’’رفع یدین کے متعلق فرمایاکہ اس میں چنداں حرج نہیں معلوم ہوتاخواہ کوئی کرے یا نہ کرے۔ احادیث میں بھی اس کا ذکر دونوں طرح پر ہے اور وہابیوں اور سنّیوں کے طریق عمل سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کیونکہ ایک تو رفع یدین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وقت رفع یدین کیا اور بعد ازاں ترک کر دیا۔‘‘ (ملفوظات جلد۴ صفحہ ۳۴۶، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) وتر کے متعلق ’’فرمایا کہ اکیلا ایک وتر کہیں سے ثابت نہیں ہوتا۔وتر ہمیشہ تین ہی پڑھنے چاہئیں۔خواہ تینوں اکٹھے ہی پڑھ لیں خواہ دورکعت پڑھ کرسلام پھیر لیں اور پھر ایک رکعت الگ پڑھی جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد۴ صفحہ ۳۴۶، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) ’’ایک شخص نے سوال کیا کہ التحیات کے وقت نماز میں انگشت سبابہ کیوں اُٹھاتے ہیں؟ فرمایا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں گالیوں کے واسطے یہ اُنگلی اُٹھایا کرتے تھے اس لیے اس کو سبابہ کہتے ہیں یعنی گالی دینے والی۔خدا تعالیٰ نے عرب کی اصلاح فرمائی اور وہ عادت ہٹاکرفرمایا کہ خدا کوواحد لا شریک کہتے وقت یہ اُنگلی اُٹھایا کرو تا کہ اس سے وہ الزام اُٹھ جاوے۔ایسے ہی عرب کے لوگ پانچ وقت شراب پیتے تھے۔اس کے عوض میں پانچ وقت نماز رکھی۔‘‘ (ملفوظات جلد۴ صفحہ ۲۸۳، ۲۸۴، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) ’’مولوی عبدالقادر صاحب لودہانوی نے سوال کیاکہ رکوع اور سجود میں قرآنی آیت یا دعا کا پڑھنا کیسا ہے؟ فرمایا۔ سجدہ اور رکوع فروتنی کا وقت ہے اور خدا کا کلام عظمت چاہتا ہے۔ ماسوائے اس کے حدیثوں سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رکوع یا سجود میں کوئی قرآنی دعا پڑھی ہو۔ ‘‘ (ملفوظات جلد۵ صفحہ ۴۸، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: بے پردگی، بکریوں کو شیروں کے آگے رکھنے کے مترادف ہے