حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے کسی نے ایک دفعہ سوال کیا کہ سجدے میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا کیوں ناجائز ہے جبکہ سجدہ انتہائی تذلّل کا مقام ہے؟ (یعنی عاجزی کا مقام ہے۔ انتہائی تذلّل کا مقام ہے تو اس میں تو پڑھنی چاہئیں تا کہ قبول ہوں۔) تو آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میرا تو یہی عقیدہ رہا ہے کہ سجدے میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا جائز ہے۔ لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ایسا حوالہ ملا جس میں آپ نے سجدے کی حالت میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا ناجائز قرار دیا ہے۔ اسی طرح مسند احمد بن حنبل میں بھی اسی مضمون کی ایک حدیث مل گئی۔ آپ فرماتے ہیں لیکن اگر میرے عقیدے کے خلاف یہ امور نہ ملتے تب بھی یہ دلیل’’ (اس نے جو دلیل دے کے تذلّل کی حالت کا سوال پوچھا ہے) ‘‘مَیں معقول قرار نہ دیتا کہ سجدہ جب انتہائی تذلل کا مقام ہے تو قرآنی دعاؤں کا سجدے کی حالت میں پڑھنا جائز ہونا چاہئے۔ (یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر آپ کہتے ہیں۔ مزید وضاحت فرمائی ہے کہ یہ) امام مالک کا عقیدہ تھا کہ سمندر کی (پانی کی) ہر چیز حلال ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ سمندر میں سؤر بھی ہوتا ہے۔ کیا اس کا کھانا بھی جائز ہے۔ تو امام مالک نے فرمایا کہ سمندر کی ہر چیز کھانی جائز ہے مگر سؤر حرام ہے۔ اس نے بار بار یہی سوال کیا مگر آپ نے فرمایا اس سوال کا یہی جواب دے سکتا ہوں کہ سمندر کی ہر چیز حلال ہے مگر سؤر حرام ہے۔ حضرت خلیفہ ثانی فرماتے ہیں کہ یہی جواب مَیں دیتا ہوں کہ سجدہ بیشک تذلّل کا مقام ہے مگر قرآن کریم کی چیزیں، اس کی دعائیں سجدے کی حالت میں نہیں پڑھنی چاہئیں۔ دعا انسان کو نیچے کی طرف لے جاتی ہے اور قرآن انسان کو اوپر کی طرف لے جاتا ہے۔ اس لئے قرآنی دعاؤں کا سجدے کی حالت میں مانگنا ناجائز ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک بات مل گئی تو پھر اس کے خلاف طریق اختیار کرنا درست نہیں گو وہ ہماری عقل میں نہ ہی آئے۔ (الفضل 16 اپریل 1944ء صفحہ 1-2 جلد 32 نمبر 88)۔ ہم نے تو اس کے مطابق عمل کرنا ہے جو حکم ہے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍ جنوری ۲۰۱۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍ فروری ۲۰۱۷ء) مزید پڑھیں: حیا دار لباس اور پردہ ہمارے ایمان کو بچانے کے لئے ضروری ہے