حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک رفیق حضرت صوفی منشی احمد جان صاحب کو حج بیت اللہ پر جاتے ہوئے اپنی طرف سے حسب ذیل دعا کرنے کی تحریک ایک مکتوب میں فرمائی: ’’اس عاجز ناکارہ کی ایک عاجزانہ التماس یا درکھیں کہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل اللہ تعالیٰ میسر ہو تو اس مقام محمود مبارک میں اس احقر عباداللہ کی طرف سے انہیں لفظوں سے مسکنت و غربت کے ہاتھ بحضور دل اُٹھا کر گزارش کریں کہ:۔ اے ارحم الراحمین ایک بندہ عاجز اور ناکارہ پر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے۔ اس کی یہ عرض ہے کہ ارحم الراحمین تو مجھ سے راضی ہو اور میری خطیات اور گنا ہوں کو بخش که تو غفور و رحیم ہے اور مجھ سے وہ کام کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے ۔ مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہر ایک قوت اور جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل متبعین (محبین) میں مجھے اُٹھا۔اے ارحم الراحمین! جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جواب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور اس عاجز کے تمام دوستوں اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کی نظر سے اپنے ظل حمایت میں رکھ کر دین و دنیا میں آپ ان کا متکفل اور متولی ہو جا اور سب کو اپنی دارالرضا میں پہنچا۔ اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام و برکات نازل کر ۔ آمین یا رب العٰلمین۔‘‘ یہ دعا ہے جس کے لئے آپ پر فرض ہے کہ ان ہی الفاظ سے بلا تبدل و تغیر بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میں اس عاجز کی طرف سے کریں۔ والسلام خاکسار غلام احمد ۱۳۰۳ھ (مکتوبات احمد یہ جلد پنجم صفحہ ۱۸-۱۷،مکتوبات امام ہمام قلمی جلد اول صفحہ ۱۸۹۲،۶۱ء) (خزینۃ الدعا، ادعیۃ المہدی صفحہ ۲۱۰-۲۱۱)