جب انسان حد سے تجاوز کرکے اسباب ہی پر پورا بھروسہ کرلے اور سارا دارو مدار اسباب ہی پر جا ٹھہرے تو یہ وہ شرک ہے جو انسان کو اس کے اصل مقصد سے دور پھینک دیتا ہے مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں سبب نہ ہوتا تو مَیں بھوکا مر جاتا۔ یا اگر یہ جائیداد یا فلاں کام نہ ہوتا تو میرا براحال ہو جاتا، فلاں دوست نہ ہوتا تو تکلیف ہوتی۔ یہ امور اس قسم کے ہیں کہ خداتعالیٰ ان کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ جائیداد یا اَور اسباب واحباب پر اس قدر بھروسہ کیا جاوے کہ خداتعالیٰ سے بکلّی دور جا پڑے۔ یہ خطرناک شرک ہے جو قرآن شریف کی تعلیم کے صریح خلاف ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَفِی السَّمَآءِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ(الذّٰریٰت:۲۳) اور فرمایا وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (الطلاق: ۴) اور فرمایا مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق:۴-۳) اور فرمایا وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ (الاعراف:۱۹۷)۔ قرآن شریف اس قسم کی آیتوں سے بھرا پڑا ہے کہ وہ متقیوں کا متولّی اور متکفّل ہوتا ہے تو پھر جب انسان اسباب پر تکیہ اور توکّل کرتا ہے تو گویا خداتعالیٰ کی ان صفات کا انکار کرتا ہے اور ان اسباب کو ان صفات سے حصہ دیتا ہے اور ایک اَور خدا اپنے لیے ان اسباب کا تجویز کرتا ہے چونکہ وہ ایک پہلو کی طرف جھکتا ہے اس سے شرک کی طرف گویا قدم اٹھاتا ہے۔ جو لوگ حکاّم کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور ان سے انعام یا خطاب پاتے ہیں اُن کے دل میں اُن کی عظمت خدا کی سی عظمت داخل ہو جاتی ہے۔ وہ اُن کے پرستار ہو جاتے ہیں اور یہی ایک امر ہے جو توحید کا استیصال کرتا ہے اور انسان کو اُس کے اصلی مقصدسے اٹھا کر دُور پھینک دیتا ہے۔ پس انبیاء علیہم السلام یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب اور توحید میں تناقض نہ ہونے پاوے بلکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر رہے اور مآل کار توحید پر جا ٹھہرے۔ وہ انسان کو یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ ساری عزتیں، سارے آرام اور حاجات براری کا متکفّل خدا ہی ہے۔ پس اگر اس کے مقابل میں کسی اور کو بھی قائم کیا جاوے تو صاف ظاہر ہے کہ دو ضدّوں کے تقابل سے ایک ہلاک ہو جاتی ہے۔ اس لیے مقدم ہے کہ خداتعالیٰ کی توحید ہو۔ رعایت اسباب کی جاوے اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے۔ اسی توحید سے ایک محبت خداتعالیٰ سے پیدا ہوتی ہے جب کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ نفع و نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے۔محسن حقیقی وہی ہے۔ ذرّہ ذرّہ اسی سے ہے۔ کوئی دوسرا درمیان نہیں آ تا۔ جب انسان اس پاک حالت کو حاصل کرلے تو وہ مُوحّد کہلاتا ہے۔ غرض ایک حالت توحید کی یہ ہے کہ انسان پتھروں یا انسانوں یا اور کسی چیز کو خدا نہ بناوے بلکہ ان کو خدا بنانے سے بیزاری اور نفرت ظاہرکرے اور دوسری حالت یہ ہے کہ رعایت اسباب سے نہ گزرے۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۴۲۰، ۴۲۱، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: وہ سب کا محافظ ہے