں اخبار الفضل ا پنے علمی اور تربیتی مضامین کے اعتبار سے اُس وقت بھی ایک بہت بڑے معلّم اور مربی کا کردار ادا کر رہا تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے خطباتِ جمعہ ہر ہفتہ ایک نئی روحانی غذا لے کر آتے جو دلوں کو مسخر کیے بغیر نہ رہتی۔ ان باتوں کا ذکر اباجان گھر آکر بھی کرتے۔ والدہ صا حبہ جو اپنے غیر از جماعت والدین کے اثر کے تحت شروع شروع میں کچھ مخالفانہ رنگ رکھتی تھیں، الفضل سے متاثر ہوتیں اور ایک عرصے بعد انہوں نے بھی بیعت کرلی اور پھر ایسا اخلاص دکھایا کہ مالی قربانی کی ایک بہترین مثال قائم کر دی۔ ابا جان بتایا کرتے تھے کہ ایک سکول میں جس میں مَیں پڑھاتا تھا، ایک بار ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ مَیں نے تبادلہ کی ضرورت محسوس کی اور اس کے لیے دعا کرنی شروع کردی۔ درخواست محکمہ میں بھیجے ہوئے جب کافی عرصہ گزر گیا اور کوئی جواب نہ آیا تو میرے دل میں دعا کے بارے میں کچھ بدظنی پیدا ہونی شروع ہو گئی۔ اس اثنا میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکا ایک خطبہ الفضل میں شائع ہوا جس میں دعا ہی کا مسئلہ بیان ہوا تھا اور بتایا گیا تھا کہ دعا کے بارے میں کبھی ناامید نہیں ہونا چاہیے۔اور یہ کہ بعض دعائیں ایسی ہوتی ہیں جن کو قبولیت کی حد تک پہنچنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ اور مثال بھی وہی دی ہوئی تھی جس سے خود مَیں دوچار تھا۔ یعنی فرمایا کہ مثلاً ایک ٹیچر ہے،وہ اپنے تبادلے کے لیے دعا کرتا ہے۔اب یہ چیز ایسی نہیں جس کا ایک فرد واحد سے تعلق ہو۔ تبادلے کا خواہش مند ٹیچرآخر کسی دوسرے ٹیچر کی جگہ جائے گا اور تب جائے گا جب وہ دوسرا ٹیچر بھی تبدیل ہوگا۔ یعنی وہ کسی تیسرے ٹیچر کی جگہ جائے گا۔ اس طرح پر ایک ٹیچر کی تبدیلی کئی دوسرے ٹیچروں کی تبدیلی کے بعد عمل میں آئے گی اور اس کے لیے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔پس دعا کرنے والے کو اپنی دعا کے قبول ہونے کے لیے جلدی نہیں کرنی چاہیے۔حضورؓ کی یہ بات پڑھ کر میری ساری کوفت دُور ہو گئی کیونکہ وہ مثال ایسی تھی جو خود مجھ پر صادق آ رہی تھی اور پھر کچھ عرصہ کے بعد فی الواقعہ میراتبادلہ عمل میں آگیا۔ ایک نواحمدی گھرانے میں الفضل کا پہلا کردار روحانی شیر مادرکا تھا جس کے ہم محتاج تھے۔ الفضل کادوسرا کردارخود خاکسار کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔جب خاکسار نے گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ سے ۱۹۴۴ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تو گھریلو مالی وسائل کے پیش نظر مزید تعلیم حاصل کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ اور ابھی خاکسار سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کیا جائے کہ اخبار الفضل میں پڑھا کہ قادیان میں کالج کھل گیا ہے، میٹرک پاس کر لینے والے داخل ہونا چاہیں تو فلاں تاریخ تک قادیان پہنچ جائیں۔چنانچہ خاکسار اپنے والدین سے مشورہ کرنے کے بعد تعلیم الاسلام کالج میں داخلہ لینے کے لیے تیار ہو گیا۔اس سے قبل خاکسار ۱۹۴۰ء کے جلسہ سالانہ پر اپنے ابا جان ماسٹر امام علی صاحب کے ساتھ قادیان دیکھ چکا تھا۔خاکسار کی تائی صاحبہ مسماۃ غلام فاطمہ(بیوہ ماسٹر محمد زمان صاحب مرحوم) وہاں ہی رہ رہی تھیں۔