https://youtu.be/IEPXJrfWQxU ’’ہر ملک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جو اسلام کے بارے میں جنگی جنونی ہونے کا ایک تصورہے اس کو دلائل کے ساتھ ردّ کرنا ہمارا فرض ہے۔ پہلے بھی مَیں نے کہا تھا کہ اخباروں میں بھی کثرت سے لکھیں۔ اخباروں کو، لکھنے والوں کو سیرت پر کتابیں بھی بھیجی جا سکتی ہیں۔ پھر یہ بھی ایک تجویز ہے آئندہ کے لئے، یہ بھی جماعت کو پلان (Plan) کرنا چاہئے کہ نوجوان جرنلزم (Journalism) میں زیادہ سے زیادہ جانے کی کوشش کریں جن کو اس طرف زیادہ دلچسپی ہو تاکہ اخباروں کے اندر بھی ان جگہوں پر بھی، ان لوگوں کے ساتھ بھی ہمارا نفوذ رہے۔‘‘(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) (یہ مقالہ مورخہ ۳۰؍جولائی ۲۰۲۵ء کو روزنامہ الفضل کی عالمی کانفرنس میں پڑھا گیا۔ جسے افادۂ عام کے لیے الفضل میں شائع کیا جا رہا ہے۔) اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ( التکویر:۱۱) جب صحیفے نشر کیے جائیں گے۔ مجھے آج جماعت احمدیہ کی صحافت اور روایتی صحافت میں فرق کو بیان کرنا ہے۔ صحافت عربی زبان کا لفظ ہے۔ جو صُحف سے ماخوذ ہے۔ لغت کے اعتبار سے اِس کے معنی کتاب، رسالہ یا صفحہ کے ہیں۔ یہ بہت مقدّس لفظ اور مقدس پیشہ ہے مگر مرورِ زمانہ سے صحافیوں کے غلط عمل، نامناسب رویّہ اور غلط سوچ کی وجہ سے ایک بے آبرو پیشہ بن کر رہ گیا ہے۔ مقدس پیشہ یوں ہے کہ صحف یا صحیفہ اُن مقدس کتب کو کہتے ہیں جو انبیاء پر نازل ہوئیں۔ اسی لیے قرآنِ کریم کو ’’صحیفہ آسمانی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے صحافی بن کر اس صحیفہ کو تیار فرمایا۔ اِسی لیے صحیفہ نگاری، صحافت کے لیے اور صحیفہ نگار، صحافی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صحافی جو صفحہ لکھتا ہے اُس صفحہ کو ورق کہتے ہیں۔ یعنی ایک طرف تحریر کیا ہوا۔ اردو لغات میں صفحہ کے معنی مُنہ یا چہرہ کے بھی لکھے ہیں اِسی لیے کہتے ہیں کہ صحافی جو لکھتا ہے وہ دراصل اُس کا اپنا چہرہ ہوتا ہے جس سے اُس کی اصلیت، اُس کے اندرونے، اُس کی سوچ اورخیالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اُسے پہچانا جا سکتا ہے۔ الغرض صحافت، اخبارنویسی، جرنل ازم اور مضمون نگاری کو کہتے ہیں۔ مَیں اوپر بتا آیا ہوں کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور سب سے بڑا صحافی خود اللہ تعالیٰ ہے جس نے صحیفے تیار کرکے اُتارے۔ اللہ تعالیٰ کے بعد یہ مقدس کام انبیاء نے اپنی اپنی حیثیت اور استعدادوں کے مطابق ادا کیا اور اپنے پیچھے فرمودات، ارشادات اور تحریرات کی صورت میں بہت بڑے ذخیرے چھوڑے۔ جیسے احادیث اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کی طرف سے ۱۰۰ کے قریب کتب ملفوظات، مکتوبات اور اشتہارات۔ آج سے ۲۰۰ سال قبل ۲۲؍مارچ ۱۸۲۲ء کو جب اردو صحافت کا ہندوستان میں آغاز ہوا اور کلکتہ سے ’’جامِ جہاں نماں‘‘ کے نام سے ایک اخبار جاری ہوا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ مسلمان اخبار تھا۔ مگر اِس کامالک غیر مسلم ’’ہری ہروت‘‘ تھا اور اُس نے اِس اخبار کا ایڈیٹر بھی ایک غیر مسلم ہندو ’’سدا سکھ لعل ‘‘ کو مقرر کیا مگر کیا مجال تھی کسی کی کہ کوئی اِس اخبار میں مسلمانوں کے خلاف لکھتا یا ہندوؤں اور سکھوں کے خلاف لکھا جاتا۔ مذاہب میں ہم آہنگی، یگانگت اور مساوات تھی۔ فرقہ واریت کا شائبہ تک نہ تھا۔ ایک ہی تھالی میں کھاتے اور ایک ہی پیالے سے پانی پیتے تھے۔ یہی وہ صحافت تھی جس کو مذہبی کتب کی تعلیمات کے عین مطابق کہاجاسکتا ہے۔ مگر آج پناہ ربّ کی کہ اِس جیسا صحافی آپ کو جماعت احمدیہ سے باہر شاید ہی کسی جگہ مل سکے۔ پاکستان جیسے دیگر تیسری دنیا کے ممالک کی بات کریں تو وہاں گنگا ہی الٹی بہ رہی ہے۔ ہر تحریر، ہرفقرہ بلکہ لفظ لفظ میں نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ صرف مذہبی یا فرقوں کی سطح پر ہی نہیں بلکہ سیاسی رنگ میں بھی صحافت بہت گندی ہوچکی ہے۔ جماعت احمدیہ کے بارے میں اچھی خبر اخبار کی زینت بنانا تو درکنار، احمدیت کے بارے میں مخالفت کی خبر دینے میں بھی دشمنی، عداوت اور عناد آڑے آتا ہے اورحقیقت سے دُور کوئی خبر بنا کر پیش کی جاتی ہے جس سے وہ احمدیت کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالتے نظر آئیں گے۔ اب تو وی لاگرز بھی جو سچی خبریں اور تجزیے کرنے کے دعویدار ہیں وہ باتوں باتوں میں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں بات کرجاتے ہیں۔ اِس کے مقابل پر اگر مہذّب دنیا کودیکھیں، مغربی دنیا جو Civilized world کہلاتی ہے وہاں بھی اسلام کے خلاف یا اسلامی ممالک اور مسلمان سربراہوں کے خلاف نفرت سے بھرے مضامین، آرٹیکلز اور اداریے روز ہی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی پاکیزہ شخصیت اور قرآن جیسے پاکیزہ کلام کے خلاف آئے روز سننے اور پڑھنے کو ملتا رہتا ہے۔ صحافت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ صحافت کا اوّلین فریضہ خدمتِ انسانیت ہے۔ صحافت انسانی اقدار کے تحفّظ کی ضامن ہے۔ صحافت قوموں کی زندگی کی علامت ہے کیونکہ اِس کے بغیر قوم کے افراد میں زندگی کی روح نہیں پھونکی جاسکتی۔ آج جو قومیں زوال کا شکار ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ صحافت یعنی پیغام پہنچانے میں بددیانتی، جھوٹ، تعصّب شامل ہے۔ اب تو پرنٹ میڈیا کے علاوہ بہت سے دیگر میڈیاز نے جگہ لے لی ہے جیسے سوشل میڈیا۔ یہ اتناتیز میڈیا ہے کہ بجلی کی رفتار کی طرح ہر خبر کو دوسری جگہ پہنچا دیتا ہے اور اِس میں خبر کی تحقیق بھی نہیں ہوئی ہوتی اور اسلامی تعلیم کے منافی اِس خبر کو بغیر تحقیق اور سوچ کے آگے send کردیتے ہیں اور لکھا ہوتا ہے Forward as received۔ جس سے معاشرہ اور انسانیت داغدار ہوگئی ہے۔ انسان دو محبتیں لیے ہوئے پیدا ہوا ہے۔ ایک محبتِ الٰہی اور دوسری محبتِ مخلوق۔ آج کی بے لگام صحافت سے دونوں محبتیں مجروح ہوئی ہیں۔ انسانیت کے ساتھ محبت تو تار تار ہو ہی رہی ہے۔ اللہ سے محبت بھی مجروح یوں ہوتی ہے کہ جوشخص حقیقت سے دُور بناوٹی باتیں بنا کر معاشرہ کے امن کو بے امنی میں بدلے گا وہ خداوند کریم کا پسندیدہ کیسے ہوسکتا ہے۔ یہ دور چونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے اس لیے اب کوئی بھی شخص جو کچھ گلی محلے میں ہوتا دیکھتا ہے، اس کی تصویر لے کر یا اس کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر چڑھا دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ ہر کسی نے خود کو صحافی اور اس عمل کو اپنا صحافتی فرض سمجھ لیا ہے اور اس طرح بغیر کسی صحافتی تعلیم کے ہر آدمی سوشل میڈیا کے سہارے صحافی بن گیا اور فون کا ایک بٹن دبانے کے ساتھ دنیا کو اچھا برا سب پہنچنے لگا۔ پاکیزہ صحافت کے حوالے سے انبیائے کرام میں سے سب سے بڑھ کر عظیم صحافی تو سیدنا حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپؐ پر جو صحیفہ اُترا وہ صداقت کا خزانہ تھا اور آپؐ نے جو خزائن کے موتی بہائے وہ جوامع الکلم بھی سچائی کے علمبردار تھے۔ جیسے فرمایا لَیۡسَ الۡخَبَرُ کَالۡمُعَایَنَۃِ کہ سنی سنائی بات خود دیکھنے کی طرح نہیںہوتی۔ اگراس مختصر جوامع الکلم کو اسلام کی صحافت کا بنیادی پتھر قرار دیں تو غلط نہ ہوگا۔ اِس مضمون کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور فرمان الشَّاہِدُ یَرٰی مَالَا یَرَاہُ الۡغَائِبُ کے الفاظ میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ حاضر وہ دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے سچ کا سہارا لینے کی درخواست کی جاتی ہے۔ پھر فرمایا اَلۡبَلَاءُ مَؤَکَّلٌ بِالْمَنْطِقِ کہ مصیبت بات پر موقوف ہوتی ہے اوریہ بات تحریر کے ذریعہ بھی ثابت ہے بلکہ تحریر زیادہ فتنہ پیدا کرتی ہے کیونکہ مُنہ سے کی گئی فتنہ کی بات جلد ہوا میں مل کر غائب ہوجاتی ہے۔ جبکہ لکھی ہوئی بات کی سیاہی مدھم نہیں ہوتی بلکہ تازہ رہتی اور دلوں میں لگی آگ کو سلگاتی رہتی ہے۔ پھر جن جوامع الکلم کو اسلامی صحافت کا حصّہ بنایا جاسکتا ہے وہ مَجَالِسُ الذِّکۡرِ رَیَاضُ الۡجَنَّۃ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ ذکر کی مجالس جنت کے باغ ہیں۔ ذکر کی مجالس صرف تقریری اور درسی ہی نہیں تحریری بھی ہوسکتی ہیں۔ اِس لیے اگر صحافی اپنی تحریر کو اسلام کی تعلیم کے عین مطابق بنائے گا تو اُس سے ذکر الٰہی، الحمدللہ، سبحان اللہ اور اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوں گی تو وہ ریاض الجنۃ بن جائیں گی۔ اسلام چونکہ عالمگیر مذہب ہے، اس کی تعلیمات عالمی ہیں۔ اِس کا رسولؐ عالمی ہے اس لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے مقامات پر صحافت میں راہنمائی فرمائی۔ کچھ کا ذکر مَیں اوپر کر آیا ہوں۔ دو تین کا اور کر کے مَیں اپنی تقریر کے آخری حصہ میں داخل ہونا چاہوں گا۔ جیسے فرمایا: فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدۡعَۃٌ وَکُلَّ بِدۡعَۃٍ ضَلَالَۃٌ کہ ہر نئی بات بدعت ہوسکتی ہے۔ اس لیے تحریر بنانے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اَلۡمَجَالِسُ بِالۡاَمَانَۃِ میں بھی صحافت کا عظیم گُر بیان ہوا ہے کہ جو پڑھو یا سنو اور وہ اسلام احمدیت کی تعلیمات کے عین مطابق ہو تو اُسے امانت سمجھ کر آگے پہنچاؤ۔ اِس مضمون کو حضورؐ نے أَلَا لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ میں بھی بیان فرمایا ہے کہ ہر حاضر غائب تک بات دیانتداری سے پہنچائے۔ پھر فرمایا مَنۡ تَشَبَّہَ بِقَوۡمٍ فَھُوَمِنۡھُمۡ کہ صحافت میں اسلامی طور و طریق اور اطوار کو چھوڑ کر غیروں کے اصول اپنانا اُن غیرقوموں میں شامل ہونے کے مترادف ہے اور سب سے بڑھ کر الدَّالُ علی الۡخَیۡرِ کَفَاعِلِہٖ کو ہمیں سامنے رکھنا چاہیے۔ خیرو برکت اوراچھائی کی باتوں کی تشہیر کرکے عمل کے برابر ثواب حاصل کریں۔ اِس زمانہ میں اسلامی اصولوں کوسامنے رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اِس زمانہ میں خداتعالیٰ نے چاہا کہ سیف یعنی تلوار کا کام قلم سے لیا جائے اور تحریر سے مقابلہ کر کے مخالفوں کو پست کیاجائے۔ اس وقت جو ضرورت ہے و ہ یقیناً سمجھ لو سیف کی نہیں قلم کی ہے۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ۵۹۔ ایڈیشن۱۹۸۴ء) احمدیت میں اردو صحافت کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کے زمانہ میں ہو گیا تھا بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ آپؑ کے وجود پاک سے آغاز ہوا۔ آپؑ کے دو مخلص صحابی حضرت یعقوب علی عرفانیؓ اور حضرت مفتی محمد صادقؓ دو اخباروں الحکم اور البدر کے ایڈیٹر رہے اور صحافت میں نمایاں اور قابل قدر خدمات بجا لائے۔ آپ دونوں نے حضورؑ کی مجالس عرفان کو باقاعدگی سے نوٹ کر کے اخبارات میں شائع کروایا۔ آپ دونوں میں ایک صحافی کی مکمل صفات موجود تھیں۔ آپ دونوں نے یہ صحافت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سیکھی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ احمدیہ صحافت کی روح و رواں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ تحریرات ہیں جن کے متعلق آپؑ کا فرمان ہے کہ ان کا ایک ایک حرف، ایک ایک لفظ اور ایک ایک نقطہ خدا کی تائیدو نصرت سے لکھا گیا۔ آپؑ فرماتے ہیں: میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے۔ آپؑ کے ۲۸ سال کے عرصہ میں ۹۰ کے قریب کتب، ۱۰ ملفوظات، ۳ مکتوبات، ۳ اشتہارات علم و معرفت کے خزانہ کے طور پر موجود ہیں۔ جسے صحافتی دنیا میں ۱۸ ہزار ۵ سو ۷۱ صفحات پر جمع کیا گیا ہے اور کم و بیش ۷۸ لاکھ الفاظ کا ذخیرہ ہے۔ یہ وہ چہرہ ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پہچان ہے۔ آپؑ کی وفات پر مرزا حیرت دہلوی نے لکھا کہ ’’اِس کے قلم میں اِس قدر قوّت تھی آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوّت کا لکھنے والا کوئی نہیں۔‘‘(کرزن گزٹ دہلی یکم جون ۱۹۰۸ء) جماعت احمدیہ کی صحافت اور روایتی صحافت میں فرق کا کچھ حصہ تقابلی جائزہ کے طور پر اوپر بیان ہو گیا ہے۔ اب مَیں اختصار سے نمبر وار بیان کردیتا ہوں۔ ۱۔ جھوٹ سے پاک صحافت اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اِیَّاکَ وَالْکِذْب کو بنیاد بنا کر صحافت کرتے وقت جھوٹ سے اجتناب اور صداقت کو اپنانا احمدی صحافت کی شان رہی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ ۲۔ ملمع سازی سے پاک صحافت۔ غیر، سرخیاں لگاتے یا خبر کو جاذبِ نظر بنانے کے لیے یا ریٹنگ کے لیے مرچ مصالحہ لگاتے ہیں جبکہ ہماری صحافت بہت ہی سادہ اور جعل سازی سے پاک ہوتی ہے۔ حتّٰی کہ اگر کسی اجلاس میں شاملین کی تعداد ۹۹؍تھی تو اُسے تقریباً۱۰۰؍نہیں لکھا جاتا۔ ۹۹؍ہی لکھا جاتا ہے۔ ۳۔ تعصّب سے پاک صحافت۔ ہماری صحافت تعصّب، دشمنی سے پاک ہوتی ہے۔ ہم کسی مخالف کی دشمنی اور مخالفت میں نہ تو اپنی تحریر میں تعصّب برتتے ہیں اور نہ دل شکنی کا باعث ہوتے ہیں۔ حتّٰی کہ جماعت کے اندر کسی اخبار، کسی رسالہ اور کسی میگزین میں مضامین کے چناؤ اور انتخاب میں بھی کسی لکھاری کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوتا کہ اُسے غیریت کا احساس ہو۔ اور آخری بات ۴۔ تحقیق کے ساتھ اور مبالغہ سے پاک رپورٹنگ ہو جو مستقبل میں تاریخ احمدیت کے ماتھے کا جُھومر بنے۔ آج کل کے دور میں مغربی ممالک کی صحافت مسلمانوں کے خلاف آرٹیکلز لکھ کر، مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے کارٹون بناکر اپنی اشاعت کو بڑھانے کا ایک طریقہ سمجھتی ہے۔ مغربی دنیا اور مختلف مذاہب کے لوگ بھی اسلام اور بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کر رہے ہیں۔ اس وقت اکثر لوگوں کی اپنے مذہب سے دلچسپی تقریباً مفقود ہے اور ان کی اکثریت لہوو لعب میں اس قدرڈوب چکی ہے کہ ان کا مذہب چاہے اسلام ہو، عیسائیت ہویا اپنا کوئی اور مذہب اس سے بالکل لاتعلق ہو چکے ہیں۔ مذہب کے تقدس کا احساس ختم ہو چکا ہے۔ لیکن جب میڈیا یا اخبارات اسلام کی تعلیم یا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے کرتے ہیں تو یہی لوگ بڑھ چڑھ کر ان اخبارات کی تعریف کرتے ہیں۔ ایسی کالی صحافت کی مثال خلافت ثانیہ میں ایک انتہائی بے ہودہ ’’رنگیلا رسول‘‘ کے نام سے لکھی گئی کتاب ہے۔ خلافت رابعہ کے دَور میں رُشدی نے بڑی توہین آمیز کتاب لکھی تھی۔ اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبات بھی دیے تھے اور ایک کتاب بھی لکھوائی تھی۔ جب ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۶ء میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ڈنمارک میں کارٹون شائع ہوئے،آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں ایک مضمون بھی شائع ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اس وقت بھی مَیں نے جماعت کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی توجہ دلائی تھی کہ مضامین لکھیں خطوط لکھیں، رابطے وسیع کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی خوبیاں اور ان کے محاسن بیان کریں۔ تویہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حسین پہلوؤں کو دنیا کو دکھانے کا سوال ہےیہ توڑ پھوڑ سے تو نہیں حاصل ہو سکتا۔ اس لیے اگر ہر طبقے کے احمدی ہر ملک میں دوسرے پڑھے لکھے اور سمجھدار مسلمانوں کو بھی شامل کریں کہ تم بھی اس طرح پُرامن طور پر یہ ردّ عمل ظاہر کرو اپنے رابطے بڑھاؤ اور لکھو تو ہر ملک میں ہر طبقے میں اتمام حجت ہو جائے گی اور پھر جو کرے گا اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے…دوسرے مسلمانوں کو تو یہ جوش ہے کہ ہڑتالیں کر رہے ہیں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں کیونکہ ان کا ردّعمل یہی ہے کہ توڑ پھوڑ ہو اور ہڑتالیں ہوں اور جماعت احمدیہ کا اس واقعہ کے بعد جو فوری ردّ عمل ظاہر ہونا چاہئے تھا وہ ہوا۔ احمدی کا ردّعمل یہ تھا کہ انہوں نے فوری طور پر ان اخباروں سے رابطہ پیدا کیا اور پھر یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے کہ ۲۰۰۶ء کی فروری میں ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔ یہ واقعہ توگزشتہ سال کا ہے۔ ستمبر میں یہ حرکت ہوئی تھی تو اُس وقت ہم نے کیاکیا تھا۔ یہ جیسا کہ مَیں نے کہا ستمبر کی حرکت ہے یا اکتوبر کے شروع کی کہہ لیں۔ تو ہمارے مبلغ نے اس وقت فوری طور پر ایک تفصیلی مضمون تیار کیا اور جس اخبار میں کارٹون شائع ہوا تھاان کو یہ بھجوایا اور تصاویر کی اشاعت پر احتجاج کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے بارے میں بتایا کہ یہ ہمارا احتجاج اس طرح ہے ہم جلوس تو نہیں نکالیں گے لیکن قلم کا جہاد ہے جو ہم تمہارے ساتھ کریں گے اور تصویر کی اشاعت پر اظہار افسوس کرتے ہیں۔ اس کو بتایا کہ ضمیر کی آزاد ی تو ہو گی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ دوسروں کی دلآزاری کی جائے… تو جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ ہر ملک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جو اسلام کے بارے میں جنگی جنونی ہونے کا ایک تصورہے اس کو دلائل کے ساتھ ردّ کرنا ہمارا فرض ہے۔ پہلے بھی مَیں نے کہا تھا کہ اخباروں میں بھی کثرت سے لکھیں۔ اخباروں کو، لکھنے والوں کو سیرت پر کتابیں بھی بھیجی جا سکتی ہیں۔ پھر یہ بھی ایک تجویز ہے آئندہ کے لئے، یہ بھی جماعت کو پلان (Plan) کرنا چاہئے کہ نوجوان جرنلزم (Journalism) میں زیادہ سے زیادہ جانے کی کوشش کریں جن کو اس طرف زیادہ دلچسپی ہو تاکہ اخباروں کے اندر بھی ان جگہوں پر بھی، ان لوگوں کے ساتھ بھی ہمارا نفوذ رہے۔ کیونکہ یہ حرکتیں وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں۔ اگر میڈیا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وسیع تعلق قائم ہو گا تو ان چیزوں کو روکا جا سکتا ہے، ان بیہودہ حرکات کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر پھر بھی اس کے بعد کوئی ڈھٹائی دکھاتا ہے تو پھر ایسے لوگ اس زمرے میں آتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰ فروری ۲۰۰۶ء ) مزید پڑھیں: دو دلچسپ واقعات