الحمدللّٰہ ثم الحمدللّٰہ کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر جلسہ سالانہ کینیڈا کا بابرکت اجتماع دیکھنا نصیب فرمایا۔ یہ جلسہ ہمارا یہ دن برکتوں کے خدا کی عنایات اور شفقتوں کے ہر سال جب میں جلسہ میں شمولیت کرتی ہوں تو میں ایک ایسی کیفیت میں ڈوب جاتی ہوں کہ اس کا ایک ایک لمحہ مجھے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے پر مجبور کرتا ہے اور میرا دل اس کی حمد و ثنا سے بھر جاتا ہے۔ دل بار بار گداز ہو کر آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیںکہ خدایا دیکھ تیرے بندے تیرے نام کو زندہ کرنے کے لیے کتنی محنت کر رہے ہیں۔ تُو ان کی محنتیں قبول فرما اور ایک دنیا کو اس سچائی کی طرف لے کر آ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی اصلاح کی بھی توفیق دے۔اس وقت عالم اسلام پہ جو گمراہی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور دیگر قوموں کے اندر جو تجھ سے دوری آگئی ہے اس کو دُور فرما اور لوگوں کو اپنے اس حوض کوثر کی طرف جوق در جوق لے کر آ۔ہمارے دلوں کے اندر سے دنیا کے گند نکال کر ہمیں اپنی رضا کی پاک راہوں پہ چلا، ہمارے اندر قناعت پیدا فرما اور دنیا کا لالچ اور حرص ہمارے دلوں سے نکال دے۔آمین یا رب العالمین حسب معمول اور حسب روایت جلسہ کے منتظمین نے اس بار پھر جلسے کی روح اور مہمانوں کی سہولت کے پیش نظر بڑے خلوص سے بڑے بہترین انتظامات کیے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے خطابت سے لے کر نظافت اور ضیافت سب ہی لاجواب تھے۔ خطابت وہ کہ روح کو سرشار کر دے، نظافت وہ کہ دیکھ کر انسان کا جی خوش ہو جائے اور ضیافت وہ کہ جس میں ہر کسی کی ضرورت کے اعتبار سے سہولت کے ساتھ دنیا کے بہترین مینواور لنگر کے کھانے کا بندوبست تھا۔یعنی سرشاریِٔ روح کے ساتھ ساتھ لذت کام و دہن کا بھی بھرپور بندوبست تھا۔ لنگر کی صورت میں بھی اس پاک جماعت پر من وسلویٰ اترتا ہے۔ جس طرح ہم روحانیت کے لیے پیاسے وہاں جاتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ روح تک سیراب ہو گئی۔یہ جلسہ نہ صرف ہمیں روحانی مسرت پہنچاتا ہے بلکہ اس کے کئی پہلو ہیں جن سے ہمیں بہت خوشی ملتی ہے۔ اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہمیں سارا سال لنگر کی دال روٹی اور چاول اور آلو گوشت کا بھی انتظار ہوتا ہے۔ کھانوں کے یہ ذائقے جو صرف مسیح موعود کے لنگر کے مینو سے ہی مخصوص ہیں کبھی ہمیں مایوس نہیں کرتے اور یہ ذائقے ہمیں کسی فائیو سٹار ہوٹل میں بھی نہیں مل سکتے۔ خداجانے کہ کارکنان کس پیار اور خلوص سے یہ کھانے بناتے ہیں کہ مَیں جو مرچیں نہیں کھا سکتی مہدی کے لنگر سے ہر چیز کھا لیتی ہوں اور اللہ کے فضل سے ہضم بھی ہوجاتا ہے۔ اللہ کا بڑا احسان ہے کہ وہاں پر پرہیزی کھانا بھی تھا۔ لیکن میں نے نارمل والا ہی کھایا۔میں نے دیکھا بڑی بوڑھیاں نوجوان سب دال چاول یوں کھا رہی تھیں جیسے باہر ہم بروسٹ بھی نہیں کھاتے۔ جیسا کہ شروع میں ہی ہمیں سمجھا دیا گیا تھا کہ کھانا ضائع نہ کیا جائے تو میں نے دیکھا کہ اس پر خواتین نے عمل کیا۔ کم ازکم میں نے اپنے ارد گرد یہی دیکھا کہ خواتین اتنا ہی کھانا ڈالتی تھیں جتنا کہ وہ کھا سکتی تھیں۔ شاذ ہی کوئی ایسا برتن ہوتا تھا جس میں کھانا بچا ہوا ہو۔ زیادہ تر خواتین کی پلیٹیں بالکل صاف ہوتی تھیں اور تقریباً ہر خاتون اپنا خالی برتن جا کے خود ڈسٹ بن میں ڈال دیتی تھی۔ سینئرز کی طرف رضاکار بچیاں بڑی مستعدی سے میزوں کے اوپر نظر رکھے ہوئے تھیں۔ وہ اس بات کو یقینی بناتی تھیں کہ میزوں پر ہمہ وقت کھانا موجود ہو۔ اگر کوئی ڈش خالی ہو گئی ہو تو فوراً دوسری بھر کے لائی جاتی۔ اگر کوئی بزرگ خاتون آکر جگہ ڈھونڈ کر بیٹھنے کا انتظار کر رہی ہوتی تو ڈیوٹی پر موجود خواتین بڑی ذمہ داری سے اُن کے لیے فوراً جگہ کا بندوبست کردیتیں۔یا کوئی ایسی خاتون جوآنے والی سے کم عمر ہوتی تو وہ فورا ًاپنی جگہ خالی کر کے کھڑی ہو جاتی کہ آپ بیٹھ جائیں۔ پھر میں نے ضیافت ہال میں ایک نظارہ دیکھا جس کا میرے دل پر بہت اثر ہوا۔ کینیڈا کی سابق نیشنل صدر صاحبہ کے ساتھ دیگر کئی عہدے دار خواتین سب کی طرح سب کے درمیان بیٹھ کر کھانا کھا رہی تھیں۔ مجھے لگتا تھا کہ ان کو بھی جگہ ڈھونڈنے پر ہی ملی ہے۔ عہدوں اور رتبوں کی کوئی تفریق نہیں تھی۔ یہ خوبصورتی صرف جماعت احمدیہ میں ہی پائی جاتی ہے۔ اس بار سینئرز کے بیٹھنے کا انتظام پہلے سے بہت بہتر تھا اور سینئرز کی ضیافت ہال تک رسائی بھی کافی آسان تھی۔ضیافت ہال میں سب سے پہلا دروازہ سینئرز کے لیے تھا۔ واش رومز پر تعینات رضا کارخواتین کے لیے ایک کافی مشکل کام تھا کیونکہ قطاریں بہت لمبی تھیں اور ہر کوئی بہت جلدی میں تھی۔ خاص طور پر سینئرز کے واش روم میں ایک طرف ینگ لجنہ کی لائن تھی تو دوسری طرف سے سینئرز کی تھی۔ جو سینئرز بھی آتیں ان کو انتہائی جلدی ہوتی تھی۔ آفرین ہے وہاں پر تعینات رضاکار خواتین پر کہ وہ ان لائنز پر کیسے قابو کرتی تھیں کہ کسی کا حق بھی نہ مارا جائے اور کسی کو مشکل بھی پیش نہ آئے۔بعض اوقات تو کسی معمر خاتون کو دیکھ کر دوسری خواتین اپنی باری بخوشی چھوڑ دیتی تھیں کہ ان کو اندر بھیج دیں۔میرے خیال میں رضا کار خواتین میں سب سے مشکل ڈیوٹی ان ہی کی تھی۔ میں نے بیشتر خواتین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ سینئرز کے واش رومز میں صرف سینئرز ہی رکھیں کیونکہ صرف وہی ہیں جو نہ زیادہ دیر کھڑی ہو سکتی ہیں اور نہ ہی انتظار کر سکتی ہیں۔ اگر دوسری بھی آجائیں تو مسئلہ ہوتا ہے۔ بہرحال وہاں پہ سینئرز کی ارجنسی دیکھ کر بھی ترجیح دی جاتی تھی۔ یہ ایک بہت معقول بات تھی۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ یہاں پر احساس کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ بہرحال وہاں پر ایک سائیڈ کے کچھ واش رومز عام لجنہ کے لیے اور دوسری طرف کے چند واش رومز کیبنز سینئرز کے لیے مخصوص کیے گئے تھے۔ انٹرنیشنل سینٹرز میں واش رومز کی جو تعداد ہے وہ تو بڑھائی نہیں جا سکتی لیکن اگر اس میں تھوڑی سی تیزی پیدا کرنے کے لیے ان واش رومز میں جلسے کے تین دن کے لیے ہینڈ شاورز لگا دیے جائیں تو ایک تو وہ بچیاں جو بھاگ بھاگ کے پانی بھر بھر کے لا کر دیتی ہیں اور بعض اوقات اس میں تھوڑی دیر بھی لگ جاتی ہے کیونکہ پانی کی رفتار اتنی نہیں ہوتی کہ لوٹا جلدی بھر جائے۔ لیکن وہ ان تھک گی ہوئی ہیں۔ ہینڈ شاورز ہوں گے تو وقت کی بچت بھی ہوگی اور ان بچیوں کے لیے سہولت بھی رہے گی۔ ہینڈ شاورز بعد میں اتار کر اگلے سال کے لیے سنبھال کے رکھے جا سکتے ہیں۔ یہ محض ایک خیال ہے یہ ممکن بھی ہے کہ نہیں انتظامیہ ہی بہتر جانتی ہے۔ حسبِ سابق جلسے پر تینوں دن مینا بازار کا بھی انتظام تھا۔ جس میں کپڑے جوتے جیولری اور دیگر اشیائے صرف کے علاوہ کھانے پینے کے سٹال بھی تھے۔ قلفیاں تو جلسے پر ایک بہت ہی خوبصورت ایٹریکشن ہوتی ہیں۔ اس کے سٹالز پر سب سے زیادہ رش ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس بار کیونکہ گرمی تھی تو بازار میں ایک ٹھنڈی پھوار والی کینوپی لگائی گئی تھی جس کے نیچے گرمی سے بچنے کے لیے خواتین کھڑی ہو جاتی تھیں۔ بچوں والی ماؤں کے لیے یہ بہت ہی بہترین چیز تھی۔ خواتین کی سہولت کے لیے یہ احساس مجھے بہت ہی اچھا لگا۔فبای آلاءِ ربکما تکذبان ۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہر طرح کے لوگوں کے لیے ہر طرح کی سہولت تھی۔ سبحان اللہ اس بار اللہ تعالیٰ کے فضل سے خواتین کا نظم و ضبط نشست و برخاست پہلے سے بھی منظم تھا۔شاید کووِڈ نے ہماری اصلاح کر دی ہے اور ہمیں ان جلسوں کی قدر آگئی ہے۔ تقریروں کے درمیان خواتین کی خاموشی اور توجہ قابل تحسین تھی۔پہلے دن جب انگریزی کے خطابات ہوئے تو وہ خواتین جن کو لگتا نہیں تھا کہ انگلش آتی ہے وہ بھی اُسی انہماک سے خاموش بیٹھی تھیں جیسے سب سمجھ رہی ہوں اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ جلسے کی تقریروں اور جلسے کے ماحول اور فضا کی ایک احمدی خاتون کے دل میں کیا اہمیت ہے۔ جہاں تک تقاریر کے مواد کا تعلق ہے تو دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ حقائق پورے دلائل اور حوالوں کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی سن کر ان کی سچائی جاننا چاہے تو اس پر یہی حقیقت کھلے گی کہ اس سے زیادہ سچ کہیں ہو نہیں سکتا۔ جلسے کی تقریروں کے موضوعات عصری تقاضوں کے مطابق بہت ہی اہم تھے۔آج کل خانگی معاملات میں معاشروں کی راہنمائی بہت ضروری ہے۔ایک خاندان معاشرے کی اہم اکائی ہوتا ہے اگر یہ اکائی بگڑ جائے تو معاشرے بگڑ جاتے ہیں اور معاشرے بگڑ جائیں تو قومیں اور ملک بگڑ جاتے ہیں۔ یہ دنیا بگڑ جاتی ہے۔تو جماعت احمدیہ کی بہت کوشش ہے کہ خاندانوں کے اندر امن کی فضا قائم ہو تاکہ معاشروں میں امن بحال ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب انسان میں تقویٰ ہو ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے میرا یہ تجربہ ہے کہ جلسے میں تقریروں کے دوران جب قبولیت دعا کے روح پرور واقعات سنائے جاتے ہیں اس وقت اگر اللہ تعالیٰ سے صدق دل سے کوئی دعا کی جائے تو وہ قبول ہوتی ہے۔ میرا یقین ہے کہ وہ موقع قبولیت کا ہوتا ہے۔ جب سے مجھے اس کا اندازہ ہوا ہے میں جلسے کی منتظر رہتی ہوں کہ جلسہ آئے گا تو وہاں خاص طور پر دعا کروں گی۔ جماعت احمدیہ مسلمہ پر یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے کہ اس کی تحقیق مکمل اور پوری ہوتی ہے۔ جلسے کی یہ تقریریں اس قابل ہیں کہ ہم ان کو دوبارہ گھر میں بھی بیٹھ کر سنیں اور ان سے راہنمائی حاصل کریں۔اپنی زندگیوں کو اور اپنے گھروں کے ماحول کو اور معاشروں کو بہتر بنانے کے لیے اس میں بہت زیادہ گائیڈ لائنز ہیں۔ علاوہ ازیں جلسہ کی کارروائی کے وقفہ کے دوران ایسے پرانے جاننے والوں سے ملاقات ہوئی کہ جن کا ذہن میں امکان بھی نہیں تھا تو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ بات یاد آگئی کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ان جلسوں کی برکتوں میں سے ایک برکت یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے بچھڑے ہوئے دوستوں اور عزیزوں سے ملیں گے۔