خاکسارکے یہ تایا اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے اور ۱۹۱۴ء کے لگ بھگ بطور ٹیچرقادیا ن میں آئے تھے مگر ان کی عمر نے وفا نہ کی اور وہ تپ محرقہ سے بیمار ہو کر ۱۹۱۹ء میں فوت ہوکر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ خاکسار کی تائی صاحبہ اپنے میاں کی وفات کے بعد دارالمسیح قادیان میں منتقل ہو کربعض دیگر بیوہ عورتوں کے ہمراہ رہنے لگ گئی تھیں۔ ۱۹۴۶ء میں F.Scکا امتحان پاس کرلینے کے بعد خاکسار اپنے وطن بھیرہ میں تھا کہ الفضل میں حضرت مصلح موعودؓ کی جانب سے نوجوانوں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک شائع ہوئی۔ چنانچہ والدین کی اجازت کے ساتھ خاکسار نے اپنی زندگی وقف کرنے کی درخواست حضور کی خدمت میں بھیج دی۔حضورؓ کی طرف سے قادیان پہنچنے کا ارشاد ملا تو اپریل یا مئی ۱۹۴۷ء میں خاکسار حاضر ہوگیا۔ انٹرویو کے بعد فیصلہ ہوا کہ خاکسار کو فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے لیے لے لیا جائے۔لیکن جلد ہی تقسیم ہند کی وجہ سے حالات بدل گئے۔ چنانچہ میں تعلیم الاسلام کالج لاہورسے B.Scکرکے ربوہ میں حاضر ہوا تو حضورؓ نے جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کا ارشاد فرمایا۔ مربی بننے کے بعد خاکسار کو مغربی افریقہ اور جرمنی میں خدمت کی توفیق ملی۔ جب ایک بار خاکسار جرمنی سے واپس پاکستان پہنچا تو خاکسار کی ڈیوٹی حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے دفتر میں بیرونی ڈاک کے دیکھنے پر لگی۔ اس دوران بعض اوقات خود بھی ایسی مجالس میں شریک ہو جاتا جو غیرازجماعت احباب کے ساتھ منعقد ہوتیں۔ حضورؒ کا موضوع سخن ان ایام میں زیادہ تر ان افضال الٰہیہ سے متعلق ہوتاجو عام احمدیوں پر رؤیائے صالحہ اور کشوف کی صورت میں نازل ہو رہے ہیں اوران کی ایمانی تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ کئی واقعات حضورؒ کی زبان مبارک سے سنے تو حضورؒ سے اس موضوع پر ایک کتاب مرتّب کرنے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر الفضل کے ذریعے دعوت عام دی گئی تو قریباً ایک سو احباب کی طرف سے اڑھائی صد ایسی ایمان افروز خوابیں موصول ہوئیں۔ نیز پہلے سے شائع شدہ رؤیائے صادقہ کو الفضل اور دیگر رسائل سے اکٹھا بھی کیا۔ چنانچہ اب تک ’’درویشان ِاحمدیت‘‘ کے نام سے اس کتاب کی چھ جلدیں شائع ہوچکی ہیں جن میں جا بجا اُن رؤیا ئے صالحہ کا ذکر ہے۔ پس خاکسار بجا طو ر پراپنے آپ کوروزنامہ الفضل کاممنون احسان سمجھتا ہے کہ جس کی بدولت خاکسار کوایسا مواد میسر آگیا جو ان کتب کی زینت بنا۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم شیخ مجاہد احمد صاحب (سابق شاستری) ایڈیٹر ہفت روزہ بدر قادیان بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کی پیدائش یکم جنوری ۱۹۷۸ء کی ہے۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک کا امتحان درجہ اوّل میں پاس کرنے کے بعد یکم اگست ۱۹۹۳ء کو ’’جامعہ احمدیہ‘‘ میں داخلہ لیا اور فروری ۲۰۰۰ء میں یہاں سے فارغ التحصیل ہوا۔ جامعہ میں دَورِ طالبعلمی کے دوران احمدیہ لائبریری واقع قصر خلافت میں جانا شروع کردیا۔ لائبریری میں اکثر ایک شناسا چہرہ میز پر الفضل کی ضخیم جلدیں سامنے رکھے محو مطالعہ نظر آتا۔ لمبا قد، خوبصورت گورا رنگ، چہرے پر موٹے شیشوں والی عینک لگائے متفکرانہ انداز میں فائلوں میں ڈوبا ہوا ایک شخص، اُسے معلوم ہی نہ ہوتا کہ کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے۔ آنے والے کے السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ کے جواب میں ’وعلیکم السلام و رحمۃ اﷲ و برکاتہٗ کا تحفہ پیش کرکے دوبارہ مطالعہ میں مصروف ہو جاتا۔ یہ تھے ہمارے محترم درویش بزرگ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے۔ جتنا عرصہ لائبریری میں گزرتا آپ کو مطالعہ میں مصروف پاتا۔ کبھی کوئی نشانی کسی فائل میں رکھ رہے ہیں تو کبھی کوئی نشان کسی جگہ لگا رہے ہیں۔ آج بھی آپ کی لگائی ہوئی نشانیاں الفضل کی فائلوں میں نظرآجاتی ہیں۔ جب کبھی آپ مطالعہ کی تھکاوٹ محسوس کرتے تو لائبریری میں موجود افراد کے ساتھ محو گفتگو ہوجاتے اور اصحاب احمدؑ کے دلنشین واقعات یوں بیان کرتے گویا تمام حاضرین کو اصحاب احمدؑ کی پاکیزہ مجلس میں لے جاتے۔ جب لائبریری کا وقت ختم ہو جاتا تو مددگار کارکن الفضل اور البدر کی ضخیم فائلیں اٹھائے محترم ملک صاحب کے گھر رکھ آتا۔ آپ گھر میں نہ جانے کتنے گھنٹے ان فائلوں کا مطالعہ کرتے لیکن اس عرق ریزی کا نتیجہ یعنی ’’اصحاب احمدؑ‘‘، ’’تابعین اصحاب احمدؑ‘‘ اور ’’مکتوباتِ احمدؑ‘‘ کی سیریز ہمارے سامنے ہے۔ ابتدائی تعارف اخبار الفضل سے یوں ہوا کہ جامعہ احمدیہ میں تقریری صلاحیت بڑھانے کے لیے دس دس منٹ پر مشتمل مختلف موضوعات پر تقریر کرنی ہوتی تھی۔ ہر طالب علم کی ہفتہ میں ایک بار تو لازماً باری آ جاتی تھی۔ تقاریر کی تیاری کرنا ایک بڑا بھاری مرحلہ ہوتا تھا جس کے لیے اخبار الفضل سے استفادہ کیا جاتا۔ آہستہ آہستہ مزہ آنے لگا۔ تقریر کے موضوع کی تلاش میں ساری فائل کی ورق گردانی ہوجاتی بلکہ کئی مضامین پڑھنے کا موقع مل جاتا۔ مطالعہ کی عادت شروع سے طبیعت میں تھی، الفضل کے مطالعہ نے اس میں مزید چاشنی بھر دی۔ جامعہ میں موسم بہار کی دو ہفتے کی چھٹیاں آتیں تو طلبہ وقف عارضی پر جاتے۔ ایک سال بعض وجوہ سے یہ پروگرام ملتوی ہوگیا تو خاکسار نے لائبریری میں اخبار بدر، الفضل و دیگر جماعتی رسالہ جات کی فہرست تیار کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ ۱۹۱۴ء سے اخبار الفضل کا مطالعہ شروع کیا اور مضامین کی فہرست بنالی جس سے بہت استفادہ کیا۔ جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جون ۲۰۰۵ء تک بنارس میں ہندو یونیورسٹی میں سنسکرت زبان میں تخصص کی توفیق ملی۔ ۲۰۰۵ء میں قادیان آنے پر نظارت نشر و اشاعت قادیان میں بطور ہندی مترجم تقرر ہوا تو اخبار الفضل کا مطالعہ دوسرے نقطہ نگاہ سے شروع کیا۔ محترم مہاشہ محمد عمر صاحب، محترم فضل الدین مہاجر صاحب اور مولانا ناصرالدین و دیار تھی صاحب کے ہندو ازم کے بارے میں معلوماتی اور تحقیقاتی مضامین کے مطالعہ سے بہت فائدہ ہوا۔ جلسہ پیشوایان مذاہب میں جب بڑے بڑے علماءِ ہنود کے سامنے ان مضامین میں بیان کیے گئے نکات پیش کیے جاتے ہیں تو وہ ان نکات کو خوب پسند کرتے ہیں اور برملا اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ان مضامین کو ہندی زبان میں پھیلانا چاہیے۔ اخبار الفضل نے جماعت احمدیہ کی کئی رنگ میں خدمات کی ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ کو محفوظ رکھنے، مخالفین کے اعتراضات و الزامات کا جواب دینے اور نئے نئے مضمون نگار پیدا کرنے میں اس کی خدمات قابل قدر ہیں۔ ………٭………٭………٭……… مکرم منور اقبال مجوکہ صاحب سابق امیر ضلع خوشاب بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کا تعلق پنجاب کے ایک ایسے دُوراُفتادہ علاقے سے ہے جو ایک لمبے عرصہ تک تمام تر بنیادی سہولتوں سے محروم رہا ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے گاؤں میں بجلی جیسی نعمت کو دستیاب ہوئے بھی دوچار سال ہی ہوئے ہیں۔ یہ خاکسار کی خوش قسمتی ہے کہ ایک احمدی گھرانہ میں آنکھ کھولی اور پڑھنے لکھنے کی تھوڑی سی سوجھ بوجھ ہوئی تو قرآن کریم کے بعد تحریری صورت میں الفضل ہی استاد و معلّم ٹھہرا۔ میرے والد مکرم ملک عمر حیات صاحب مجوکہ جو قریباً بیس سال صدر جماعت رہے۔ وہ الفضل باقاعدگی سے بذریعہ ڈاک منگواتے اور انہیں اخبار کا انتظار اور اس سے استفادہ کا ذوق و شوق جنون کی حد تک تھا۔ ڈاکیا ہفتے میں ایک دن ہمارے گاؤں آتا اور ہفتہ بھر کے الفضل اکٹھے دے جاتا۔ اس لیے ڈاکیے کے انتظار میں بھی ایک خاص لذت اور سرور کا سماں رہتا۔ پھر الفضل کا ایک ایک لفظ جب تک نہ پڑھ لیا جاتا، چین نہ آتا اور اب ۴۵ سال گزرنے کے بعد بھی الفضل کے انتظار کی کیفیت ویسی ہی ہے یا شاید اس سے بھی کچھ زیادہ۔ ناشتہ کرنے اور دفتر جانے سے پہلے الفضل کا مطالعہ ایک بھرپور، بابرکت اور معلوماتی دن کا ضامن ہوتا ہے۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرمہ ریحا نہ صدیقہ بھٹی صاحبہ رقمطراز ہیں کہ جب نئی نئی لاہور شفٹ ہوئی تو چونکہ ہما ری والدہ کی بچوں کو ہمیشہ پہلی نصیحت یہی رہی تھی کہ جہا ں بھی رہو،گھر میں الفضل لگوائو۔ نئی جماعت میں منا سب شخص کی تلاش میں کئی دن لگ گئے۔ امی قریباً روزانہ ہی فون پر پوچھتیں کہ الفضل لگوا لی؟ آخر خدا خدا کر کے ’ہاں‘ میں جواب دیا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کا یہ فقرہ جب بھی یاد آتا ہے تو دل پسیج جاتا ہے اور آنکھیں بھر آتی ہیں کہ ’’الفضل اپنے ساتھ میری بےبسی کی حا لت اور میری بیوی کی قربا نی کو تا زہ رکھے گا۔‘‘ (تاریخ لجنہ اما ءاللہ جلداول صفحہ۱۸) الفضل ہمارے وجود کا حصہ ہے۔ میں ماں ہوں تو یہ میرے لیے تربیت اولاد کا ذریعہ بن کر آیا ہے، بیٹی ہوں تو مجھے والدین کے حقو ق یاد دلانے آیا ہے۔ میاں بیوی کو اُن کی ذمہ داریاں بتانے آیا ہے۔ ہمارے پیاروں کی خبریں پہنچاتا ہے، رابطے کا ذریعہ ہے۔ ہما ری تاریخ کا ایک معتبراور مستند حوالہ ہے۔ہماری تقریروں کے لیے مواد کا خزانہ ہے۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں ‘‘الفضل’’ اخبار کے حوالے سے مکرم اعظم نوید صاحب کا منظوم کلام شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: دل کے لیے بہار ہے ، روح کے لیے قرار اس کے نہیں اوصاف کا جگ میں کوئی شمار تشنہ دلوں کی پیاس بجھاتا ہے خوب یہ روحانیت کا یہ تو ہے اِک بحرِ بےکنار پنہاں ہیں اس میں علم اور حکمت کے باب بھی اس کے تمام سلسلے ہیں خوب طرحدار ہر لفظ ہے علوم کی بارش لیے ہوئے ہر اِک کڑی ہے دل نشیں ، پُرکیف و پُروقار اِک علم و آگہی کا سمندر ہے جوش پر عرفان و نُور کرتا ہے ہر اِک پہ آشکار تعریف اس کی کس طرح اعظمؔ کروں بیاں الفضل ہے زمانے میں ایک فضلِ کردگار مزید پڑھیں: الفضل ڈائجسٹ