https://youtu.be/kpAP96kFqgg اپنی پیاری مرحومہ بیگم بشریٰ تبسّم (شیلا جی) کے نام دل کی گہرائیوں سے لکھا ہوا ایک خط خاکسار شیخ عبدالوحید نجمی اعظم کلاتھ مارکیٹ لاہور پاکستان سے اپنا کاروبار وائنڈاپ کر کے مارچ ۲۰۱۹ء میں اپنی بیگم کے ساتھ لندن آگیا تھا اور آتے ہی صرف تین ماہ بعد میری بیگم کو ڈاکٹروں نے جگر کے کینسر کی تشخیص کرنے کے بعد کہا کہ یہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ زندہ رہ سکتی ہے اور وہی ہوا کہ ایک ماہ کے اندر ہی (بعمر ۵۹؍سال) وہ اپنے حقیقی مولا کے حضور حاضر ہوگئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر دے۔آمین ٭…٭…٭ میری پیاری شیلا جی۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ جبکہ مجھے پتا ہے کہ اس سلام کا جواب دینے والی تم اس دنیا میں ہی نہیں ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ یہ سلام جنت میں ضرور تمہارے پاس پہنچ جائے گا اور تمہاری روح خوش ہو کر سلام قبول کرلے گی۔ آج جب میں لکھنے بیٹھا ہوں تو تمہاری ہر یاد اُمڈتی چلی آرہی ہے۔ ہر لمحہ جو ہم نے ساتھ گزارا عرصہ بیالیس سال جو ہماری رفاقت رہی وہ ایک یادگار مثالی کہانی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان بیالیس سال میں ہم میاں بیوی کا کبھی کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا تھا اور ہردوخاندان میں ہماری محبت اور باہمی پیار کی باتیں ہوتی تھیں اور ہماری مثالی اور خوبصورت جوڑی کے چرچے زبان زدِعام تھے۔ الحمدلله مجھے یاد ہے کہ جب ہم لندن آئے تو ہم دونوں اکٹھے پیدل مسجد فضل نمازوں کی ادائیگی اور حضورِانور کا دیدارکرنے کے لیے جایا کرتے تھے تو اُس وقت تمہارے چہرے پر کتنی خوشی ہوتی تھی اور تم نصرت ہال کے باہر اور مَیں سامنے محمود ہال کی طرف لوگوں کی قطاروں میں کھڑے ہو کر حضور کے دیدار کا انتظار کرتاتھا اور پھر نماز کے بعد بھی جلدی جلدی باہر آکر حضور کو دوبارہ دیکھنے کی حسرت پوری کرتے ہوئے ہاتھ ہلا ہلا کر حضور کو سلام پیش کرتے تھے۔ میرے دل میں آج بھی وہ یادیں نقش ہیں۔ اور پھر گھر سے مسجد فضل جاتے ہوئے راستے میں گرینول روڈ پر چوک میں ایک لکڑی کا بنچ تھا جو آج بھی وہاں موجود ہے جس پر تم بیٹھ کر تھوڑا آرام کرتی تھی۔ آج بھی جب میں وہاں سے گزرتا ہوں تو اُس بنچ کو دیکھے بغیر اور کچھ سیکنڈ اُس کے پاس رکے بغیر مجھ سے آگے نہیں جایا جاتا اور میری آنکھوں میں تمہاری پیاری تصویر ابھر آتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم اب بھی وہاں بیٹھی ہوئی ہو۔ پنجابی میں کسی صوفی شاعر نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے: میلیاں اکّھاں دھو نہ لئیے؟ کسے بہانے رو نہ لئیے؟ ایتھے اوہنوں تکیا سی میں ایتھے جھٹ کھلو نہ لئیے؟ لیکن پھر صبر کر کے مسجد کی طرف روانہ ہو جاتا ہوں۔ کیونکہ نماز کا وقت قریب ہو رہا ہوتا ہے۔ پھر مسجد تک دماغ میں یہ اشعار گردش کرتے رہتے ہیں۔ راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو بلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر پاکستان میں بیالیس سال میں اوّل تو کوئی تکلیف آئی ہی نہیں تھی۔ الحمدللہ۔ لیکن پھر بھی کوئی تکلیف ہو یا آرام و آسائش، تمہارے ساتھ گزرا ہوا ہر لمحہ قیمتی تھا۔ آج مجھے وہ لمحے بہت یاد آرہے تھے۔ تم نے مجھ سے کبھی کوئی تقاضے نہیں کیے اور مَیں جس قدر بھی آرام اور آسائش یا سہولیات تمہیں دے سکا تم اُس پر ہمیشہ خوش رہی۔ لاہور میں جب مَیں نے کاروبار شروع کیا تو صفر سے شروع کیا تھا اور پھر آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ نے جو بے شمار فضل فرمائے اُس میں تمہاری دعائیں، طرزِ زندگی اور عقل مندی تمہارے تعاون کے منہ بولتے ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پراپرٹی، مال و دولت اور اچھی خوبصورت اولاد سے نوازا۔ الحمدللہ تم نے نہایت عقل مندی سے خاوند کی کمائی کو احسن طریقے سے خرچ کیا اور میری کامیابی کے پیچھے یقیناً یقیناً تمہارا ہاتھ ہے جس کے لیے میں تمہارا ممنون ہوں۔ آج جب تم میرے سے دُور بہت دُور چلی گئی ہو تو میں صرف اور صرف تمہارے لیے دعا ہی کر سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری روح کو ہمیشہ ہمیش خوش رکھے۔ آمین اور پھر ایک حسین یاد، مَیں جب بھی کام سے واپس گھر آتا تو تم ہمیشہ تازہ روٹی میرے سامنے پکا کر گرم گرم لاتی تھی جس کا ذائقہ میں مرتے دم تک نہیں بھول پاؤں گا۔ میں کاروباری سلسلے میں بہاولپور ہر ہفتے جایا کرتا تھا اور واپسی رات دیر کو ہوا کرتی تھی تو تُو اللہ کی نیک بندی مجھے اُس وقت بھی ٹفن سے نکال کر روٹی نہیں دیتی تھی بلکہ چولہا جلا کر تازہ روٹی پکا کر دینا پسند کرتی تھی۔ حالانکہ میں تم کو کہتا رہتا تھا کہ ٹفن میں رات کو رکھ دیا کرو لیکن تمہاری محبت مجھے تازہ ہی کھلانے پر بضد تھی۔ جو محبت کا سلوک تم میرے ساتھ کرکے گئی ہو اُس کے بدلے میں ہر روز نمازوں میں باقاعدگی سے اپنے ماں باپ کے ساتھ تمہارا نام بھی ضرور لیتا ہوں اور اس میں میرے مرنے تک ان شاء اللہ کبھی کوتاہی نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ تم سے نہایت اچھا سلوک کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ یہی وہ دعا ہے جو میرا روزانہ کا معمول ہے۔اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین تیری خوبیاں اور میرے ساتھ بتائے ہوئے دنوں کی حسین یادیں اتنی زیادہ ہیں کہ میرے پاس اتنے الفاظ ہی نہیں کہ میں بیان کر سکوں۔ میری تھوڑی اور نامکمل تحریر کو ہی کافی سمجھنا۔ میری دعا ہے کہ آنحضور ﷺ کے دست مبارک کا سایہ ہمیشہ تمہارے سر پر رہے ۔آمین ایک حسین یاد یہ کہ جب مَیں صبح صبح ناشتہ کرنے کے لیے ٹیبل پر بیٹھتا تھا تو تم کتنے ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ مجھے اور ساری فیملی کو ناشتہ کرواتی تھی اور پھر ناشتے کے بعد نہایت ہنستے مسکراتے گلاب جیسے چہرے کے ساتھ فی امان اللہ کہنے کے لیے چل کر دروازے تک آتی تھی اور یہ تمہاری روزانہ کی روٹین ہوا کرتی تھی۔ آج بھی میں جب کبھی پاکستان جاتا ہوں، اُس گھر میں وہ ٹیبل اسی طرح پڑا ہوا ہے۔ میں جتنے دن لاہور رہتا ہوں اُسی ٹیبل پر اپنی ہی جگہ پر بیٹھ کر ناشتہ کرتا ہوں اور ساتھ والی سیٹ پر تمہیں نہ پا کر میری آنکھوں سے آنسو نکلنے کو ہوتے ہیں اور سینہ و دل پھٹنے کو آتا ہے۔بڑی مشکل سے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن سچ پھر بھی ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔ دل بھی اداس ہے اور میرے اس گھر کے دروازوں کی چوکھٹیں بھی تیرے پیروں کی آہٹ کو ترستی ہیں۔ اور پھر ایک اور تیری بات جو مجھے خوب یاد ہے وہ تیری نفاست تھی جو تیرے رہنے سہنے کے طور طریقے اور گھر گُرہستی سے خوب عیاں ہوتی تھی اور ہر آنے والے مہمان کو متاثر کیے بغیر نہیں رہنے دیتی تھی۔ تم ہر چیز کو خوب حفاظت اور نفاست سے سنبھال کر رکھتی تھی۔ یہ نفاست تمہاری اچھی سوچ کا ہی عکس تھا۔ اور پھر تمہارے ہاتھ سے پکے ہوئے کھانوں کی کیا بات کروں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ہاتھ میں جو لذت ڈالی ہوئی تھی وہ ہر کسی کو کہاں نصیب ہوتی ہے؟ جو مہمان تمہارے ہاتھ کا کھانا ایک بار کھا لیتا تھا وہ دوبارہ آنے پر اپنے منہ سے کہہ کر اسی کھانے کی فرمائش ضرور کرتا تھا اور یہ بات پورے خاندان میں مشہور تھی۔ اس لحاظ سے بھی میں تمہارا ممنون ہوں کہ میرے گھر میں مہمان کی خوب تواضع ہوتی تھی اور مہمان خوش واپس جاتے تھے اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوتا تھا اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہارے درجات بلند کرے۔ آمین ان بیالیس سال میں مَیں نے تم میں کئی اچھی باتیں دیکھیں جن سے تمہاری شخصیت نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔ ان میں سب سے نمایاں ‘‘حقوق الله اور حقوق العباد’’ کی ادائیگی ہے۔ تم نے ہر رشتے کو حسب تعلق اور حسب توفیق خوب نبھایا۔ سسرال ہو یا ماں باپ کا گھر کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی۔ تم نے کبھی اپنے ماں باپ کو کوئی فرمائش نہیں کی۔ اسی طرح تم نے ہمیشہ اپنی بہنوں کو بھی خوش رکھا۔ کمال کی عاجزی تھی۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہارے درجات بلند کرے۔ آمین جب بھی اپنے ماں باپ کے گھر جاتی تو کبھی بھی خالی ہاتھ نہیں جاتی تھی اور چھوٹے بچوں کے لیے لازمی کوئی نہ کوئی چیز لے کر جاتی تھی۔ ہمیشہ مجھے کہتی کہ میں بڑی پھوپھو ہوں میں نے خالی ہاتھ نہیں جانا اور اس طرح سب بچوں کی ہر دل عزیز شخصیت تھی۔ عیدین کے موقع پر سب کو بڑھ چڑھ کر عیدی دیتی تھی اور کسی ایک کو بھی بھولتی نہیں تھی اور وہ گزری ہوئی عیدیں آج بھی اپنے اندر کئی اچھی یادیں چھپائے ہوئے ہیں۔ آج جب تم ہمارے پاس نہیں اور عیدیں تو اب بھی آتی ہیں لیکن اُداس کر جاتی ہیں۔ شاید ایسے ہی کسی موقع کے لیے صوفی شاعر نے کچھ یو ں لکھا ہے۔ عیداں تے شبراتاں آئیاں سارے لوکی گھراں نوں آئے او نئیں آئے محمد بخشا جیہڑے آپ ہتھیں دفنائے جس طرح تم نے میرے ساتھ وقت گزارا اُس دوران میں نے تم سے بہت کچھ سیکھا۔ صبر، قناعت، لوگوں سے ہمدردی کرنا، تکلیف میں مسکرانا، ہر حال میں اللہ کی شکر گزاری اور اپنی ضروریات کو قربان کر کے دوسرں کی ضرورت کا خیال کرنا۔ اکثر فیملی کے ساتھ کار میں سفر کرتے ہوئے راستے میں کئی مفید باتیں بتاتی تھی اور کسی بات پر میرا اپنے بیٹے سے اختلاف ہوجاتا تو پیچھے والی سیٹ پر تم بیٹھی ہوتی تھی تو مجھے ہاتھ سے چٹکی کاٹ کر سمجھاتی تھی اور باتوں باتوں میں گفتگو کا موضوع کسی دوسری طرف لے جاتی اور اس طرح ماحول خوشگوار ہوجاتا تھا۔ ہر کسی کو ایسی بیوی کہاں نصیب ہوتی ہے؟ آج میں تمہارے بغیر زندگی گزار رہا ہوں اور سوچتا ہوں کہ واقعی تم نے ایک اچھے دوست کی طرح میرے ساتھ زندگی گزاری اور یہ بہاریں تمہارے جانے کے بعد اب مجھ سے روٹھ چکی ہیں۔ کسی شاعر نے ٹھیک ہی تو کہا ہے کہ سدا نہ باغیں بلبل بولے، سدا نہ باغ بہاراں سدا نہ ما پے، حُسن جوانی، سدا نہ صحبت یاراں تمہارے جانے کے بعد یہ پہاڑ جیسے روز و شب میں اُس وجود سے تعلق پیدا کرنے میں گزار رہا ہوں جس کے پاس تم چلی گئی ہو۔ پانچ وقت کی نمازوں کی ادائیگی اور روزانہ تلاوت قرآن مجید کے بعد اللہ تعالیٰ سے تمہارے درجات کی بلندی اور اپنے لیے صبر جمیل کی دعائیں مانگتا ہوں۔ اللہ کرے کہ تمہیں آنحضورﷺ کا قرب نصیب ہو اور وہ سلام نصیب ہو جس کا وعدہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجالانے والوں سے فرمایا ہوا ہے۔ آمین ہسپتال میں جب تمہاری زندگی کے آخری ایام گزر رہے تھے تو تب بھی ہماری محبت نے ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا۔ بعض لوگ حصولِ معاش کے لیے اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر بیرون ملک وغیرہ چلے جاتے ہیں اور اس طرح میاں بیوی کو مجبوراً جدائی کا زہر پینا پڑتا ہے۔ لیکن ہمارے ساتھ ہمیشہ خدا کا فضل ہوا کہ ہم کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی جدا نہیں رہے۔ اب جب کہ تو ہسپتال میں زنانہ وارڈ میں داخل تھی اور وہاں مرد رات کو مریض کے پاس نہیں رہ سکتا اور تم نے ڈاکٹروں کو درخواست کر کے سپیشل اجازت لی تھی کہ میں اُن کے بغیر نہیں رہ سکتی اس طرح تمام وقت میں تمہارے ساتھ ہی رہا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے موقع دیا کہ میں تمہاری خدمت کر سکوں۔ میں ساری ساری رات لکڑی کے ایک چھوٹے سے سٹول پر بیٹھ کر تمہاری سوجی ہوئی ٹانگوں اور پاؤں کو دباتا رہتا تھا اور وہاں میرے سونے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ لیکن جو ساری زندگی تم نے میری خدمت کی اُس کے بدلے یہ تو کچھ بھی نہیں۔ میں نے تمہیں ساری عمر نمازوں کی پابند ہی پایا اور ہسپتال میں بھی تم کوتا ہی نہیں ہونے دی۔ تم لیٹی لیٹی بھی نمازیں ادا کرتی اور اکثر مجھے کہتی کہ آپ سٹول پر بیٹھ کر باجماعت نماز پڑھائیں اور ہم پڑھتے رہے۔الحمدلله۔ اور پھر جو آخری الفاظ تمہارے منہ سے نکلے وہ کلمہ طیبہ کے بابرکت الفاظ ہی تھے۔ وفات کے بعد تمہارے چہرے پر بہت نور تھا۔ اللہ تعالیٰ تیری قبر کو بھی نور سے بھر دے۔ آمین پھر مجھے وہ دن بھی نہیں بھولے گا جو تمہارے دیدار کا آخری دن تھا۔ جلسہ سالانہ ۲۰۱۹ء کے دن تھے جو ہمارے پیارے آقا کے لیے بہت ہی مصروفیت لے کر آتے ہیں۔ مورخہ ۲؍اگست بروز جمعۃ المبارک جلسہ کا افتتاح ہونا تھا۔ جلسہ سے ایک دن پہلے جمعرات کو حضور نے کمال شفقت فرما کر خود مسجد مبارک میں جنازہ پڑھایا۔ چونکہ جلسہ میں شرکت کرنے کے لیے ساری دنیا سے مہمان آئے ہوئے تھے اس طرح سب مہمانوں نے بھی تمہارا جنازہ پڑھا اوریقیناً ڈھیر ساری دعائیں تمہارے نصیب میں آئی ہوں گی۔ ایسا بھی کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ الحمدلله اُسی دن بروک وڈ قبرستان میں تدفین ہوئی۔ مجھے تمہاری قبر پر باقاعدگی سے جا کر دعائیں کرنے کاموقع مل رہا ہے۔ وہ لمحے کتنے کربناک تھے جب میں نے تمہیں اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔ جب تمہارا تابوت قبر میں اُتارنے کے لیے اُٹھانے لگے تو اُس وقت بے اختیار میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے: لے ہُن شیلا حوالے رب دے، اے میلے چار دناں دے اس دن عید مبارک ہو سی، جس دن فیر ملاں گے مجھے خدا کے حضور پوری امید ہے کہ تم اس وقت جنت میں ہوگی۔ میری بھی خواہش ہے کہ میں اپنی باقی زندگی تقویٰ پر قائم رہ کر نیکیوں کے ساتھ گزاروں تا کہ جنت میں جہاں تم ہو وہاں پہنچ سکوں۔ میری یہ بھی خواہش ہے کہ میرا جنازہ بھی خلیفہ وقت پڑھائیں اور میری تدفین تیری قبر کے ساتھ والی جگہ پر ہو جو کہ اُسی وقت میں نے اپنے لیے ریزرو کروالی تھی اور جس کی قیمت بھی ادا کردی اور اس طرح میں اپنی پیاری پیاری بیگم سے جاملوں۔ اور وہ دن میرے لیے عید مبارک ہو سی کا وعدہ پورا کردے۔ خدا حافظ۔ میری پیاری شیلاجی فی امان الله ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مکرم زاہد افضال صاحب