ورنہ وہ پرانے لوگ جن کو آپ بیسیوں سال پہلے کسی محلے میں رہتے ہوئے جانتے تھے اور جن کو دوبارہ دیکھنے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا جو صرف یادوں میں رہ گئے تھے۔ ان کو دیکھا تو پرانی یادیں تازہ ہونے سے بے حد خوشی ہوئی۔ یوں لگا ہم اسی زمانے میں پہنچ گئے ہیں۔یہ صرف کسی فرد واحد کا تجربہ نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کو یہ خوشی بھی جلسے میں ملتی ہے۔ یہ بھی جلسے کی برکتوں میں سے ایک برکت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بار اس جلسے میں ۴۷ممالک کے لوگ شامل ہوئے تھے۔ جلسہ کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلوں کو ایک عجب ہی خشیت اور رقت عطا ہوتی ہے جو صرف محسوس ہی کی جاسکتی ہے بیان نہیں کی جا سکتی۔ جلسہ کے آخری روز امیر صاحب نے اختتامی تقریر میں جماعت کی ترقی کے جو اعداد و شمار بتائے وہ دل اور روح کو گرما گئے۔امیر صاحب کی تقریر سے تھوڑا پہلے آواز بہت صاف آ رہی تھی لیکن تقریر ہونے سے کچھ پہلے یہ آواز کچھ دب گئی تھی جس کی وجہ سے سننے اور بات کو سمجھنے کے لیے ذرا زیادہ زور دینا پڑتا۔ میں نے ایک دو دفعہ وہاں پر ڈیوٹی پر موجود خاتون سے درخواست کی کہ میرا یہ پیغام متعلقہ خاتون تک دے دیں کہ آواز ٹھیک کروا دیں تاکہ ہم سہولت سے سن سکیں۔ وہ ایک دو بار گئیں لیکن اللہ جانے کس وجہ سے آواز ٹھیک نہیں ہوئی اور مجھے غور کر کر کے امیر صاحب کی تقریر کو سننا پڑا۔ لیکن شکر ہے کہ سنا جا رہا تھا۔ اگر آواز پہلے کی طرح صاف ہوتی تو سننے کا مزہ دوبالا ہو جاتا۔ ضمناً عرض کر رہی ہوں کہ آئندہ اس ضمن میں اگر بہتری ہو سکے۔ تو بہت اچھا ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم اللہ کے اس بابرکت نظام کی موجزن نہر سےجو ہر سال ہمیں پاک صاف کر کے نیک اور نیاانسان بننے میں مدد کرتی ہے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی توفیق پائیں۔ جلسہ کی یہ بابرکت تقریب ہماری دینی ہی نہیں بلکہ دنیاوی معاملات میں بھی راہنمائی کرتی ہے۔ حالات حاضرہ پر بھی روشنی ڈالتی ہے اور اس کے متعلق بہترین موقف سمجھنے کی توفیق دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے صدق دل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی کمیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں پر قابو پانے کی توفیق دے اور اللہ تعالیٰ کے جاری کردہ اس جلسے سے ہمیں بھرپور فائدے اٹھانے اور اپنے ارد گرد دوسرے لوگوں کو فائدے پہنچانے کے قابل بننے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین آخر میں میری ایک اور بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جلسہ میں ڈیوٹی دینے والے اور جلسہ کے کئی ماہ پہلے سے تیاری کرنے والے رضا کاروں کو اجر عظیم عطا فرمائے اور ان کو اپنی سچی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق دیتا رہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کوئی پانچ ہزار سے اوپر رضاکاروں نے جلسے کے انتظامات میں حصہ لیا۔اللہ تعالیٰ ان سب نیک لوگوں کو ہر سال پہلے سے بڑھ کر زیادہ بہتر اور اچھے انتظامات کرنے کی توفیق دیتا رہے۔ آمین (آنسہ طاہرہ مسعود،بریمپٹن، اونٹاریو کینیڈا) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: جماعت احمدیہ کی صحافت اور روایتی صحافت میں فرق